نئی دہلی۔ نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری نے مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی (ایم اے این یو یو)، حیدرآباد میں اولین محمد قلی قطب شاہ لیکچر دیا۔ تلنگانہ کے گورنر ای ایس ایل نرسمہن، تلنگانہ کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ محمد محمود علی، ایم اے این یو یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اور دیگر عمائدین بھی اس موقع پر موجود تھے۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ یہ مالا مال تاریخ کی ایک علاقائی وراثت ہے۔
آسماں بار امانت نہ توانست کشید
قرعہ فال بنامِ منِ دیوانہ زدند
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ اس لیکچر کے انعقاد کے لئے اس سے بہتر کوئی دیگر مقام نہیں ہوسکتا تھا۔ محمد قلی قطب شاہ اس شہر کے بانی تھے، جسے جنتِ ارضی کا نمونہ کہا جاسکتا تھا۔ 17ویں صدی کے اوائل میں انگریز سیاح نے اس شہر کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘یہاں کی ہوا ازحد خوشگوار ہے، پانی کی سہولت ہے اور مٹی بڑی زرخیز ہے’ اور اس نے اس شہر کو مغل شہنشاہ کے قلم رو یا کسی دیگر سلطان کے زیر نگیں شہروں سے بہتر شہر قرار دیا تھا۔
ایک دیگر موضوع بھی اس مقام سے وابستہ ہے۔ دکنی اردو کی اپنی وراثت ہے اور یہ بیجاپور اور گولکنڈہ کی ریاستوں کے دربار کی زبان رہی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ نے اس زبان میں شاعری کی ہے۔
اس کا اپنا بیان یہ ہے کہ‘ ہر روز جس طرح دریا میں لہریں اٹھتی ہیں اسی طرح میں دکنی میں شاعری کرتا ہوں’ اور پہلے صاحب دیوان ہونے کا سہرا بھی اسی فرماں روا کے سر ہے۔ یہ وہی بادشاہ تھا جس نے پہلی مرتبہ حافظ کا ترجمہ کیا اور اس کوششوں سے فارسی شاعرانہ اسلوب نگارش وجود میں آیا اور اس کا استعمال دبستان گولکنڈہ میں ہوا۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے حیدرآبا دکی تعمیر کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کی تعمیر کا آغاز 91-1590 میں ہوا تھا۔ حیدرآباد کے بانی کے ایک شعر سے اس شہر کے بارے میں اشارہ ملتا ہے:
مورا شہر لوگن سے معمور کر
رکھیاں جوں توں دریا میں مِن یا سمائے
اس نئے شہر کی تعمیر کے پس پُشت جو بھی جذبات کارفرما رہے ہوں، ہمارے عہد کے ایک شاعر نے اپنے مقبول انداز میں اس امر کو اس طرح بیان کیا ہے ؎
شہر باقی ہے، محبت کا نشاں باقی ہے
تو نہیں ہے، تری چشم نگران باقی ہے
نائب صدر جمہوریہ ہندنے کہا کہ قدیم ایتھنس کے باشندوں کی طرح حیدرآباد کے باشندگان بھی اپنے شہر کو عاشق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حیدرآباد کی کشش کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ پروفیسر آغا حیدر حسن مرزا نے ‘‘حیدرآباد کی سیر’’کے تحت مضامین کی تالیف کی ہے۔ جس میں اس شہر کی گوناگونی کی جھلک ملتی ہے۔
علامہ اعجاز فرخ کی نگارش ‘‘حیدرآباد : شہر نگاراں’’ بھی اسی زمرے کی تصنیف ہے۔ سبط حسن نے حیدرآباد کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہ مقام ہے ‘جہاں میرے ضمیر کو زندگی کے حسن کا عرفان ہوا، اور جہاں میں نے بنی نوع انسان سے محبت کرنا سیکھا’۔ نریندر لوتھر نے بھی اس شہر کی تاریخ کومطمح نظر بنایا ہے ۔ وسنت باوا نے یہاں کی قدیم اقدار اور انداز حیات کا ذکر کیا ہے اور سیدہ امام نے مختلف پیڑھیوں کے اُن مداحوں کی 38 تصنیفات جمع کی ہیں، جن کا تعلق الگ الگ شعبہ ہائےحیات سے تھا۔
یہ بات ازحد اہم اور قابل غور ہے کہ قطب شاہی خاندان جو 1523 سے لے کر 1687 کے دوران محض 164 سالوں تک برسراقتدار رہا، کی تاریخ اور اُس وقت کے پس منظر میں ، جب اُس کے آخری فرما رواں، ابولحسن نے ایک مغل سردار کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ اس مختصر مدت کے دوران بھی اس خاندانی کی سرپرستی میں فن تعمیرات، شاعری، موسیقی، فنون لطیفہ، رقص اور طرح طرح کے کھانوں کا خوب فروغ ہوا اور یہ تمام چیزیں اس وقت بین الاقوامی تجارت کے فعال مرکز کے علاوہ ثقافت کی شناخت بن گئی۔
ہماری عہد وسطیٰ کی تاریخ میں تین صدیوں کے دوران ایک دائمی حقیقت اُس مرکزی قوت کی تھی جو شمالی ہندوستان میں مرکوز تھی۔ مغل شہنشاہ اکبر دکن کس طرح پہنچا، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک سوانح نگار نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ‘اکبر شمالی افق پر ایک شاہین کی طرح منڈلا تے ہوئے جنوبی ریاستوں کی باہمی چپقلش کا ملاحظہ کررہا تھا، جو ایک دوسرے کی پراخچے اڑا رہی تھیں اور بس اس موقع میں تاک میں تھا کہ وہ مناسب وقت کب آئے کہ جب وہ خود اُن پر جھپٹ پڑے۔
’ انجام کار ایک دیگر تاریخ داں کے الفاظ میں ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ دکن کی اپنی داستانیں نہیں تھیں،تاہم اس کے اپنے عوام سے گہرے روابط تھے، ثقافتیں تھیں اور شمالی ہند کی ریاستیں جو ہمارے عہد میں معاشروں کے لئےجنوب سے نرمدا تک انا کی قربان گاہ بن گئی تھیں۔
افراد، برادریاں یہاں تک کہ پوری ریاست شمال کی وسیع سلطنت کے مقابلے میں اور کبھی کبھی تو اس کے مدمقابل، اور کبھی کبھی اس سے مماثل حیثیت میں بھی، اپنی شناخت رکھتی تھیں۔’ یہ خودمختار یا نیم خودمختار ریاستیں الگ الگ زمانے تک شہنشاہی کے جلال سے اس کی بالادستی قبول کرنے کے طفیل، محفوظ رہیں۔ اس عمل کے دوران انھوں نے اپنا انداز حکمرانی وضع کرلیا۔ انھوں نے مذہب کو سیاست اور ثقافت سے علیحدہ کرلیا اور اُسے سرحدی بندھنوں میں بھی محدود نہیں ہونے دیا اور اس طریقے سے اُن کی ثقافت ایک وسیع اور لچیلی ماورائی کردار کی حامل ہوگئی۔
معاشرے کے مختلف طبقات کے ما بین تعلقات استوار کرنے میں صوفیوں کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی کوششوں کے طفیل مذاہب اور ثقافت میں ایک طرح کی مفاہمت پیدا ہوگئی۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ دکن کی سیاست کے دو پہلوؤں سے احتراز کیا جاسکتا ہے تاہم ان کا ذکر ضروری ہے۔ پہلی بات حکمرانی کا فلسفہ اور ریاست کی رعایا کے ساتھ عملی ربط و ضبط۔ دوسری بات ارضیاتی سیاسی تقاضے، جنہوں نے بھارت کے برصغیر میں بالادستی کی قوت سے لوہا لیا۔
قطب شاہی گھرانہ ایران نژاد تھا اور ایران سے ان کے تعلق نے گہرا مذہبی ارتباط بھی قائم رکھا تھا۔ خصوصاً 1501 کے بعد جب شاہ اسمٰعیل نے کٹر فرقہ بندی کا طریقہ اپنا لیا تھا۔ اس سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکمرانی کے تئیں ان کا نظریہ عملی اور سیکولر تھا۔ ابراہیم کے دور حکومت میں انتظامیہ کےمتعلق تحریر کرتے ہوئے ایک مؤرخ نےہارون خان شیروانی نےمحمد قلی قطب شاہ کے والد ابراہیم کے بارے میں لکھا ہے کہ ‘جہاں تک ریاست کے امور کا تعلق تھا، ہندو اور مسلم کے درمیان بہت معمولی فرق رکھا جاتا تھا۔’ محمد قلی قطب شاہ کے دور میں بھی ایسا ہی تھا ۔
‘اُس عہد کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ہندو اور مسلم آبادی کے مابین ایک جذبہ باہم موجود تھا۔’ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ ہندو اور مسلم دونوں کو مساوی مواقع فراہم کرائے جائیں خصوصاً ریاست کے تمام افسران کو ان کے دربار کے بارے میں بھی۔ وہی تاریخ داں رقمطراز ہے‘مسلم اور غیر مسلم دونوں ثقافتوں کی نمائندگی ایک جیسی ہوتی تھی تاہم مسلمانوں کے غیر شیعہ طبقات کے تئیں ان کے اپنے مخصوص نظریات تھے۔
تاہم ہندوؤں اور پارسیوں کے ساتھ ثقافتی لحاظ سے دیکھیں تو اپنے انداز حیات میں اُتنا ہی متحد تھے، جتنا ایک سڑک پر چلتے ہوئے ایک آدمی سے ۔ اس کے نتیجے میں ریاست کامجموعی نظریہ ،جس کا تعلق سلطان سے تھا وہ غیر متعصبانہ تھا۔’
تیلگو زبان کے تئیں سلطان کا جھکاؤ اس فلسفے کا دوسرا پہلو ہے۔ ان کے والد جنھوں نے وجئے نگر میں سات برس بطور مہمان ذی وقار کے گزارے تھے، وہاں رہتے ہوئے اس زبان کا ذوق پیدا کرلیا تھا۔ محمد قلی قطب شاہ کے ساتھ بھی معاملہ یہی تھا، جس کے لئے تیلگو مادری زبان کی طرح تھی اور جو اپنی دکنی اردو نظموں میں تیلگو الفاظ کا استعمال کیا کرتا تھا اور اس زبان کے علما کی سرپرستی بھی کرتا تھا نیز اس کے فرمان اور اعلانات ہمیشہ ذولسانی ہوتے تھے۔
اس طریقے سے سلطان نے دانستہ اس بات کی کوشش کی کہ دکن کی ثقافت میں حیدرآباد کے لوگ رواداری محبت اور تفریق سے عاری اثرات قبول کرلیں۔ یہ محض اتفاقی حادثہ نہیں ہے کہ اس کا ایک وارث کچی پُڈی رقص کا سرپرست بنا۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ محمد قلی قطب شاہ کو تاریخ میں ایک مقام حاصل ہے اور اس کی شخصیت اور اس کے تعاون کا مطالعہ کسی ایسے شخص کے لئے بے سود نہیں ہوسکتا جو فن تعمیر ، لسانیات اور ثقافت کی ارتقا کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو۔ امن اور تدبر کی اس کی پالیسی نے ‘مغل سیاسی اثرات کو دور ہی رکھا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کی طاقت کو مضبوط کیا۔’ 31 جنوری 1626 میں اس31 برس کی حکومت کے بعد اس کے انتقال سے مغل شہنشاہ شاہجہاں کے لئے راستہ کھل گیا کہ وہ دکن کی سلطنت کو زیر نگیں لاسکے۔
اپنے خطبے کا اختتام کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہم عصر حیدرآباد نے از حد ہنرمندی اور کامیابی سے 21ویں صدی کی نئی دنیا میں اپنا مقام حاصل کیا ہے۔ ہم صرف یہی امید کرسکتے ہیں کہ رواداری ، پرامن بقائے باہمی، شمولیت اور ثقافتی ہم آہنگی کی ورثے میں ملی اس کی روایات اپنی منفرد واحدشناخت برقرار رہیں گی اور ہمارے ملک کے لئے ایک تابندہ مثال بنی رہیں گی۔
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم زے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں
एक टिप्पणी भेजें