Halloween Costume ideas 2015
Articles by "Top News"

Image result for images -- smart center digitale payment award نئی دہلی، مکانات اور شہری امور کی وزارت میں وزیر مملکت آزادانہ چارج ہردیپ ایس پوری نے کہا ہے کہ اسمارٹ شہروں کی فیلو شپ اور انٹرشپ پروگرام نوجوانوں کو یہ موقع فراہم کرے گا کہ وہ شہری منصوبہ بندی اور حکمرانی کے مختلف پہلوؤں کا تجربہ کرے۔ اسمارٹ سٹیز ڈیجیٹل پیمنٹ ایوارڈ کی شروعات کا اعلان کرتے ہوئے  پوری نے کہا کہ اس کا مقصد ڈیجیٹل انڈیا کو فروغ دینا اور ڈیجیٹل ادائیگی نیز اسمارٹ سٹیز کی ہمت افزائی کے ذریعہ ہندستان کے شہری علاقوں کے لوگوں کے معیار زندگی کو آسان بنانا ہے تاکہ یہ لوگ ڈیجیٹل پیمنٹ کے طریقہ کو اپنا سکیں۔ 

 پوری نے یہاں آمروت اور اسمارٹ سٹیز مشن کے تحت مختلف نئے اقدامات کا آغاز کیا ۔ ان میں انڈیا اسمارٹ سٹیز فیلو شپ ( آئی ایس سی ایف) پروگرام ، انڈیا اسمارٹ سٹیز انٹرن شپ (آئی ایس سی آئی) پروگرام اور اسمارٹ سٹیز ڈیجیٹل پیمنٹ ایوارڈس 2018 ۔ اس کے علاوہ اسمارٹ سٹیز مشن اور لوکل ایئریا پلان (ایل اے پی)/ ٹاؤن پلاننگ اسکیم (ٹی پی ایس) بھی شامل ہیں جن پر آمروت کے تحت آزمائشی بنیاد پر 25 شہروں میں عمل کیا جائے گا۔ ہاؤسنگ امور کی وزارت کے سکریٹری جناب درگا شنکر مشرا اور وزارت کے دیگر سینئر افسران بھی اس موقع پر موجود تھے۔

انڈیا اسمارٹ سٹیز فیلو شپ(آئی ایس سی ایف) پروگرام

انڈیا اسمارٹ سٹیز فیلو پروگرام کا مقصد ان نوجوانوں کو جو بالخصوص اسمارٹ شہروں اور شہری احیا کے سیکٹر میں عام طور پر دلچسپی رکھتے ہیں، قیمتی تجربات سے روشناس کرانا ہے۔ اس سے ان لوگوں کے اندر نئے خیالات اور درپیش مسائل کو روکنے کے لئے نئی توانائی پیدا ہوگی اور وہ شہری مسائل کا حل تلاش کرسکیں گے۔ اس پروگرام سے نوجوان لیڈروں کی آبیاری ہوگی ۔ ہندستانی شہری سیکٹر کے بارے میں ا ن کی معلومات کے بارے میں اضافہ ہوگا اور انہیں مستقبل میں ایک بڑی قیادت کے رول کے لئے تیار کیا جاسکے گا۔ 

ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت اسمارٹ سٹیز فیلو کے طور پر تیس نوجوان گریجویٹوں / پوسٹ گریجویٹوں اور پی ایچ ڈیز کو شہری منصوبہ بندی، شہری ڈیزائن ، انجینئرنگ ، اطلاعاتی ٹکنالوجی ، شہری آمدورفت ، مالیات ، سماجی سیکٹر اور ماحولیاتی سے متعلق معاملات میں شامل کرے گی۔ ان کی شمولیت ایک سال کے لئے ہوگی جسے تین سال تک توسیع دی جاسکتی ہے۔ یہ لوگ مکانات اور شہری امور کی وزارت میں مشن ڈائریکٹر ، اسمارٹ سٹیز اور منتخبہ اسمارٹ سٹیز کے سی ای اوز کو تجزیے، ریسرچ ، دستاویزات کی تیاری ، غیر جانبدارانہ جائزہ اور دیگر متعلقہ سرگرمیوں کے بارے میں مناسب مدد فراہم کرے گی۔ دیگر سرگرمیوں میں رپورٹوں، پوسٹروں اور کتابچوں وغیرہ کی تیاری شامل ہے۔ 

اس معاملے سے دلچسپی رکھنے والے امیدوار 31 اگست 2018 تک اسمارٹ نیٹ ( https://smartnet.niua.org) کے ذریعہ آن لائن درخواست دے سکتے ہیں۔ ایک منتخبہ کمیٹی ان درخواستوں کی چھان بین کرے گی اور ان کی چھٹائی کرے گی۔ 

انڈیا اسمارٹ سٹیز انٹرن شپ (آئی ایس سی آئی) پروگرام

مکانات اور شہری امور کی وزارت انڈر گریجویٹ/ گریجویٹ/ پوسٹ گریجویٹ ڈگری کی تعلیم حاصل کرنے والوں کو انٹرن کے طور پر اپنے کام میں شامل کرے گی تاکہ وہ مختلف ریاستوں /شہروں میں اسمارٹ سٹیز پروجیکٹوں میں عمل درآمد میں مدد دے سکیں۔ یہ انٹرن شپ 6 سے 12 ہفتہ کے لئے ہوگی اور اس کے لئے کوئی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔ پروگرام کی کامیاب تکمیل پر انہیں ایک ایکسپریئنس سرٹی فکیٹ دیا جائے گا ۔ آئی ایس سی آئیز کو اسمارٹ سٹیز مشن کے تحت ترقی کے مندر جہ ذیل شعبوں میں شامل کیا جائے گا۔ جن میں شہری منصوبہ بندی ، شہری ڈیزائن ، انجینئرنگ ، اطلاعات و تکنالوجی ، شہری آمدورفت۔ مالیات، سماجی سیکٹر اور ماحولیات سے متعلق مسائل شامل ہیں۔

‘انٹرنس دراصل اسمارٹ سٹیز مشن کا ایک حصہ ہوں گے اور ان کا بنیادی رول مشن کے ڈائریکٹر (ایس سی ایم ) کی طرف سے تفویض کردہ کاموں پر عمل درآمد کرنا، ان کے بارے میں رپورٹ دینا ، اس کے امکانات کا جائزہ لینا ، ان کی نگرنی کرنا اور میڈیا کو ان کے بارے میں واقف کرانا ہوا۔ اس معاملے سے دلچسپی رکھنے والے امیدوار سال میں کسی بھی وقت اسمارٹ نیٹ ( https://smartnet.niua.org) کے ذریعہ آن لائن درخواست دے سکتے ہیںَ۔ اسمارٹ سٹیز مشن کے ڈائریکٹر کی طرف سے تشکیل دی گئی ایک منتخبہ کمیٹی ان امیدواروں کے سلیکشن کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔

اسمارٹ سٹیز ڈیجیٹل پیمنٹس ایوارڈ 2018

اسمارٹ سٹیز ڈیجیٹل پیمنٹس ایوارڈ (ایس سی ڈی پی اے) 2018، 100 ڈیز چیلنج ان 100 اسمارٹ سٹیز۔ دراصل ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت کے پروگرامو ں میں سے ایک پروگرام ہے جس کا مقصد ہندستان کے شہری علاقوں کے رہنے والوں کی زندگی آسان بنانا ہے۔ ان ایوارڈز کا مقصد ڈیجیٹل نظام کے ذریعہ ادائیگی کرنا اور اپنے اپنے متعلقہ شہروں میں جدت طرازی کے ذریعہ ادائیگی کو فروغ دین دینے کے سلسلہ میں لوگوں کی رہنمائی کرنا، انہیں آمادہ کرنا، انہیں تسلیم کرنا اور انہیں انعامات سے نوازنا ہے۔

اس پروگرام کے ذریعہ نہ صرف ڈیجیٹل ادائیگی کے میدان میں شہروں کو نوازا جائے گا بلکہ اس سے دوسری شہروں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ اسی طرح کا طریقہ اپنائیں اور اپنے ڈیجیٹل ادائیگی کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم بنائیں او رلوگوں میں اس سلسلہ میں آگاہی پیداکرائیں۔

ایوارڈ کے شروع کئے جانے کے وقت سے چیلنج کا وقت سو دن کا ہوگا۔ اس سے اسمارٹ شہروں میں ڈیجیٹل ادائیگی پیدا ہوگی۔ اس کے لئے دو مرحلوں پر مشتمل عمل درکار ہوگا۔ مکانات اور شہری امور کی وزارت کے سکریٹری کی صدارت میں کارکردگی کا جائزہ لینے والی کمیٹی قائم کی جائے گی۔ اس میں جیوری کے دیگر ارکان بھی شامل ہوں گے ۔


ان میں سے ہرایک زمرے کو 3،3 ایوارڈز دیئےجائیں گے اس طرح اس پروگرام کے تحت کل 12 ایوارڈ ز دیئے جائیں گے۔ 1۔ڈیجیٹل ادائیگی کا طریقہ اپنانے والے سب سے بہتر شہر

یہ ایوارڈ اس اسمارٹ شہر کو دیا جائے گا جو مختلف چینلوں کے ذریعہ ڈیجیٹل ادائیگی میں مجموعی طور پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔
2۔ بہترین ڈیجیٹل جدت طرازی کا ایوارڈ

یہ ایوارڈ اس اسمارٹ شہر کو دیا جائے گا جو اپنے شہریوں کئے ڈیجیٹل ادائیگی کا بہترین جدید طریقہ اپنائے گا۔

3 ۔ ڈیجیٹل ادائیگی کے بارے میں سب سے تیزی سے بڑھنے والا اسمارٹ شہر

یہ ایوارڈ اس شہر کو دیا جائے گا جس نے ماضی قریب میں مقدار اور قیمت کے لحاظ سے ڈیجیٹل ادائیگی میں سب سے تیزی سے ترقی کی ہوگی۔

جب 25 جون 2015 کو اسمارٹ سٹیز مشن کی شروعات کی گئی تھی تو سو اسمارٹ شہروں کے لئے ایک مسابقت والا اور چیلنج آمیز والا طریقہ استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن اس وقت نیتی آیوگ کے رہنما خطوط کے مطابق چیلنج والا عمل پروجیکٹ پر عمل درآمد کے معاملے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کے ذریعہ انڈو فرینج شراکت داری پروگرام کے تحت آل انڈیا چیلنج کے ذریعہ کم از کم 15 پروجیکٹوں کا انتخاب کیا جائے گا۔ یہ پروجیکٹ چار شعبوں میں ہوں گے۔ دیرپا آمدورفت ، عوامی کھلی جگہیں ، شہری حکمرانی اور آئی سی ٹی اور کم آمدنی والی رہائش گاہوں کے معاملے میں سماجی اور تنظیمی جدت طرازی اس پروگرام کی معیاد تین سال ہوگی۔ (مالی سال 19-2018 مالی سال 21-2020 تک) 

لوکل ایئریا پلان (ایل اے پی) اور ٹاؤن پلاننگ اسکیم(ٹی پی ایس)

لوکل ایئریا پلان(ایل اے پی) اور ٹاؤن پلاننگ اسکیم (ٹی پی ایس) کو آمروت کے تحت مرتب کیا گیا ہے تاکہ شہر کے ایسے علاقہ میں ترقیاتی ڈھانچوں کی منصوبہ بندی کی جاسکے جہاں یہ ڈھانچے پہلے سے موجود ہیں لیکن موجودہ دباؤ کا سامنا کرنے سے قاصر ہیں ان اسکیموں پر آزمائشی بنیاد پر 25 منتخبہ شہروں میں عمل درآمد کیا جائے گا۔

اسکیم پر عمل درآمد کے سلسلہ میں رہنما خطوط مرتب کرلئے گئے ہیں اور انہیں ان 25 ریاستوں کو بھیج دیا جائے گا جہاں کے شہریوں کو اس کام کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ ان سے درخوات کی جائے گی کہ وہ ایل اے پی ، ٹی پی ایس کی تیاری کے لئے اپنی

Image result for images -- round table conferenceنئی دلّی ، اعداد وشمار اور پروگرام نفاذ سے متعلق وزارت 9، 10 جولائی کو نئی دلّی میں دو روزہ بین الاقوامی گول میز کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہے۔۔ اس گول میز کانفرنس کا مقصد ہندوستان میں اعداد وشمار سے متعلق نظام کی بہتری کے لیے اختراعی تصورات کی نشاندہی کرنا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک مثلاً کناڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں اپنائے گئے بہترین طریقہ کار سے مستفید ہونا ہے۔ اس طرح کی کانفرنس کا انعقاد ہندوستان میں پہلی بار ہو رہا ہے۔

مذکورہ کانفرنس کا افتتاح اعداد وشمار اور پروگرام نفاذ کے وزیر ڈی وی سدانند گوڑا وزیر مملکت وجے گوئل اور اعداد وشمار اور پروگرام نفاذ کے سکریٹری کے وی اِیپن کی موجودگی میں کریں گے۔ اس تقریب میں ماہر اعداد وشمار  انل اروڑا، کناڈا کے ماہر اعداد وشمار، جوناتھن پالمر، اعداد وشمار کے آسٹریلیائی بیورو کے ڈپٹی ماہر اعداد وشمار جنید احمد، ہندوستان کے لیے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر، ماہر اعداد وشمار اور حکومت ہند کے اعلیٰ حکام اس کانفرنس میں موجود رہیں گے۔ برطانیہ کے چیف ماہر اعداد وشمار جون پولنجر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

ہندوستانی معیشت کے ماہر ڈاکٹر بیبیک ڈبرائے، وزیر اعظم کے معاشی مشاورتی کونسل کے چیئر پرسن اور نیتی آیوگ کے رکن ڈاکٹر آربی برمن، قومی اعداد وشمار کے کمیشن کے چیئر پرسن ڈاکٹر پرنب سین، اعداد وشمار کے قومی کمیشن کے سابق چیئر پرسن اور پروفیسر ٹی سی اے اننت ہندوستان کے سابق چیف برائے اعداد وشمار بھی اس گول میز کانفرنس میں حصہ لے کر اس کی عزت افزائی کریں گے۔

اس کانفرنس میں قومی اور بین الاقوامی ایجنسیوں کے ماہرین اعداد وشمار سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کے اعداد وشمار کے نظام میں ا صلاحات سے متعلق عمل شروع کرنے کے بارے میں آرا پیش کی جائیں گی۔

Image result for images of indian railway
نئی دہلی، وزارت ریلویز نے ڈیجیٹل لا کر سے درست شناختی ثبوت کے طور پر پیش کئے جانے والے آدھار اور ڈرائیونگ لائسنس کے بارے میں جائزہ لیا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ٹرین میں سفر کرتے وقت مسافر اپنے ڈیجیٹل لاکر اکاؤنٹ کے جاری دستاویز سیکشن سے آدھار؍ ڈرائیونگ لائسنس دکھاتے ہیں تو ان شناختوں کو درست شناخت تسلیم کیا جائے گا۔ لیکن یہ واضح کیا جاتا ہے کہ یوزر کے ذریعہ آپ لوڈیڈ (یعنی وہ دستاویز جو اپ لوڈیڈ دستاویز) سیکشن میں اپ لوڈ کئے گئے ہیں۔ شناخت کے درست ثبوت نہیں مانے جائیں گے۔

فی الحال بھارتی ریل کے کسی بھی ریزروڈ زمرے میں سفر کرنے کے لئے درج ذیل شناختی کارڈ درست مانے جاتے ہیں ۔
بھارتی انتخابی کمیشن کے ذریعہ جاری ووٹر فوٹو شناختی کارڈ
پاسپورٹ
محکمہ انکم ٹیکس کے ذریعہ جاری کیا گیا پین کارڈ
آر ٹی او کے ذریعہ جاری کیا گیا ڈرائیونگ لائسنس
مرکزی؍ ریاستی حکومت کے ذریعہ جاری کیا گیا نمبر شمار کے ساتھ فوٹو شناختی کارڈ
منظور یا تسلیم شدہ اسکول؍ کالج کے ذریعہ اپنے طالب علموں کو جاری کیا گیا فوٹو کے ساتھ طالب علم کا شناختی کارڈ
فوٹو کے ساتھ نیشنلائزڈ بینک پاس بک
لیمینیٹیڈ فوٹو گراف کے ساتھ بینک کے ذریعہ جاری کیا گیا کریڈٹ کارڈ
منفرد شناختی کارڈ-آدھار، ایم –آدھار اور ای –آدھار
ریاستی ؍ مرکزی حکومت کے سرکاری شعبے کے اداروں ، ضلع انتظامیہ ، میونسپل ادارے اور پنچایت انتظامیہ کے ذریعہ نمبر شمار کے ساتھ جاری فوٹو شناختی کارڈ
کمپیوٹرائزڈ قومی ریزرویشن نظام (پی آر ایس ) سینٹروں کے ذریعہ بک کئے گئے ریزر و ٹکٹوں کے معاملے میں سلیپر اور سیکنڈ ریزروڈ سیٹنگ کلاسوں میں فوٹو کے ساتھ راشن کارڈ کی مصدقہ فوٹو کاپی ، فوٹو کے ساتھ قومی بینکوں کی بینک کے پاس بک کو تسلیم کیا جائے گا۔

Image result for images - educationنئی دہلی، ملک کے پہلے آرٹس ادارے اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار دی آرٹس (آئی جی این سی اے) نے آرٹ اور ثقافت کے علاوہ متعلقہ مضامین میں پانچ ڈپلومہ کورسز اور 6 نئے سرٹیفکیٹ کورسز شروع کئے ہیں۔ آئی جی این سی اے ثقافت کی مرکزی وزارت حکومت ہند کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے۔ ان کورسوں کا بنیادی مقصد اس کے طول و ارض اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ آرٹ اور ثقافت تیار کرنا ہے تاکہ متن پر مبنی کھوج کے نظام کو فروغ دیا جا سکے جس سے ثقافت کے سیکھنے کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔ ادارے نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے جدید ڈیجیٹل آلات تکنیک اور طریقہ کار اپنایا ہے۔

ایک سال کے پانچ پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کی تفصیلات 19-2018 کے تعلیمی سال کیلئے حسب ذیل ہیں:
پی جی ڈپلومہ ان کلچرل انفارمیٹکس
احتیاطی تحفظ میں پی جی ڈپلومہ
بودھ مطالعات میں پی جی ڈپلومہ
ڈیجیٹل لائبریری اور ڈالا مینجمنٹ میں پی جی ڈپلومہ
مخطوطہ اور قدیم کتبوں کے مطالعہ کے سلسلے میں پی جی ڈپلومہ

ادارے نے یہ کورسز شام کے وقت شروع کئے ہیں تاکہ ہندوستانی آرٹس کی طرف راغب ہو سکیں اور انہیں متعلقہ شعبوں میں تربیت یافتہ افرادی قوت حاصل ہو سکے ۔

ان پانچ ڈپلومہ کورسز کے لئے خواہش مند امیدوار 10 جولائی 2018 سے پہلے درخواست دے سکتے ہیں۔ کورس کی تفصیلات ، فیس کا ڈھانچہ سرکاری ویب سائٹ http://ignca.gov.in/pg-diploma-course-at-ignca/ . پر دستیاب ہے۔

ان کورسز کے علاوہ آئی جی این سی اے جلد ہی چھ نئے سرٹیفکیٹ کورس شروع کرے گاان میں :
تعلیمی یکجہتی اور تحقیقی ایتھکس
لائبریری اور انفارمیشن سائنس پروفیشنلز کے لئے کھلی رسائی
تحقیق کاروں کے لئے کھلی رسائی
ڈیجیٹل لائبریری اور انفارمیشن مینجمنٹ 
تحقیقی طریقہ کار
سنیما اسٹڈیز اور کلچرل ڈاکیومنٹیشن

مذکورہ کورسز اسکالرس ، تحقیق کاروں اور طلباء کو ایک موقع فراہم کریں گے کہ وہ بندوبست کی جدید تکنیک اپنائیں اور پیشہ وارانہ اپروچ حاصل کریں۔ تاکہ اب تک آرٹ کے مینجمنٹ کے شعبے میں کمی کو پُر کیا جا سکے اور ایک عالمی پلیٹ فارم پر ملک کے آرٹ اور کلچرل وراثت کو سرخرو کیا جا سکے ۔

Image result for images -in delhi historical buildingنئی دہلی  : اس وضاحت کا تعلق چنداخبارات میں یکم و2جولائی کو شائع ہوئی اس خبرسے ہے جس کی شہ سرخیوں میں کہاگیاہے کہ ‘‘ لال قلعہ اورچاردیگردہلی کی تاریخی ورثے کی اہمیت والی عمارتوں کے لئے مانومتروں کی فراہمی ’’۔

سیاحت کی وزارت نے وضاحت کی ہے کہ اس طرح کے تمام مضامین میں چندسنجیدہ قسم کے سقم ہیں اورصحیح پوزیشن درج ذیل ہے ۔

1- مضمون میں کہاگیاہے کہ دلی میں لال قلعہ اورچاردیگرورثہ جاتی یاہیریٹیج سائٹوں کے لئے مانومنٹ مترمقررکئے گئے ہیں تاہم یہاں یہ وضاحت مخصوص ہے کہ دلی میں مانومنٹ مترصرف ایک سائٹ کے لئے مقررکیاگیاہے ۔

2- مزید برآں مذکورہ مضامین میں غلط طورپریہ بات کہی گئی ہے کہ کیپرٹریول کمپنی کودلی کی چارہیریٹیج سائٹوں یعنی عظیم خان کے مقبرے ، جمالی کمالی مسجد اورمقبرہ ، راجاؤں کی باولی اورموٹھ کی مسجد کے لئے مانومنٹ مقررکیاگیاہے ۔ سیاحت کی وزارت کی جانب سے وضاحت کی جاتی ہے کہ مذکورہ کمپنی کاوژن ڈاکومنٹ فی الحال تجزیہ کے مرحلے میں ہے اور اس کمپنی کے ساتھ کسی طرح کی مفاہمتی عرضداشت پردستخط نہیں ہوئے ہیں ۔

یہاں اس بات کاذکرمعقول ہوگاکہ ‘‘اڈاپٹ اے ہیریٹیج ۔ اپنی دھروہراپنی پہچان ’’وزارت سیاحت ، وزارت ثقافت ، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اورریاستی /مرکز کے زیرانتظام علاقوں کی حکومتوں کی ایک مشترکہ کوشش ہے ۔ اس کا مقصد سرکاری /نجی شعبے کی کمپنیوں اورکارپوریٹ شہریوں /غیرسرکاری اداروں ، افراد وغیرہ کو ہمارے ہیریٹیج اورسیاحت کو ترقی ، آپریشن اورعالمی درجے کے سیاحتی بنیادی ڈھانچے کی مدد سے چلانے اوررکھ رکھاو سے ہمکنارکرنے اوریہاں اے ایس آئی /ریاستی ہیریٹیج سائٹوں اوربھارت کے دیگراہم سیاحتی مقامات پرضروری سہولتوں کی فراہمی کے کام میں شامل ہونے کے لئے حوصلہ فزائی فراہم کرناہے ۔

Image result for images - indian defence
نئی دہلی، وزارت دفاع نے اپنے ایک حالیہ حکم میں مسلح افواج کے ایسے شادی شدہ افراد کے لئے ، جن کے بچے علیحدہ نوعیت کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے لئے ترجیحی بنیاد پر رہائش کے الاٹمنٹ کے اختیارات کو غیر مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلح افواج کے افراد کی طرف سے علیحدہ نوعیت کی صلاحیت رکھنے والے بچوں کی بنیاد پر رہائش کا الاٹمنٹ یا اسے برقراررکھنے کا کام 3 سال کے ابتدائی عرصے کے لئے اب سب ایریا کے جی او سی سطح کی مقامی فوجی حکام کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

متعلقہ حکام اس میں مزید 2 سال کا اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ اختیارات کی تفویض کا یہ معاملہ فوج کی تینوں شاخوں کے افراد کے لئے قابل عمل ہوگا، جہاں تک کمان ہاسپٹل (سی ایچ) کا تعلق ہے، اس طرح کے ترجیحی الاٹمنٹ کا ، کام سی ایچ کے کمانڈنٹ کے سپرد ہوگا۔

اس اقدام سے ان مشکلات کو کم کرنے میں مدد ملے گی، جن کا اظہار مسلح افواج کے ، ان افراد نے کیا ہے، جن کے بچے علیحدہ نوعیت کی صلاحیت رکھتے ہیں، کیونکہ انہیں بہت کم نوٹس پر دوسری جگہوں پر جانا پڑتا ہے

Image result for images - ugc
نئی دہلی، یہ ہندوستان کے اعلیٰ ٰ تعلیمی کمیشن کے حوالے کے سلسلے میں (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قانون کی منسوخی) کے ایکٹ 2018 کے حوالے کے سلسلے میں ہے اور اس کے بعد مجوزہ منتقلی کے حصے کے طور پر یو جی سی سے منظوری دیئے جانے کے کاموں کی مجوزہ منتقلی کے بارے میں کچھ مختلف اخباروں میں دیئے گئے بیانات کے حوالےسے ہے۔

انسانی وسائل کے فروغ کی وزارت نے واضح کیا ہے کہ گرانٹ کے کام کو وزارت کو منتقل کرنے سے متعلق ایسا کوئی آخری فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ بھلے ہی ریگولیٹر اور گرانٹ دینے والی کمپنی کو الگ الگ کرنے کے بارے میں سفارش پہلے ایک ماہرین کی کمیٹی کے ذریعے لی جاچکی ہے اور یہ حکمرانی کے ٹھوس اصولوں میں درج ہے۔

سرکار اس بات کو یقینی بنانے کی خواہاں ہے کہ منظوری دیئے جانے کا عمل پوری طرح شفاف پر مبنی آن لائن اور آبجیکٹیو نظام پر ہوگا جو شفافیت اور اہلیت دونوں ہی کو یقینی بنائے گا اور اس کا کم سے کم انسانی رابطہ ہوگا۔ اس طرح کے آئی ٹی نظام پہلے سے ہی آئی ایم پی آر آئی این ٹی (اِمپرنٹ) اور آر یو ایس اے (روسا) جیسی بڑی فنڈنگ اسکیموں میں چل رہے ہیں اور اس لئے یوجی سی کی اسکیموں کو آسانی سے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔

یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ اگر یوجی سی کی موجودہ گرانٹ دینے کے نظام کا کوئی سابقہ سسٹم ہے تو اسے بغیر کسی تفریق اور غیرجانبدار طریقے سے آپریٹ کیا جائے گا۔ اس بارے میں کوئی خدشات قطعی طور پر بے بنیاد ہیں۔

Image result for images - varanasi
نئی دہلی، وارانسی میں نمامی گنگے پروگرام کے تحت اس وقت جاری سیویج کے بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں کے بارے میں ایک حالیہ جائزہ میٹنگ میں نیشنل مشن فار کلین گنگا(این ایم سی جی)کے ڈائریکٹر جنرل جناب راجیو رنجن مشرا نے کام میں تیزی لانے کی ضرورت پر زور دیا۔شہر میں تیزی سے تیار ہونے والے دو ایس ٹی پی پروجیکٹوں کے ذریعے ان کے مکمل ہونے پر 19کروڑ لیٹر سیویج کے پانی کو دریا میں داخل ہونے سے روکا جاسکے گا۔ ان میں سے دینا پور کا 140ایم ایل ڈی یعنی (ملینس آف لیٹرس پرڈے)ایس ٹی پی تقریباً مکمل ہوچکا ہے، جبکہ ہائی برڈ این او ٹی موڈ کے تحت رامان کے 50 ایم ایل ڈی کے ایس ٹی پی پروجیکٹ میں اچھی پیش رفت ہورہی ہے۔

ڈی جی نے وارانسی میں پرانے سیور کے 10 پروجیکٹوں کی تجدید کا بھی جائزہ لیا، جن کے سلسلے میں کام مکمل ہونے کے قریب ہے۔ امید ہے کہ یہ کام اکتوبر 2018 تک مکمل ہوجائے گا۔ایس ٹی پی کام کے علاوہ ڈی جی نے شہر میں 84گھاٹوں کی صفائی کے کام کا بھی جائزہ لیا۔ یہ گھاٹ 8.5کلومیٹر طویل پٹی پر پھیلے ہوئے ہیں۔ 

اس پروجیکٹ کے تحت جو کارروائیاں کی جارہی ہیں، ان میں صفائی، دھلائی ، پوچھائی، کیچڑ کو نکالنا اور اس کو دوسری جگہ پہنچانا،تعمیر اور کچرے کو ٹھکانے لگانا،آگاہی پیدا کرنا اور تعلیم شامل ہیں۔مقامی آبادی اور سیاحوں سے ان کی جو رائے سننے کو ملی ہے اس کے مطابق 65.4فیصد لوگوں نے اس کام کو بہت ہی اچھا اور 33.5 لوگوں نے اچھا قرار دیا ہے۔

 ڈی جی نے وارانسی میں نہانے کے 26گھاٹوں کو بہتر بنانے کے ایک پروجیکٹ کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔ اس کام کی منظوری 11.73کروڑ روپے کی لاگت سے جنوری 2018 میں دی گئی تھی۔


Image result for images -- awards


نئی دہلی، انسانی وسائل کے فروغ کی وزارت نے ٹیچروں کو قومی ایوارڈ2017 دینے کے لئے درخواستیں طلب کرنے کے لئے وقت کی حد میں اضافہ کیا ہے۔ مختلف سرگرمیوں کے لئے موجودہ اور ترمیم شدہ وقت کی حد حسب ذیل ہیں:
نمبر شمار
سرگرمی
وقت کی موجودہ حد
ترمیم شدہ وقت کی حد
1.
آن لائن درخواستیں طلب کرنے کے لئے ویب پورٹل کی شروعات
15جون سے 30 جون 2018
15 جون سے 15 جولائی 2018(بارہ بجے نصف شب)
2.
ضلع سلیکشن کمیٹی کی نامزدگیا آن لائن پورٹل کے ذریعے اسٹیٹ سلیکشن کمیٹی کو بھیجی جائیں گی
یکم جولائی سے 15 جولائی2018
16جولائی سے24 جولائی2018 (بارہ بجے نصف شب)
3.
اسٹیٹ سلیکشن کمیٹی کی مختصر فہرست آن لائن پورٹل کے ذریعے آزاد قومی جیوری کو پیش کی جائے گی
16جولائی سے 31 جولائی 2018
25جولائی سے 31 جولائی2018 (بارہ بجے نصف شب)
4.
انسانی وسائل کے فروغ کی وزارت کے ذریعے مختصر فہرست میں شامل کئے گئے سبھی امیدواروں کو آن لائن پورٹل کے ذریعے لیٹر ؍اطلاع بھیجی جائے گی
3 0اگست 2018
03 اگست 2018
5.
آزاد نیشنل جیوری کے ذریعے ناموں کو آخری شکل دی جائیگی
30 اگست 2018
30 اگست 2018

Image result for images - australia
نئی دہلی، انسانی وسائل کی ترقی کے مرکزی وزیرپرکاش جاؤڈیکر آسٹریلیا-ہندوستان تعلیمی کونسل(اے آئی ای سی) کی چوتھی میٹنگ میں شرکت کے لئے جو 28 جون سے تین جولائی تک ہوگی ایک رکنی وفد کی قیادت کرتے ہوئے آسٹریلیا گئے ہوئے ہیں۔ یہ باہمی ادارہ 2011ء میں قائم کیا گیا تھا۔

 ہندوستان اور آسٹریلیا کے تعلیم کے وزیروں نے عہد کیا تھا کہ یہ ادارہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلیم تربیت اور ریسرچ کی ساجھے داری میں انتہائی اہم رہنمائی فراہم کرنے کاکام انجام دے گا۔اے آئی ای سی ایک ایسا فورم ہے جس کے ارکان کے تعلق تعلیم ، صنعت او رحکومت سےہے ، تاکہ وہ بڑی باہمی ترجیحات اور اجتماعی کوششوں کے سلسلے میں فیصلوں میں وزیروں کی مدد کرسکیں۔

جاؤڈیکر اپنے دورے کے موقع پر آسٹریلیا کے وزیر تعلیم سائمن برمنگھم سے بھی باہمی ملاقات کریں گے۔وفد کے ارکان یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ، ایڈیلیڈ میں واقع پیرافیلڈ گارڈنس ہائی اسکول اور ڈیکن یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ملبورن اور ملبورن میں موناش یونیورسٹی کا دورہ بھی کریں گے ، 

تاکہ تحقیقی مہارت ، اسمارٹ کلاس رومز ، آن لائن تعلیم، تعلیم کے میدان میں آئی ٹی سی اقدامات، کام سے مربوط تعلیم، تعلیم کے شعبوں میں آسٹریلیا کے ماہرین کے تجربات سے استفادہ کرسکیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلیمی تعاون کو مستحکم بنا سکے۔جناب جاؤڈیکر دونوں ملکوں کے تعلیمی اداروں کے درمیان ادارہ جاتی سطح کے مختلف مفاہمت ناموں پر دستخط کرنے کی تقریبات میں بھی شامل ہوں گے۔اے آئی ای سی کی میٹنگ کے بعد دونوں وزیر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی منظور کریں گے۔

Image result for images -- metro
نئی دہلی، کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے ٹرانسپورٹ ڈھانچہ انتہائی اہم اجزاء میں سے ایک ہے۔ تیز رفتاری کے ساتھ ہونے والی صنعت کاری ، شہروں کی زبردست ترقی، عالم کاری اور شہری مراکز میں بڑی تعداد کے ارتکاز کی وجہ سے ملک کے شہر اور قصبے بھی بہت تیزی کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں۔ اس تیز رفتاری کو برقرار رکھنے کے لئے لوگوں کو لانے لے جانے، اشیاء کے نقل و حمل اور خدمات کے استعمال میں میٹرو ریل پروجیکٹ ایک اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ 

یہ رول نہ صرف ٹرانسپورٹیشن کے ایک حل کی حیثیت رکھتا ہے، بلکہ شہروں کی شکل بدلنے کا ذریعہ بھی ہے۔
آج ملک کے 10 مختلف شہروں میں 490 کلو میٹر ، میٹرو لائنیں کام کر رہی ہیں۔ مختلف شہروں میں 600 سے زیادہ کلو میٹر میٹرو ریل پروجیکٹوں پر کام چل رہا ہے۔ آنے والے برسوں میں میٹرو ریل شعبے میں زبردست ترقی ہونے کی توقع ہے۔ اگلے چند برسوں میں 350کلو میٹر سے زیادہ نئی میٹرو ریل لائنیں قائم کی جا رہی ہیں اور مزید شہر میٹرو میں توسیع کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں یا نئی میٹرو ریل تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ 

میٹرو ریل نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ تیز رفتار علاقائی ٹرانسپورٹ نظام ( آرآرٹی ایس) کو بھی دہلی اور این سی آر کی بھیڑ بھاڑ کم کرنے کے لئے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ آر آر ٹی ایس کا پہلا مرحلہ 3کوریڈور پر مشتمل ہے ، جو تقریباً 380 کلو میٹر لمبائی کا احاطہ کریں گے۔ یہ راہ داری نظام دہلی کا سلسلہ سونی پت، الور اور میرٹھ کے ساتھ جڑے گا۔
مرکزی حکومت میٹرو ریل پروجیکٹوں پر عمل درآمد کے لئے مالی امداد فراہم کر رہی ہے۔ یہ مالی امداد حصص اور ذیلی قرضوں نیز ہمہ قومی اور باہمی قرضوں کے لئے ضمانت کی شکل میں ہے۔ پچھلے 4 برسوں میں میٹرو ریل پروجیکٹوں کے لئے مرکزی حکومت کے بجٹ میں بتدریج اضافے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میٹرو ریل کی ضرورت روزبروز بڑھتی جا رہی ہے، جس سے شہروں کی بھیڑ بھاڑ کم کرنے اور آمدو رفت میں تیزی لانے میں مدد ملتی ہے۔ مرکزی حکومت کے بجٹ میں اوسط اضافہ سالانہ تقریباً 25 ہزار کروڑ روپے کا ہے۔

 ریاستی حکومتوں، پرائیویٹ شراکت داروں اور یو ایل بیز کی طر ف سے کی جانے والی سرمایہ کاری اس کے علاوہ ہے۔
ملک میں میٹرو ریل پروجیکٹوں کی باضابطہ اور دیر پا ترقی کے لئے بہت سے اقدامات کئے گئے ہیں۔ ریلوے بورڈ سے اجازت ملنے کے بعد میٹرو ریل کے انجنوں اور سگنلنگ نظا م کے معیارات کو2017 میں مشتہر کر دیا گیا تھا۔ بجلی کے نظام کے معیارات کے بارے میں ریلوے بورڈ نے حال ہی میں اپنی رضامندی ظاہر کی ہے اور اسےبھی جلد ہی مشہتر کر دیا جائے گا۔ این پی سی آئی اور سی-ڈی اے سی نے ڈی ایم آر سی کے تعاون سے کرایہ جمع کرنے کے خودکار نظام کی تفصیلات اور روپے معیار پر مبنی مکمل ماحولیاتی نظام کی تفصیلات تیار کی ہے۔
بہت سارے ایسے شعبے ہیں، جن کے لئے دیسی جانکاری کے معیارات مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

 اِن میں میٹرو اسٹیشن اور پلیٹ فارموں کے نقشے ، آگ کا حفاظتی نظام، اچانک بحرانی کیفیت پیدا ہوجانے سے نمٹنے کا نظام ، ماحول دوست اور کچرے کے بندوبست کا نظام اور اسٹیشنوں پر شمسی پینل کا معیار وغیرہ شامل ہیں۔
اس مقصد کے لئے میٹرو ریل میں معیار بندی اور دیسی جانکاری کا نظام قائم کرنے کے لئے جناب ای شری دھرن کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ امید ہے کہ یہ کمیٹی 3 مہینے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کر دے گی۔

نئی دلّی ، ریلوے ، کوئلہ ، فنانس اورکارپوریٹ امور کے مرکزی وزیر  پیوش گوئل نے انڈیا انفراسٹرکچر ایکسپو 2018 کا گزشتہ روز ممبئی میں افتتاح کیا۔ یہ دو روزہ ایکسپو وزارت خزانہ کے محکمہ اقتصادی امور کی جانب سے فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( فکی ) کے اشتراک سے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک ( اے آئی آئی بی ) کی این سی پی سی اے ممبئی میں 25 سے 26 جون ، تک ہونے والی سالانہ میٹنگ کے موقع پر منعقد کی جا رہی ہے ۔
اے آئی آئی بی کی تیسری سالانہ میٹنگ کی میزبانی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے گوئل نے کہا کہ ’’ ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے انتہائی قلیل مدت میں کامیابی کی منزلوں کوچھو لیا ہے اور یہ تیزی سے دنیاکے اہم ترین انفراسٹرکچر فنانسروں کی صف میں شامل ہونے کی راہ پر گامزن ہے ۔

 بھارت اے آئی آئی بی کا دوسرا سب سے بڑا حصہ دار ہے اور مختلف بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں کے لئے رعایتی شرح پر سرکاری اور نجی شعبوں کے مجوزہ پروجیکٹوں کل فنڈ کاتقریباً 25 قرض حاصل کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں نے آج اے آئی آئی بی کے صدر سے ملاقات کی ہے اور انہوں نے ا س بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ بھارت نے کافی حوصلہ افزا کارکردگی کا مظاہرہ کیاہے اوراے آئی آئی بی کے سامنے متعدد اچھی تجاویز پیش کی ہیں ۔ اس اہم موقع کی میزبانی کرنا،حقیقت میں بھارت کے لئے ایک خوشی کا موقع ہے اور خاص طورپرممبئی کے لئے ۔ اے آئی آئی کے کل 86 ممبر ملک ہیں ، جو کہ اس میں حصہ لے رہے ہیں ، 3000 وفود پہلے ہی پہنچ چکے ہیں اور مجھے بتایاگیاہے کہ تعداد میں ہر منٹ اضافہ ہو رہا ہے ۔
یہ ایکسپو سرکلاری اور نجی شعبے کی کمپنیوں کو ان کے جدیدترین حل ، تکنالوجیاں اور بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں کی ترقی اور ان کی ادائیگی وغیرہ کی پیش کش کرتا ہے ۔ 

متعدد ریاستی حکومتیں اور سرکاری وزارتیں بھی دنیابھرکے مالیاتی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے مواقع کی جانب راغب کریں گے ۔
ایکسپو کی خاص جھلک آئل اینڈ گیس پویلین ہے جو کہ سرکاری دائرہ کار کی سرکردہ کمپنیوں کی پیش کش ہے جس میں وہ اپنے آنے والے پروجیکٹوں کا خاکہ پیش کریں گے ۔
اس ایکسپو میں پیش کئے جانے والے کلیدی پروگراموں میں اسمارٹ سٹی ، ساگرما،ا ، بھارت مالا ، گنگا کی بحالی پلان اور دریاؤں کو مربوط کرنے کے پروجیکٹ شامل ہیں ۔ ریلوے کے شعبے کی جدید کاری کے منصوبے بھی وفود کی دل چسپی کا باعث ہوں گے ۔
چھتیس گڑھ اور گجرات اس ایکسپو کی ساجھہ دارریاستیں ہیں جبکہ حکومت مہاراشٹراس ایکسپو کی میزبان ریاست ہے ۔

Banner
نئی دہلی، کابینہ کے میرے ساتھی تجارت اور صنعت کے وزیر سریش پربھو جی، ہاؤسنگ اور شہری امور کے وزیرہردیپ سنگھ پوری جی، تجارت اور صنعت کے وزیر مملکت سی آر چودھری جی، تجارت اور متعلقہ محکموں کے سینئر افسران اور یہاں موجود دیگر معززین ۔

سب سے پہلے میں آپ سب کو وانجیہ بھون کا سنگ بنیاد رکھنے پر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آج اس کا کام شروع ہو گیا ہے اور جیسا کہ اسٹیج پر ہی بتایا گیا ہے کہ اگلے سال دسمبر تک تعمیر کا کام مکمل ہو جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ وقت کی حدود میں ہی وانجیہ بھون بنے گا اور جلد سے جلد اس کا فائدہ لوگوں کو ملنے لگے گا۔

وقت کی بات سب سے پہلے میں اس لئے کر رہا ہوں، کیونکہ مجھے اس حکومت کے دوران جتنی بھی عمارتوں کا سنگ بنیاد رکھنےیا افتتاح کرنے کا موقع مجھے ملا،اس میں زیادہ تر میں ایک بات مشترک تھی ۔ مشترک یہ کہ عمارتوں کی تعمیر بھی حکومتوں کے کام کرنے کے طریقوں کا عکاس ہوتی ہے۔ نیو انڈیا کی جانب بڑھتے اور پرانے نظاموں کے بیچ کا فرق بھی اسی سے پتہ چلتا ہے ۔

میں آپ کو کچھ مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 2016 میں پرواسی بھارتیہ کیندر کا افتتاح ہواتو اس وقت یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اس کیندر کا اعلان اٹل بہاری واجپئی جی کے دور میں ہوا تھا۔ بعد میں اسے اصل شکل میں آتے آتے 12 سال لگ گئے ۔

گزشتہ سال دسمبر میں جس ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر کا افتتاح کیا گیا تھا، اسے بنانے کا فیصلہ بھی 1992 میں لیا گیا تھا۔ لیکن اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا سال 2015 میں، میں نے کہا،کہاں 1992 کہاں 2015،اس کا افتتاح 2017 میں ہوا۔ یعنی فیصلہ ہونے کے بعد24-23 سال لگ گئے ، صرف ایک سینٹر بننے میں ۔

، اس سال مارچ میں، میں نے مرکزی اطلاعات کمیشن کی نئی عمارت کو بھی ملک کو وقف کیا تھا۔ سی آئی آئی کے لئے ایک نئی عمارت کا مطالبہ بھی 12 سال سے کیا جا رہا تھا لیکن اس کے لئے بھی کام این ڈی اے کی موجودہ سرکار نے ہی شروع کروایا اور طے شدہ مدت میں اسے پورا بھی کیا ۔

ایک اور مثال ہے علی پور روڈ میں تعمیر کر دہ امبیڈ کر قومی یادگار کا۔ دو مہینہ پہلے اس کا بھی افتتاح کیا گیا ہے ۔ اس یادگار کے لئے بھی برسوں تک چرچا ہوئی ۔اٹل جی کے دور میں کام میں تیزی بھی آئی لیکن بعد میں 12-10 سال سب ٹھپ پڑ گیا۔

دلی کی یہ چار الگ الگ عمارتیں علامت ہیں کہ جب سرکار سلوز میں کام نہیں ہوتا ، جب سارے محکمے، وزارتیں ، سلوز سے نکل کر سلوشن کے لئے ، ایک ہدف کو حاصل کرنے کے لئے مل جل کر کام کرتے ہیں تو کتنا اچھا اور جلدی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ ہر کام کو اٹکانے، بھٹکانے ، لٹکانے کی عادت سے ملک اب آگے نکل چکا ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ اس میں پانچویں علامت جڑنے کی شروعات ہو چکی ہے۔ اس وانجیہ بھون میں ایک چھت کے نیچے ، کامرس سیکٹر کے ہر شعبہ سے سلوز کو ختم کرنے کا کام اور بہتر طریقہ سے کیا جائے گا۔ میری یہی خواہش ہے۔

ساتھیو، آج بھارت وقت کے اہم ترین موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمارا آبادیاتی منافع کسی بھی ملک کے لئے حسد کا موضوع ہو سکتا ہے۔ہماری جمہوریت کو ہمارے نوجوان نئی توانائی دیتے ہیں۔ یہ نوجوان اکیسویں صدی کے بھارت کی بنیاد ہیں۔ ان کی امیدوں کی تکمیل صرف کچھ وزارتوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سبھی کا اجتماعی فریضہ ہے۔

بھارت گذشتہ صدی میں صنعتی انقلاب کا فائدہ اٹھانے سے چوک گیا تھا۔ تب اس کی متعدد وجوہات تھیں لیکن اب اتنی ہی وجہیں ہیں جن کی وجہ سے بھارت اب اس صدی کے صنعتی انقلاب کی قیادت کرنے والوں میں سے ایک بن سکتا ہے ۔ چوتھا صنعتی انقلاب جسے فورتھ انڈسٹریل ریولوشن بھی کہتے ہیں، اس کی اصل بنیاد ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہے اور یقینی طور پر بھارت اس میں دنیا کے کئی ملکوں سے کہیں آگے ہے۔

آج آپ تجارت کی وزارتوں کے جتنے بھی اہداف کو دیکھیں گے ، جتنے بھی کاموں کو دیکھیں گے تو اس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ترجیح ہی آپ کو نظر آئے گی۔

یہ وانجیہ بھون ہی دیکھئے ، جس زمین پر یہ عمارت بنے گی وہ پہلے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سپلائز اینڈ ڈسپوزل کے اختیار میں تھی۔100 سال سے بھی زیادہ پرانا یہ محکمہ اب بند ہو چکا ہے اور اس کی جگہ لی ہے ڈیجیٹل تکنیک پر مبنی گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس جی ای ایم نے ۔ حکومت کس طرح سے اپنی ضرورت کے سامان کی خریداری کرتی ہے اس نظام کو جی ای ایم نے پوری طرح سے بدل دیا ہے۔

آج کی تاریخ میں 117000 سے زیادہ چھوٹے بڑ ے سیلرز ،کمپنیاں اس سے جڑ چکی ہیں۔ ان سیلرز کو 5 لاکھ سے زیادہ آڈرس جی ای ایم کے توسط سے دیئے جا چکے ہیں۔ بہت کم وقت میں جی ای ایم پر 8700 کروڑ روپے کے سامان خریدے گئے ہیں۔

جس طرح جی ای ایم نے ملک کے دوسرے گوشے میں بیٹھے چھوٹے چھوٹے کاروباری اداروں کو اپنے پروڈکٹ براہ راست طور پر حکومت کو بیچنے کاموقع مہیا کرایا ہے، اس کے لئے کامرس وزارت تعریف کی مستحق ہے۔ لیکن آپ لوگوں کے لئے میں اسے ایک طویل سفر کا آغاز مانتا ہوں۔

جی ای ایم کی توسیع اور اسے کیسے بڑھایا جائے ، کیسے یہ ملک کے ایم ایس ایم ای شعبہ ، چھوٹے کاروباریوں کو انٹرنیشنل کامرس کی طرف لے جائے ، اس بارے میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ آج ملک میں 40 کروڑ سے زیادہ اسمارٹ فون ، انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، سستا ڈیٹا،آپ کے کاموں کو اور آسان کر رہا ہے ۔

ہمارے یہاں کہا گیا ہے- کوہی بھارہ سمرتھانام ،کِم دُور بیوسائینام ۔یعنی جو شخص طاقت ور ہوتا ہے اس کے لئے کوئی چیز بھاری نہیں ہوتی ۔ اسی طرح کاروباریوں کے لئے کوئی جگہ دور نہیں ہوتی ۔ آج ٹیکنالوجی نے تجارت کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ دوری دنوں دن کم ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی ملک کی تجارتی ثقافت میں جتنی بڑھے گی اتنا ہی فائدہ پہنچائے گی۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک سال سے بھی کم وقت میں جی ایس ٹی نے ملک میں تجارت کا طریقہ بدل دیا ہے۔ اگر ٹیکنالوجی نہیں ہوتی تو کیا یہ ممکن ہوتا ۔ نہیں ! آج جی ایس ٹی کی وجہ سے ہی ملک میں بالواسطہ ٹیکس اور اس سے جڑنے والے لوگوں کی توسیع بہت تیزی سے ہو رہی ہے ۔

آزادی کے بعد سے ہمارے ملک میں بالواسطہ ٹیکس نظام سے جہاں صرف 60 لاکھ جڑے ہوئے تھے وہیں جی ایس ٹی کے بعد کے گیارہ مہینوں میں ہی اب تک 54 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے رجسٹریشن کے لئے درخواستیں دی ہیں اور ان میں سے 47 لاکھ سے زیادہ کا اندراج ہو چکا ہے ۔ اس طرح اندراج شدہ لوگوں کی تعداد اب ایک کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے ۔

اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ پروسیس کو آسان کرنے پر کم از کم حکومت ، زیادہ سے زیادہ حکمرانی کی راہ پر چلنے پر نتائج بھی آتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ بھی ترقی کی اصل دھارا سے جڑنے کے لئے قدم بڑھاتے ہیں۔

آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ گذشتہ چار سالوں میں حکومت نے عوام دوست ، ترقی دوست اور سرمایہ کارانہ دوست ماحول بنانے میں مسلسل کوشش کی ہے ۔ تمام عالمی چیلنجوں کے باوجود بھارت کے میکرو اکنامک انڈیکیٹرس مستحکم بنی ہوئی ہیں۔ افراط زر ہو ، مالی خسارہ ہو یا پھر کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس ،ان میں پہلے کی حکومتوں کے مقابلے میں بہتری آئی ہے۔

بھارت آج دنیا کے معاشی نظام کو آگے بڑھانے میں اہم ترین رول ادا کر رہا ہے ۔ ابھی پچھلے ہی سہ ماہی میں ملک کی شرح ترقی نے 7.7 فیصد کے اعداد و شمار کو چھو لیا ہے ۔ پچھلے چار سالوں میں ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔

آج بھارت ایف ڈی آئی کنفیڈینس انڈیکس میں ٹاپ 2 ایمرجنگ مارکیٹ پرفارمرس میں سے ایک ہے ۔ ایز آف ڈوئنگ بزنس کی درجہ بندی میں 142 سے 100 نمبر پر پہنچنا ، لوجسٹکس پر فارمینس انڈیکس میں 19 پوائنٹ کی بہتری ، عالمی مسابقتی عدد اشاریہ میں درجہ بندی 71 سے بہتر ہو کر 39 پر پہنچنا ، عالمی اختراع عدد اشاریہ میں 21 پوائنٹ کا اچھال آنا یہ اسی ویژن کا نتیجہ ہے۔

آپ کو معلوم ضرور ہوگا کہ حال ہی میں بھارت میں دنیا کے سرفہرست پانچ بہترین ٹیکنالوجی ممالک میں بھی اپنی جگہ بنالی ہے۔

لیکن ان مثبت اشاریوں کے ساتھ ہی آگے بہت بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اب آگے کیا؟ ساتھیو! 7 فیصد، 8 فیصد فی شرح ترقی سے آگے بڑھ کر ہمیں ڈبل ڈیجٹ (دو ہندسوں والی) شرح ترقی حاصل کرنے ہدف پر کام کرنا ہے۔ دنیا کی نظریں آج بھارت کو اس نظریہ بھی دیکھ رہی ہے کہ بھارت کتنے سالوں پانچ ٹریلین ڈالر کے کلب میں شامل ہوتا ہے۔

میں مانتا ہوں کہ وزارت کامرس کو، آپ سبھی ذمے دار افسران کو ان ہداف کو ایک چیلنج کی طرح لیناچاہئے۔اقتصادی مورچے پر کی گئی ترقی سیدھے سیدھے ملک کے عام شہری کی زندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔

اس لئے آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جب بھی میں کاروبار میں آسانی ، تجارت کرنے میں آسانی کی بات کرتا ہوں تو ساتھ زندگی میں آسانی کا موضوع بھی ہمیشہ اٹھاتا ہوں۔آج کی آپس میں جڑی (انٹر کنیٹڈ) دنیا میں یہ سبھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

جب بجلی کنکشن لینا آسان ہوتا ہے، تعمیراتی کاموں کو لے کر منظور جلد ہی مل جاتی ہے، جب صنعتوں کو کمپنیوں کو عملوں سے(پروسیس) سے الجھنا نہیں ہوتا، تو اس کا فائدہ عام آدمی تک بھی پہنچتا ہے۔اس لئے آپ لوگوں کے لئے بھی ایک چیلنج ہے کہ اب بھی جو الگ الگ سیکٹروں میں بوٹل نیک بچے ہوئے ہیں۔ جہاں پر سیلوس میں کام ہورہا ہے، انہیں جتنا جلدی ہوسکے دور کیاجائے۔

خاص طور پر انفراسیکٹر میں جو دقتیں آتی ہیں،اعلی ٹرانزیکشن کوسٹ ہوتی ہے، مینو فیکچرنگ بڑھانے میں جو باتیں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں، خدمات کا نامناسب تنوع پیدا کرتی ہے۔ انہیں روکا جانا ، سدھارا جانا بہت ضروری ہے۔

مجھے خوشی ہے ابھی حال ہی میں محکمہ کامرس نے ملک کے لوجسٹکس سیکٹر کی مربوط ترقی کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ اقدامات ملک میں تجارت کے ماحول کو سدھارنے میں بہت بڑا رول نبھانے والے ہیں۔

مربوط لوجسٹکس عملی منصوبہ آج وقت کی مانگ ہے اور نیو انڈیا کی ضرورت بھی ہے۔ پالیسی میں بدلاؤ کرکے جو اب پروسیجر س ہیں انہیں سدھار کر آج کی جدید تکنیک کا استعمال بڑھا کر اس ہدف کو حاصل کیاجاسکتا ہے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ محکمہ کامرس اس سمت میں آن لائن پورٹل پر بھی کام کررہا ہے۔ عالمی تجارت میں بھارت کی موجودگی کو اور مضبوط کرنے کے لئے، نئی اونچائی پر پہنچانے کے لئے سبھی وزارتوں اور سبھی ریاستوں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنابھی ضروری ہے۔ جس کو ہم کہتے ہیں‘‘ہول آف گورنمنٹ اپروچ’’ اسے اپنائے جانے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی ایک اچھا قدم ہے کہ کونسل فار ٹریڈ ڈیولپمنٹ اینڈ پروموشن ریاستی سرکاروں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں بین الاقوامی تجارت کو بڑھاوا دینے والا ماحول بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔ بھارت کے برآمدات کو بڑھانا ہے تو ریاستوں کو سرگرم شراکت دار بن کر آگے بڑھنا ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ریاستوں میں ریاستی سطح کی برآمداتی حکمت عملی کی تشکیل کرکے، انہیں قومی تجارتی پالیسی کے ساتھ تال میل کرتے ہوئے معاشی تعاون کرتے ہوئے، جتنے بھی شراکت دار ہے انہیں ساتھ لیتے ہوئے، اس سمت میں جتنی تیزی سے آگے بڑھیں گے اتنا ہی ملک کا فائدہ ہوگا۔

بین الاقوامی بازار میں بھارت کی موجودگی کو بڑھانے کے لئے ہماری روایتی مصنوعات اور بازار ہیں، انہیں بنائے رکھتے ہوئے نئی مصنوعات اور نئے بازاروں پر دھیان دیا جانا بھی ضروری ہے۔ ہمیں اندرون ملک بہت سی چیلنجوں کے ساتھ ہی ملک کے باہر کی صورت حال کے لئے بھی خود کو اور مضبوط کرنا ہوگا۔

جب ہم قلیل المدتی ترقیاتی فوائد اور طویل المدتی استحکام کے درمیان ایک توازن بنا کر چلیں گے تو اس کے نتیجے بھی دکھائی دیں گے۔

گزشتہ سال دسمبر میں ، میں بیرونی تجارتی پالیسی سے جڑا جووسط المدتی جائزہ کیاگیا تھا، اسے بھی میں بہت مثبت پہل مانتا ہوں۔ مراعات بڑھا کر، ایم ایس این ای شعبے کی مدد( ہینڈ ہولڈنگ) کرکےد رآمد کو بڑھانے کے لئے کی گئی ہر تبدیلی قابل تحسین ہے۔ یہ سیدھے سیدھے ملک کی روزگار ضرورتوں سے بھی منسلک ہوا ہے۔

ایک اور اہم موضوع ہے۔۔ پروڈکٹ کی کوالٹی۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2014 سے میں نے 15 اگست کو لال قلعہ سے زیرو ڈیفیکٹ، زیرو ایفیکٹ کی اپیل کی تھی۔ کاروبار چھوٹا ہو یا بڑا ہر مینو فیکچرر کو اس بات کے لئے ترغیب دی جانی چاہئے کہ وہ ایسی مصنوعات بنائے ،جس میں زیرو ڈیفیکٹ ہو، کوئی ہمارےدرآمداتی اشیاء کو واپس نہ بھیجیں۔ا س کے ساتھ ہی میں نے زیرو ایفیکٹ کی بات کی تھی، یعنی ہماری مصنوعات ماحولیات پر کوئی منفی اثر نہ ڈالیں۔

مصنوعات کی معیار کو لے کر یہ بیداری میک ان انڈیا کی چمک بڑھانے اور نیو انڈیا کی پہچان کو مضبوط کرنے کا کام کریں گی۔

آپ بھی جب دیکھتے ہوں گے کہ جہاں 2014 میں ہمارے ملک میں صرف دو موبائل مینو فیکچرنگ کمپنیاں تھی، وہ اب بڑھ کر 120 ہوگئی ہیں۔ بہت ہی کم قیمت پر عالمی سطح کے معیاری مصنوعات کو بہتر بنایا جارہا ہے، تو خود کو پر فخر محسوس کرتے ہوں گے۔

یہ وقت عزم کرنے کا ہے، چیلنجوں کو قبول کرنے کا ہے۔

کیا محکمہ کامرس یہ عزم لے سکتا ہے کہ دنیا کی کل درآمدات میں بھارت کے تعاون کو بڑھا کر دوگنا کریں؟ ابھی کے 1.6 فیصد سے بڑھا کر کم سے کم 3.4 فیصد تک لے جائیں۔ یہ عالمی معیشت میں جی ڈی پی کے بھارت کے تعاون کے برابر ہوگا۔ اس سے ملک میں روزگار کے اور نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ہماری فی کس آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔

اس کے لئے سرکار کے سبھی محکمے اور یہاں موجود ایکسپورٹ پروموشن کے سبھی اراکین کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔

اس کے علاوہ ایک اور عزم کیاجاسکتا ہے۔۔ امپورٹ کے تئیں۔ کیا ہم کچھ چنے ہوئے میدانوں میں برآمد پر اپنے انحصار کو کم کرسکتے ہیں؟ چاہے وہ انرجی امپورٹ ہو، الیکٹرانک گڈ س کی برآمد ہو، دفاعی مینوفیکچرنگ کا میدان ہو، یا میڈیکل مشینری کا میدان ہو۔ میک ان انڈیا کے ذریعہ یہ ممکن ہے۔

گھریلو مینو فیکچرنگ کے ذریعہ برآمد میں دس فیصد کی کمی ملک میں ساڑھے تین لاکھ کروڑ کی آمدنی بڑھا سکتی ہے۔ یہ ملک کی جی ڈی پی میں اضافے کو دو ہندسوں میں لے جانے میں ایک موثر اعلی کار ثابت ہوسکتا ہے۔

میں آپ کو الیکٹرانک گڈ س کی مینوفیکچرنگ کی ہی مثال دیناچاہتا ہوں۔ کیا یہ آپ سبھی لوگوں کے لئے ایک چیلنج نہیں ہے کہ ملک میں الیکٹرانک گڈ س کی کل مانگ 65 فیصد ہمیں باہر سے خریدنا پڑتی ہے۔

جیسا موبائل فون کے میدان میں ہوا ہے، ویسا ہی کیاآپ اس چیلنج کو قبو ل کرکے، ملک کو الیکٹرانک گڈ س کی مینو فیکچرنگ میں خودکفیل بنا سکتے ہیں؟

آپ اس سے بھی واقف ہے کہ برآمد پر انحصار کو کم کرنے کی سمت میں ایک بہت اہم قدم پچھلے سال اٹھایا گیا ہے۔ سرکاری خریداری(پریفرینس ٹو میک ان انڈیا)احکام کے ذریعہ حکومت کے تمام محکموں اور اداروں میں خریدی جارہی اشیاء اور خدمات کو گھریلو وسیلے سے خریدنے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ اس احکام کو پوری سنجیدگی کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔

اس کے لئے آپ سبھی لوگوں کو حکومت کے سبھی اداروں کو اپنےنگراں نظام کو اس احکام کی تعمیل کے لئے پختہ کرناہوگا۔

گھریلو پیداوار کو بڑھانے کےلئے حکومت نے کئی اور اہم فیصلے بھی لئے ہیں وہ چاہے ریگولیٹری فریم ورک ہو ، ریگولیٹری فریم ورک میں آسانی پیدا کرنے کی بات ہو، سرمایہ کار دوست پالیسی ہو، بنیادی ڈھانچے اور لوجسٹکس پر زور ہو، یہ سبھی کیا جارہا ہے تاکہ ہندوستان خودکفیل بنیں،21 ویں صدی کے صنعتی انقلاب میں ایک قدم بھی پیچھے نہ رہ جائے۔

میک ان انڈیا کے ساتھ بڑھتا ہوا یہ فخروانڑجیہ بھون کابھی فخر بڑھا ئے۔ میری یہ تمنا ہے۔

یہاں آنے سے پہلے ایک اور مبارک کام آپ لوگوں نے مجھ سے کرایا ہے۔ اس احاطے میں مولسری یا بکل کے پودے کو لگانے کا اعزاز مجھے ملا ہے۔مولسری بہت قدیم بہت قدر ہے، یہ بہت سی ادویاتی خوبیوں سے بھرپور ہے اور اس کا درخت سالوں سال سایہ دیتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کے علاوہ بھی یہاں تقریباً ہزار پیڑ اور لگائے جانے کا منصوبہ ہے۔

نئے بننے والے وانڑجیہ بھون کا، فطرت کے ساتھ یہ تال میل ، اس میں کام کرنے والوں لوگوں کو بھی چاق وچوبند رکھے گا، انہیں راحت دے گا۔

ماحولیات کے لئے مناسب لیکن جدید تکنیک لیس ماحولیات میں آپ سبھی نیو انڈیا کے لئے بہترین کارکردگی دیں گے، بہترین کوشش کریں گے، اسی خواہش کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

Image result for images -  central information commission
نئی دہلی، ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جب سینٹرل انفارمیشن کمیشن( سی آئی سی) کے ذریعہ معاملے میں فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی اپیل کنندہ/ شکایت کنندہ کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اگلی کارروائی کرنے کے سلسلے میں کمیشن کی ہمیشہ توجہ جاتی رہتی ہے۔

سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی) نے مورخہ 5 جون2018 منعقدہ اپنی میٹنگ میں اس معاملے میں سنجیدگی سے غور کیا اور فیصلہ کیا کہ اپیل کنندہ/ شکایت ہنندہ کی وفات کی صورت میں بھی معاملے کی سماعت کمیشن میں معمول کے مطابق ہوں گی جبکہ دوسرے شکایت کنندہ/ اپیل کنندہ اور فیصلے کی جان کاری کمیشن کی ویب سائٹ پر فراہم کردی جائے گی۔اس سلسلے میں احکامات 18 جون2018 کو جاری کردیئے گئے ہیں۔ اسی طرح سے ان احکامات کو کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری کردیا گیا ہے۔

Image result for images - yoga
نئی دہلی، ناسک کے شری وشواس منڈالک اور ممبئی کے دی یوگا انسٹی ٹیوٹ نے سال 2018 میں یوگا کے فروغ اور ترقی میں امتیازی تعاون کے وزیراعظم کا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ ان کا انتخاب مختلف زمروں کے تحت موصول ہونے والی 186 نامزدگیوں میں سے کیا گیا ہے۔

21 جون 2016 کو یوگا کے دوسرے بین الاقوامی دن کے موقع پر وزیراعظم جناب نریندر مودی نے چنڈی گڑھ میں یوگا کے فروغ اور ترقی کے لئے اس ایوارڈ کو شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس ایوارڈ کے لئے آیوش کی وزارت نے رہنما خطوط تیار کئے ہیں۔ اس کے لئے دو کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں جن میں اسکریننگ کمیٹی اور تجزیہ کمیٹی (جیوری) شامل ہیں تاکہ ایوارڈ کے انتخاب کے لئے شفاف طریقے سے عمل کیا جاسکے۔ ایوارڈ کے لئے نامزدگیاں اشتہارات کے ذریعے مدعو کی گئی تھیں۔

آیوش کے سکریٹری کے زیر صدارت اسکریننگ کمیٹی نے 186 درخواستوں میں سے انتخاب کیا جس کے بعد کابینہ کے سکریٹری کی صدارت میں جیوری نے ، جس میں وزیراعظم کے ایڈیشنل پرنسپل سکریٹری ، خارجہ سکریٹری ، آیوش کے سکریٹری کے علاوہ ڈاکٹر ایچ آر نگیندر (ممبر) ، اوپی تیواری (ممبر) ڈاکٹر بی این گنگادھر (ممبر) شامل ہیں، اسکریننگ کمیٹی کی سفارشات کی جانچ کی اور اداروں اور افراد کے ذریعے کئے جانے والے تعاون کا تجزیہ کرنے کے بعد قطعی فہرست تیار کی۔

تمام متعلقہ حقائق اور دیگر معلومات پر غور کرنے کے بعد جیوری نے سفارش کی کہ رواں سال کے لئے یہ ایوارڈ جناب وشواس منڈالک (قومی سطح کا انفرادی زمرہ) اور ممبئی کے دی یوگا انسٹی ٹیوٹ (قومی سطح پر ادارے کے زمرے میں) کو ایوارڈ دیا جائے۔

حکومت ہند نے ناسک کے جناب وشواس منڈالک اور ممبئی کے دی یوگا انسٹی ٹیوٹ کو سال 2018 میں یوگا کے فروغ وترقی کے لئے ممتاز تعاون دینے پر وزیراعظم کے ایوارڈ سے نوازے جانے کی سفارش قبول کرلی ہے۔ سال 2017 کے لئے یہ ایوارڈ پونے کے رمامنی اینگر میموریل یوگا انسٹی ٹیوٹ پونے نے حاصل کیا تھا۔

جناب وشواس منڈالک نے پتنجلی اور ہاتھ یوگا ، بھگوت گیتا اور اپنیشد کے علاوہ پچھلے 55 برسوں کے دوران قدیم مخطوطات کا مطالعہ اور تحقیق کرنے کے بعد یوگا کا گہرا علم حاصل کیا ہے۔ انہوں نے 1978 میں یوگا کے ودیادھن کی پہلی برانچ قائم کی اور بھارت میں اس کے 160 مرکز ہیں۔ انہوں نے 1983 میں یوگا ودیا گروکُل نامی یوگا ادارہ قائم کیا ۔ 1994 میں انہوں نے بھارت کے دور دراز علاقوں میں یوگا کو مشتہر کرنے اور فروغ دینے کے لئے یوگا چیتنیہ سیوا پرتشٹھان قائم کیا۔ انہوں نے مختلف تربیتی کورس کے لئے 42 کتابیں لکھی ہیں اور 300 سی ڈی تیار کی ہیں۔

1918 میں جناب یوگیندر جی کے ذریعے قائم کئے گئے دی یوگا انسٹی ٹیوٹ نے سماج کی خدمت کرتے ہوئے 100 سال مکمل کرلئے ہیں جس میں 10 ملین لوگوں کو یوگا سکھایا گیا ہے۔ اس ادارے نے 50 ہزار سے زیادہ یوگا ٹیچر تیار کئے ہیں جبکہ 50 سے زیادہ کتابیں بھی تیار کی گئی ہیں۔ یوگا انسٹی ٹیوٹ 10 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ملک اور بیرون ملک میں سماج کے مختلف طبقوں کی خدمت کرتا رہا ہے۔

ایوارڈ جیتنے والوں کو ایک ٹرافی ، سرٹیفکٹ اور 25 لاکھ روپے نقد انعام سے نوازا جائے گا۔

Image result for images - academic educationنئی دہلی، سینٹر فار یونائٹیڈ نیشنز پیس کیپنگ(سی یو این پی کے) یعنی مرکز برائے اقوام متحدہ قیام امن ، ہند اور گلوبل سینٹر فار دی ریسپونسبلٹی ٹو پروٹیکٹ نے مشترکہ طورپر بطور تجربہ شہریوں کے تحفظ اور تحفظ کی ذمہ داری (آر 2 پی) سے متعلق تربیت دہندگان کی تربیت (ٹی او ٹی)کے کورس کا آغاز کیا ہے۔ یہ پروگرام مانک شا سینٹر، نئی دہلی، ہند میں 18 سے 22 جون تک چلے گا۔

اس پروگرام میں 30 افسر شرکت کررہے ہیں، جن میں 8 دوستانہ تعلقات رکھنے والے بیرونی ممالک سے ہیں۔افتتاحی تقریب میں گلوبل سینٹر فار ریسپونسبلٹی ٹو پروٹیکٹ کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر محترمہ سویتا پانڈوے نے سیٹنگ دی کنٹکسٹ کی کارروائی انجام دی، جس کے بعد اسٹاف ڈیوٹیز کے ڈائریکٹر جنرل ، لیفٹیننٹ جنرل اجے کمار شرما نے افتتاحی خطبہ دیا۔

یہ کورس اقوام متحدہ کی قیام امن کی کارروائیوں میں اپنے فوجیوں کو بھیج کر تعاون دینے والے سرگرم ملکوں کے اوسط درجے کے فوجی اہلکاروں کے لئے تیار کیا گیا ہے۔اس ٹریننگ کا مقصد تجربہ کار ٹرینر تیار کرنا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فی الحال متعلقہ قیام امن ٹریننگ سینٹرز پر تعیناتی سے پہلے کی تربیت دے رہے ہیں یا وہ اہلکار ہیں، جنہوں نے حال میں اقوام متحدہ کے قیام امن سے متعلق مشنوں کا تجربہ حاصل کیا ہے اور جو قیام امن سے متعلق اداروں میں ٹریننگ کی ذمہ داری نبھاسکتے ہیں۔اس میں وہ افسران بھی شامل ہیں، جن کی نشاندہی پی او سی مینڈٹ کے ذریعے قیام امن سے متعلق مشنوں میں تعیناتی کے لئے کی گئی ہے۔

سدھیندر کلکرنی
Image result for images -- rahul gandhi

ہندوستان میں ہر 5 سال بعد ہونے والے عام انتخابات کا وقت آگیا ہے۔ مودی حکومت کے 4 سال گزر چکے ہیں اور لوگوں کو حقیقت کا اندازہ ہونے لگا ہے۔ ملک بھر میں تبدیلی کی خواہش تیزی سے تو نہیں، ہاں مگر رفتہ رفتہ ضرورت پروان چڑھ رہی ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر تبدیلی لا سکتی ہے؟ جواب ابھی ’ہاں‘ میں تو نہیں ہے لیکن ’ہو سکتا ہے‘ میں ضرور ہے۔

ملک جب 2019 کے انتخابات کے دہانے پر ہے تو کانگریس اور اس کے نوجوان صدر کے سامنے کیا چیلنجز اور مواقع ہیں!

سب سے پہلے بات کرتے ہیں چیلنجوں کی۔ سیاست میں سبھی کو نجی خواہشات کو ترک کر دینا چاہئے اور زمینی حقیقت سے جڑے رہنا چاہئے۔ لوگوں کو غور سے سننا چاہئے۔ حریفوں کی حرکتوں کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اپنی تنظیم کی جیت کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔

انتہائی خود اعتماد، کامیابی میں اتنی ہی رکاوٹ پیدا کرتا ہے جتنا خود اعتماد کی کمی اور خاص طور پر جب حریف مضبوط ہو تو کاوشوں کی کمی اور بہت زیادتی نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔

اب بات آتی ہے کہ مواقع کیا ہیں۔ یہ ایک نصف موقع ہے۔ ہندوستان کے عوام بی جے پی کے اس طرح حامی نہیں رہ گئے ہیں جتنے وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی 5 سالہ حکومت کے آخری سال میں تھے۔ لیکن اس وقت وہ کانگریس کے اتنے حامی نہیں بنے ہیں جتنے 2013 میں بی جے پی کے بن چکے تھے۔ لب و لباب یہ ہے کہ بی جے پی کی مقبولیت کم ضرور ہوئی ہے لیکن کانگریس کی مقبولیت میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ مودی حکومت کے تئیں لوگوں میں عدم اعتماد بڑھ رہا ہے لیکن انہیں متبادل نظر نہیں آ رہا۔ حقیقتاً فی الحال کوئی متبادل ہے بھی نہیں۔

اگلے سال عام انتخابات کے نتائج اس بات پر طے ہوں گے کہ کانگریس اور اس کے اتحادی بی جے پی سے ناراض ووٹروں کو کس حد تک اپنی طرف مائل کر پاتے ہیں۔ ایک اور فرق اس انتخابات میں فیصلہ کن ہونے جا رہا ہے اور وہ ہے راہل گاندھی اور نریندر مودی کی مقبولیت کا فرق۔ مودی کی مقبولیت 2014 کے مقابلہ کم تو ضرورت ہوئی ہے لیکن وہ ابھی کوئی زیادہ بڑا فرق نہیں بنا پائی ہے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کا کوئی رہنما نہیں ہے اور وزیر اعظم عہدے کا کوئی امیدوار بھی نہیں ہے جس کی مقبولیت کوئی فرق پیدا کر سکے۔

ایک اور بات 2019 میں اثر انداز ہوگی اور وہ یہ کہ مودی عام انتخابات کی تشہیر کو امریکہ کے صدارتی انتخابات کی طرز پر لڑیں گے اور ایک سوچی سمجھی تحریک چھیڑ دیں گے۔ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو اس کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ ووٹروں کو ایک مستحکم حکومت چاہئے جو اپنی مدت کو پوری کر سکے اور ایک مضبوط قیادت فراہم کر سکے۔ عوام ویسی حکومتوں کو دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتے جیسی وہ چرن سنگھ، وی پی سنگھ، دیوگوڑا اور آئی کے گجرال کے وقت دیکھ چکے ہیں۔ غیر بی جے پی جماعتوں کو قیادت کا سوال جلد از جلد حل کرنا ہوگا۔

ایک اور چیلنج یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کی حریف جماعتوں کے بیچ وسائل کا فرق بہت بڑا ہے اور کون کہتا ہے کہ چناوی عمل میں گڑبڑی نہیں ہو سکتی! میڈیا کو سادھنے کے لئے پیسے کا استعمال کیا جائے گا اور طے شدہ علاقوں میں ووٹروں کو راغب کرنے کے لئے پیسے کے ساتھ ساتھ تقسیم کاری کے مدوں کو بھی آزمایا جائے گا۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ 2019 کے دروزے کانگریس اور اس کے رہنماؤں کے لئے بند ہو چکے ہیں۔ سیاست میں ایک سال کی مدت طویل ہوتی ہے اور اس دوران کانگریس اور اس کے اتحادی دھارے کو اپنے حق میں کر سکتے ہیں۔ یہ نصف موقع ہے لیکن اسے پورے موقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے چار چیزوں کی ضرورت ہوگی:

پہلا کانگریس کو مدھیہ پردیش، راجستھان، اور چھتیس گڑھ کے آنے والے اہم اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کو ہرانا ہوگا اور وہ ایسا کر سکتی ہے۔ اس سے کانگریس کا حوصلہ تو بڑھے گا ہی ساتھ ہی 2019 کے انتخابات کے لئے بی جے پی خیمہ میں مایوسی چھا جائے گی۔ اعلی قیادت سے بوتھ لیول تک کانگریس میں مضبوط تنظیمی اتحاد پیدا کرنا بے بے حد ضروری ہے تاکہ پارٹی کو ان تینوں میں سے کسی بھی صوبے میں ہار کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

دوسرا، ان ریاستوں میں جہاں کانگریس اور بی جے پی کے بیچ سیدھا مقابلہ نہیں ہے اور جہاں کانگریس کا دارومدار اتحادی جماعتوں پر ہوگا (یوپی، بہار، مہاراشٹر وغیرہ) وہاں پارٹی کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہر پارٹی کارکن تک اتحاد کا احساس پیدا کیا جائے۔ اور ایک سال اس کام کے لئے کافی وقت ہے۔ اتحاد کمزور ہوگا تو بی جے پی فائدہ اٹھائے گی۔ اتحاد کو اچھے نتائج تبھی حاصل ہو سکتے ہیں جب نچلی سطح کے کارکنان اعلی قیادت کے ہر فیصلے کو قبول کریں۔ بی جے پی کی کسی بھی گڑبڑی کو یہی کارکنان روک سکتے ہیں۔

تیسرا، ابھی تک کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتیں مودی حکومت پر اس کی ناکامیوں کو لے کر ہی حملہ کر رہے ہیں۔ در اصل چناوی مہم کے دوران منفی تشہیر کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ ایک قابل اعتماد متبادل کے طور پر ابھرنے کے لئے حزب اختلاف کو ان مسائل کا حل بھی سامنے رکھنا ہوگا جن کی وجہ سے وزیر اعظم اور حزب اقتدار تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔

آخری اور سب سے اہم سوال۔ مودی کوآڑے ہاتھوں لینے کے لئے بی جے پی مخالف اتحاد کے پاس ایک قابل اعتماد، مضبوط اور پر کشش وزیر اعظم کا امیدوار ہونا چاہئے۔ اور وہ صرف کانگریس دے سکتی ہے۔ اس لئے راہل گاندھی کو دوڑ کے آخری مرحلہ میں تیز اور بہتر طریقہ سے دوڑنا ہوگا اور امید سے بھرا ایسا ایجنڈا پیش کرنا ہوگا جو نوجوانوں سمیت ہر طبقہ کو اپنی طرف مائل کرے۔ راہل گاندھی کو اس تبدیلی کا چہرہ بننا ہوگا جس کی امید 2019 کے لئے ہندوستان کر رہا ہے۔

 قومی آواز سے ](مضمون نگار سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے پی ایم او میں مشیر کے عہدے پر فائز تھے )

Image result for images - militantsنئی دہلی۔ حکومت ہند نے فیصلہ کیا تھا کہ رمضان کے مبارک مہینے میں حفاظتی دستوں کے ذریعے جموں و کشمیر میں حملے کی کارروائی نہیں کی جائیں گی۔ یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے امن دوست عوام کے حق میں کیا گیا تھا، تاکہ وہ رمضان ایک پرسکون ماحول میں منا سکیں۔

مرکزی حکومت نے حفاظتی دستوں کے رول کی تعریف کی ہے جنہوں نے دہشت گردوں کی تشدد کی کارروائی جاری رہنے کے باوجود اس فیصلے کو مکمل طور پر نافذ کیا، تاکہ مسلمان بھائی بہن رمضان پرسکون طریقے سے منا سکیں۔ ان کے اس سلوک کی تعریف جموں و کشمیر سمیت پورے ملک کے لوگوں نے کی ہے اور اس سے عام شہریوں کو کافی سہولت ملی ہے۔

یہ امید کی گئی تھی کہ حکومت ہند کی اس مثبت پہل کو کامیاب بنانے میں سبھی تعاون کریں گے۔ لیکن ایک طرف حفاظتی دستوں نے جہاں مثال ضبط و تحمل کا ثبوت دیا، وہیں دوسری جانب دہشت گردوں نے اپنے حملے جاری رکھے جس سے عام شہریوں اور حفاظتی دستوں کے لوگوں کی جانیں گئیں اور کئی لوگ زخمی بھی ہوئے۔

حفاظتی دستوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ پہلے کی طرح ایسی سبھی ضروری کارروائیاں کریں جن سے کہ دہشت گردوں کو حملہ کرنے اور تشدد کے واقعات کو انجام دینے سے روکا جا سکے اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی جا سکے۔ حکومت ہند کی کوشش جاری رہیں گے کہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی اور تشدد سے پاک ماحول بن سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سبھی امن پسند لوگ یکجا ہوکر دہشت گردوں کو الگ تھلگ کر دیں اور جن لوگوں کو گمراہ کر غلط راستے پر لے جایا گیا ہے، انہیں امن کے راستے پر واپس لانے کے لیے راغب کریں۔


نئی دہلی، مرکزی وزیر مملکت برائے سیاحت کے جے الفانس نے نئی دہلی میں نئی انکریڈیبل انڈیا ویب سائٹ لانچ کی ۔ اس نئی ویب سائٹ میں ہندوستان کو ایک فائدہ مند منزل ارد گرد گھومنے کے بڑے اہم تجربات مثلاََ روحانیت ،وراثت ، خواطر پسندی ،ثقافت ، یوگا ، تندرستی اورمزید موضوعات شامل ہیں ۔ اس ویب سائٹ میں ہندوستان کو بیرونی سیاحوں میں ضروردیکھے جانے کی منزل کے طور پر پیش کرنے کی غرض سے بین الاقوامی معیارات کی ٹکنالوجی اوررجحانات کی تخلیق کی گئی ہے ۔ 


نئے پلیٹ فار م اور ٹکنالوجی کے ساتھ اس انتہائی فعال اورموثر ویب سائٹ کا اجرا کرتے ہوئے جناب کے جے الفانس نے کہا کہ یہ ویب سائٹ دنیا بھر میں بہترین ویب سائٹ ثابت ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ نئی ویب سائٹ انتہائی موثر ہے ، اس لئے اس میں تمام مطلوبہ مواد موجود ہوں گے اور اس مواد اور متن کی بروقت تازہ کاری کی جاتی رہے گی۔ وزیر موصوف نے اس موقع پر ٹیک مہندرا ، گوگل ، ایڈوب اور این آئی سی کی ٹیم جیسے دعوے دارو ں کا شکریہ بھی اداکیا کہ یہ تمام دعوے دار اس نئی ویب سائٹ کے فروغ کے عمل میں شامل رہے ہیں۔ 

نئی انکریڈیبل انڈیا ویب سائٹ لانچ کئے جانے کی تقریب میں موجود حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے محکمہ سیاحت کی سکریٹری محترمہ رشمی ورما نے کہا کہ یہ نئی ویب سائٹ سیاح کو تمام متبادل کا مشورہ دے گی اور کسی بھی موقع پر سوال پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ نئی ویب سائٹ دنیا بھر کو ہندوستان کے تمام پر اسرار مقامات کی معلومات فراہم کرائے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ روس اورچین میں پہلے سے ہی دیکھی جانے لگی ہے ۔

اس ویب سائٹ میں متعدد فائدے مند مفید مطلب خطوط شامل ہیں ۔ اس کا مقصد اسے مزید فعال بنانا ہے تاکہ اس ویب سائٹ کو دیکھنے والے سیاحوں کو جملہ معلومات گہرائی کے ساتھ فراہم ہوسکیں۔ ایڈوب ،سولیوشن سویٹ کی مدد کے ساتھ اب وزارت سیاحت دنیا بھر کے ویب اورسوشل چینلوں کے سیاحوں کے ساتھ موثر طریقے سے رابطہ کاری کرسکے گی اورسیاحوںکو ان کےسفر اور ان کے مفاد کے بارے میں حقیقی ذاتی تجربات کی تفصیل فراہم کراسکے گی۔ اس کے ساتھ ہی وزارت سیاحت گوگل آر ٹس اینڈ کلچر کی شراکتداری کے ساتھ خوبصورت تصویروں کی ایک آن لائن سیریز بھی پیش کی ہے جو صارف کو ہندوستان کی شاندار غیر معمولی وراثت جشنوں کی ماہیت ،روحانیت ، میوزیم اور مخاطب پسندی کو اس نئی ویب سائٹ پر دستیاب کرائے گی۔

نئی انکریڈیبل انڈیا ویب سائٹ کی خاص خاص باتیں :
صارف دوست ڈیزائن : اس ویب سائٹ کو اس خوبصورتی کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ بڑی تعداد میں ضروری معلومات بآسانی حاصل ہوسکیں۔
پُر معلومات مواد سے آراستہ : اس ویب سائٹ سے سیاحت کی منصوبہ بندی کرنے سے قبل بڑی تعداد میں پرکشش مقامات اورتجربات حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔
انفرادی توجہ : اس ویب سائٹ میں ایڈوب ایکسپیرئینس کو رابطہ کار بناکر مختلف صارفین کی شناخت اور ذاتی تجربات کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔
موبائل ریڈی : موبائل پر آسانی سے معلومات دستیاب کرانے کی پوری طرح فعال ویب سائٹ ۔
موثر تلاش وتحقیق : اس ویب سائٹ سے سیاح تیزی کےساتھ اپنے پسندید ہ مقامات سیاحت کےتجربات اورتفصیلات آسانی سے حاصل کرسکیں گے ۔
صارف کے لئے مفید مطلب مواد : ساتھی مسافروں کی حالات سفر کی کہانیوں کے تجربات کے ذریعہ ہندوستان کے بارے میں مفید مطلب معلومات کی تحصیل ۔

یہ ویب سائٹ ٹیک مہندرا نے تیار کی ہے اور اسے این آئی سی کلاؤڈ کے ذریعہ بااختیار بنایا گیا ہے ۔ مزید برآں یہ ویب سائٹ نئے ڈیزائن اور مرکزی خیال اور وقتاََ فوقتاََ تازہ کاری کے ساتھ ہندی اورمعروف بین الاقوامی زبانوں میں دستیاب ہوگی۔

ویب سائٹ کا لنک : https://www.incredibleindia.org/

Image result for images - national tribal museumنئی دہلی، قبائلی امور کی وزارت کی جانب سے دہلی میں قومی سطح کے قبائلی تحقیقی انسٹی ٹیو ٹ کے ساتھ ایک قومی قبائلی موزیم قائم کئے جانے کی تجویز ہے۔ قبائلی امور کی وزارت کی کامیابیوں اور اقدامات کے چار سال پورا ہونے پر میڈیا کے افراد سے بات کرتے ہوئے قبائلی امور کے وزیر جوئل اورم نے کہا کہ میوزیم میں مالا مال قبائلی ثقافت اور وراثت کو اجاگر کیا جائے گا اور اس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔میوزیم اور قومی سطح کے قبائلی تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی تجویز کو نیتی آیوگ کو بھیج دیا گیا ہے۔

 اس موقع پر قبائل امور کے وزیر مملکت جسونت سنگھ بھابھور اور قبائلی امور کے ہی وزیر مملکت سدرشن بھگت بھی موجود تھے۔ 15 اگست 2016 کو یوم آزادی کی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جو اعلان کیا تھا اس کے مطابق قبائلی امور کی وزارت قومی اہمیت کے حامل دو سینٹرل جیل ، نرمدا گجرات اور برسا منڈا سینٹرل جیل رانچی سمیت قبائلی مجاہدین آزادی کے چھ یادگاریں قائم کررہی ہیں۔

وزیر موصوف نے 2017ء میں کاروباری ضابطوں کو ایلوکیٹ کرنے میں ترامیم کے بارے میں بات چیت کی، جہاں قبائلی امور کی وزارت کو مرکزی وزارتوں کے ایس ٹی سی فنڈ کی نگرانی کے لئے اختیار دیا گیاہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ درج فہرست قبائل حصے کے تحت مختلف وزارتوں اور محکموں کے لئے فنڈ مختص کئے گئے ہیں۔ ان فنڈز میں گزشتہ چار سال کے دوران 94 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ 15-2014 میں 19437 کروڑ روپے تھا، جو 19-2018 میں بڑھ کر 37803 کروڑ روپے ہوگیا۔

جوئل اورم نے انکشاف کیا کہ ایک لویہ ماڈل ریزیڈینشیل اسکولز کے طلباء مقابلہ جاتی امتحانات میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ رواں سال میں ان اسکولوں کے 146 طلباء نے این ای ای ٹی کا امتحان پاس کیا اور 253 طلباء نے جے ای ای مین امتحان پاس کیا اور 8 نے سی ایل اے ٹی کلیئر کیا۔ وزیر موصوف نے کھوکھو ، کراٹے، بیڈ منٹن، والی بال اور باسکیٹ بال سمیت مختلف کھیلوں میں ایک لویہ ماڈل ریزیڈینشیل اسکولوں کے طلباء کے کارناموں کو بھی اجاگر کیا۔ وزارت دسمبر 2018ء میں قومی سطح پر ایک لویہ ماڈل ریزیڈینشیل اسکولز اسپورٹس مقابلے کرانے کا بھی منصوبہ بنارہی ہے۔

وزارت نے آشرم اسکولوں کے قیام میں ریاستوں کو مالی امداد بھی دی ہے۔ اب تک وزارت نے تقریباً 115550سیٹس کی گنجائش والے 1205 آشرم اسکولوں کے قیام کے لئے فنڈ فراہم کیا ہے۔ وزیر موصوف نے مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کے آشرم اسکولوں کے طلباء کی طرف سے پہاڑ کی چوٹی یعنی ماؤنٹ ایوریسٹ سر کرنے کی مہم کو بھی اجاگر کیا۔

وزیر موصوف کی جانب سے دیگر اہم کامیابیوں کو بھی اجاگر کیا گیا۔گزشتہ چار سالوں میں 5405 کروڑ روپے مالیت کی اسکالر شپ تقسیم کی گئی۔جس سے پری پوسٹ میٹرک اسکالر شپ کے تحت ہر سال تقریباً 30 لاکھ درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے طلباء کو فائدہ پہنچا۔ پوسٹ گریجویٹ فیلو شپ اسکیم کا نفاذ یو جی سی سے لے لیا گیا ہے اور آن لائن اور ڈی بی ٹی شکایت کی گئی ہے۔نیشنل اووسیز اسکالر شپ اسکیم کوطالب علم دوست بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کئے گئے ٹھوس ترقیاتی کام کے ذریعے بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ قبائلی ضلعوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔

سیکریٹری محترمہ لینا نائر نے کہا کہ نیتی آیوگ کے ذریعے نشان زد کئے گئے 115 متمنی ضلعوں میں سے قبائلی امو رکی وزارت 40 قبائلی اکثریت والے ضلعوں پر توجہ مرکوز کررہی ہے۔ محترمہ لینا نے اس سال وزیر اعظم کی جانب سے شروع کئے گئے ون دھن یوجنا کو بھی اجاگر کیا، جس کا مقصد قبائلیوں کے روزی روٹی فراہم کرنا ہے۔ ملک بھر میں مختلف قبائلی ضلعوں میں ون دھن وکاس کیندر قائم کئے جارہے ہیں۔

ٹرائی فیڈ کے ایم ڈی پرویر کرشنا نے بتایا کہ ٹرائی فیڈ نے 18-2017 میں 20 کروڑ روپے کا فروخت کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ فروخت کا یہ ریکارڈ 11.37 کروڑ روپے تھا ۔انہوں نے ای کامرس پورٹل اور ایم ٹرائبس موبائل ایپ پر ٹرائبس انڈیا بینر کے بارے میں بھی مطلع کیا۔ انہوں نے میڈیا کے افراد کو بتایا کہ فی الحال 70ہزار قبائلی فنکاروں کا مصنوعات کی سپلائی کے لئے ٹرائبس انڈیا کے ساتھ اندراج ہوا ہے اور اس تعداد میں جلد ہی اضافہ ہوگا اور یہ تعداد 150000 تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سال 40 بڑے آدی مہوتسو کا اہتمام کرنے کی تجویز بھی ہے، جس میں 25 ہزار قبائلیوں کی شرکت کی توقع ہے۔


MKRdezign

संपर्क फ़ॉर्म

नाम

ईमेल *

संदेश *

Blogger द्वारा संचालित.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget