سدھیندر کلکرنی
ہندوستان میں ہر 5 سال بعد ہونے والے عام انتخابات کا وقت آگیا ہے۔ مودی حکومت کے 4 سال گزر چکے ہیں اور لوگوں کو حقیقت کا اندازہ ہونے لگا ہے۔ ملک بھر میں تبدیلی کی خواہش تیزی سے تو نہیں، ہاں مگر رفتہ رفتہ ضرورت پروان چڑھ رہی ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر تبدیلی لا سکتی ہے؟ جواب ابھی ’ہاں‘ میں تو نہیں ہے لیکن ’ہو سکتا ہے‘ میں ضرور ہے۔
ملک جب 2019 کے انتخابات کے دہانے پر ہے تو کانگریس اور اس کے نوجوان صدر کے سامنے کیا چیلنجز اور مواقع ہیں!
سب سے پہلے بات کرتے ہیں چیلنجوں کی۔ سیاست میں سبھی کو نجی خواہشات کو ترک کر دینا چاہئے اور زمینی حقیقت سے جڑے رہنا چاہئے۔ لوگوں کو غور سے سننا چاہئے۔ حریفوں کی حرکتوں کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اپنی تنظیم کی جیت کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔
انتہائی خود اعتماد، کامیابی میں اتنی ہی رکاوٹ پیدا کرتا ہے جتنا خود اعتماد کی کمی اور خاص طور پر جب حریف مضبوط ہو تو کاوشوں کی کمی اور بہت زیادتی نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اب بات آتی ہے کہ مواقع کیا ہیں۔ یہ ایک نصف موقع ہے۔ ہندوستان کے عوام بی جے پی کے اس طرح حامی نہیں رہ گئے ہیں جتنے وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی 5 سالہ حکومت کے آخری سال میں تھے۔ لیکن اس وقت وہ کانگریس کے اتنے حامی نہیں بنے ہیں جتنے 2013 میں بی جے پی کے بن چکے تھے۔ لب و لباب یہ ہے کہ بی جے پی کی مقبولیت کم ضرور ہوئی ہے لیکن کانگریس کی مقبولیت میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ مودی حکومت کے تئیں لوگوں میں عدم اعتماد بڑھ رہا ہے لیکن انہیں متبادل نظر نہیں آ رہا۔ حقیقتاً فی الحال کوئی متبادل ہے بھی نہیں۔
اگلے سال عام انتخابات کے نتائج اس بات پر طے ہوں گے کہ کانگریس اور اس کے اتحادی بی جے پی سے ناراض ووٹروں کو کس حد تک اپنی طرف مائل کر پاتے ہیں۔ ایک اور فرق اس انتخابات میں فیصلہ کن ہونے جا رہا ہے اور وہ ہے راہل گاندھی اور نریندر مودی کی مقبولیت کا فرق۔ مودی کی مقبولیت 2014 کے مقابلہ کم تو ضرورت ہوئی ہے لیکن وہ ابھی کوئی زیادہ بڑا فرق نہیں بنا پائی ہے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کا کوئی رہنما نہیں ہے اور وزیر اعظم عہدے کا کوئی امیدوار بھی نہیں ہے جس کی مقبولیت کوئی فرق پیدا کر سکے۔
ایک اور بات 2019 میں اثر انداز ہوگی اور وہ یہ کہ مودی عام انتخابات کی تشہیر کو امریکہ کے صدارتی انتخابات کی طرز پر لڑیں گے اور ایک سوچی سمجھی تحریک چھیڑ دیں گے۔ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو اس کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ ووٹروں کو ایک مستحکم حکومت چاہئے جو اپنی مدت کو پوری کر سکے اور ایک مضبوط قیادت فراہم کر سکے۔ عوام ویسی حکومتوں کو دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتے جیسی وہ چرن سنگھ، وی پی سنگھ، دیوگوڑا اور آئی کے گجرال کے وقت دیکھ چکے ہیں۔ غیر بی جے پی جماعتوں کو قیادت کا سوال جلد از جلد حل کرنا ہوگا۔
ایک اور چیلنج یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کی حریف جماعتوں کے بیچ وسائل کا فرق بہت بڑا ہے اور کون کہتا ہے کہ چناوی عمل میں گڑبڑی نہیں ہو سکتی! میڈیا کو سادھنے کے لئے پیسے کا استعمال کیا جائے گا اور طے شدہ علاقوں میں ووٹروں کو راغب کرنے کے لئے پیسے کے ساتھ ساتھ تقسیم کاری کے مدوں کو بھی آزمایا جائے گا۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ 2019 کے دروزے کانگریس اور اس کے رہنماؤں کے لئے بند ہو چکے ہیں۔ سیاست میں ایک سال کی مدت طویل ہوتی ہے اور اس دوران کانگریس اور اس کے اتحادی دھارے کو اپنے حق میں کر سکتے ہیں۔ یہ نصف موقع ہے لیکن اسے پورے موقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے چار چیزوں کی ضرورت ہوگی:
پہلا کانگریس کو مدھیہ پردیش، راجستھان، اور چھتیس گڑھ کے آنے والے اہم اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کو ہرانا ہوگا اور وہ ایسا کر سکتی ہے۔ اس سے کانگریس کا حوصلہ تو بڑھے گا ہی ساتھ ہی 2019 کے انتخابات کے لئے بی جے پی خیمہ میں مایوسی چھا جائے گی۔ اعلی قیادت سے بوتھ لیول تک کانگریس میں مضبوط تنظیمی اتحاد پیدا کرنا بے بے حد ضروری ہے تاکہ پارٹی کو ان تینوں میں سے کسی بھی صوبے میں ہار کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دوسرا، ان ریاستوں میں جہاں کانگریس اور بی جے پی کے بیچ سیدھا مقابلہ نہیں ہے اور جہاں کانگریس کا دارومدار اتحادی جماعتوں پر ہوگا (یوپی، بہار، مہاراشٹر وغیرہ) وہاں پارٹی کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہر پارٹی کارکن تک اتحاد کا احساس پیدا کیا جائے۔ اور ایک سال اس کام کے لئے کافی وقت ہے۔ اتحاد کمزور ہوگا تو بی جے پی فائدہ اٹھائے گی۔ اتحاد کو اچھے نتائج تبھی حاصل ہو سکتے ہیں جب نچلی سطح کے کارکنان اعلی قیادت کے ہر فیصلے کو قبول کریں۔ بی جے پی کی کسی بھی گڑبڑی کو یہی کارکنان روک سکتے ہیں۔
تیسرا، ابھی تک کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتیں مودی حکومت پر اس کی ناکامیوں کو لے کر ہی حملہ کر رہے ہیں۔ در اصل چناوی مہم کے دوران منفی تشہیر کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ ایک قابل اعتماد متبادل کے طور پر ابھرنے کے لئے حزب اختلاف کو ان مسائل کا حل بھی سامنے رکھنا ہوگا جن کی وجہ سے وزیر اعظم اور حزب اقتدار تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔
آخری اور سب سے اہم سوال۔ مودی کوآڑے ہاتھوں لینے کے لئے بی جے پی مخالف اتحاد کے پاس ایک قابل اعتماد، مضبوط اور پر کشش وزیر اعظم کا امیدوار ہونا چاہئے۔ اور وہ صرف کانگریس دے سکتی ہے۔ اس لئے راہل گاندھی کو دوڑ کے آخری مرحلہ میں تیز اور بہتر طریقہ سے دوڑنا ہوگا اور امید سے بھرا ایسا ایجنڈا پیش کرنا ہوگا جو نوجوانوں سمیت ہر طبقہ کو اپنی طرف مائل کرے۔ راہل گاندھی کو اس تبدیلی کا چہرہ بننا ہوگا جس کی امید 2019 کے لئے ہندوستان کر رہا ہے۔
قومی آواز سے ](مضمون نگار سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے پی ایم او میں مشیر کے عہدے پر فائز تھے )
एक टिप्पणी भेजें