Halloween Costume ideas 2015
Articles by "Feature"

نئی دہلی، تباہی کے خطرات کم کرنے پر نیشنل پلیٹ فارم کی دوسری میٹنگ 15، 16 مئی کو نئی دہلی میں منعقد ہوگی جس کا موضوع ہوگا: ’’پائیدار ترقی کے لئے بتاہی کے خطرات کم کرنا‘‘۔ ہندوستان کو 2030 تک اس سے بچنے کے قابل بنانا۔ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ 15 مئی کو افتتاحی اجلاس کی صدارت کریں گے جبکہ امور داخلہ کے وزیر مملکت کرن رجیجو 16 مئی کو الوداعی اجلاس سے خطاب کریں گے۔ 

کثیر فریقی این ڈی آر آر کے سربراہ مرکزی وزیر داخلہ ہیں اور امور داخلہ کی وزارت میں تباہی کے انتظام کے انچارج وزیر مملکت اس کے وائس چیئرمین ہیں۔ اس کے دیگر ارکان میں 15 کابینی وزرا، نیتی آیوگ کے وائس چیئرمین، اس موضوع سے متعلق ہر ریاستی/ مرکزی علاقہ کے وزیر، مقامی حکومت کے نمائندے اور 4 لوک سبھا ارکان اور 2 راجیہ سبھا ارکان وغیرہ۔ 

اس کا خاص مقصد تباہی کے انتظام کی قومی پالیسی پر وقتاً فوقتاً نظرثانی کرنا اور پیش رفت کا جائزہ لینا ہے۔

نئی دہلی، کپڑے کی وزارت یکم مئی سے 15 مئی تک سوچھتا پکھواڑہ کا اہتمام کررہی ہے۔ اس پندرہ روزہ پروگرام کا افتتاح نئی دہلی میں واقع اودیوگ بھون میں کپڑے کے وزیر مملکت اجے ٹمٹا نے کیا۔ اس پروگرام کے انعقاد کا مقصد صفائی ستھرائی کے پیغام کو پھیلانا اور اسے اپنی زندگی کا ایک جزو بنانا ہے۔ 

وزیر موصوف نے وزارت کے افسروں اور اسٹاف کو سوچھتا حلف دلایا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ سووچھ بھارت مشن حقیقت کی شکل تبھی لے پائے گا جب ہندستان کے 125 کروڑ شہری اپنا یہ ذہن بنائیں گے کہ وہ نہ تو خود گندگی پھیلائیں گے اور نہ ہی کسی کو دوسرے کو پھیلانے دیں گے۔ سووچھ بھارت نغمہ دیکھنے کے بعد وزیر موصوف نے کہا کہ اس گانے کو صبح میں بچوں کےسامنے چلانے سے ان کے اندر روحانیت اور صفائی ستھرائی کی اہمیت جاگزیں ہوگی۔ جناب ٹمٹا نے کہا کہ سووچھتا کو ہر شخص کی ذمہ داری خیال کیا جانا چاہئے نہ کہ اسے صفائی ستھرائی کے کام میں مصروف ورکروں کا کام سمجھا جائے۔

کپڑے کی سکریٹری محترمہ رشمی ورما نے حاضرین سے کہا کہ وہ سوچھتا پکھواڑے کو محض ایک علامتی کام نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک ایسا پروگرام خیال کریں جو دل سے کیا جاتا ہے۔ انہو ں نے وزارت کے سبھی اہل کاروں اور عملے سے اپیل کی کہ وہ اپنے دائرہ کار ، گھر اور کمیونٹی میں کوئی نہ کوئی پہل کریں تاکہ صفائی ستھرائی کے معاملے میں کوئی قابل ذکر تبدیل آسکے۔

 محترمہ ورما نے ہر شخص کو یادہانی کرائی کہ ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں جنہیں سوچھتا کے پیغام کو پھیلانے اور ہندستان کو سوچھ بھارت بنانے کے لئے ہر شخص اٹھاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سووچھ بھارت کے ہدف کو حقیقت کی شکل دینے کے لئے ہر شخص کی شراکت داری ضروری ہے۔ 

سوچھتا پکھواڑہ کے دوران کپڑے کی وزارت کے ذریعہ جو سرگرمیاں انجام دی جائیں گی ان کی فہرست
 :
دہلی /ہریانہ /اتراکھنڈ میں کپڑے کے وزیر مملکت کا پاور لوم سروس سینٹرس کا دورہ
خصوصی سووچھتا مہم کے لئے کپڑے کے وزیر مملکت کا ہر ی دوار کے سلک کلسٹر کا دورہ
‘‘کچرے سے دولت تک’’ کے موضوع پر سمینار کا انعققاد
‘‘کچرے سے دولت تک’’ کے موضوع پر این آئی ایف ٹی کے ذریعہ فلم کی تیاری اور سبھی تنظیموں کے ذریعہ اس کی نمائش
سبھی بُنکر سروس سینٹرس میں سوچھتا سے متعلق سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے نوجوانوں کی ٹیموں کی قیادت کرنے کی خاطر این آئی ایف ٹی کے طلبا کی رضاکار کے طور پر کام کرنے کے لئے حوصلہ افزائی۔
ملازمین کے لئے بیداری اور ترغیباتی پروگرام کا انعقاد
مختلف سطحوں پر ملازمین کے لئے سوچھتا ابھیان کے موضوع پر مباحثاتی مسابقے کا انعقاد
وزارت کے سینئر افسروں کے ذریعہ مسابقوں میں جیت حاصل کرنے والوں کو انعامات کی تقسیم
سبھی جوٹ ملوں میں نجی صفائی ستھرائی سےمتعلق مہم کا انعقاد ، پکھواڑہ کے 

سبھی دن سی جی ایچ ایس ڈاکٹرو ں کی شمولیت ۔
این ٹی سی مل چال ایریا ا ور کولکتہ کے ایک جوٹ مل میں سوچھتا سے متعلق 

ایک خصوصی مہم چلائی جائے گی۔
دفتری احاطوں ، بیت الخلا اور واش روم کی صفائی کا کام 
سبھی سیکشنوں تک واٹر ڈسپینسروں کے ذریعہ (پانی تقسیم کرنے والی مشین) پینے کے صاف ستھرے پانی کی سپلائی کا التزام

سبھی سیکشنوں میں کوڑے دان کی فراہمی
دفتری سازوسامان کے دھول دھپوں کو جھاڑنا اور ان کی صفائی

ادویوگ بھون میں عام گلیاروں اور کھلی جگہوں کی صفائی
سی پی ڈبلیو ڈی اور ڈی آئی پی پی کے درمیان تال میل تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ رینوویشن سےمتعلق کام وقت پر پورے ہوسکیں۔ ایسے کاموں میں ٹائلس کی تبدیلی ، چھت سے متعلق کام ، ایل ای ڈی لائٹوں کی تنصیب شامل ہیں۔
پرانی فائلوں / ریکارڈز/ ناقابل استعمال سامانوں کو ہٹانا

نئیدہلی۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری (سی آئی آئی) ،بیورو آف انڈین اسٹینڈر ز (بی آئی ایس)، نیشنل ایکریڈٹیشن بورڈ فار سرٹیفکیشن باڈیز (این اے بی سی بی) اور دیگر شرکاء کے تعاون سے حکومت ہند کا کامرس کا محکمہ نئی دہلی میں 2-1 مئی کو چوتھی قومی اسٹینڈز کانفرنس کا انعقاد کریگا۔ 

اس دو روزہ کانفرنس کا مقصد بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں معیارات (اسٹینڈرز ) کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے بارے میں بیداری پھیلانا اور صنعتوں ، مرکزی حکومت کی وزارتو ں ، ریاستی حکومتوں ، ضابطے /معیارات قائم کرنے اور ان پر عمل کیے جانے کا جائزہ لینے والے اداروں کو تیار کرنا ہے۔ یہ کانفرنس اشیاء اور خدمات کے کاروبار میں معیارات اور ضابطوں کے بڑھتے ہوئے اثر اور قیمتوں کی گھٹتی ہوئی اہمیت کے پس منظر میں منعقد کی جارہی ہے۔ 

اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہئے کہ مختلف معیارات یعنی گھریلو بازار کیلئے ادنیٰ اور برآمدات کے لئے اعلیٰ معیار کا زمانہ اب نہیں رہا ہے۔ اب اگر ہندوستانی صنعت کو بچے رہناہے اور آگے بڑھنا ہے تو اسے عالمی معیارات اختیار کرنے ہی ہوں گے۔ وزارتوں، ضابطہ کاروں ، ریاستی حکومتوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر انہیں اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اپنے اقدامات اور اسکیموں کو عالمی معیارات کے مطابق تیار کرنا ہوگا۔ 

اچھے معیارات کا نظام قائم ہونے سے وزیراعظم کی میک اِن انڈیا تحریک کو بھی کامیابی ملے گی۔ اس سے ہماری گھریلو صنعت اور صارفین کی قیمت پر غیر محفوظ اور گھٹیا معیار کےسامان کی درآمدات کے سیلاب سے گھریلو بازار کو بھی بچایا جاسکتا ہے۔ 

نئی دہلی، صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے سی آئی آئی صدر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ راہل بجاج کو اور سی آئی آئی فاؤنڈیشن مثالی خاتون ایوارڈ پیش کیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے تمام ایوارڈ یافتگان کو مبارک باد دی ۔ انہوں نے بجاج آٹو لمیٹڈ کے چیئرمین راہل بجاج کو اس سال کے سی آئی آئی صدر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ حاصل کرنے پر انہیں مبارک باد دی اور مثالی خاتون ایوارڈیافتگان کو بھی مبارک باد دی۔

انہوں نے کہا کہ 2005 میں قائم سی آئی آئی فاؤنڈیشن مثالی خاتون ایوارڈمعاشرے میں خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے ایک خوش آئند قدم ہے اس کے ذریعے ان خواتین کو دریافت کیا جاتا ہے اور ا ن کے کارنامے کو تسلیم کیا جاتا ہے جنہوں نے ملک کی ترقیاتی سرگرمیوں تمام رکاوٹوں کے باوجود اہم خدمات انجام دیں۔ یہ ان گنت خواتین کی تعداد کے لئے ایک عظیم حوصلہ افزائی ہو گی جو ہمارے متحدہ اور اس کی معیشت کو مضبوط کرنے کے مختلف طریقوں میں مدد دے رہی ہیں. 

صدر جمہوریہ نے انڈسٹری کو یاد دلایا کہ ملک کو جس قدر زیادہ فنڈز کی ضرورت ہے اتنے ہی ان کے خیالات ، توانائی اور تحریک کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے بھارت میں اعلی ترقیاتی چیلنجوں کو دور کرنے کے لئے مداخلت اور تغیراتی حل کے دوران سی ایس آر سے فائدہ اٹھانے کے لئے زور دیا۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان کے پاس ایک کل ہند نقطہ نظر ہونا چاہئے اور خود کو سی ایس آر ترقی کے لئے کچھ جغرافیائی علاقوں تک محدود نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں اور انہیں حل کرنے کے لئے نسبتا کم وقت دستیاب ہے، اس میں شراکت داری ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ پیچیدہ سماجی مسائل اور تکنیکی ترقی کے حل کے لئے تعاون کرنا اہم ہے. 

صدر جمہوریہ نے مزید کہا کہ ہمارے ملک میں ایک نئی صبح کے آغاز کے لئے، ہمیں تمام شعبوں کی طاقت کا فائدہ اٹھانا ہوگا۔ وسائل اور حکومتوں کے اختیارات کو منظم کرنا؛ ہمدردی، خواہش اور غیر منافع بخش کی پہنچ؛ جدت طرازی، معلومات، اور نجی شعبے کی صلاحیتوں؛ اور مجموعی طور پر کمیونٹیز کی آرزؤں سے ہمیں فائدہ اٹھانا ہوگا۔

 انہوں نے کہا کہ وہ سی آئی آئی کو اس شعبے میں کمپنیوں کے اقدامات کو مضبوط اور متحد کرنے کے لئے ایک صنعت یونین کی حیثیت سے تصور کرتے ہیں۔ انہیں اس بات سے خوشی ہوئی ہے کہ اس مقصد کے لئے پوری طرح وقف ایک سی آئی آئی فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیاہے ۔

نئی دہلی، زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر رادھا موہن سنگھ نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کسانوں کی فلاح و بہبود کے مقصد سے زراعت کے شعبے کے لئے سب سے زیادہ رقم مختص کرکے زرعی شعبے کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔ مرکزی حکومت کا ہدف ہے کہ فصل کی پیداوری صلاحیت میں اور اضافہ ہو، کسانوں کی پیداوار کا مناسب تعین ہو اور ڈیری / مویشی پروری / ماہی پروری کی ترقی وغیرہ پر زور دیتے ہوئے زرعی تعلیم، تحقیق اور توسیع کے نظام کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔

  سنگھ نے یہ بات نئی دہلی میں منعقدہ خریف مہم 2017 سے متعلق دو روزہ قومی زرعی کانفرنس میں کہی۔ اس موقع پر وزیر جناب پرشوتم روپالا، جناب سدرشن بھگت اور زراعت کی وزارت کے سینئر افسران بھی موجود تھے۔

 سنگھ نے اس موقع پر کہا کہ سال 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے وزارت زراعت کی جانب سے سبھی ریاستی حکومتوں کو خط لکھا گیا ہے کہ وہ اس سمت میں ایک بامعنی حکمت عملی پر کام کریں۔ حکمت عملی بناتے وقت انہیں زرعی پیداوار سے لے کر، ان سے تیار کی جانے والی ڈبہ بند مصنوعات تک کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔

مرکزی وزیر زراعت نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے کسانوں کے لئے مرکزی حکومت نے کئی منصوبے اور پروگرام شروع کئے ہیں۔ وزیراعظم زرعی آبپاشی منصوبہ، وزیراعظم فصل بیمہ منصوبہ، مٹی صحت منصوبہ ، روایتی زرعی ترقیات منصوبہ، ای۔ قومی زرعی مارکیٹ اسکیمیں، قومی ایگرو فوریسٹری (میڈ پر درخت)، نیم کی پرت والا یوریا کچھ ایسے ہی خصوصی پروگرام ہیں۔ دودھ کی پیداوار اور پیداواریت میں اضافہ کے لئے قومی گوکل مشن کا آغاز کیا گیا ہے۔ نیلے انقلاب کے تحت ان لینڈ ماہی پروری (سمندرکے علاوہ ندیوں ، تالابوں وغیرہ میں ماہی پروری) پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ ان پروگراموں کے ذریعے زرعی پیداوار اور کسانوں کی آمدنی کو بہتر بنانا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے سب کو پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ جناب سنگھ نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ اس سال زراعت اور اس سے متعلقہ شعبوں کی ہدف شدہ سالانہ ترقی کی شرح تقریباً 4 فیصد رہی ہے۔ زرعی کمیونٹی کو ہر ممکن فائدہ پہنچانے کے مقصد سے زراعت اور کسانوں بہبود کی وزارت کی مختلف اسکیموں کو خصوصی مشنوں، اسکیموں اور پروگراموں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز/متعلقین کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے 2016۔17 کے دوران دوسرے پیشگی اندازے کے مطابق ملک میں کل غذائی اجناس کی پیداوار تقریباً 271.98 ملين ٹن متوقع ہے جو سال 2015۔16 کے مقابلے میں 8.11 فیصد زیادہ ہے۔

 انہوں نے یہ بھی کہا کہ غذائی اجناس کی یہ پیداوار گزشتہ 5 سالوں کی اوسط پیداوار سے بھی 5.82 فیصد زیادہ ہے۔ سال 2013۔14 میں غذائی اجناس کی ریکارڈ پیداوار ہوئی تھی۔ اس برس اناج کی پیداوار سال 2013۔14 کی اناج کی پیداوار سے 2.61 فیصد زیادہ ہے۔

 سنگھ نے کہا کہ زرعی کو آپریٹیو اور کسانوں کی بہبود کے محکمہ کی طرف سے مختلف فصلوں کی پیداوار اور پیداوار یت میں اضافہ کے لئے چلائی گئی مختلف اسکیموں۔ نیشنل فوڈ سیکورٹی مشن (این ایف ایس ایم)، قومی باغبانی مشن (این ایچ ایم)، قومی زرعی ترقیاتی منصوبہ (آر کے وی وائی)، قومی زرعی توسیع و ٹیکنالوجی اور فوائد کی براہ راست منتقلی منصوبہ (ڈی بی ٹی) وغیرہ کا فائدہ کسانوں کو ملنے لگا ہے۔

مرکزی وزیر زراعت نے کہا کہ وزارت زراعت کی ایک اہم اسکیم۔ نیشنل فوڈ سیکورٹی مشن (این ایف ایس ایم) میں چاول، گندم، دالیں، موٹے اناج اور کئی طرح کی نقدی فصلیں شامل ہیں۔ موجودہ حکومت کے وجود میں آنے کے قبل اس اسکیم کا نفاذ 19 ریاستوں کے 482 اضلاع میں ہو رہا تھا۔ این ڈی اے حکومت کے آنے کے بعد سال 2015۔16 سےاین ایف ایس ایم کا نفاذ 29 ریاستوں کے 638 اضلاع میں کر دیا گیا ہے۔

 اس کے علاوہ تقریبا 2.70 لاکھ ہیکٹر علاقے میں نامیاتی باغبانی ہو رہی ہے۔ قومی زرعی ترقیاتی اسکیم یاآر کے وی وائی کا ہدف زراعت اور اس سے متعلقہ شعبوں کی جامع ترقی کو یقینی بناتے ہوئے ہوئے 12 ویں منصوبہ مدت کے دوران سالانہ ترقی حاصل کرنا اور اسے برقرار رکھنا ہے۔ جناب رادھا موہن سنگھ نے بتایا کہ وزارت زراعت تلہنی فصلوں کی پیداوار اور پیداوریت پر زیادہ زور دے رہی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ پھلوں، سبزیوں اور باغبانی فصلوں پر بھی حکومت یکساں طور پر زور دے رہی ہے۔ حکومت بیجوں کے معیار اور دستیابی دونوں پر پوری توجہ دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ بیج مشن بھی شروع کیا گیا ہے جس کے تحت بیج پروسیسنگ، بیج اسٹوریج، بیجوں کے معیار کو بہتر بنانا، ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے بیجوں کا ذخیرہ وغیرہ کاموں کے لئے امداد فراہم کی جارہی ہے۔

 سنگھ نے کہا کہ حکومت اہم زرعی اجناس کے لئے کم از کم امدادی قیمت کا اعلان کرکے کسانوں کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ ہماری قیمت پالیسی میں معیشت کی مجموعی ضرورتوں کے تناظر میں متوازن اور مربوط قیمت سے متعلق ڈھانچہ تیار کرنے کا بندوبست ہے۔

 مرکزی نوڈل ایجنسیاں جیسےایف سی آئی، سی سی آئی، جے سی آئی، این اے ایف ای ڈی،ایس ایف اے سی وغیرہ اس مقصد سے خرید کا کام شروع کرنے کے لئے منڈیوں میں مداخلت کرتی ہے کہ بازار کی قیمت حکومت کی ذریعہ مقرر ایم ایس پی سے نیچے نہ گرے۔ اگر کسی زرعی جنس جس کی کم از کم امدادی قیمت کا اعلان نہیں ہو ا ہو ،اگربازار کی وجوہات سے جنس کی قیمت گرجاتی ہے تو مرکزی حکومت مارکیٹ مداخلت کی اسکیم (ایم آئی ایس) کے ذریعے کسانوں کے لئے منافع بخش قیمت کو یقینی بناتی ہے۔

 سال 2014۔15 سے سال 2016۔17 تک حکومت ہند کی طرف سے اترپردیش، آندھرا پردیش، کرناٹک، تلنگانہ، تمل ناڈو، اروناچل پردیش، ہماچل پردیش، میزورم، ناگالینڈ ریاستوں میں مرچ، سیب، ادرک، آلو، آئل پام، انگور، پیاز، سپاری وغیرہ کی خریداری ابھی تک کسانوں کے مفاد میں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی اجناس کی قیمت میں انتہائی تیزی یا کمی کے سبب نہ صرف صارفین کو بلکہ کسانوں کو بھی کافی نقصان ہوتا ہے۔ حکومت نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے 500 کروڑ روپے کی رقم سے قیمت استحکام فنڈ کی شروعات کی تھی جو، اب بڑھ کر 1500 کروڑ روپے ہو گئی ہے۔

 دالوں کی بڑھتی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لئے 40،000 میٹرك ٹن دالیں مختلف ریاستوں کو ان کی درخواست پر دستیاب کرائی گئی ہیں اور 20 لاکھ میٹرك ٹن دالوں کی خریداری بفر اسٹاک کے طور پر کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی، 20،000 میٹرك ٹن پیاز کی خریداری بفر اسٹاك کے طور پر کی جا چکی ہے۔

 رادھا موہن سنگھ نے کہا کہ اب جلد ہی خریف کا موسم آنے والا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ ریاستی حکومتیں وقت رہتے فصلوں کی مطلوبہ اقسام کے معیاری بیجوں کی کافی مقدار میں خریداری اور کسانوں کے لئے کھاد کی کافی مقدار کا اسٹاک کرنے کے لئے منصوبہ بنائیں۔

 ریاستی حکومت کے ذریعہ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ بوائی کے موسم کے دوران ان پٹ کی کوئی کمی نہ ہو۔ کسانوں کو فصل بیمہ کا فائدہ دینے کے لئے سابقہ بیمہ اسکیموں کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے حکومت نے وزیر اعظم فصل بیمہ اسکیم خریف، 2016 موسم سے شروع کی ہے۔ اس کے تحت فصل کی بوائی کے قبل سے لے کر کٹائی کے بعد تک ہوئے نقصان کے لئے وسیع بیمہ تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ حکومت نے مٹی کی صحت کے نقطہ نظر سوائل ہیلتھ کارڈ اسکیم کا آغاز کیا ہے۔

 نامیاتی کاشتکاری اور پائیدار زراعت کو فروغ دینے کے لئے روایتی زعی ترقیاتی اسکیم نامی نئی اسکیم شروع کی گئی۔ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کے پیش نظر حکومت کے ذریعہ سے ایگرو فاریسٹری اور شہد کی مکھی پالنے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ آخر میں  رادھا موہن سنگھ نے سبھی ریاستی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ فنڈز کے خوش اسلوبی کے ساتھ بروقت فراہمی کے لئے خصوصی کوششیں کریں تاکہ وقت پر مجوزہ کاموں کو شروع کرنے کے لئے بہت پہلے ہی کسانوں کو فنڈز مل جائیں۔ جناب سنگھ نے ریاستی حکومتوں سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ اپنے طریقہ کار میں شفافیت لائیں۔

اس کانفرنس میں گزشتہ برس کی فصلوں کی پیداوار، آئندہ خریف کی فصل کی پیداوار میں اضافہ، مختلف ریاستی حکومتوں کے صلاح و مشورے سے فصل وار پیداوار کے اہداف کا تعین کرنے، بوائی شروع ہونے سے پہلے ضروری ان پٹ کی دستیابی کو یقینی بنانے اور زرعی شعبے میں نئی ٹیکنالوجی اور اختراعات کے استعمال اور نفاذ پر تبادلہ خیال ہوگا۔

نئی دہلی، زراعت اور کسانوں کی بہبود کے وزیر رادھا موہن سنگھ نے کہا ہے کہ آزادی کے بعد یہ پہلی حکومت ہے جو نہ صرف زرعی ترقی کے ساتھ ساتھ کسانوں کی اقتصادی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کررہی ہے بلکہ کسانوں کی ترقی کے لئے زمینی سطح پر ٹھوس اقدامات بھی کررہی ہے۔  رادھا موہن سنگھ ریاستوں کی زرعی مارکیٹنگ کے وزرا ءکے ساتھ ایک میٹنگ میں اظہار خیال کررہے تھے۔

 رادھا موہن سنگھ نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کا خواب ہے کہ 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنی ہوجائے اور ملک کے کسان ترقی کے اصل دھارے کا حصہ بنیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مرکز اور ریاستی حکومتیں ملک کر کام کریں گی۔ کسانوں کی آمدنی کو دوگنی کرنے کے لئے تین سطح پر کام کیا جارہا ہے۔

 سنگھ نے کہا کہ پہلی سطح کے تحت کسانوں کی پیداوار کی لاگت میں کمی کرنا اور پیداوار کو بڑھانا ہے۔ اس کو پورا کرنے کے لئے ریاستی حکومتوں کو مرکزی حکومت کی اسکیموں مٹی صحت کارڈ اور پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا کا بہتر ڈھنگ سے استعمال کرنا چاہیے۔ مٹی صحت کارڈ اسکیم کے تحت مٹی کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے جبکہ پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا کے تحت کھیتوں میں پانی کی دستیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

 رادھا موہن سنگھ نے کہا کہ کسانوں کی آمدنی کی دوگنی کرنے کی دوسری سطح کے تحت زراعت کی معاون سرگرمیوں مثلاً مویشی پروری، پولیٹری، شہید کی مکھی کی کھیتی اور زرعی جنگلات کی توسیع شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تیسری اور سب سے زیادہ اہم سطح کے تحت کسانوں کے لئے منظم منڈیوں کی دستیابی شامل ہے تاکہ کسانوں کو ان کی پیدوار کے لئے اچھے منافع کو یقینی بنایا جاسکے۔ جناب سنگھ نے کہا کہ اب تک روایتی منڈیوں نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے لیکن اب منڈیوں کےلئے لازمی ہے کہ وہ مارکیٹنگ کی نئی حکمت عملی کو اختیار کرے تاکہ بڑھی ہوئی زرعی پیدوار کی مارکیٹنگ کی مانگ کی تکمیل ہوسکے۔

ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے زراعت کی وزارت نے سال 2003 میں زرعی مارکیٹنگ کےلئے ایک ماڈل ایکٹ تیار کیا تھا اور اس کو ریاستوں کے درمیان مشتہر کردیا گیا تاکہ وہ اس ایکٹ کے مطابق بازار کے قوانین کو بہتر کرسکیں۔

 رادھا من سنگھ نے مزید کہا کہ مرکز میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد کسانوں کےحالات کو بہتر بنانے کے لئے ہم نے متعدد اہم فیصلے کئےہیں۔ کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کےلئے اقتصادی امور سے متعلق کابینہ کمیٹی (سی سی ای اے) نے 200 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کرکے یکم جولائی 2015 کو نیشنل اگریکلچر مارکیٹ (ای این اے ایم) کو منظوری دی۔ بعدازاں آزمائشی پروجیکٹ کے تحت وزیراعظم کے ذریعہ 14 اپریل 2016 کو آٹھ ریاستوں کے 23 بازاروں کو باہم جوڑدیا گیا۔

 اس اسکیم کے تحت کسانوں کے لئے آن لائن تجارتی پورٹل فراہم کیا گیا ہے۔ کسانوں کو تمام بازار کی قیمتوں تک رسائی حاصل ہے تاکہ وہ بہترین قیمت میں اپنی پیداوار کو فروخت کرسکیں۔ اس اسکیم کے تحت ہر ایک بازار کے لئے ضروری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے 30 لاکھ روپے منظور کئے جاتےہیں۔ 18۔2017 کے بجٹ میں اس رقم کو بڑھاکر 75 لاکھ روپے کردیا گیا۔ اب تک 13 ریاستوں کے 417 منظم بازاروں کو اس اسکیم کے تحت جوڑ دیا گیا ہے۔ مارچ 2018 تک یہ تعداد بڑھ کر 585 ہوجائے گی۔

 اب تک 42.18 لاکھ کسان اور 89199 تاجر ای این اے ایم پورٹل پر رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ اور 63.17 لاکھ ٹن پیداوار کی تجارت کے ذریعہ 16163.1 کروڑ روپے کی تجارت ہورہی ہے۔ اس کا اسکیم کا بنیادی مقصدیہ ہے کہ ملک کے کسانوں کو مختلف بازاروں کی قیمتوں کا پتہ چل سکے اور وہ زیادہ سے زیادہ قیمت پر اپنی فصل کو فروخت کرسکیں۔

نئی دہلی، شہری ہوابازی کی وزارت دہلی کے ہوائی اڈے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کیلئے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک روڈ میپ تیار کررہی ہے۔ وزارت اگلے تین برسوں میں دہلی ہوائی اڈے کے اندر مصروف اوقات میں فی گھنٹہ 67 مومنٹ کو بڑھاکر فی گھنٹہ 95 مومنٹ کردینا چاہتی ہے۔

 2017 کے آخر تک ہوائی اڈے کے اندر پرواز کے مقام کی صلاحیت تقریبا 72 سے 73 مومنٹ فی گھنٹہ کے ساتھ تقریبا دس گنا زیادہ ہوجانے کی امید ہے۔ آج نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہری ہوابازی کے وزیر مملکت جناب جیت سنہا نے کہا کہ دہلی کی ہوائی اڈے کی صلاحیت میں اضافے کے بعد دہلی ہوائی اڈے میں مسافروں کی آمد ورفت بھی کافی بڑھ جائے گی۔

 اس ہوائی اڈے پر فی الوقت 60 ملین مسافروں کی سالانہ آمد ورفت ہوتی ہے جو بڑھ کر 90 ملین ہوجانے کا امکان ہے۔ جناب سنہا نے مزید کہا کہ شہری ہوابازی کی وزارت پرواز کے مقام کی صلاحیت میں اضافہ اور ہوائی اڈے پر ٹرمنل کی صلاحیت کی توسیع کیلئے جلد ہی ایک ماسٹر پلان لے کر آے گی تاکہ مسافروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کوئی پریشانی نہ ہو۔

 ٹرمنل کی صلاحیت میں توسیع سے متعلق جناب سنہا نے کہا کہ ٹرمنل ایک سے ہوائی آپریشن کو ٹرمنل دو میں منتقل کرنے کا منصوبہ ہے۔ جبکہ ٹرمنل ایک کی توسیع ٹرمنل دو کو ختم کرنا اور ٹرمنل چار کی تعمیر کا بھی منصوبہ ہے۔

نئی دہلی، عملے، عوامی شکایات اور پنشن کی وزارت کے انتظامی اصلاحات اور عوامی شکایات (ڈی اے آر پی جی) محکمہ 20 اور 21 اپریل کو یہاں سول سروسیز ڈے کے تقریب کا اہتمام کررہا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ آج دو دروزہ پروگرام کا افتتاح کریں گے۔ شمال مشرقی خطے کی ترقی کے مرکزی وزیر مملکت آزادانہ چارج ڈاکٹر جتیندر سنگھ تقریب کی صدارت کریں گے۔ 

وزیراعظم نریندر مودی 21 اپریل کواضلاع نافذ کرنے والی اکائیوں اور مرکز / ریاستی تنظیموں کو پبلک انتظامیہ میں مہارت کے لئے پی ایم کے ایوارڈز سے سرفراز کریں گے۔ یہ ایوارڈز نشان ذد ترجیح پروگراموں کے موثر نفاذ اور اختراع کے لئے دیئے جائیں گے۔ 

پبلک انتظامیہ میں ریاست کے لئے پی ایم ایوارڈ ز اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ تاکہ عام شہریوں کی بھلائی کےلئےمرکز اور ریاستی سرکاروں کی اضلاع/ تنظیموں کی طرف سے کئے گئے غیر معمولی او ر اختراعی کام کو تسلیم کیا جاسکے اور ان 
کے کام کا اعتراف کیا جاسکے۔ br>
سول سروسیز ڈے 2017 کو دیئے جانے والے ایوارڈ کے لئے پانچ ترجیح پروگرام کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا۔ دین دیال اپادھیائے گرام جیوتی یوجنا ، پردھان منتری فصل بیما یوجنا ، اسٹارٹ اپ انڈیا/ اسٹینڈ اپ انڈیا اور نیشنل ایگری کلچر مارکیٹ (ای –این اے ایم ) شامل ہیں۔ br>

نئی دہلی ، طلبا کو معیاری تعلیم فراہم کرنا، سیکھنے کے نتیجے کے عمل کا نچوڑ ہے جس کے لئے ہم کو مسلسل کوشش کرنی ہے اور یہ استاد کے ساتھ ساتھ والدین متعلقہ محکموں،ماہرین تعلیم اور معاشرے پر ہے کہ وہ اجتماعی طور پر کام کریں۔ ہماری حکومت نے اب سیکھنے کے نتیجے کے عمل کے طریقہ کار وضع کئے ہیں۔

  یہاں نئی دلی میں این سی ای آر ٹی ہیڈ کوارٹر میں اسکولی تعلیم میں اختراع سے متعلق تین روزہ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انسانی وسائل کے فروغ کے مرکزی وزیر جناب پرکاش جاوڈیکر نے طلبا کو معیاری تعلیم دینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ وہ ایک اچھے شہری بن سکیں۔


 پرکاش جاوڈیکر نے کہا کہ ہم تعلیم کے ضابطوں سے متعلق والیدن اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلبا میں بیداری پیدا کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں جو واضح شکل میں کچھ سطح پر دی جارہی ہے۔

 اس کے لئے ملک بھر کے اسکولوں میں پوسٹروں کی نمائش کی جائے گی۔ ٹیچروں کو مناسب تربیت فراہم کی جائے گی اور جواب دہی طے کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے تعلیم کے معیار کو یقینی بنانے اور اسے بہتر بنانے کے لئے سیکھنے کے نتیجے کا چارٹر وضع کیا ہے۔



وزیر موصوف نے کہا کہ رائے، پور بنگلورو، چنڈی گڑھ، گوہاٹی اور پونے میں اس سال (نیون میش) کے تحت تعلیم میں اختراع کے لئے پانچ کیمپوں کا اہتمام کیا جائےگا۔ جہاں استاد کی تعلیم معیاری تعلیم دینے، کمیونٹی کے اشتراک اور تعلیم کے لئے ڈیجیٹل طریقوں کے مناسب استعمال کے پہلوؤں پر مختلف ریاستی سرکاروں کے افسروں این جی اوز اورتعلیم کے نظریئے کو پھیلانے والوں کے ذریعہ تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

 وزیر موصوف نے امید ظاہر کی کہ اس کانفرنس میں بحث و مباحثے سے طلبا کو بااختیار بنانے کے لئے تعمیری تعلیم کی راہ ہموار ہوگی تاکہ طلبا معلومات ہنرمندی اور اچھی اقدار حاصل کرسکیں۔ موقع پر پانچ کتابوں کا اجرا بھی کیا گیا۔ کانفرنس اسکول ایجوکیشن کے سکریٹری انل سوروپ ، این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر ایچ سینا پتی نے بھی خطاب کیا۔

نئی دہلی، صارفین کے امور، خوراک اور عوامی نظام تقسیم کے مرکزی وزیر  رام ولاس پاسوان نے کہا کہ حکومت پیکج پانی میں ملاوٹ کو روکنے کے ایک میکنزم (طریقہ کار) پر کام کررہی ہے۔ 

 پاسوان نے کہا کہ صارفین کے امور کے محکمے نے ایف ایس ا یس اے آئی سے درخواست کی ہے کہ ایک کم لاگت والی ٹیسٹنگ مشین تیار کی جائے جو مختلف کھانے کی اشیا میں ملاوٹ کو روکنے کے لئے سود مند ہو۔  پاسوان نے یہ بات  نئی دہلی کے وگیان بھون کے اینکسی میں سینٹرل کنزویومر پرو ٹیکشن کونسل سی سی پی سی کی 31 ویں میٹنگ کی صدارت کرنے کے بعد میڈیا کے افراد کو بتائی۔

 پاسوان نے مزید بتایا کہ صارفین کے امور کا محکمہ تین ماہ کے اندر 6 علاقائی صارفین ہیلپ لائن کا آغاز کرے گا۔ ریاستی سرکاروں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ علاقائی کنزیومر ہیلپ لائن کے قیام کے لئے ضروری تعاون فراہم کریں۔  پاسوان نے اس بات سے بھی مطلع کیا کہ محکمہ 15 اگست 2017 سے 24 دسمبر 2017 تک ریاستوں کے زیر انتظام علاقوں اور صارفین کی رضاکار تنطیموں کو شامل کرکے صارفین کو بیدار کرنے کی یاترا کا بھی اہتمام کرے گا۔

اس موقع پر صارفین کے امور خوراک اور عوامی نظام تقسیم کے وزیر مملکت  سی آر چودھری نے بھی کونسل کے ممبروں نے خطاب کیا ۔ وہ کونسل کے نائب صدر بھی ہیں ۔ صارفین کے امور اور خوراک کے وزارت کی سکریٹری مس پریتی سودن نے لیجسلیٹو تبدیلیوں اور ان سرگرمیوں کو اجاگر کیا، جو وزارت کی طرف سے لئے جارہے ہیں۔ جس میں کئی ڈیجیٹل اقدامات بھی شامل ہیں تاکہ صارفین کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔

سینٹرل کنزیومر پروٹیکشن کونسل کی میٹنگ میں ان بہت سے پوائنٹس پر تبادلہ خیال کیا گیا جو ممبروں کی طرف سے پیش کئے گئے تھے تاکہ ملاوٹ کو روکنے کے چیلنج سے نمٹا جاسکے اور انفورسمنٹ مشینری کو مستحکم کیا جاسکے۔ 

نئی دہلی۔ نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری نے مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی (ایم اے این یو یو)، حیدرآباد میں اولین محمد قلی قطب شاہ لیکچر دیا۔ تلنگانہ کے گورنر ای ایس ایل نرسمہن، تلنگانہ کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ محمد محمود علی، ایم اے این یو یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اور دیگر عمائدین بھی اس موقع پر موجود تھے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ یہ مالا مال تاریخ کی ایک علاقائی وراثت ہے۔
آسماں بار امانت نہ توانست کشید
قرعہ فال بنامِ منِ دیوانہ زدند

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ اس لیکچر کے انعقاد کے لئے اس سے بہتر کوئی دیگر مقام نہیں ہوسکتا تھا۔ محمد قلی قطب شاہ اس شہر کے بانی تھے، جسے جنتِ ارضی کا نمونہ کہا جاسکتا تھا۔ 17ویں صدی کے اوائل میں انگریز سیاح نے اس شہر کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہاں کی ہوا ازحد خوشگوار ہے، پانی کی سہولت ہے اور مٹی بڑی زرخیز ہے’ اور اس نے اس شہر کو مغل شہنشاہ کے قلم رو یا کسی دیگر سلطان کے زیر نگیں شہروں سے بہتر شہر قرار دیا تھا۔

ایک دیگر موضوع بھی اس مقام سے وابستہ ہے۔ دکنی اردو کی اپنی وراثت ہے اور یہ بیجاپور اور گولکنڈہ کی ریاستوں کے دربار کی زبان رہی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ نے اس زبان میں شاعری کی ہے۔

 اس کا اپنا بیان یہ ہے کہ‘ ہر روز جس طرح دریا میں لہریں اٹھتی ہیں اسی طرح میں دکنی میں شاعری کرتا ہوں’ اور پہلے صاحب دیوان ہونے کا سہرا بھی اسی فرماں روا کے سر ہے۔ یہ وہی بادشاہ تھا جس نے پہلی مرتبہ حافظ کا ترجمہ کیا اور اس کوششوں سے فارسی شاعرانہ اسلوب نگارش وجود میں آیا اور اس کا استعمال دبستان گولکنڈہ میں ہوا۔

نائب صدر جمہوریہ ہند نے حیدرآبا دکی تعمیر کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کی تعمیر کا آغاز 91-1590 میں ہوا تھا۔ حیدرآباد کے بانی کے ایک شعر سے اس شہر کے بارے میں اشارہ ملتا ہے:

مورا شہر لوگن سے معمور کر
رکھیاں جوں توں دریا میں مِن یا سمائے

اس نئے شہر کی تعمیر کے پس پُشت جو بھی جذبات کارفرما رہے ہوں، ہمارے عہد کے ایک شاعر نے اپنے مقبول انداز میں اس امر کو اس طرح بیان کیا ہے ؎

شہر باقی ہے، محبت کا نشاں باقی ہے
تو نہیں ہے، تری چشم نگران باقی ہے

نائب صدر جمہوریہ ہندنے کہا کہ قدیم ایتھنس کے باشندوں کی طرح حیدرآباد کے باشندگان بھی اپنے شہر کو عاشق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حیدرآباد کی کشش کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ پروفیسر آغا حیدر حسن مرزا نے ‘‘حیدرآباد کی سیر’’کے تحت مضامین کی تالیف کی ہے۔ جس میں اس شہر کی گوناگونی کی جھلک ملتی ہے۔

 علامہ اعجاز فرخ کی نگارش ‘‘حیدرآباد : شہر نگاراں’’ بھی اسی زمرے کی تصنیف ہے۔ سبط حسن نے حیدرآباد کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہ مقام ہے ‘جہاں میرے ضمیر کو زندگی کے حسن کا عرفان ہوا، اور جہاں میں نے بنی نوع انسان سے محبت کرنا سیکھا’۔ نریندر لوتھر نے بھی اس شہر کی تاریخ کومطمح نظر بنایا ہے ۔ وسنت باوا نے یہاں کی قدیم اقدار اور انداز حیات کا ذکر کیا ہے اور سیدہ امام نے مختلف پیڑھیوں کے اُن مداحوں کی 38 تصنیفات جمع کی ہیں، جن کا تعلق الگ الگ شعبہ ہائےحیات سے تھا۔

یہ بات ازحد اہم اور قابل غور ہے کہ قطب شاہی خاندان جو 1523 سے لے کر 1687 کے دوران محض 164 سالوں تک برسراقتدار رہا، کی تاریخ اور اُس وقت کے پس منظر میں ، جب اُس کے آخری فرما رواں، ابولحسن نے ایک مغل سردار کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ اس مختصر مدت کے دوران بھی اس خاندانی کی سرپرستی میں فن تعمیرات، شاعری، موسیقی، فنون لطیفہ، رقص اور طرح طرح کے کھانوں کا خوب فروغ ہوا اور یہ تمام چیزیں اس وقت بین الاقوامی تجارت کے فعال مرکز کے علاوہ ثقافت کی شناخت بن گئی۔

ہماری عہد وسطیٰ کی تاریخ میں تین صدیوں کے دوران ایک دائمی حقیقت اُس مرکزی قوت کی تھی جو شمالی ہندوستان میں مرکوز تھی۔ مغل شہنشاہ اکبر دکن کس طرح پہنچا، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک سوانح نگار نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ‘اکبر شمالی افق پر ایک شاہین کی طرح منڈلا تے ہوئے جنوبی ریاستوں کی باہمی چپقلش کا ملاحظہ کررہا تھا، جو ایک دوسرے کی پراخچے اڑا رہی تھیں اور بس اس موقع میں تاک میں تھا کہ وہ مناسب وقت کب آئے کہ جب وہ خود اُن پر جھپٹ پڑے۔

’ انجام کار ایک دیگر تاریخ داں کے الفاظ میں ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ دکن کی اپنی داستانیں نہیں تھیں،تاہم اس کے اپنے عوام سے گہرے روابط تھے، ثقافتیں تھیں اور شمالی ہند کی ریاستیں جو ہمارے عہد میں معاشروں کے لئےجنوب سے نرمدا تک انا کی قربان گاہ بن گئی تھیں۔

 افراد، برادریاں یہاں تک کہ پوری ریاست شمال کی وسیع سلطنت کے مقابلے میں اور کبھی کبھی تو اس کے مدمقابل، اور کبھی کبھی اس سے مماثل حیثیت میں بھی، اپنی شناخت رکھتی تھیں۔’ یہ خودمختار یا نیم خودمختار ریاستیں الگ الگ زمانے تک شہنشاہی کے جلال سے اس کی بالادستی قبول کرنے کے طفیل، محفوظ رہیں۔ اس عمل کے دوران انھوں نے اپنا انداز حکمرانی وضع کرلیا۔ انھوں نے مذہب کو سیاست اور ثقافت سے علیحدہ کرلیا اور اُسے سرحدی بندھنوں میں بھی محدود نہیں ہونے دیا اور اس طریقے سے اُن کی ثقافت ایک وسیع اور لچیلی ماورائی کردار کی حامل ہوگئی۔

معاشرے کے مختلف طبقات کے ما بین تعلقات استوار کرنے میں صوفیوں کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی کوششوں کے طفیل مذاہب اور ثقافت میں ایک طرح کی مفاہمت پیدا ہوگئی۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ دکن کی سیاست کے دو پہلوؤں سے احتراز کیا جاسکتا ہے تاہم ان کا ذکر ضروری ہے۔ پہلی بات حکمرانی کا فلسفہ اور ریاست کی رعایا کے ساتھ عملی ربط و ضبط۔ دوسری بات ارضیاتی سیاسی تقاضے، جنہوں نے بھارت کے برصغیر میں بالادستی کی قوت سے لوہا لیا۔

قطب شاہی گھرانہ ایران نژاد تھا اور ایران سے ان کے تعلق نے گہرا مذہبی ارتباط بھی قائم رکھا تھا۔ خصوصاً 1501 کے بعد جب شاہ اسمٰعیل نے کٹر فرقہ بندی کا طریقہ اپنا لیا تھا۔ اس سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکمرانی کے تئیں ان کا نظریہ عملی اور سیکولر تھا۔ ابراہیم کے دور حکومت میں انتظامیہ کےمتعلق تحریر کرتے ہوئے ایک مؤرخ نےہارون خان شیروانی نےمحمد قلی قطب شاہ کے والد ابراہیم کے بارے میں لکھا ہے کہ ‘جہاں تک ریاست کے امور کا تعلق تھا، ہندو اور مسلم کے درمیان بہت معمولی فرق رکھا جاتا تھا۔’ محمد قلی قطب شاہ کے دور میں بھی ایسا ہی تھا ۔

‘اُس عہد کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ہندو اور مسلم آبادی کے مابین ایک جذبہ باہم موجود تھا۔’ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ ہندو اور مسلم دونوں کو مساوی مواقع فراہم کرائے جائیں خصوصاً ریاست کے تمام افسران کو ان کے دربار کے بارے میں بھی۔ وہی تاریخ داں رقمطراز ہے‘مسلم اور غیر مسلم دونوں ثقافتوں کی نمائندگی ایک جیسی ہوتی تھی تاہم مسلمانوں کے غیر شیعہ طبقات کے تئیں ان کے اپنے مخصوص نظریات تھے۔

 تاہم ہندوؤں اور پارسیوں کے ساتھ ثقافتی لحاظ سے دیکھیں تو اپنے انداز حیات میں اُتنا ہی متحد تھے، جتنا ایک سڑک پر چلتے ہوئے ایک آدمی سے ۔ اس کے نتیجے میں ریاست کامجموعی نظریہ ،جس کا تعلق سلطان سے تھا وہ غیر متعصبانہ تھا۔’

تیلگو زبان کے تئیں سلطان کا جھکاؤ اس فلسفے کا دوسرا پہلو ہے۔ ان کے والد جنھوں نے وجئے نگر میں سات برس بطور مہمان ذی وقار کے گزارے تھے، وہاں رہتے ہوئے اس زبان کا ذوق پیدا کرلیا تھا۔ محمد قلی قطب شاہ کے ساتھ بھی معاملہ یہی تھا، جس کے لئے تیلگو مادری زبان کی طرح تھی اور جو اپنی دکنی اردو نظموں میں تیلگو الفاظ کا استعمال کیا کرتا تھا اور اس زبان کے علما کی سرپرستی بھی کرتا تھا نیز اس کے فرمان اور اعلانات ہمیشہ ذولسانی ہوتے تھے۔

اس طریقے سے سلطان نے دانستہ اس بات کی کوشش کی کہ دکن کی ثقافت میں حیدرآباد کے لوگ رواداری محبت اور تفریق سے عاری اثرات قبول کرلیں۔ یہ محض اتفاقی حادثہ نہیں ہے کہ اس کا ایک وارث کچی پُڈی رقص کا سرپرست بنا۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ محمد قلی قطب شاہ کو تاریخ میں ایک مقام حاصل ہے اور اس کی شخصیت اور اس کے تعاون کا مطالعہ کسی ایسے شخص کے لئے بے سود نہیں ہوسکتا جو فن تعمیر ، لسانیات اور ثقافت کی ارتقا کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو۔ امن اور تدبر کی اس کی پالیسی نے ‘مغل سیاسی اثرات کو دور ہی رکھا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کی طاقت کو مضبوط کیا۔’ 31 جنوری 1626 میں اس31 برس کی حکومت کے بعد اس کے انتقال سے مغل شہنشاہ شاہجہاں کے لئے راستہ کھل گیا کہ وہ دکن کی سلطنت کو زیر نگیں لاسکے۔

اپنے خطبے کا اختتام کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہم عصر حیدرآباد نے از حد ہنرمندی اور کامیابی سے 21ویں صدی کی نئی دنیا میں اپنا مقام حاصل کیا ہے۔ ہم صرف یہی امید کرسکتے ہیں کہ رواداری ، پرامن بقائے باہمی، شمولیت اور ثقافتی ہم آہنگی کی ورثے میں ملی اس کی روایات اپنی منفرد واحدشناخت برقرار رہیں گی اور ہمارے ملک کے لئے ایک تابندہ مثال بنی رہیں گی۔

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم زے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں


نئی دہلی،  حکومت امیگریشن ، ویزا اور فورنرس رجسٹریشن ٹریکنگ (آئی وی ایف آر ٹی) پروجیکٹ کے تحت ہندستان  
آنے والے سبھی غیر ملکیوں کی آمد / روانگی اور ویزا تفصیلات سے متعلق ڈیٹا بیس رکھتی ہے ۔



 ہندستانی ویزا کے لئے درخواست دینے والوں میں سے ہر ایک کا ایک یونیک کیس فائل (یو سی ایف) تیار کیا جاتا ہے جس میں ساری تفصیلات اکٹھا کر دی جاتی ہیں۔ اب تک تقریباً 2.70 کروڑ یو سی ایف کی تخلیق کی گئی ہے۔



 یو سی ایف ڈیٹا ان تمام تفصیلات کے حصول کے لئے مفید ہے جن کی مخصوص حالات میں ضرورت پڑتی ہے۔ اس سے کم وقت میں امیگریشن کاؤنٹروں پر غیر ملکیوں کی بہتر پروفائلنگ میں مدد ملتی ہے۔


آئی وی ایف آر ٹی پروجیکٹ کو 2010میں منظوری دی گئی تھی اور اسے 2011 میں نافذ کیا گیا تھا اب تک اس میں 163 ہندستانی مشنوں ، 674 ایف آر او / اضلاع ، 87 امیگریشن چیک پوسٹوں (آئی سی پی) اور 21 اسٹیٹ ہوم ڈپارٹمنٹس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ فی الحال اس پروجیکٹ کو 31 مارچ 2017 سے 6 ماہ آگے تک کے لئے توسیع دے دی گئی ہے۔

نارکوٹکس کنٹرول بیورو سے موصولہ اطلاع کے مطابق 2016 کے دوران 200 سے زیادہ غیر ملکیوں کو گرفتار کیا گیا اور نارکوٹک ڈرگز اینڈ سائیکو ٹروپک سبسٹانسس ایکٹ 1985 کے تحت ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی۔

یہ اطلاع امور داخلہ کے وزیر مملکت  کرن رجیجو نے راجیہ سبھا میں جناب رنجیب بسوال کے ذریعہ دریافت کئے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں دی۔

نئی دہلی، زراعت اور کاشتکاروں کی بہبود کےوزیر مملکت پرشوتم روپالا نے  لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ خریف کی فصل 2017کےدوران مستند/کوالٹی کےحامل بیجوں کی دستیابی ملک میں درکار 154.69لاکھ کوئنٹل بیجوں کے مقابلےمیں 176.26لاکھ کوئنٹل ہے اور ملک میں ریاستوں کی جانب موصولہ رپورٹوں کے مطابق فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو فنا کرنے والی کیڑا کُش ادویہ کی کوئی قلت نہیں ہے۔ 

وزیر موصوف نے بتایا کہ زرعی تحقیق کی بھارتی کونسل اور ریاستی زرعی یونیورسٹیاں لگاتار تحقیق میں مصروف ہیں اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کے لئے زیادہ پیداوار دینے والی اقسام وضع کی جا رہی ہیں۔ 2016کےدوران مجموعی طورپر 308اقسام وضع کر کے جاری کی گئی ہیں ۔ ان اقسام میں 153قسم کےاناج، 43قسم کی دالیں اور تلہن 50 قسم کے فائبر کی حامل فصلیں، چارے کیلئے استعمال ہونے والی 33فصلیں، گنے کی 9اقسام شامل ہیں۔ 

وزیرموصوف نے بتایا کہ حکومت فصلوں کو ترقی دینے کے مختلف پروگراموں/اسکیموں کے تحت بیجوں کے سلسلے میں تحقیقی کام کے لئے مالی امداد فراہم کرتی ہے تاکہ کاشتکاروں کو زیادہ پیداوار دینے والے بیج واجب قیمتوں پر دستیاب ہو سکیں۔ جراثیم کش اور کیڑا کُش ادویہ کی کوالٹی کی نگرانی مرکزی سطح پر جراثیم کُش انسپکٹروں (182)اور ریاستی سطح پر 13403انسپکٹروں کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ یہ تمام انسپکٹر حضرات مینوفیکچرنگ، ذخیرے ، فروخت وغیرہ کے مرحلوں میں ان کی جانچ کرتے ہیں اور نمونے حاصل کرتے ہیں۔ اگر جراثیم کُش اور کیڑا کش ادویہ سے متعلق ایکٹ 1968کی تجاویز کی خلاف ورزی کا کوئی معاملہ علم میں آتا ہے، تو ضروری قانونی چارہ جوئی شروع کی جاتی ہے۔ 

نئی دہلی، خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزارت میں وزیر مملکت محترمہ کرشنا راج نے لوک سبھا میں پوچھے گئےایک سوال کے جواب میں بتایا کہ قومی جرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی) کےاعدادوشمار کے مطابق سال 2013،2014 اور 2015کےدوران خودکشی کرنے والی خواتین کی تعداد باالترتیب 44256، 42521 اور 42088 تھی، جو بتدریج خواتین خودکشی کی تعداد میں گراوٹ کا رجحان ظاہر کرتی ہے۔

 خواتین کی خودکشی کی اہم وجوہات میں خاندانی مسائل، بیماری، شادی سے متعلق مسائل جیسے شادی رد، منسوخ ہوجانا، ازدواجی زندگی میں اختلاف، جہیز سے متعلق جھگڑے، ناجائز تعلقات اور محبت وغیرہ جیسے معاملات شامل ہیں۔ 

ہندوستان کے ساتویں شیڈول کی فہرست-IIکے تحت صحت ، ریاست سے جڑا موضوع ہے اور ریاستوں کو صحت سے متعلق اپنے پروگرام چلانے کے لئے بااختیار بنایا گیا ہے۔ تاہم حکومت ہند اس معاملے میں انتہائی حساس ہے اورقومی مینٹل ہیلتھ پروگرام (این ایم ایچ پی) اور ضلعی منٹل ہیلتھ پروگرام (ڈی ایم ایچ پی) ملک کے کچھ ضلعوں میں نافذ کر رہی ہے۔

 ان پروگراموں میں خودکشی کے واقعات روکنے کے لئے خدمات، ورک پلیس پر تناؤ کو سنبھالنے اور اسکولوں اورکالجوں میں لائف اسکلز کی تربیت اورکاؤنسلنگ جیسے اضافی موضوعات کو شامل کیاگیا ہے۔

نئی دہلی، داخلی امور کے مرکزی وزیر مملکت ہنس راج گنگارام اہیر نے یہاں آفات کے خطرے کو کم کرنے پر قومی پلیٹ فارم کی آئندہ دوسری میٹنگ کیلئے ویب سائٹ 

http://npdrr2-mha.net.inکا آغاز کیا۔ یہ این پی ڈی آر آر سے متعلق تمام معلومات کو شیئر کرنے اورمیٹنگ کے بارے میں روزمرہ کی بنیاد پر مندوبین کو باخبر رکھنے کیلئے ایک مخصوص ویب سائٹ ہے۔ این پی ڈی آر آر کی دوسری میٹنگ اس سال نئی دلی میں اپریل کے آخری ہفتے میں منعقد ہوگی اور میٹنگ کا موضوع مستحکم ترقی کے لئے آفات کے خطرے کو کرنا۔ بھارت کو 2030تک لچکدار بنانا ہے۔

 این پی ڈی آر آر کی پہلی میٹنگ نئی دلی میں 13اور14مئی 2013 کو منعقد ہوئی تھی، جس کا موضوع تھا‘‘ ترقی میں قومی دھاراڈی آر آر:خطرے سے لچیلاپن’’ این پی ڈی آرآر مرکزی وزیر داخلہ کی قیادت والا ایک کثیر شراکت دار نیشنل پلیٹ فارم ہے، جس میں مرکزی سرکار ، ریاستی سرکاریں، مقامی سیلف گورنمنٹ، پارلیمنٹ، آفات سے نمٹنے والی خصوصی ایجنسیاں ، قومی اہمیت کے ادارے ، صفت، میڈیا، سول سوسائٹی تنظیمیں اور بین الااقوامی تنظیمیں شامل ہیںَ یہ آفات کے بندوبست میں فیصلہ کرنے میں شراکت داری کو فروغ دینا ہے اور ملک کی وفاقی پالیسی کو مضبوط کرتاہے ۔

افتتاحی اور اختتامی اجلاس کے علاوہ این پی ڈی آر آر کی دوسری میٹنگ میں ایک مکمل اجلاس پانچ تکنیکی اجلاس ، خصوصی وزارتی سیشن اور اس این پی ڈی آر آر سے قبل از وقت پروگراموں پر ایک سیشن ہوگا۔ 

یہ میٹنگ شراکت داروں کو 2016 میں منعقدہ آفات کو کم کرنے کے لئے ایشیائی وزارتی کانفرنس ، ایشیا علاقائی پلان 2016 اور ڈی آ ر آر پر وزیراعظم کے 10نکاتی ایجنڈا سمیت آفات کو کم کرنے کے بارے میں عالمی اور قومی سطح پر اہم اقدامات کے بارے میں حساس بنائےگا۔ 

نئی دہلی، محنت اور روزگار کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) بندارو دتاتریہ نے  راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں اطلاع دی کہ حکومت نے ملک میں روزگار کو پیدا کرنے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔

 ان اقدامات کے تحت معیشت کے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی، سرمایہ کاری سے متعلق متعدد پروجیکٹوں کو تیز رفتار کرنا اور بہت چھوٹی، چھوٹے اور درمیانہ درجے کی صنعتوں کی وزارت کے ذریعہ چلائے جارہے وزیراعظم کے روزگار پیدا کرنے سے متعلق پروگرام، دیہی ترقیات کی وزارت کے ذریعہ چلائے جارہے مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم (ایم جی نریگا) اور پنڈت دین دیال اپادھیائے گرامین کوشلیا یوجنا (ڈی ڈی یو۔

 جی کے وائی) اور مکانات و انسداد شہری غریبی کی وزارت کے ذریعہ چلائے جارہے قومی شہری ذریعہ معاش مشن (این یو ایل ایم) جیسی اسکیموں پر سرکاری اخراجات میں اضافہ کرنا جیسے امور شامل ہیں۔

نوجوانوں کے روزگار کو بہتر بنانے کےلئے تقریباً 20 وزارتیں 70 شعبوں میں ہنرمندی کے فروغ کی اسکیمیں چلا رہی ہیں۔ ہنرمندی کے فروغ اور تجارت و کاروبار کی وزارت کے ذریعہ تیار کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 16۔2015 کے دوران متعدد شعبوں میں ہنرمند بنائے گئے افراد کی تعداد 1.04 کروڑ ہے۔

حکومت نے قومی کیریئر سروس (این سی ایس) پروجیکٹ کو لاگو کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت ایک ڈیجیٹل پورٹل شامل ہے جو ملک بھر کے روزگار کے متلاشی افراد اور آجروں کےلئے ملک گیر آن لائن پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے تاکہ ایک متحرک، موثر اور ذمہ دار انداز میں انہیں روزگار کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکے۔ اس پورٹل میں کیریئر سے متعلق مواد کا ایک خزانہ ہے۔

17۔2016 میں محنت اور روزگار کی وزارت کے ذریعہ ایک ہزار کروڑ روپے کی رقم مختص کرکے ایک نئی اسکیم پردھان منتری روزگار پروتساہن یوجنا (پی ایم آر پی وائی) کی شروعات کی گئی ہے تاکہ روزگار کو فروغ دینے والی صنعت کو ترغیبات دی جاسکے۔ اس اسکیم کے تحت آجروں کو روزگار میں اضافہ کرنے کےلئے انعام دیا جائے گا۔ 

علاوہ ازیں حکومت نئے ملازمین کے ای پی ایس میں آجروں کی جانب سے دیئے جانے والے 8.33 فیصد تعاون کو خود ادا کرے گی۔ اسی طرح ٹیکسٹائل (پوشاک اور میک اپ) سیکٹر میں بھی حکومت آجروں کی جانب سے دیئے جانے والے پی پی ایف تعاون میں 3.67 فیصد کی رقم ادا کرے گی، مزید برآں حکومت آجروں کی طرف سے 8.33 فیصد ای پی ایس تعاون کو بھی کلی طور پر ادا کرے گی۔ حکومت نے انتہائی روزگار والے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لئے 6000 کروڑ روپے 

کے ایک اہم پیکج کا بھی اعلان کیاہے۔

نئی دہلی، سال 17۔2016 میں پردھان منتری گرامین سڑک یوجنا (پی ایم جی ایس وائی) کے تحت ریکارڈ 47350 کلومیٹر سڑک کی تعمیر ہوئی۔ گزشتہ سات برس کے دوران پردھان منتری گرامین سڑک یوجنا کے تحت ایک واحد سال میں یہ سب سے زیادہ سڑک کی تعمیر ہے۔ سال 14۔2013 کے دوران 25316 کلومیٹر پی ایم جی ایس وائی کی تعمیر ہوئی تھی۔ سال 15۔2014 کے دوران 36337 

کلومیٹر سڑک کی تعمیر ہوئی تھی جبکہ سال 16۔2015 کے دوران 36449 کلومیٹر سڑک کی تعمیر ہوئی تھی۔

دیہی ترقیات کی وزارت کے ذریعہ جاری ایک ریلیز میں کہا گیا ہے کہ 2011 سے لیکر 2014 کی مدت کے دوران پی ایم جی ایس وائی سڑک کی تعمیر کی اوسط شرح 73 کلومیٹر فی دن تھی جو سال 15۔2014 اور 16۔2015 کے دوران بڑھ کر 100 کلومیٹر فی دن ہوگئی لیکن سال 17۔2016 میں یہ شرح ریکارڈ 130 

کلومیٹر فی دن ہوگئی جو کہ پچھلے سات برس کے دوران سالانہ تعمیر کی اوسط کےلحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔

 کہا گیا ہے کہ سال 17۔2016 میں 47350 کلومیٹر پی ایم جی ایس وائی سڑک کی تعمیر کے ذریعہ 11614 گھروں کو سڑک رابطہ فراہم کیا گیا۔ اس طرح سال 17۔2016 میں ہر دن 321 گھروں کو سڑک رابطہ فراہم کیا گیا ۔

پی ایم جی ایس وائی سڑکوں کے ساتھ گھروں کو اوسطاً جوڑنے کی تعداد پر نظر ڈالیں تو پچھلے سات برس میں 11606 کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔ دیہی سڑکوں کے کاربن فوٹ پرنٹ اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے ، کام کے موسم کو بڑھانے، لاگت میں کمی لانے کے لئے پی ایم جی ایس وائی دیہی سڑک کی تعمیر کے دوران آلودگی سے پاک ٹیکنالوجیوں اور غیر روایتی اشیامثلاً پلاسٹک کے فضلات ، 

ٹھندے کی آمیزش، جیوٹیکسٹائل، اڑنے والی راکھ، لوہا اور تانبہ لاوا کے استعمال کو کافی بڑھاوا دے رہی ہے۔

17۔2016 میں آلودگی سے پاک ٹیکنالوجیوں کو استعمال کرکے 4113.13 کلومیٹر پی ایم جی ایس وائی سڑک کی تعمیر کی گئی۔ یہ سال 2014 تا 2016 کے دوران 2634.02 کلومیٹر سڑک کی تعمیر اور 2000 تا 2014 کے دوران 806.93 کلومیٹر سڑک کی تعمیر سے کافی زیادہ ہے۔

معیاری سڑک کی تعمیر کو یقینی بنانے کے لئے نیشنل کوالٹی مانیٹرس (این کیو ایم) کے ذریعہ پی 

ایم جی ایس وائی کاموں کی فیلڈ نگرانی میں اضافہ کیا گیا اور ریکارڈ 7597 این کیو ایم نگرانی ہوئی۔ 16۔2015 میں صرف 8.21 فیصد کاموں کو غیر تسلی بخش پایا گیا ہے ۔

نئی دہلی،  وزیر اعظم نریندر مودی نے الہٰ آباد ہائی کی 150 ویں سالگرہ تقریب کی اختتامی اجلاس سے خطاب کیا۔ 

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ ہماری عدلیہ کی زیارت گاہ کے مانند ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قانونی پیشہ سے منسلک افراد نے بھی ہماری جنگ آزادی میں بہت اہم رول ادا کیا اورلوگوں کو نوآبادیاتی نظام سے نجات دلایا۔ 

انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس ہندوستان کے بارے میں سوچیں جسے ہم بنانا چاہتے ہیں جب ہم 2022 میں آزادی کے 75 ویں سالگرہ منائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہر شہری کو اس کے بارے میں ایک روڈ میپ تیار کرنا چاہیے۔ 

وزیر اعظم نے کہا کہ مرکزی حکومت نے مئی 2014 سے اب تک تقریباً 1200 فرسودہ قوانین ختم کئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس صدی میں ٹکنالوجی ایک کلیدی رول ادا کر رہی ہے اور عدلیہ میں بھی اس کے استعمال کی بہت گنجائش ہے ۔ انہوں اسٹارٹ اَپ کے شعبہ میں مصروف افراد سے زور دے کر کہا کہ وہ اس پہلو پر جدت دکھائیں کہ ٹکنالوجی عدلیہ کی مدد کیسے کر سکتی ہے ۔

نئی دہلی ، دفاع کے وزیر مملکت ڈاکٹر سبھاش بھامرے نے لوک سبھا میں پی آر سنتھل ناتھن اور بھارتی موہن آر کے کے سوال کے تحریری جواب میں بتایا ہے کہ ہر طیارے کو لاحق ہونے والے حادثے یا ایسے کسی دیگر واقعہ کی تفصیلی جانچ ایک کورٹ / بورڈ آف انکوائری کے ذریعے کی جاتی ہے تاکہ حادثے ک وجوہات کا پتہ لگایا جاسکے اور کورٹ / بورڈ آف انکوائری کی سفارشات نافذ کی جاتی ہیں۔ 

دفاعی افواج نے حادثوں کی روک تھام کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں جیسے ہوائی سلامتی اداروں کو منظم بنایا گیا ہے، حادثے اور واقعہ کی رپورٹنگ کے کام کو منظم بنایا گیا ہے، حساس اور نازک مقامات کی شناخت کے لئے تجریاتی مطالعات اور کوالٹی آڈٹ کئے گئے ہیں جو طیاروں کے بیڑوں کے لئےکئے گئے ہیں تاکہ طیاروں کو حادثے نہ پیش آئیں۔ حادثات کی روک تھام کے پروگرام کو خصوصی توجہ کے تحت لایا گیا ہے اور سلامتی طریقوں و ضوابط کے نفاذ کو یقینی بنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر سبھاش بھامرے نے بتایا کہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران اور رواں برس میں (28 مارچ 2017 تک) جنگی جیٹوں کو لاحق ہونے والے حادثات، بری فوج کے طیاروں کو لاحق ہونے والے حادثات کا گوشوارہ درج ذیل ہے۔

سال حادثوں کی تعداد جانی اتلاف کی تعداد

2013-14 09 06

2014-15 15 15

2015-16 08 00

2016-17 (تک 28.03.2017) 11 33

ان حادثات میں 54 اموات واقع ہوچکی ہیں۔

دہلی ، ہاؤسنگ اور شہری انسداد غربت کے وزیر ایم وینکیا نائیڈو نے راجیہ سبھا میں ایک ستارہ سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ گجرات پردھان منتری آواس یوجنا (شہری) کے تحتشہری غربا کے لئے واجبی لاگت والے مکانات تعمیر کرنے کے معاملے میں سب سے آگے ہے۔

 اس یوجنا کا آغاز 25 جون 2015 کو عمل میں آیا تھا۔ گجرات میں شہری نادار افراد کے لئے اب تک 25873 مکانات تعمیر کئے جاچکے ہیں جو پی ایم وائی (شہری) کے تحت 30 ریاستوں اور مرکزی انتظام کے علاقوں میں تعمیر کئے گئے کل مکانات یعنی 82048 مکانات کے مقابلے میں 32 فیصد ہیں۔

وزیر موصوف نے بتایا ہے کہ گجرات کے بعد راجستھان کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک 10805 مکانات تعمیر ہوچکے ہیں۔ (اب تک یہاں کل تعمیر کئے گئے مکانات کے مقابلے 13.17 فیصد )، کرناٹک میں 10447 (12.70 فیصد)، تامل ناڈو میں 6940 (8 فیصد)، مہاراشٹرا 5506 (6.70 فیصد)، اترپردیش میں 3822 (4.65 فیصد)، مدھیہ پردیش میں 2666 (3 فیصد)، بہار میں 2409 (2.90 فیصد)، جموں و کشمیر میں 1986 (2.42 فیصد) اور آندھرا پردیش میں 1650 (2 فیصد) مکانات کی تعمیر عمل میں آچکی ہے۔

شہر کے لحاظ سے احمد آباد کا نمبر دیگر شہروں کے مقابلے میں سب سے اوپر ہے یہاں 10183، جے پور 7434، سورت 5126، راجکوٹ 3817، بنگلور 3428، وڈوڈرا 1665، گیا میں 1334، ٹمکور (کرناٹک)میں 1286، چنئی میں 1279، گلبرگہ (کرناٹک) 1203، جام نگر (گجرات) 1111، دھنباد 1156، وشاکھا پٹنم میں 1094، الور (راجستھان) میں 883 اور رائے بریلی (یو پی) میں 802 مکانات کی تعمیر عمل میں آچکی ہے۔

MKRdezign

संपर्क फ़ॉर्म

नाम

ईमेल *

संदेश *

Blogger द्वारा संचालित.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget