سید خرم رضا
ملاحظہ فرمائیں 15اگست 2017 کو شائع کلدیپ نیر کا انٹرویو
کلدیپ نیر کسی تعارف کے محتاج نہیں انہوں نے آنکھیں غلام ہندوستان میں کھولیں لیکن آزاد ملک میں پوری آزادی کے ساتھ زندگی گزاری۔ انہوں نے تقسیم کے درد کو نہ صرف جیا بلکہ اس سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ بھی کیا۔ انہوں نے جوانی میں لاشوں کے ڈھیر دیکھے، جیل میں راتیں گزاریں اور اقتدار کے گلیاروں میں اہم کردار ادا کیا لیکن کبھی قدروں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ کلدیپ نیر وہ شخص ہیں جنہوں نے کبھی اپنے خیالات کے اظہار میں مصلحت سے کام نہیں لیا۔ ذاتی زندگی ہو یا سماجی زندگی اس میں کبھی کسی نے تضاد نہیں پایا۔ چند روز قبل قومی آواز کے مدیر اعلی ظفر آغا کی سرپرستی میں ان سے ملاقات ہوئی اور ملاقات کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے ’ایک دور‘ سے ملاقات کی ہو۔ اس ملاقات کے دوران ہم نے ان سے ان کی ذاتی زندگی، بٹوارےکے درد ، جناح کے خیالات اور آج کے ہندوستان پر تفصیل سے گفتگو کی۔ اس ملاقات میں آج کے ہندوستان پر ان کے درد کو محسوس کیا۔ پیش ہیں اس گفتگو کے چند اقتباسات۔
قومی آواز: کلدیپ جی آپ ہندوستان کے ان چند لوگوں میں سےہیں جنہوں نے ملک کی آزادی اور تقسیم دونوں کو دیکھا ہے،اس وقت آپ کی کیا عمر رہی ہوگی اور ملک کے حالات کیسے تھے؟
کلدیپ نیر : ملک کی آزادی اور تقسیم کے وقت میں سیالکوٹ شہر میں تھا جو آج پاکستا ن کا حصہ ہے۔ اس وقت یہ تو سبھی کو پتہ تھا کہ پاکستان بنے گا لیکن سر حد متعین نہیں ہوئی تھی اس لئے کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ آگے کیا ہوگا کون سا حصہ پاکستان کے حصےمیں آئےگا اور کون سا ہندوستان کے حصےمیں۔ ہم جموں سے محض 14کلو میٹر دور تھے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ ہمیں جموں سے ملا دیا جائے گا۔
جب ریڈ کلف کا اوارڈ آیا تو بھی ہم پاکستان میں ہی تھے۔ بعد میں جب لندن میں میری ریڈکلف سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا آپ نے لائن کیسے کھینچی۔ انہوں نے کہا میرے پاس کوئی نقشہ ہی نہیں تھا، ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ تم گھوم کر دیکھ لو۔ راوی چناب الگ نظر آئے تو میں نے وہیں سے لائن کھینچ دی۔ جب ریڈ کلف تقسیم کی لائن کو طے کر رہے تھے تو کسی نے کہا کہ جناب آپ نےجو لکیر کھینچی ہے اس میں تو پاکستان کے پاس شہر ہی کوئی نہیں۔ ریڈکلف نے کہا، اچھا ایسا ہے ، توچلو لاہور کو پاکستا ن کو دےدیتے ہیں۔
قومی آواز: یعنی انگریزوں نے تقسیم کو محض ایک مذاق کی شکل میں لیا اور ان کایہ مذاق ہمارے لئےبہت تکلیف دہ ثابت ہوا۔اس پر آپ کی کیا رائے؟
کلدیپ نیر: بالکل، اور ہم بھی پاگل تھے جو ایسے ہی لڑتے رہے کہ یہ حصہ ادھر وہ حصہ ادھر ہے ۔ لڑنا تو اس بات کے لئے چاہئے تھا کہ یہ تقسیم نہیں ہوگی۔ کہنے کو تو مسلمان محض 12یا 15 فیصد رہے ہوں گے لیکن وہ سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے پھر یہ کام کس طرح ہو پاتا۔
قومی آواز: تو سیالکوٹ میں آپ تب تک رہے جب تک یہ ریڈ کلف اوارڈ آیا۔
کلدیپ نیر: میں نے اسی سال سیالکوٹ میں اپنی لا کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ اس وقت میرے والد کا شمار شہر کے بڑے ڈاکٹروں میں ہوتا تھا۔ لا پاس کرتے ہی میں نے سوچا کہ اب پریکٹس کروں گا لیکن ابھی گھر کے باہر تختی لگی بھی نہیں تھی کہ ملک تقسیم ہو گیا۔ سیالکوٹ کی خاص بات یہ تھی کہ جب ملک کے دوسرے حصوں میں فسادات ہو رہے تھے تو سیالکوٹ میں کوئی فساد نہیں ہوا۔ جب ہم سیالکوٹ سے چلے تو ابھی ریڈ کلف اوار ڈ کی لکیر کھینچی نہیں گئی تھی۔ میرا اور میرے خاندان کا خیال تھا کہ ابھی کچھ دن بعد جب ماحول ٹھیک ہو جائے گا تو ہم پھر واپس آ جائیں گے۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ہم کبھی واپس نہیں آ پائیں گے۔
قومی آواز: تو کیا ا ٓپ جب سیالکوٹ سے رخصت ہوئے تھے تو اپناساز و سامان گھر چھوڑ کر آئے تھے؟
کلدیپ نیر: میں جب سیالکوٹ سے ہندوستان کے لئے چلنے والا تھا، روانہ ہونے سے پہلے ہم سبھی بھائیوں کو والد صاحب نے بلا کر پوچھاکہ تمہارا کیاارادہ ہے۔ میرے بھائی نے کہا کہ میں تو امرتسر میں رہوں گا، میں نے کہا کہ میں تو یہیں رہوں گا۔ میرے بھائی نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہےوہ تمہیں یہاں رہنے نہیں دیں گے اور گھر سے نکال دیں گے۔ میں اس وقت یہ سوچتا تھا کہ ہمیں یہاں سے کوئی کیوں نکالے گا، جس طرح مسلمان پاکستان میں رہیں گے اسی طرح ہم بھی یہاں رہ لیں گے۔ میرا بھائی کہتا تھا کہ اس نے امرتسر میں بڑا خوفناک منظر دیکھا ہےاسی لئے ہمیں یہاں کوئی نہیں رہنے دے گا۔
جب میں سیالکوٹ سے ہندوستان کے لئے روانہ ہونے لگا تو میری ماں نے کہا کہ بیٹا مجھےایسا لگ رہا کہ شاید اب تم واپس نہیں آ پاؤگے، جب کہ میرے ذہن میں تھا کہ میں ابھی چلا جاؤ ں اور حالات ٹھیک ہونے پر واپس آ جاؤ ں گا۔ سیالکوٹ مین روڈ سے تھوڑا سا ہٹ کر ہے، جیسے ہی ہم مین روڈ پر آئے تو ہم نے دیکھا کہ وہاں ہزاروں لوگوں کی بھیڑ ہے اور اس کو دیکھ کر تو ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ کوئی کارواں پاکستان آ رہا ہے کوئی ہندوستان جا رہا ہے ، وہ نظارہ دیکھتے ہی سمجھ میں آ گیا کہ اب واپس لوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اور میں اکیلے ہی دہلی آ گیا اور یہاں اسٹیٹس مین اخبار میں ملازمت کی۔
قومی آواز: راستے میں حالات کیسے تھے؟
کلدیپ نیر: راستے میں سیالکوٹ سے لے کر سمبڑیال تک کچھ نہیں تھا۔ لیکن جیسے ہی ہم ادھر پہنچے تو دیکھا کہ لاشیں پڑی ہوئی ہیں، سامان بکھرا ہوا ہے، جس سے ظاہر تھا کہ فساد ہو چکا تھا۔ ہم چونکہ آزادی کے وقت تو وہیں رہے ، اس وقت ہم ریڈیو پر پنڈت نہرو وغیرہ کی تقاریر سنا کرتے تھے اور ہمیں کبھی اندازہ بھی نہیں ہوا کہ اتنا بڑا فساد ہو سکتا ہے۔ ویسےکالج کے وقت ہی ہمیں احساس تو ہو گیا تھا کہ اب ہم تقسیم ہو جائیں گے ۔ میرے تو سارے دوست ہی مسلمان تھے میرا ایک بھی دوست ہندو نہیں تھا۔لیکن ہمیں اس وقت بتایا جاتا تھا کہ بارڈر بہت آسان رہے گا اور لوگ اپنی مرضی سے آیا جایا کریں گے، لیکن ویسا ہوا کبھی نہیں ۔
دہلی پہنچ کر میں اپنی خالہ کے گھر رہا جو جامع مسجد کے قریب رہتی تھیں ۔ میں اکثر جامع مسجد میں جایا کرتا تھا اور وہاں کے مسیتا کے کباب مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ وہاں پر ایک آدمی مجھے روز دیکھتا تھا، ایک دن اس نے مجھے سے پوچھ کہ تم کچھ کام وام نہیں کرتے، کتنا پڑھے ہو؟ میں نے کہا بی اے آنرس، ایل ایل بی۔ وہ بولا چلو میں تمہیں کام دلواتا ہوں ۔ میں نے کہا میں کلرک نہیں بنوں گا ، اس نے کہا تو کیا افسر بنو گے؟ میں نے کہا وہ تو میں نہیں کہتا لیکن کلرک نہیں بنوں گا ۔ اس کے پوچھنے پر کہ کیا میں اردو جانتا ہوں تو میں نے بتایا کہ میں اردو اور فارسی دونوں ہی بہت اچھی جانتا ہوں۔ پھر وہ بولا کہ ایک ’انجام ‘ نام کا اخبار ہے اور ان کو ایک ایسے ہندو کی تلاش ہے جو اردو جانتا ہو۔ اس نے مجھے اخبار کے مالک یاسین سے ملوایا اور مجھے ملازمت مل گئی۔ یہ تھی میری پہلی ملازمت جس میں میری تنخواہ 100روپے ماہانہ تھی ، جب میں نے پہلی تنخواہ اپنی ماں کو دی تو وہ بولیں کہ یہ زیادہ تو نہیں ہیں لیکن جلد ہی تم ترقی کرو گے میں پیشین گوئی کرتی ہوں۔اس وقت کے مشہور اردوشاعر مولانا حسرت موہانی بھی وہیں رہتے تھے ، انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اردو کا مستقبل ہندوستان میں تو اب نظر نہیں آتا اس لئے تم انگریزی کی طرف چلے جاؤ۔ ان دنوں بیرون ملک جانا بہت آسان تھا تو میں امریکہ چلا گیااور وہاں جرنلزم کا کورس کیا۔ جب دہلی واپس آیا تو یہاں یو پی ایس سی کے امتحان چل رہے تھے ۔میں نے انفارمیشن آفیسر کا امتحان دیا اور کامیاب ہو گیا ۔
قومی آواز : آپ نے بٹوارا دیکھا ہے اور اس کی نفرت کو بھی محسوس کیا، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس نفرت کو آج دوبارہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ آپ کا اس تعلق سے کیا خیال ہے؟
کلدیپ نیر: کبھی مجھے لگتا ہے کہ جیسے حالات سنہ45 کے تھے اور مسلمانوں کے ذہنوں میں ز ہر بھرا ہوا تھا ویسے ہی نفرت کے حالات آج بھی ہیں ۔جناح کا کہنا تھا کہ ہندو اورمسلمان دو الگ ملک میں ہی رہ سکتے ہیں اور جناح کی یہ بات مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آئی ۔ ہم کالج کے وقت ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے اور کبھی یہ بات ذہن میں آئی ہی نہیں کہ ہم الگ الگ ہو جائیں گے ۔
سیالکوٹ میں پہلےہم جہاں رہتے تھے اس کے ساتھ ایک باغیچہ بھی تھا ۔ وہاں پر ایک قبربھی تھی ۔ ماں کہا کرتی تھی کہ یہ پیر صاحب کی قبر ہے یہاں پر ہر جمعرات کو چراغ جلانا ہے اور ہم ویسا ہی کرتے بھی تھے۔ میں جب ایمرجنسی میں قید تھا تو و ہی پیر صاحب میرے خواب میں آئے اور انہوں نے کہا کہ تمہیں اگلی جمعرات کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اس خواب کے بعد مجھے جمعرات کا انتظار بڑی شدت سے تھا۔ جمعرات آئی اور آکر چلی گئی لیکن اگلے دن یعنی جمعہ کو جیل کا چوکیدار آیا اور مجھے اٹھاکر بولا تمہاری رہائی کا حکم آ گیا ہے، تیار ہو جاؤ ۔ میں نے پوچھا یہ حکم کب آیا ہے تو اس نے بتایا کہ حکم تو کل رات (جمعرات) کو ہی آ گیا تھا لیکن رات کو دیر ہو گئی تھی تو ہم نے سوچا کہ صبح بتا دیں گے۔
قومی آواز: آپ نے کبھی تصور کیا تھا کہ جب ملک تقسیم ہو جائے گا تو ہندوستان کے حالات پاکستان جیسے ہو جائیں گے؟
کلدیپ نیر: نہیں۔ ایسا کبھی تصور بھی نہیں کیا۔ یہاں آنے کے بعد گاندھی ، نہرو، مولانا آزاد کو ہم سنا کرتے تھے، بی جے پی تو اس وقت تھی ہی نہیں، ہاں پاکستان کی مخالفت میں ضرور کبھی کبھی مسلم مخالف باتیں ہوتی تھیں۔
قومی آواز: کیا مودی کا ہندوستان جناح کے پاکستان سے ملتا ہواہے؟
کلدیپ نیر: دیکھئے، اس وقت جناح الگ ملک کی بات تو کرتا تھا لیکن اس کے دل میں اتنی نفرت نہیں تھی۔ آج ملک میں17-18 کروڑ مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ نہ گورنمنٹ میں مسلمانوں کی کوئی حصہ داری ہے اور نہ ہی پرائیویٹ سیکٹر میں ۔یہ ٹھیک ہے کہ مارکاٹ نہیں ہوتی لیکن کیا ان کا کوئی وجود ہے،اور حقیقت تو یہ ہے کہ اب مسلمانوں نے بھی اس حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے۔
قومی آواز : نئی حکومت آنے کے بعد سے نفرت کتنی بڑھی ہے؟َ
کلدیپ نیر: ہاں نئی حکومت آنے کے بعد نفرتیں بڑھیں ہیں۔
قومی آواز: کیا ہم دوسری تقسیم کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
کلدیپ نیر: ویسی تقسیم بھلے ہی نہ ہو لیکن یہ بھی تقسیم کی ہی شکل ہے کہ آج مسلمان عام طور پر الگ رہنا پسند کر رہے ہیں۔ آج مسلمانوں کے دلوں میں بڑا خوف ہے اور ویسے بھی مسلمانوں کو الگ تھلگ تو کر ہی دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہاں (وسنت وہار، دہلی) میں محض ایک مسلمان کی جائداد ہے اور کسی کی بھی نہیں۔ مسلمانوں کے دلوں میں آج اس قدر خوف ہے کہ ان سے اگر الیکشن کےبارے میں پوچھو تو کہتے ہیں کہ آج مسلمانوں کو الیکشن کی فکر نہیں ہے ، ہماری تو جان کی حفاظت ہو جائے وہی بہت ہے۔
قومی آواز: آپ سے بات کرتے ہوئے ذہن میں ایک سوال آیا، جناح مسلمانوں سے یہی کہتے تھے کہ یہاں اگر رہو گے تو تم دوسرے درجے کے شہری ہو جاؤگے۔ اس پرآ پ کی کیا رائے ہے ؟
کلدیپ نیر: نہیں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ جناح نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہندوستان میں رہو گے تو تم پر کوئی ظلم ہوگا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بھی ملک ہوگا ، وہ بھی ملک ہوگا، دونوں مماملک میں اقلیتوں کو برابر حقوق ملیں گے
قومی آواز: پاکستان کے قیام سے پہلے تو جناح یہی کہا کرتے تھے کہ اگر تم یہاں رکے تو تمہیں کوئی حقوق نہیں ملیں گے؟
کلدیپ نیر: اس وقت پاکستان کے حق میں اپیل کرنے کے لئے وہ کئی باتیں کہتے تھے۔ جب میں لا کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو 1946 میں قائد اعظم محمد علی جناح ہمارے کالج میں تشریف لائے تھے ۔ انہوں نے تقریر میں وہی سب کچھ کہا جو وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں وغیر وغیرہ۔ اس وقت میں نے جناح سے دو سوال کئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ مان لیں کہ پاکستان کا قیام ہو چکا ہے، اب یہ بتائیں کہ اگرایک تیسری طاقت ہندوستان پر حملہ کر دیتی ہے تو پاکستان کارویہ کیا رہے گا؟ انہوں نے کہا کہ نوجوان ! ہماری طرف کےجوان آپ کی طرف کے جوانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ دونوں طرف سے خون برابر بہے گا اور ہم دشمن کے دانت کھٹے کر دیں گے۔ جب میں شاستری جی کے ساتھ کام کیا کرتا تھا، میں نے ان سے یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا کہ جب چین نے 1962 میں ہندوستان پر حملہ کیا اس وقت اگر پاکستان ہماری مدد کرتا اور اس کے بعد پاکستان ہم سے کشمیر مانگتا تو ہمیں اسے نہ کرنی مشکل ہوجاتی ۔
قومی آواز : آج کے ہندوستان میں آپ خود کو کیسا محسوس کر رہے ہیں، کیا یہ وہی ہندوستان ہے جو گاندھی اور نہرو بنانا چاہتے تھے؟
کلدیپ نیر: نہیں بالکل علیحدہ ہے۔ گاندھی ،نہرو یا آزاد کا یہ خواب تھا کہ یہ ملک ایسا ہوگا جہاں سب کا اپنا اپنا مذہب ہوگا لیکن حقوق سب کے برابر ہوں گے۔ سب ایک دوسرے کے لئے کوشش کریں گے۔ایک بار باپو کی سبھا(اجلاس) ہو رہی تھی تو ایک پنجابی نے کہا کہ باپو ہم سبھا میں بار بار پاکستان کا ذکر نہیں سننا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر نہیں سننا چاہتےتو یہ سبھا نہیں ہوگی۔ تین دن تک جب سبھا نہیں ہوئی تو اس شخص نے جاکر باپو سے کہا کہ میں شرمندہ ہوں مجھے یہ بات نہیں کرنی چاہئے تھی ، اس کے بعد گاندھی جی نے سبھاکی۔تقسیم ہند کے وقت بھی آر ایس ایس نے کوشش کی تھی کہ نفرتوں کو بڑھایا جائے لیکن اس وقت نفرت کی فضا نہیں تھی، لیکن آج مسلمانوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں ۔ اور ہندوؤں نے بھی خود کو حکمران تصور کرنا شروع کر دیا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت بھی لوگوں کے دلوں میں اتنی زیادہ نفرتیں نہیں تھیں جتنی آج دکھائی دے رہی ہیں حالانکہ ہم اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے تھے ، ایسا اس لئے تھا کیونکہ اس وقت کی حکومت نفرتوں کو کم کرنا چاہتی تھی لیکن آج کی حکومت نفرت کو فروغ دینے کا کام کر رہی ہے۔
قومی آواز: کیا آ پ کو کوئی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے؟
کلدیپ نیر: ہندوستان میں انتہا پسندی زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہ سکتی اور جو نفرتوں کا ماحول دکھائی دے رہا ہے وہ جلد ہی بدل بھی جائے گا۔ ہندوستان میں جمہوریت کا راج چلے گا اور اگر کوئی ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو عوام اس سے اقتدار چھین لیں گے۔
[ قومی آواز سے ]