Halloween Costume ideas 2015
Articles by "Headline"

Image result for images - oilنئی دہلی، مرکزی کابینہ نے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں دو مقاما ت یعنی اڈیشہ میں چنڈی خول اور کرناٹک میں پڈور میں 6.5 ملین میٹرک ٹن کی صلاحیت کے اضافی کلیدی پٹرولیم ذخائر (ایس پی آر) سہولتوں کے قیام کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے تحت دونوں ایس پی آر کے لئے ایس پی ایم (سنگل پوائنٹ مورنگ) کی تعمیر بھی عمل میں لائی جائے گی۔ مذکورہ ایس پی آر سہولتیں چنڈی خول اور پڈور میں فراہم ہونی ہیں ، وہ زیر زمین ہونگی اور بالترتیب 4 ایم ایم ٹی اور 2.5 ایم ایم ٹی صلاحیت کے حامل ہوں گی۔ حکومت نے 18-2017 کے بجٹ میں اعلان کیا تھا کہ 2 اضافی ایس پی آر قائم کی جائیں گی۔

مذکورہ اصولی منظوری اس طرح سے دی گئی ہے کہ اس سلسلے میں حکومت ہند کی جانب سے فراہم کی جانے والی بجٹ کی امداد کم ہو گی اور اسے پی پی پی ماڈل کے تحت عملی جامہ پہنایا جا ئے گا۔ اس طرح کے کاموں میں کام کاج کے شرائط کا تعین پٹرولیم اور قدرتی گیس کی وزارت ، وزارت خزانہ کے مشورے سے کرے گی اور اس سلسلے میں منڈی کی ضروریات اور مستقبل کے سرمایہ کاروں وغیرہ سمیت تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلے روڈ شوز کئےجائیں گے۔

آئی ایس پی آر ایل نے پہلے ہی 3 مقامات یعنی وِشاکھا پتنم (1.33 ایم ایم ٹی) ، منگلور (1.5ایم ایم ٹی)، اور پڈور (2.5ایم ایم ٹی) کی شکل میں 5.33 ایم ایم ٹی کے زیرے زمین ذخیرے کے لئے تعمیراتی کام انجام دیا ہے۔ ایس پی آر پروگرام کے پہلے مرحلے کے تحت مجموعی طور پر 5.33 ایم ایم ٹی صلاحیت فی الحال فراہم کی گئی ہے اور یہ بھارت کی خام تیل ضروریات کی 10 دن تک تکمیل کر سکے گی۔ یہ تکمیل 17-2016 کے مالی سال کے صارفین اعداد و شمار کے حساب سے ممکن ہو سکے گی۔اضافی 6.5 ایم ایم ٹی کلیدی پٹرولیم ذخائر کے قیام کے سلسلے میں کابینہ کی منظوری سے اضافی 12 دنوں کی مزید سپلائی ممکن ہو سکے گی اور توقع کی جاتی ہے کہ اس سے بھارت کی توانائی و سلامتی منظم ہو سکے گی۔

چنڈی خول اور پڈور میں ایس پی آر کا تعمیراتی عمل اڈیشہ اور کرناٹک میں براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع فراہم کرے گا۔

مرنال پانڈے

موجودہ مرکزی حکومت کی غالباً سب سے باوقار اور اخلاقی شبیہ والی کابینہ وزیر سشما سوراج کے بارے میں سوشل میڈیا پر جو نہایت بیہودہ تبصرے کیے جا رہے ہیں، ان سے بھی زیادہ اس غیر اخلاقی سلوک پر کسی بڑے بی جے پی لیڈر کا بیان نہ جاری ہونا حیران کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر سشما سوراج کے ٹرولنگ کی وجہ ان کے ذریعہ ایک مسلم سے شادی کر اپنے پاسپورٹ میں اپنا نام نہ بدلنے (جس کا اسے حق حاصل ہے) والی خاتون کو ذلیل کرنے والے افسر کے خلاف قدم اٹھانا ہے۔


تقریباً اسی وقت (22 جون کو) 15 سال کے نوجوان جنید کی چلتی ریل گاڑی میں قتل کو ایک سال مکمل ہو گیا۔ خبروں کے مطابق کچھ ساتھی مسافروں نے اقلیت ہونے کے باوجود کہنے پر سیٹ نہ چھوڑنے کی وجہ سے اسے چاقو سے زخمی کر اگلے اسٹیشن پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد بھی بھیڑ کے ذریعہ محض شبہ کی بنیاد پر اقلیتوں، دلتوں پر حملے کم نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دادری سے آسام، گوڈا اور ہاپوڑ تک لگاتار ملک بھر میں تشدد کے ہر واقعہ کے بعد کچھ دن ہنگامہ مچتا ہے، لیکن جب سماج دشمن عناصر کئی وزرائے اعلیٰ، ممبران پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی اور پولس کی خاموش یا زبانی شہ پاتے ہیں تو ان کی ہمت بڑھ جاتی ہے۔


رائے سینا ہل کے لوٹین زون میں رہنے والے سورما اخباروں یا ٹی وی مذاکروں میں چاہے جو کہیں، چند برس قبل سوشل میڈیا کی معرفت کچھ پارٹیوں نے جو بھسماسُری ٹرول گروپ اپوزیشن کو نیست و نابود کرنے کے لیے اتاری تھی، ان کے منھ میں خون لگ چکا ہے۔ اپنی شدید فرقہ وارانہ نظریات کے سبب وہ آج اپنی ساتھی پارٹیوں کے ہی کچھ سینئر اور معزز لیڈروں کو نشانہ بنانے پر آمادہ ہیں۔ ایسے عناصر کی تنقید کی جگہ ان کی مدد سے خطرناک افواہیں پھیلاتے ہوئے عام انتخابات تک گئوکشی بندی اور اقلیت بنام اکثریت جیسے ایشوز گرم رکھے گئے تو ملک کا اللہ ہی مالک ہے۔


ہندوستان کی جمہوریت اگر گزشتہ سات دہائیوں سے قائم ہے تو اس لیے کہ اس کے قائم رہنے میں اکثریت ہی نہیں اقلیتوں اور حاشیے کے کئی طبقات کو بھی اپنی امیدیں اور مفادات پورے ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں لگاتار بڑھتی خواندگی کے سبب آج صحیح سوچ کی اشاعت میں میڈیا کا زبردست کردار بنتا ہے۔ لیکن افسوس یہ کہ زیادہ تر میڈیا نے تو موقع پرستانہ خاموشی اختیار کر لی ہے۔ جو ایسے ماحول میں بھی انتباہ کر رہے ہیں اور تنقید کر رہے ہیں ان کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں بی جے پی ممبر اسمبلی لال سنگھ نے کشمیر میں سینئر صحافی کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے علاقے میں ساری میڈیا کو ہی دھمکا دیا اور کہا کہ وہ خاموش نہیں ہوئے تو ان کا حشر بھی مہلوک صحافی جیسا ہی ہوگا۔


اپنے یہاں کہاوت ہے ’نندک نیرے راکھیے آنگن کٹی چھوائے‘۔ یہ خاص طور پر حکمراں پارٹیوں پر نافذ ہوتی ہے۔ نہرو جی پر شنکر نے کارٹونی حملہ کیا تھا تو انھوں نے ان کو ہنس کر لکھا تھا ’کیپ اِٹ اَپ‘۔ میڈیا کو کوسنے کی جگہ اگر اقتدار میں انا اور خود کی تشہیر کی آواز کچھ کم ہی کھل کر سامنے آئیں تو ہی ممکن ہوتا ہے کہ صحیح اور مضبوط خبریں اوپر پہنچیں اور عوام کی تکلیف دور کی جا سکے۔ سابق وزیر مالیات ارون جیٹلی جی نے بھی اپنے تازہ بلاگ میں کہا ہے کہ تنقید سے منھ موڑنے والی حکومت کا عوام سے دور ہونا طے ہے۔


کشمیر میں چار سال قبل ہوئے اتحاد پر میڈیا کا ایک طبقہ تنقید کے باوجود کہتا رہا تھا کہ اقلیتوں کے درمیان مرکزی حکومت کے رخ کی جو شبیہ بنی ہے اس کو ختم کیے بغیر اتحاد ناکام ثابت ہوگا۔ آخر میں وہی ہوا۔ اس درمیان باہری دنیا میں بھی بادشاہت کے نئے قطب اور نیا ماحول بن رہا ہے جن میں ہم کو اپنے نئے دوست تلاش کرنے ہوں گے۔ ایسے وقت میں بیرون ملک کا دوست میڈیا سرکاروں کے کام آتا ہے، لیکن بیرون ملکی میڈیا میں ان دنوں ہمارے یہاں بڑھتی سماجی و اقتصادی دوری اور اقلیتوں و دلتوں کے خلاف موب لنچنگ لگاتار ہماری شبیہ کو داغدار بنا رہی ہے۔ اس شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے چند ایک سرکاری بیان یا یوگ کا بین الاقوامی پروگرام ناکافی ہے۔


یہاں ہم قارئین کے سامنے ایک زمانے میں پڑھی گئی روسی پالیسی کی داستان سناتے ہیں... ٹھٹھرن بھری شام کو گھر لوٹ رہے ایک ہمدرد کسان نے دیکھا کہ پالے سے اکڑا ایک کبوتر زمین پر تڑپ رہا ہے۔ کسان نے اسے اٹھا کر کوٹ میں لپیٹا، سہلا کر اس کی رکتی سانسوں کو لوٹایا۔ کبوتر نے آنکھیں کھول دیں۔ تبھی وہاں سے گایوں کا ایک ریوڑ گزرا جس میں سے ایک گائے نے تھوڑا رُک کر کسان کے آگے گوبر کا بڑا ڈھیر گرا دیا۔ کسان نے کبوتر کو گرما گرم گوبر کی ڈھیری میں ڈال کر راحت کی سانس لی کہ اب صبح دھوپ نکلنے تک بے چارہ پرندہ بچا رہے گا۔ کسان تو چلا گیا لیکن گوبر کی گرمی سے راحت محسوس کرتے کبوتر نے زوروں سے غٹر غوں کرنا شروع کر دیا۔ اس کی زوردار آواز سن کر پاس سے گزرتا دوسرا کسان رکا اور کبوتر کو پکا کر کھانے کے لیے اٹھا لے گیا۔


یہ کہانی تین نصیحت دیتی ہے۔ ایک، تم کو گوبر میں ڈالنے والا ہر مخلوق تمہارا دشمن نہیں ہوتا۔ دو، گوبر سے باہر نکالنے والا ہر مخلوق تمہارا دوست بھی نہیں ہوتا۔ اور تین، خود گوبر میں گردن تک پھنسا ہوا شخص کچھ زیادہ چہکنے سے باز 
ئے۔ مزید کیا کہا جائے، قارئین خود سمجھدار ہیں۔

 [ قومی آواز سے ] 








Image result for images parliament house in delhi
نئی دہلی، پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس 18 جولائی سے 10 اگست تک چلے گا۔کیمیاوی اشیاء اور کیمیاوی کھادنیز پارلیمانی امو رکے مرکزی وزیر جناب اننت کمار نے آج یہاں یہ اطلاع دی ہے۔وہ پارلیمانی امور کی کابینہ کمیٹی کی میٹنگ کے بعد میڈیا کے افراد سے بات چیت کررہے تھے۔ میٹنگ کی صدارت مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کی۔

اننت کمار نے بتایا کہ اجلاس کے کام کے 18 دن ہوں گے۔ انہوں نے تمام سیاسی پارٹیوں سے اپیل کی کہ وہ اس اجلاس کو مفید بنانے کے لئے حکومت کے ساتھ تعمیری تعاون کریں۔ قانون سازی کے کام میں ان 6 آرڈینینسوں کو قانونی شکل دینا شمال ہے، جو 2018 کے مانسون اجلاس سے پہلے اور پچھلے اجلاس کے دوران جاری کئے گئے۔

اننت کمار نے بتایا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں غورو خوض اور منظوری کے لئے جو دیگر بل پیش کئے جائیں گے، ان میں آئینی (123ویں ترمیم) بل 2017، مسلم خواتین (شادی کے متعلق حقوق کا تحفظ) بل 2017، مخنس افراد(حقوق کا تحفظ)بل 2016، نیشنل میڈیکل کمیشن بل 2017، مفت اور لازمی تعلیم کے بچوں کے حقوق(دوسری ترمیم)بل 2017 شامل ہے۔

اننت کمار نے یہ بھی بتایا کہ راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئر مین کا انتخاب بھی اجلاس کے دوران ہوگا، کیونکہ جناب پی جے کورین کے عہدے کی مدت اس مہینے ختم ہورہی ہے۔

Image result for images - pm modiنئی دہلی،حکومت ہند کی وزارت خزانہ کا محکمہ معاشی امور ا ور ایشین انفرا سٹرکچر انویسٹمنٹ بینک(اے آئی آئی بی) مشترکہ طور پر ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک( اے آئی آئی بی) کی تیسری سالانہ میٹنگ کی میزبانی کریں گے۔ اس میٹنگ کا انعقاد 25 اور 26 جون کو ہوٹل ٹریڈنٹ/ اوبرائے اور این سی پی اے ، ممبئی، انڈیا میں کیاجائے گا۔

اس سال کی میٹنگ کا عنوان ‘‘بنیادی ڈھانچے کے لئے متحرک سرمایہ: اختراع اور تعاون’’ جس کے تحت مختلف تنظیموں اور حکومت کی سطح کے رہنما، مستحکم سرمایہ کاری کے ذریعہ پائیدار مستقبل کی تشکیل کے لئے اپنے نظریات اور تجربات مشترک کریں گے۔

اس سال ، ایشین انفراسٹرکچر فورم کے آغاز کا افتتاح بھی دیکھاجاسکے گا جس میں عملی اور پروجیکٹ پر مبنی انفراسٹرکچر پریکٹیشنرس جمع ہوں گے اور جدید سرمایہ کاری کو اہم بنیادی ڈھانچہ ضروریات کے تال میل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تبادلہ خیال کیاجائے گا۔

اس دو روزہ میٹنگ میں اعلی پالیسی ساز، وزراء، اے آئی آئی بی اراکین، شراکت دار اداروں کے شرکاء ، پرائیویٹ شعبے اور سول سوسائٹی تنظیموں کے شرکاء شرکت کریں گے۔ اس کے علاوہ، ماحولیات اور سماج دوست عوامل پر مبنی ایشیا کے بنیادی ڈھانچے کی خامیوں پر گفتگو اور اپنی دور اندیشی اور تجربات مشترک کرنے کے لئے متعدد اور مختلف میدانوں کے معروف ماہرین بھی اس میٹنگ میں حصہ لیں گے۔

اس کے علاوہ اس میٹنگ میں حکومت کے متعدد اعلی رینکنگ افسران اس موقع کی رونق بڑھائیں گے۔ عزت مآب وزیراعظم ہند جناب نریندر مودی،26 جون 2018 کو اے آئی آئی بی کے تیسرے اجلاس کا افتتاح کریں گے۔ اس کے علاوہ، عزت مآب وزیرخزانہ جناب پیوش گوئل اور وزارت خزانہ کے معاشی امور کے سیکریٹری جناب سبھاش چندرگرگ بھی میٹنگ کےد وران موجود رہیں گے۔ وہ اس میٹنگ میں ہندوستان میں بنیادی ڈھانچہ منصوبہ بندی میں دلکش مناظر(ماحولیاتی زمین کی تزئین) کے لئے سرمایہ کاری پر گفتگو کے ساتھ ساتھ اے آئی آئی بی کی تیسری سالانہ میٹنگ کا مکمل جائزہ بھی لیں گے۔

انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ، حکومت مہاراشٹر کا نوڈل محکمہ ہے جب کہ مہاراشٹر انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن(ایم آئی ڈی سی) حکومت مہاراشٹر کی نوڈل ایجنسی ہے۔ اے آئی آئی بی کے تیسرے سالانہ اجلاس کے لئے نالج پارٹنر، ریسرچ اینڈ انفارمیشن سسٹم فارڈیولپنگ کنٹریز(آر آئی ا یس) اور کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری(سی آئی آئی) پروفیشنل کانفرنس آرگنائزس( پی سی او) ہے۔

سالانہ میٹنگ 2018 کے سلسلے میں، حکومت ہند نے ، فروری سے جون کے دوران ہندوستان کے مختلف شہروں میں متعدد اور مختلف لیڈنگ ایوینٹس( تقریبات) کا انعقاد کیا ہے جن کا مقصد متعدد اہم بنیادی ڈھانچہ عنوانات پر مباحثہ کرواناتھا۔

سالانکہ میٹنگ کے دوران بہت سے سیمیناروں کاانعقاد کیاجائے گا جن مقصد، بنیادی ڈھانچے کے لئے متحرک سرمایہ کاری، صنف اور بنیادی ڈھانچہ اور ایشیاء میں اور بیرون ایشیاء کنکٹوٹی سمیت مختلف متعلقہ عنوانات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ میزبان ملک سیمیناروں کاانعقاد بھی مختلف عنوانات پر کیاجائے گا جن میں سرمایہ کاری کے ذرائع اور آلات اور نئی ٹیکنالوجی سے متعلق انتخابات اور متبادل ، نیز ہندوستان میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے تصور پر وزرائے اعلی کے ساتھ پینل تبادلہ خیال بھی کیا جائے گا۔

حکومت ہند کی وزارت خزانہ کا محکمہ معاشی امور اس موقع پر فیڈریشن آف انڈین چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری(ایف آئی سی سی آئی) کے ساتھ مل کر بھارت انفراسٹرکچر ایکسپو۔ 2018 نمائش کا بھی اہتمام کرے گا۔ اس نمائش کامقصد، سرکاری اور نجی شعبے کی کمپنیوں کے بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹ تری اور ڈیلوری کے دائرہ کار میں اپنے جدید ترین حل، ٹیکنالوجیوں اور آفرنگس کی نمائش کرنا ہے۔

نمائش سے متعلق مزید معلومات اور تفصیلات کے لئے http://aiib-am2018.gov.in/exhibition.php* پر لاگ آن یا رابطہ کریں۔

ایشین انفرا سٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی تیسری سالانہ میٹنگ کے بارے میں مزید معلومات کے لئے درج ذیل پتوں پر رجوع کریں۔



Hashtag: #AIIB2018

ٹوئیٹر پر مذکورہ سے متعلق معلومات کے لئے درج ذیل پر رابطہ کریں

*Twitter:* @AIIB_Official @FinMinIndia @PIBMumbai & @PIB_India 

اس سے قبل ، اے آئی آئی بی سالانہ میٹنگوں کا انعقاد بیجنگ ، چین،2016 اور جیجو ریبلک آف کوریا۔ 2017 میں کیا گیا۔
اے آئی آئی بی کے بارے میں

ایشین انفرا سٹرکچر انویسٹمنٹ بینک( اے آئی آئی بی) ایک کثیر جہتی بینک ہے جس کامقصد اور مشن ایشیاء اور بیرون ایشیاء میں اقتصادی نتائج(آؤٹ کمز) کو بہتر کرنا ہے۔ اس کا صدر دفتر بیجنگ میں ہے۔

ہم نے کام( آپریشنز) کا سلسلہ جنوری 2016 اور اب دنیا بھر میں اس کے 86 اراکین کو منظوری دی جاچکی ہے۔ آج مستحکم بنیادی ڈھانچے اور دیگر پروڈکٹو سیکٹروں کے لئے سرمایہ کاری کے ذریعہ ہم لوگوں، خدمات اور بازاروں کو اس عرصے کے دوران بہتر طریقے سے جوڑپائے ہیں اور ہم نے بہتر مستقبل کے لئے اربوں لوگوں کی زندگی پر ا ثر ڈالا ہے۔

Image result for images - minerals and metals
نئی دہلی، مرکزی حکومت نے کانکنی کے شعبے میں اور دھاتوں اور غیر دھاتوں والی خام اشیاء کی تلاش میں سو فیصد غیر ملکی راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)کی منظوری دے دی ہے۔یہ منظوری خود کار طریقہ کار کے تحت دی گئی ہے، جس سے اس شعبے کو بڑھاوا ملے گا۔ نئی دہلی میں انڈین منرلز اینڈ میٹلز فورم کی ساتویں میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کانوں کی وزارت کے جوائنٹ سیکریٹری  انل کمار نائک نے کہا کہ بجلی اور سیمنٹ کی صنعتیں بھی دھاتوں اور کانکنی کے سیکٹر کی ترقی میں مدد کررہی ہیں۔رہائشی اور تجارتی عمارت سازی کی صنعت میں زبردست توسیع کی وجہ سے لوہے اور اسٹیل کی مانگ بڑھنے کا پورا پورا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ زمین کی گہرائی میں موجود معدنیاتی تلاش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں بہت سا کام کیا جانا ہے اور نجی سیکٹر کو بھی تلاش کے کام میں ایک اہم ادا کرنا چاہئے۔ا نہوں نے کہا کہ کانکنی کے بزنس میں بہت سی چھوٹی چھوٹی کمپنیاں شامل ہیں۔ اب ان کمپنیوں کو مستحکم بنانے کا وقت آگیا ہے۔یہ کام کانکنوں کے کنسورشیم کے ذریعے کیا جانا چاہئے۔ ہمارے ملک میں کم درجے کی بہت سی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طورپر اُڈیشہ میں باکسائٹ کے ذخیرے ہیں، مہاراشٹر اور گجرات میں بھی کم درجے کے باکسائٹ کے بڑے بڑے ذخیرے موجود ہیں۔ انہوں نے کم درجے کی معدنیات کو استعمال کئے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

انہوں نےکہا کہ ہندوستان میں لیتھیم اور کوبالٹ کی کافی کمی ہے۔ان دو معدنیات کا بجلی سے چلنے والی موٹر گاڑیوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جو ہندوستان کی حکومت کے بڑے مشنوں میں سے ایک ہے۔حکومت نے ایک تجویز کی شروعات کی ہے، جس کے تحت نالکو، ہندوستان کاپر اور ایم ای سی ایل بیرونی ملکوں سے لیتھیم اور کوبالٹ حاصل کرنے کا ایک مشترکہ منصوبہ شروع کریں گی۔

میٹنگ میں ہندوستان کاپر لمٹیڈ کے سی ایم ڈی جناب سنتوش شرما ، مائننگ اینڈ میٹل سیکٹر کے جناب انجانی کے اگروال نے بھی شرکت کی۔

GST Bill, GST Bill FAQs, FAQs GST Bill, GST Bill work, GST Bill highlights, GST bill today, gst bill today news, gst bill in rajya sabha, gst bill in rajya sabha today, gst bill status in rajya sabha, gst bill in rajya sabha 2016, gst bill in rajya sabha latest news, gst bill in rajya sabha live, gst bill in rajya sabha latest, GST Bill parliament, GST Bill and Income Tax, Income Tax and GST Bill, GST Bill for single tax, tax on supply chain, Input Taxes, Central GST, Common set of authorized banks, Common Accounting Codes, financial expressنئی دہلی، 30 اپریل 2018 تک داخل تمام زیر التوا جی ایس ٹی ادائیگیوں کو ختم کرنے کے حکومت کے عزم کے سلسلے میں سینٹرل بورڈ آف ان ڈائریکٹ ٹیکسز اینڈ کسٹمز ( سی بی آئی سی) نے دوسرے خصوصی ادائیگی پکھواڑے کی توسیع مدت جو 31 مئی 2018 سے 16 جون 2018 کردی گئی تھی، کے اختتام پر کامیابی کے ساتھ تمام ادائیگی مکمل کرلی ہیں۔

16 جون 2018 کے اختتام تک ادائیگی پکھوڑے میں 6087 کروڑ آئی جی ایس کی ادائیگی کو منظوری دے دی گئی۔ دوسرے پکھوڑے کے دلچسپ حقائق اس طرح ہیں:

تقریباً 168191 شپنگ بلز کو پروسیس کیا گیا۔

تقریباً 9293 ایکسپورٹروں کے ریفنڈ دعووطں کو منظوری دی گئی جس میں تقریباً 3500 نئے ایکسپورٹرس بھی شامل ہیں۔

مجموعی طور پر 21،142 کروڑ روپے (آئی جی ایس ٹی کی واپسی)، روپے، 9. 923 کروڑ روپے (سیبیڈی -101A کی رقم کی واپسی کی طرف سے سی بی آئی) اور 6،997 کروڑ رو. ریاستوں کی طرف سے (آر ایف ڈی -1 01A رقم کی واپسی) 16 جون، 2018 تک مجموعی طور پر 38،062 کروڑ روپے منظور کئے گئے ہیں۔ مسترد دعوے کی رقم پر غور کیا گیا ہے، مجموعی آئی جی ایس ایس کو خارج کر دیا 23،437 آر ایف ڈی -1 01 اے (سی بی سی آئی کی طرف سے) 10،824 کروڑ روپے، آر ایف ڈی -1 01 اے (ریاستوں کی طرف سے) 7، 287 کروڑ رو. ہے اور 16 جون 2018 تک مجموعی طور پر جی ایس ٹی کی رقم کی واپسی کے اخراجات 41،548 کروڑ روپے


نئی دہلی، کامرس اور صنعت کے وزیر سریش پربھو نے کہا ہے کہ بہترین معیار فراہم کرنے کے سلسلے میں ہندوستان کی تلاش معیار بندی کی نشاندہی سے شروع ہوئی ہے وہ آج نئی دہلی میں معیار بندی سے متعلق قومی حکمت عملی پر عملدرآمد کے سلسلے میں پانچویں نیشنل اسٹینڈر اجتماع میں تقریر کررہے تھے۔اس تقریب اہتمام کامرس کے محکمے اور ہندوستانی صنعتوں کی کنفیڈریشن(سی آئی آئی) نے کیا ہے۔جو 19-20 جون تک چلے گی۔

اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے وزیرموصوف نے کہا کہ جب تک مصنوعات کی معیار بندی نہ ہو انہیں بازار میں پہنچانا مشکل ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ معیار بندی سے برآمدات کو بھی فر وغ ملتا ہے اور اندرون ملک اقتصادی ترقی بھی ہوتی ہے۔ اس سے مصنوعات کی قیمت معلوم ہوتی ہے۔ جس سے سب سے زیادہ صارفین کو فائدہ پہنچتا ہے۔

نئی دلّی ، فروغ انسانی وسائل کے مرکزی وزیر پرکاش جاوڑیکر نے کہا ہے کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران حکومت نے تعلیم کے نظام کو مستحکم کرنے کے لئے 33 نئی پہل قدمیاں کی ہیں ۔ گزشتہ روز نئی دلّی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فروغ انسانی وسائل کے مرکزی وزیر جناب پرکاش جاوڑیکر نے فروغ انسانی وسائل کی وزارت کی گزشتہ چار سال کی کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ سب کے لئے قابل برداشت اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے انقلابی تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔ 

 جاوڑیکر نے کہا کہ وزیر اعظم  نریندر مودی کی نظریاتی قیادت کے تحت تعلیم کے شعبے میں معیار ، جواب دہی ، مساوات اور قابل استطاعت رسائی کے لئے تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔فروغ انسانی وسائل کے وزیر مملکت ،محکمہ ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر ستیہ پال سنگھ اور فروغ انسانی وسائل کے محکمہ اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی جناب اوپیندر کشواہا بھی اس پریس کانفرنس میں موجود تھے ۔
 پرکاش جاوڈیکر نے نئی پہل قدمیوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران 103 نئے کیندریہ ودیالیہ اور 62 نئے نوودیہ ودیالیہ کھولے گئے ہیں ۔
نیشنل تخمینہ جاتی سروے کو دنیا کے سب سے بڑے تخمینہ جاتی سروے سے تعبیر کرتے ہوئے جناب جاوڈیکر نے کہا کہ اس سروے کے مطابق 3,5 کلاس کے 22 لاکھ طلباء اور دسویں کلاس کے 15 لاکھ طلباء کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ ہر ضلع اور ریاست کا تعلیمی استعداد کا خاکہ وہاں کے وزراء اعلیٰ ، ممبران پارلیمنٹ اور اہلکاروں کی مشاورت سے تیار کیاگیا ہے ۔
فروغ انسانی وسائل کے وزیر نے روک نہ لگانے اور لگاتار آگے بڑھانے کی پالیسی میں تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو مفت اورلازمی تعلیم (ترمیمی) بل ، 2017 پہلے ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جاچکا ہے ،مجوزہ ترمیم کے مطابق ریاستیں پانچویں اور آٹھویں جماعت میں طلباء کاامتحان لیں گی ۔ اگر طالب علم دوسری کوشش میں بھی ناکام ہو جاتا ہے تو وہ اسی درجے میں روک لیا جائے گا ۔

 اس سے طلباء کے ذریعے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کاموقع ملے گا ۔ اساتذہ کی تعلیم کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 14 لاکھ غیر ہنر مند ڈی ای آئی ای ڈی اساتذہ ’’ سوایم ‘‘پلیٹ فارم کے تحت کورس کر رہے ہیں اورپہلے سال کاامتحان کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا ۔
جناب جاوڑیکر نے کہا کہ حکومت نے تعلیمی نصاب کو معقول بنانے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 37 ہزار افراد نے نصاب کو کم کرنے کے مشورے دیئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ قدرو قیمت کی حامل تعلیم ، تجرباتی تعلیم ، زندگی کے ہنر سے متعلق تعلیم ، ، خلاقی ہنر اورجسمانی تعلیم پر توجہ مرکو زکی جائے ۔ 

انہوں نے کہا کہ سامگرہ شکشا کے تحت ہر سال 20 فیصد بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال 11.4 لاکھ اسکولوں میں 17 ہزار کروڑ روپئے کی لاگت سے 95 ملین طلباء کو تازہ پکا ہوا کھانا فراہم کیا جا رہاہے ۔
جناب جاوڈیکر نے کہا کہ گزشتہ چار سال کے دوران اعلیٰ تعلیم کے محاذپر 141 یونیورسٹیاں ، 14 آئی آئی ٹی، 7 آئی آئی ایم ، 7 آئی آئی ٹی اور ایک این آئی ٹی کھولے گئے ہیں ۔ 

انہوں نے کہا کہ ہائر ایجوکیشن فائننسنگ ایجوکیشن ( ایچ ای ایف اے ) آئندہ چار برسوں کے دوران 1,0,0,000 کروڑ روپئے فراہم کرائے گا ۔ یہ عمل در آمد 2022 تک ری وٹیلائزیشن انفراسٹرکچر اینڈ سسٹم ان ایجوکیشن ( آر آئی یس ای ) کے تحت ہے ۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی خود مختاری کے سلسلے میں انہوں نے کہا کہ آئی آئی ایم بل پاس کیاجا چکا ہے جبکہ گریڈیڈ آٹونومی پہلے ہی 60 سے زائدیونیورسٹیوں کے لئے منظور کی جا چکی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ معیاری تعلیم کیلئے بجٹ راشٹڑیہ اُچتر شکشا ابھیان (آر یو ایس اے) کے تحت بڑھایا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایکدیگرپہل قدمی گلوبل انی شیٹیو فار اکیڈمک نیٹ ورک ( گیان ) کا مقصد تعلیم کی بین الاقوامی کرن ہے ۔58 ملکوں کے 700 پروفیسروں نے اب تک 1,117 کورس منعقد کئے ہیں ۔ 

رواں سال 60 ملکوں سے 800 پروفیسر اس پروگرام کے تحت متعدد پروگرام منعقد کریں گے ۔
 جاوڑیکر نے کہا کہ نیشنل انسٹی ٹیوشنل رینکنگ فریم ورک ( این آئی آر ایف) مکمل ہو چکا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل پہل قدمی سوایم کے تحت 1032 کورس چلائے گئے ہیں ، 20 لاکھ افراد اس پروگرام سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ قومی ڈیجیٹل لائبریری کے تحت 17 ملین ڈیجیٹل کتابیں اور رسائل آن لائن دستیاب ہیں ۔32 لاکھ رجسٹرڈ استعمال کنندہ این ڈی ایل کو مفت استعمال کر رہے ہیں ۔ تمام مرکزی یونیورسٹیوں کو مفت وائی فائی کی سہولت حاصل ہے ۔ اب تقریباً 400 یونیورسٹی کیمپس اور دس ہزار کالج وائی فائی کی سہولت سے آراستہ ہیں ۔

Image result for images -- cyber crime portalنئی دہلی،مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سائبر اسپیس میں جرائم سے درپیش نئے چیلنجوں کے بارے میں خبردار کیا اور سائبر سکیورٹی کو بہتر بنانے کیلئے مؤثراقدامات کرنے کے لئے زور دیا۔ امور داخلہ کی وزارت میں منعقدہ ایک جائزہ میٹنگ میں انہوں نے غیر قانونی سرگرمیوں کے لئے سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی صلاحیتوں کو مضبوط تر کرنے کی ہدایت دی تاکہ یہ ایجنسیاں سائبر جرائم سے درپیش چیلنجوں پر قابو پانے کی اہل ہو سکیں۔

راج ناتھ سنگھ نے حساس شعبوں میں منصوبوں کی سکیورٹی کلیئرنس میں تیزی لانے کی کوششوں کو سراہا اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ 4 سال پہلےجہاں کسی منصوبے کے کلیئرنس میں اوسطاً 120 دن کا وقت لگتا تھا، اب یہ کم ہو کر 53 دن ہو گیا ہے۔  راج ناتھن سنگھ نے کلیئرنس کے وقت میں مزید کمی لانے کی ہدایت دی اور اس کے لئے متعلقہ انتظامی وزارتوں کے اشتراک و تعاؤن سے آن لائن نظام استعمال کرنے کے لئے کہا تاکہ منصوبوں کو جلد از جلد کلیئرنس مل سکے۔ اس عمل سے کارکردگی اور نگرانی کو مزید بہتر بنایا جا سکے گا۔

چائلڈ پورنوگرافی اور دیگر فحش مواد کی تشہیر کے لئے انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے وزیر داخلہ جناب راج ناتھ سنگھ نے آن لائن سائبر جرائم رپورٹنگ پورٹل کو جلد از جلد شروع کرنے کی ہدایت دی۔ اس سے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں متاثرہ افراد کو شکایات درج کرانے میں آسانی ہوگی۔ علاوہ ازیں قانون نافذ کرنے والی متعلقہ ایجنسیاں تحقیقات کریں گی اور ایسے فحش مواد کو ہٹانے کے لئے کارروائی کی جائے گی۔

راج ناتھ سنگھ نے سائبر خطرات کے خلاف وسیع پیمانے پر بیداری لانے کے لئے کہا اور امورداخلہ کی وزارت کے تحت آنے والے تمام آرگنائزیشن کے آئی ٹی انفراسٹرکچر کو مسلسل سائبر آڈٹنگ کے لئے زور دے کر کہا۔ انہوں نے سرکاری سیکٹر کے لئے نیشنل انفارمیشن سکیورٹی پالیسی اینڈ گائڈ لائنز (این آئی ایس پی جی)کی جدید کاری کے لئے ہدایت دی۔ انہوں نے فرضی فون کال کے ذریعہ سادہ لوح عوام کو مالی دھوکہ دینے کے واقعات پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں عوامی بیداری پھیلانے اور اس طرح کے مالی دھوکہ دہی کے لئے ادارہ کو باقی فریم ورک کو مستحکم کرنے کے لئے کہا۔

اس میٹنگ میں امور داخلہ کے وزیر مملکت ہنس راج گنگا رام اہیر اور امورداخلہ کی وزارت کے سکریٹری جناب راجیو گابا کے علاوہ امور داخلہ کی وزارت کے اعلیٰ عہدیداران موجود تھے۔

نئی دہلی ، ریلوے ، کوئلہ، خزانہ اور کمپنی امورکے وزیر پیوش گوئل نے نیویلی لگنائٹ کارپوریشن انڈیا لمیٹڈ ( این ایل سی آئی ایل ) کے تین سومیگاواٹ کے شمسی بجلی پروجیکٹوں کا کاروبار ی مقاصد اور آپریشن کے لئے افتتاح کیا اوران تینوں پروجیکٹوں کو قوم کے نام وقف کیا۔

شمسی بجلی پروجیکٹ واقع تھوپلاکرائے اور سیتھوپورم ، وردھونگرضلع اور سیلیا سیزی یانولر، تھرونیل ویلی ضلع ، جن کی تنصیبی صلاحیت بالترتیب 100میگاواٹ کی ہے ،یہ 13سوکروڑروپے کی لاگت سے ،کھڑے کئے گئے ہیں۔ جس میں 15برس تک کی آپریشن اوررکھ رکھاو کی لاگت بھی شامل ہے ۔ ان یونٹوں سے جوبجلی پیداہوگی اسے تمل ناڈو پاورجنریشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی ( ٹی اے این جی ای ڈی سی او) کو4.41فی یونٹ روپے کی قیمت سے فروخت کیاجائیگا۔

 پیوش گوئل نے اپنی افتتاحی تقریرمیں ادارے کی نمو اور ایک نئی شکل میں آگے بڑھنے کے لئے این ایل سی آئی ایل انتظامیہ ، ملازمین اورٹریڈیونینوں کی ستائش کی ۔ انھوں نے تمام ملازمین سے کہاکہ وہ ایک نئے وژن کے ساتھ کمپنی کی نموکے لئے کوشاں ہوں تاکہ نیوانڈیا کے تحت آئندہ آنے والی نسلوں کی ضروریات کی تکمیل ہوسکے ۔

 پیوش گوئل نے اس ادارے کے ذریعہ کی جانے والی سی ایس آرپہل قدمیوں کی بھی تعریف کی ۔ انھوں نے انتظامیہ سے کہا کہ وہ ریلوے کے ساتھ تال میل بنائے اورطلبأ کے لئے مفت وائی فائی سہولت فراہم کریں ۔ جن اوشدھی کیندرکھولیں اورنیولی کے نزدیک واقع تمام تر8ریلوے اسٹیشنوں پر سینیٹری نیپکن فراہم کرائیں ۔ انھوں نے یہ بھی تجویز رکھی کہ معمرافراد کے لئے اولڈ ایج ہوم ، یتیم خانے کی تعمیر کے امکانات بھی تلاش کئے جائیں جو سرکاری دائرہ کارکی صنعتی اکائیوں کی دیکھ ریکھ میں کام کریں اورانھیں ایک کمپلیکس سے ہی چلایاجائے تاکہ مربوط طورپریہ ادارے بچوں اورمعمرافراد دونوں کے لئے چلائے جاسکیں ۔

این ایل سی آئی ایل اورانّایونیورسٹی ، وزیرموصوف ،چیئرمین اورمنیجنگ ڈائرکٹراوراین ایل سی آئی ایل کے فنکشنل ڈائرکٹروں کی موجودگی میں ایک مفاہمتی عرضداشت پربھی دستخط کئے گئے ۔ اس مفاہمتی عرضداشت پر این ایل سی آئی ایل نیولی کے عملی تحقیق وترقیات کے شعبے کے جنرل منیجر ڈاکٹروی منوہرن اور انّایونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹرایس گنیسن نے اپنے دستخط کئے ۔ یہ ایم او یو ایک ایسے پائلٹ پروجیکٹ کی تشکیل کا راستہ ہموارکریگی، جس کا تعلق لگنائٹ یعنی چونے کے پتھرکو شمسی قوت سے خشک کرنے سے ہے تاکہ اس کی کیلورک قدروقیمت 2700کیل سے بڑھ کر 4350کیل ہوجائے ۔ اس پائلٹ پروجیکٹ کی لاگت 2کروڑ69لاکھ روپے ہے ۔

این ایل سی آئی ایل حکومت ہند کی منافع بخش نورتن صنعتی اکائی ہے ۔ جو چونے کے پتھرکی کان کنی اورچونے کے پتھرپرمبنی حرارتی بجلی پلانٹوں کے توسط سے بجلی کی پیداوارمیں مصروف عمل ہے ۔ این ایل سی آئی ایل کا قیام تمل ناڈو میں نیولی میں چونے کے پتھرکے ذخائر کی دریافت کے بعد 1956میں حکومت ہند کے ذریعہ عمل میں لایاگیاتھا۔






نئی دہلی، لیفٹینٹ کمانڈر کوکیلا سجوان کی قیادت میں خواتین پر مشتمل بحریہ کی کوہ پیماں ٹیم نے 10 جون کو دیو تبا پہاڑ کی چوٹی سر کی۔وائس ایڈمرل وی اے کے چاولہ نے ٹیم کے لئے سنگ بنیاد رکھتے ہوئے نئی دہلی سے 28 مئی 2018ء کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا تھا جو عنقریب مستقبل میں کئی اور چوٹیاں سر کرنے کی کوشش کرے گی۔ البتہ دیو تبا پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے سبب ٹیم کو ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی مہم کو اور آگے بڑھائیں۔

ماؤنٹ دیو تبا ہماچل پردیش میں پیر پنجال رینج میں دوسری سب سے اونچی چوٹی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک مشکل چوٹی ہے، جسے سر کرنا کافی مشکل ہے۔لیفٹیننٹ کوکیلا سجنوان کی قیادت میں ٹیم کے باقی دیگر ممبران میں لیفٹیننٹ کمانڈر نندنی دم رائے ، سیما چودھری، پوجا شرما ، ریکھا شری، رشو تیاگی، لیفٹیننٹ سینو ولسن، لیفٹیننٹ چھم کماری، سارجنٹ لیفٹیننٹ ہمونت کور، لیفٹیننٹ سربھی شرما، لیفٹیننٹ شرسٹی ٹھاکر، لیفٹیننٹ، وپاشا شرما، لیفٹیننٹ کرتا شرما شامل ہیں۔

ٹیم نے چکا اور سیری کے ذریعے 4250 میٹر کی بلندی پر واقع بیس کیمپ کے لیے روڈ ہیڈ (بارہ ہزاری) سے ٹریک شروع کی تھی۔ انہوں نے 4700 میٹر پر ایڈوانس بیس کیمپ کے ذریعے چوٹی کی طرف پیش قدمی کی اور غیر معمولی جرأت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیم نے انتہائی خراب موسم کا سامنا کیااور بھاری برف باری کے ساتھ طوفانی ہواؤں کا سامنا کرتے ہوئے بارہ گھنٹے کی سخت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے 10 جون 2018ء کو ایک بجے چوٹی سر کر لی۔





نئی دہلی، وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں ڈیم سیفٹی بل 2018 کو Image result for images - damپارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کی منظوری دے دی ئ


فوائد :

اس بل سے ہندوستان کی تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو باندھ یعنی ڈیمز کی حفاظت کا یکساں عمل اختیار کرنے میں معاونت ہوگی ،جس سے ڈیمز کی حفاظت کر یقینی بنایا جاسکے گا اور ان ڈیمز سے حاصل ہونے والے فوائد کی حفاظت کی جاسکےگی ۔علاوہ ازیں اس سے انسانی زندگی ،مویشیوں اور املاک کی حفاظت میں بھی معاونت ہوسکے گی۔

اس ڈیم بل کو معروف ہندوستانی ماہرین اور سرکردہ بین الاقوامی ماہرین سے وسیع تر مشاورت کے بعد قطعی شکل دی گئی ہے ۔

تفصیلات :
اس بل کی رو سے ملک کے تمام ڈیمز کی باقاعدہ نگرانی ،معائنے ، کام کاج اور دیکھ بھال کے ذریعہ محفوظ کام کاج کو یقینی بنایا جاسکے گا۔
اس بل کی رو سے نیشنل کمیٹی آن ڈیم سیفٹی کی تشکیل کی جائے گی، جو باندھوں کی حفاظت کی پالیسیاں بنائے گا اور ضرورت پڑنے پر ضروری ضابطہ بندیوں کی سفارش کرے گا۔
اس بل کی رو سے نیشنل ڈیم سیفٹی اتھارٹی کے نام سے ایک رابطہ کا ر ادارہ قائم کیا جائے گا ، جو ملک میں ڈیمز کی سیفٹی سے متعلق پالیسی ، رہنما اصولوں اور معیارات کی عمل آوری کرے گا۔
اس بل کی رو سے ریاستی سرکار وں کے ذریعہ اسٹیٹ کمیٹی آن ڈیم سیفٹی تشکیل دی جائے گی۔

نیشنل ڈیم سیفٹی اتھارٹی :
یہ ادارہ اسٹیٹ ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن اور ڈیمز کے مالکان سے ڈیم کی حفاظت سے متعلق اعدادوشمار اور طریقوں کے بارے میں رابطہ کاری کرے گا۔
یہ ادارہ ریاستی سرکاروں اور نیشنل اسٹیٹ ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن کو تکنیکی اور انتظامی امداد دستیاب کرائے گا۔
یہ ادارہ ملک کے تمام ڈیمز کےقومی سطح کے اعداد وشمار کا اندراج کرے گا اور بڑے ڈیمز کی ناکامی کا ریکارڈ بھی رکھے گا۔
یہ ادارہ ملک کے کسی بھی ڈیم کی ناکامی کے اسباب کی جانچ کرے گا۔
یہ ادارہ ملک کے ڈیمز کی تفصیلات کی تفصیلی تفتیش اور عمومی جانچ کے لئے جانچ کی فہرست اور معیاری رہنما اصولوں کی تازہ کاری اور اشاعت کرے گا۔
یہ ادارہ ان تنظیموں کو جنہیں نئے باندھ یعنی ڈیمز کی تعمیر کی ڈیزائننگ کی مفصل تفتیش اور روز مرہ کی جانچ کی ذمہ داری کے کام تفویض کئے جاتے ہیں ، انہیں شناخت اور منظوری دے گا۔
یہ ادارہ دو ریاستوں کی اسٹیٹ ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن کے درمیان یا کسی ریاست کی اسٹیٹ ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن اور کسی ڈیم کے مالک کے درمیان غیر فیصل شدہ تنازعے کی جانچ کرے گا اور اس کا معقول حل پیش کرے گا۔
یہ ادارہ کسی ایک ریاست کے ڈیم کے کسی دوسری ریاست کے علاقے میں واقع ہونے جیسے امور کی جانچ کرے گا۔علاوہ ازیں نیشنل اتھارٹی بھی اسٹیٹ ڈیمز سیفٹی آرگنائزیشن کی ذمہ داریاں انجام دے گی تاکہ بین ریاستی ٹکراؤ کے اسباب کو ختم کیاجاسکے ۔

اسٹیٹ کمیٹی آن ڈیم سیفٹی :

یہ کمیٹی ریاست کے تمام شناخت شدہ ڈیمز کی نگرانی ، جانچ ، آپریشن اور دیکھ بھال کو یقینی بنائے گا ۔اس کے ساتھ ہی یہ کمیٹی ان ڈیمز کے کام کاج کی بھی نگرانی کرے گی ۔علاوہ ازیں اس کمیٹی کی رو سے ہر ریاستی سرکار ایک’’ اسٹیٹ ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن‘‘ قائم کرے گی ۔ اس تنظیم نے ڈیم ڈیزائننگ ، ہائیڈو میکنکل انجنئرین ، ہائیڈرولوجی ، جیو ٹیکنیکل انویسٹی کیشن ، انٹسرو مینٹیشن اور ڈیم ری ہیبلی ٹیشن کے شعبوں میں کام کرنے والے فیلڈ سیفٹی ڈیم کے محکموں کے افسرا ن ترجیحی طور پر شامل کئے جائیں گے ۔

پس منظر :

ہندوستان میں 5200 سے زائد بڑے ڈیم واقع ہیں اور 450 نئے ڈیم زیر تعمیر ہیں ۔علاوہ ازیں ملک میں ہزاروں اوسط درجے کے اور چھوٹے ڈیم بھی موجودہیں اور ڈیمز کی حفاظت کے قانونی اور ادارہ جاتی ضابطوں اور اصولوں کے فقدان کے نتیجے میں باندھ یعنی ڈیمز کی حفاظت ایک باعث تشویش مسئلہ بن گیا ہے ۔ غیر محفوظ ڈیمز خطرناک ہوتے ہیں اور ان کے ٹوٹنے سے زبردست تباہیاں ہوتی ہیں اور بڑے پیمانے پر جان ومال کا نقصان ہوتا ہے ۔

ڈیم سیفٹی بل 2018 میں باندھوں یعنی ڈیمز کی حفاظت سے متعلق تمام مسائل کا تدارک پیش کیا گیا ہے جن میں ڈیمز کی باقاعدہ جانچ ، ایمرجنسی ایکشن پلان ، ڈیم کی حفاظت کے امور کا جامع جائزہ ، ڈیمز کی حفاظت کی خاطر معقول مرمت اور دیکھ بھال کے لئے سرمائے کی فراہمی اور انسٹرومینٹیشن اینڈ سیفٹی مینول شامل ہیں ۔

Image result for images - isroنئی دہلی،اسرو کے اہم مراکز میں سے ایک وکرم سارا بھائی اسپیس سینٹر (وی ایس ایس سی) نے ملک میں لی آئن (Li-ion) سیل کی پیداوار کرنے والی اکائی قائم کرنے کےلئے غیر خصوصی بنیاد پر اہم ہندستانی صنعتوں کو لیتھین سیل ٹکنالوجی کی تیاری اور منتقلی کی پیش کش کی ہے۔

اس پہل سے ہندستان کی صفر اخراج پالیسی کو عملی جامہ پہنانا اور اندرون ملک الیکٹرک وہیکل صنعت کی تیاری کی رفتار میں تیزی آنے کی امید ہے۔

لی آئن سیل ٹکنالوجی کی منتقلی کی اہلیت ثابت کرنے کے لئے ایک ریکوئسٹ فار کوالی فیکیشن (آر ایف کیو) اور ہندستان میں شارٹ لسٹ کی گئی صنعتوں کی تفصیلات وی ایس ایس سی، آئی ایس آر او اور نیتی آیوگ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔

اس سلسلہ میں دلچسپی رکھنے والی پارٹیاں مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل میں سے کسی بھی ویب کو دیکھ سکتی ہیں۔



نئی دہلی، مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، نیز قانون کے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے سی ایس سی ایس پی وی کے ذریعہ منعقدہ کانفرنس میں اہم خدمات کی شروعات کی۔ اس میں دیہی وائی فائی نیٹ ورک کے بنیادی ڈھانچہ کو فروغ دینے میں گاؤں کی سطح کے کاروباری افراد(وی ایل ای) کےاثرات اور ان کی پیش رفت کو نمایاں کیا گیا۔

جن اہم خدمات کا آغاز کیا گیاوہ درج ذیل ہیں:
ہندوستان میں 5000 ڈیجیٹل گاؤں: وائی فائی سہولت کے ذریعہ 5000گاؤں کے باشندے اب انٹرنیٹ کنکٹی ویٹی کا مزہ لے سکتے ہیں۔ وائی فائی چوپال کا مقصد اعلیٰ درجے کی تیز رفتار نیٹ ورک انفراسٹرکچر مثلاً آپٹیکل فائبر کیبل کے ذریعہ ملک میں 2.5 لاکھ گرام پنچایتوں کو انٹرنیٹ سے جوڑنا ہے۔

سی ایس سی اور آئی آرسی ٹی سی کے درمیان مفاہمت نامہ: سی ایس سی ایس پی وی نے سی ایس سی مراکز کے ذریعے خدمات کی فراہمی کیلئے آئی آر سی ٹی سی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے۔ اب سی ایس سی مراکز آئی آر سی ٹی سی کے ایجنٹس کی حیثیت سے کام کرنے کے اہل ہوں گے۔ یہ سی ایس سی مراکز اب جنرل ٹکٹ بھی بُک کرنے کے اہل ہوں گے۔
انڈس انڈ بینک کے ذریعےسی ایس آر کی امداد انڈس انڈ بینک سی ایس آر فنڈ کے ذریعے تین لاکھ امیدواروں کی ڈیجیٹل خواندگی کیلئے سی ایس سی ایس پی وی کو امداد فراہم کر رہا ہے۔ ان امیدواروں کی توثیق پی ایم جی دِشا کے تحت بھی کی جا رہی ہے۔


ملک بھر کے تقریباً 3 ہزار وی ایل ای کو خطاب کرتے ہوئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر جناب روی شنکر پرساد نے کہا کہ ‘‘ تمام وائی فائی چوپال ہندوستان میں علم کے مراکز بن جائیں گے۔ ٹیکنالوجی کے عہد میں انفارمیشن ہی اصلی طاقت ہے۔ خدمات حاصل کرنے کیلئے اب کسی دیہی باشندے کو شہروں تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خدمات سے متعلق یہ سہولتیں سی ایس سی کے ذریعے بھی حاصل کی جا سکتی ہیں’’۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں وزیراعظم جناب نریندر مودی نے سنگا پور میں سی ایس سی کی کوششوں کی تعریف کی، جو کہ تمام سی ایس سی وی ایل ای کیلئے زبردست پذیرائی ہے۔ جناب روی شنکر پرساد نے اعلان کیا کہ وزیراعظم نریندر مودی آئندہ15 جون کو سی ایس سی وی ایل ای سے خطاب کرنے جا رہے ہیں۔

خزانہ ریلویز اور کوئلے کے وزیر جناب پیوش گوئل ، جو اس موقع پر موجود تھے، نے اعلانکیا 2.90لاکھ سی ایس سی تجارتی نمائندے کی حیثیت سے کام کرنے کے اہل ہوں گے۔ جناب گوئل نے کہاا کہ ‘‘ ہمارے ملک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی توسیع سے ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار ( جی ڈی پی) میں مزید 5 فیصد کا اضافہ ہوگا۔ سی ایس سی کے پاس ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے کو بدل دینے کی پوری صلاحیت ہے’’۔

ٹیکنالوجی کے محکمے کی سکریٹری محترمہ ارونا سندرا راجن نے کہا کہ ‘‘سی ایس سی ایس پی وی سرکاری اعداد وشمار کو جمع کرنے والا دفتر بن جائے گا۔ یہ مواد کی ڈلیوری کیلئے طاقتور نیٹ ورک تیار کرے گا۔ دیہی ہندوستان کوٹیکنالوجی کی ترقی سے فائدہ حاصل ہوگا۔ بھارت نیٹ سے کثیر تعداد میں لوگوں کیلئے براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ علاوہ اس سے ہندوستان کی مجموعی تر قی میں بھی تعاؤن فراہم ہوگا۔ وائی فائی چوپال کے ذریعے تیار کردہ بنیادی ڈھانچہ قومی اثاثہ ہوگا۔ بنیادی ڈھانچے تک تمام خدمات فراہم کرنے والوں کی رسائی بلاتفریق وامتیاز ہوگی۔ سی ایس سی کا استعمال ملک میں بھارت نیٹ کے رکھ رکھاؤ کے پہلے مرکز کے طورپر بھی کیاجائے گا۔’’

اس موقع پر وزیر موصوف کے ذریعے وائی فائی چوپال میں سی ایس سی ویل ایل ای کے ذریعے کئےجا رہے اقدامات کو اُجاگرکرنے والی ایک خصوصی اشاعت کا بھی اجراکیا گیا۔ہری دوار، گونڈیا اور سیہور سے تعلق رکھنے والے 4 گاؤں کی سطح کے کاروباری افراد (وی ایل ای )نے سی ایس سی وائی فائی چوپال ، جس نے متعدد افرادبشمول درج فہرست ذاتوں (ایس سی)اور درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے لوگوں کو روزگار فراہم کیا تھا، کی کہانیوں کو ساجھا کیا۔

نئی دہلی۔ ریلویز اور کوئلے کے وزیر پیوش گوئل نے آئیآرسیٹیسیکےذریعےتیارکردہایکنئےایپ ’’مینوآنریل‘‘کاآغازکیا ہے تاکہ ریلوے مسافروں کو سفر کے دوران فراہم کی جانے والی خدمات ، مینو سے متعلق بیداری پھیلائی جاسکے۔ ’’مینو آن ریل ‘‘ نامی موبائل ایپ کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:
موبائل ایپ میں ہر قسم کی ٹرینوں پر فراہم کی جانے والی غذائی اشیاء ،مینو سے متعلق تفصیلات ہیں۔
میل ایکسپریس ٹرینوں میں چار زمروں : مشروبات ، ناشتہ، کھانا، اے لاکارٹ میں غذائی اشیاء کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ٹرینوں میں اور اسی طرح اسٹیشنوں پر معیاری غذائی اشیاء مثلاً چائے ، کافی ، بند بوتل میں پینے کا پانی ، جنتا کھانا، معیاری ویج تھالی ، معیاری نان ویج تھالی ، معیاری ویج (کیسیرول) اور معیاری نان ویج (کیسیرول) کی قیمتوں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔

 (اس میں فوڈ پلازہ اور فاسٹ فوڈ یونٹوں کی قیمتیں شامل نہیں ہیں)
موبائل ایپ میں راجدھانی / شتابدی / دورنتو گروپ کی ٹرینوں میں فراہم کی جانے والی غذائی اشیاء ، مینو کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ ان ٹرینوں میں ریلوے مسافروں کے ذریعے ٹکٹ بکنگ کے وقت ہی غذائی اشیاء کی بکنگ کی جاتی ہے۔
شتابدی ٹرینوں کی صورت میں کلاس ای سی اور سی سی کے لئے ، اسی طرح راجدھانی اور دورنتو ٹرینوں کے کلاس فرسٹ اے سی، سیکنڈ اے سی ، تھرڈ اے سی کے لئے پہلے سے ہی بک شدہ غذائی اشیاء کی تفصیلات الگ سے دکھائی 
جائیں گی۔
دورنتو ٹرین کی صورت میں سلیپر کلاس کیلئے غذائی اشیاء سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں گی۔ اسی طرح سے تاخیر
 سے چلنے والی ان ٹرینوں کیلئے بھی مینو دیا گیا ہے۔

گتی مان اور تیجس ٹرینوں میں دی جانےو الی غذائی اشیاء (پہلے ہی سے بک شدہ) کے بارے میں بھی معلومات دی گئی ہیں۔ اس موبائل ایپس میں غذائی اشیاء کی دی جانے والی قیمتوں میں ٹیکس بھی شامل ہیں تاکہ ٹیکس سے متعلق کوئی الجھن اور پریشانی نہ ہو۔
یہ موبائل ایپ اینڈرائڈ فون اور آئی او ایس پلیٹ فارم پر بھی دستیاب رہے گا۔
یوزرس کیلئے اس ایپ کا ویب سائٹ ورزن بھی دستیاب ہے۔
اس موبائل ایپ سے ریلوے مسافروں کو دستیاب غذائی اشیاء اور ان غذائی اشیاء کی قیمتوں کے بارے میں بیداری پھیلانے میں مدد ملے گی۔

شتابدی ، راجدھانی ، دورنتو ، گیتی مان ، تیجس جیسی ٹرینوں میں پہلے سے ہی بک شدہ غذائی اشیاء کیلئے مسافروں کو غذائی اشیاء اور ان اشیاء کی مقدار کے بارے میں واقفیت حاصل ہوگی۔ ایسی صورت میں جب انہوں نے پہلے سے ہی اپنے لئے کھانا بُک کر رکھا ہو ۔
میل اور ایکسپریس ٹرین کی صورت میں فراہم کی جانے والی غذائی اشیاء کی زیادہ قیمت کی وصولی پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔

نئی دہلی، مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ریاست کی کچھ طاقتیں جموں وکشمیر کے معصوم نوجوانوںکو گمراہ کرنا چاہتی ہی اور نہیں چاہتیں کہ حالات تبدیل ہوسکیں ۔وزیر داخلہ موصوف نے اس بات پر اپنی ذہنی اذیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ان لوگوں کے اپنے بچے بہتر تعلیم حاصل کرتے ہیں وہیں ان معصوم نوجوانوں کو ورغلا کر پتھر بازی کی ترغیب دی جاتی ہے ۔انہوں نے سوال کیا کہ آخر یہ کس طرح کا انصاف ہے ۔

راج ناتھ سری نگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو اپنے بچے تصور کرنا چاہئیں اور کسی کو بھی ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ جموں وکشمیر کے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے بھی بچےہیں ۔اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ پہلی بار پتھر بازی کے جرم کا ارتکاب کرنے والے تقریباََ دس ہزار نوجوانوں کے خلاف مقدمات واپس لے لئے جائیں ۔

راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ مرکزی سرکار کے مقررکردہ ایک خصوصی نمائندے نے گیارہ بار جموں وکشمیر کا دورہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں اپیل کرتا ہوں کہ لوگ امن کے لئے آگے بڑھیں ۔مذاکرات کسی سے بھی کئے جاسکتے ہیں ۔ خواہ ذہنی مماثلت ہو کہ نہ ہو لیکن گفتگو کا مدمقابل راست فکر کا حامل ہونا چاہئے ۔ جناب راج ناتھ سنگھ نے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حالات ، ’’ گولی سے نہیں گلے لگانے سے ‘‘ ہی بہتر ہوسکتے ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان کو سرحد پار کی دہشت گردی سے گریز کرنا چاہئے اور اگر وہ یہ کام اپنے آپ سے نہ کرسکے تو اسے پڑوسیوں کی مدد لینی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ کچھ طاقتیں ہندوستان کو غیر مستحکم بنانا چاہتی ہیں لیکن یہ طاقتیں ہندوستان کی معاشی ترقی کو نہیں روک سکتیں۔

وزیر داخلہ موصوف نے ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کیا کہ مرکزی سرکار نے جموں وکشمیر کے عوام کو پیش نظر رکھتے ہوئے رمضان مقدس میں جنگی کارروائیاں معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ریاست میں سلامتی کی صورتحال اور امرناتھ جی یاترا کے انتظامات کا جائزہ لیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ جموں وکشمیر کے لئے وزیر اعظم کے خصوصی پیکج کی عمل آوری کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے ۔ انہوں نے مختلف منصوبوں کی موثر عمل آوری کے لئے ریاستی سرکار کو مبارکباد بھی دی ۔

واضح ہوکہ جموں وکشمیر پولیس کی ڈھانچہ جاتی سہولیات کو مستحکم بنانے کی غرض سے 174 کروڑروپے کا سرمایہ مختص کیا گیا ہے اور سلامتی اسلحہ کی خریداری کے لئے 500 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے ۔اس کے ساتھ ہی ریاست کے 5400 سے زائد اسپیشل پولیس افسران کے معاوضے کی رقم بھی تین ہزار روپے سے بڑھاکر چھ ہزارروپے فی کس کردی ہے ۔مزید برآں جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو مرکزی مسلح

پولیس دستوں (سی اے پی ایف )،فوج اور آئی آر بی میں بھرتی کیا جارہا ہے اور ریاستی خواتین کو 33 فیصد ریزرویشن دیا جارہا ہے ۔

Image result for images - damنئی دہلی۔ محکمہ اخراجات کے سکریٹری کی صدارت میں مالی اخراجات کمیٹی (ای ایف سی ) کی میٹنگ جو اس ہفتہ آبی وسائل ، ندیوں کی ترقی اور گنگا کی صفائی کی وزارت کی عالمی بینک سے سرمایہ یافتہ ڈیم بازآبادکاری اور بہتری پروجیکٹ (ڈی آر آئی پی) کی نظرثانی شدہ تخمینہ لاگت کی تجویز پر غور کرنے کیلئے منعقد ہوئی تھی۔ ای ایف سی نے 3466 کروڑ روپئے کے ڈرپ کی نظرثانی شدہ تخمینہ لاگت کو منظوری دینے کے علاوہ 2020 تک پروجیکٹ کی تکمیل کی مدت میں بھی توسیع کردی ہے۔

ڈرپ منتخب ڈیموں کی سلامتی اور عملی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ وسیع بندوبستی طریقہ کار کے ساتھ ادارہ جاتی استحکام کیلئے مرکزی عنصر کے ساتھ ریاستی شعبے کی اسکیم ہے۔ ڈرپ کی اصل لاگت 2100 کروڑ روپئے تھی جس میں ریاست کا عنصر 1968 کروڑ روپئے اور مرکز کا عنصر 132 کروڑ روپئے تھا۔ ڈرپ کو ای ایف سی کے ذریعے مئی 2011 میں منظوری دی گئی تھی اور کابینہ نے اس تجویز کو نومبر 2011 میں منظوری دی تھی۔ یہ اسکیم اپریل 2012 میں شروع ہوئی اور اسے جون 2018 میں چھ سال کی مدت کے اندر مکمل ہوجانا تھا۔

ڈرپ میں شامل ریاستیں اور ایجنسیوں نے دامودر ویلی کارپوریشن ، کرناٹک ، کیرلا، مدھیہ پردیش، اڈیشہ، تمل ناڈو، اتراکھنڈ جل ودیوت نگم لمیٹیڈ اور مرکزی آبی کمیشن ہیں۔

اس میٹنگ میں بجلی ، زراعت اور کسانوں کی فلاح وبہبود ، نیتی آیوگ، ماحولیات اور جنگلات کی وزارتوں کےحکام کے علاوہ آبی وسائل کی وزارت کے سکریٹری اور دوسرے اعلیٰ افسران اور مرکزی آبی کمیشن کے چیئرمین اور افسران نے شرکت کی۔

Image result for images -- india and britain flagنئی دہلی، وزیراعظم جناب نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ نے بھارت اور برطانیہ کے مابین پائیدار شہری ترقی  کے میدان میں اپریل 2018 میں تکنیکی تعاون پر مفاہمت نامے پر دستخط کو اپنی منظوری دے دی ہے۔

تفصیلات :

اس مفاہمت نامہ (ایم او یو) کامقصد مستحکم شہری ترقی کے میدان میں بھارت اور برطانیہ کے درمیان ادارہ جاتی تعاون کو مستحکم کرنا ہے۔ جن میدانوں میں دونوں ممالک تعاون کریں گے۔ ان میں اسمارٹ سٹیز ڈیولپمنٹ ، ٹھوس کچرے کا نپٹارا، سبز قابل استطاعت (سستے) ہاؤسنگ ، گندے پانی کا انتظام، شہری ادوار کی صلاحیتوں میں اضافہ، شہری علاقوں میں ہنر مندی کو فروغ ، شہری موبلٹی، دانشورانہ ٹرانسپورٹ نظام اور ٹرانزٹ، اور ای اینٹیڈ ڈیولپمنٹ سرمائے تک اختراعی رسائی اور دیگر متعلقہ میدان شامل ہیں۔

نفاذی حکمت عملی:

اس مفاہت نامے کے تحت ، ایم او یو کے فریم ورک میں ایک ہند-برطانیہ مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) قائم کیا جائے گا جو تعاون کے لئے حکمت عملی اور نفاذ پر کام کرے گا۔ شہری ترقی پر یہ مشترکہ ورکنگ گروپ سال میں ایک مرتبہ میٹنگ کرے گا۔ یہ ملاقاتیں ایک سال ہندستان میں اور دوسرے سال برطانیہ میں رکھی جائیں گی۔

بڑا اثر:

اس مفاہت نامے کے دونوں ممالک کے درمیان پائیدار شہری ترقی کے میدان میں مضبو ط، گہرے اور طویل مدتی باہمی تعاون کو فروغ ملے گا۔

مستفدین:

امید ہے کہ اس مفاہمت نامے سے اسمارٹ سٹیز ڈیولپمنٹ، ٹھوس کچرے کے نپٹارے، گرین اور سستے ہاؤسنگ ، گندے پانی کے انتظام ، شہری علاقوں میں ہنرمندی کے فروغ ، شہری موبلٹی، ٹرانزٹ، اور ری اینٹڈ ڈیولپمنٹ اور دانشور انہ ٹرانسپورٹ نظام کے تحت روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

Image result for images - power houseگزشتہ چار سال ہندوستان کے قابل احیاء توانائی کے شعبے میں اہم سنگ میل رہا ہے۔
قابل احیاء توانائی کی تنصیب شدہ صلاحیت قبل ہی 70 گیگاواٹ سے زائد کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ 40 گیگاواٹ سے زائد قابل احیاء توانائی کی صلاحیت زیر تعمیر / ٹینڈر دیا گیا ہے۔
عالمی سطح پر پون بجلی کے شعبے میں ہندوستان کا مقام چوتھا ہے، قابل احیاء توانائی کے شعبے میں پانچواں اور تنصیب  شدہ شمسی توانائی کے شعبے میں چھٹا مقام ہے۔
شمسی توانائی کی صلاحیت 2014 میں 2.63 گیگاواٹ میں 8 گنا اضافے کے ساتھ 22 گیگا واٹ تک پہنچ گئی ہے۔
پون بجلی کی صلاحیت 2014 میں 21 گیگاواٹ سے 1.6 گنا بڑھ کر 34 گیگاواٹ تک ہوگئی ہے۔
مارچ 2022 تک 115 گیگاواٹ قابل احیاء توانائی کےپروجیکٹوں کی بولی لگانے کا عمل شروع کردینے کا اعلان کردیا گیا ہے۔
ہم 175 گیگاواٹ تنصیب شدہ قابل احیاء توانائی صلاحیت کا نشانہ حاصل کرنے کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔
رجحانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف ہدف کو حاصل کیا جائے گا بلکہ یہ ہدف کو بھی تجاوز کرجائیگا۔
نئی اسکیمیں آگے کے مرحلے میں شروع کردی گئی ہے۔
کے یو ایس یو ایم (کُسم) (کسان اُرجا سرکشا ایوم اتھّان مہاابھیان ) اسکیم:

(الف)27.5 لاکھ سولر پمپ (17.50 لاکھ اسٹینڈ الون+ 10 لاکھ گرڈ – سے منسلک)

(ب)0.5-2 میگاواٹ کی فوری صلاحیت کے شمسی توانائی پلانٹوں کا 10 گیگاواٹ

(ج) 50,000 گرڈ سے متصل ٹیوب ویل / لفٹ ایریگیشن اور پینےکے صاف پانی کے پروجیکٹ
ایس آر آئی ایس ٹی آئی ( سسٹین ایبل روف ٹاپ ایمپلی مینٹیشن فار سولر ٹرانسفیگریشن آف انڈیا) ۔ سولر روف ٹاپ کے لئے نئی اسکیم بنائی گئی ہے۔
راؤنڈ دی کلاک رینیو ایبل پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
175 گیگاواٹ کے نشانے کے حصول کیلئے متعدد پالیسی اقدامات کیے گئے ہیں۔
شفافیت ہماری حکومت کے اہم رہنما اصول ہیں۔ اس سلسلے میں ٹیرف پر مبنی مسابقتی بولی لگانے کے عمل کے ذریعے شمسی اور پون بجلی کی خریداری کیلئے شفافیت کے ساتھ بولی لگانے کا عمل کے نتیجے میں شمسی اور پون بجلی کی لاگت میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے۔ 

 سال 2017 کے دوران شمسی اور پون بجلی کے خریداروں کیلئے مسابقتی بولی لگانے کے عمل کا اعلان کردیا گیا ہے۔ شمسی توانائی فی یونٹ 2.44 روپئے اور پون بجلی کے لئے فی یونٹ 2.43 روپئے کا سب سے کم ٹیرف طے کیا گیا ہے۔ 2.44 روپئے پر پہلے شمسی پلانٹ کی بولی اگست 2018 میں شروع ہوگی۔
ہم نے بین ریاستی ترسیلی نظام چارجز اور بین ریاستی شمسی اور پون بجلی کی فروخت میں نقصانات کو ختم کردیا ہے ۔ اس سلسلے میں شمسی توانائی اور پون بجلی کے پروجیکٹ مارچ 2022 سے کام کرنے لگیں گے۔ 

 اس سے ان ریاستوں میں پروجیکٹوں کے قیام کی حوصلہ افزائی ملے گی جہاں مناسب اراضی کی دستیابی اور وافر تعداد میں وسائل موجود ہیں۔ اس سے پورے ہندوستان میں قابل احیاء توانائی کے مارکٹ کے قیام میں مدد ملے گی۔ کیوں کہ ریاستیں اپنی ضرورت سے زیادہ پیدا ہونے والے بجلی کو کسی قسم کے اضافی بوجھ کے بغیر دوسری کم وسائل والی ریاستوں کو منتقل کرسکیں گی۔
حکومت ہند کے قابل احیاء توانائی کے تئیں عزم سے متعلق صحیح سگنل دینے کی ہماری کوششوں میں ہم نے 2019 تک قابل احیاء توانائی کی خریداری کا عمل شروع کردینے کا اعلان کیا ہے۔ ہم 2023 تک آر پی او ٹرانجیکٹری کا اعلان کررہے ہیں۔
قابل احیاء توانائی میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے ہم نے قابل احیاء پیداواری کا عمل (آر جی او) شروع کیا ہے۔ اس عمل سے کوئلے پر مبنی حرارتی بجلی گھروں کو قابل احیاء توانائی کے شعبے میں اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کی حوصلہ افزائی ملے گی۔
زمین کے زیادہ سے زیادہ استعمال اور شمسی توانائی اور پون بجلی کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کو بروئے کار لانے کیلئے ہم نے سولر۔ونڈ ہائی بریڈ پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ یہ پالیسی قابل احیاء توانائی کے وسائل کو بروئے کار لانے اور قابل احیاء توانائی میں کمی بیشی کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ وزارت نے بھی موجودہ پروجیکٹوں میں 2000 میگاواٹ شمسی و پون بجلی ہائی بریڈ کے قیام کیلئے ایک ٹینڈر جاری کیا ہے۔
سولر پارکوں کا نشانہ 20 گیگاواٹ سے بڑھا کر 40 گیگاواٹ کردیا گیا ہے۔

 21 ریاستوں میں 26 گیگاواٹ کی اوسطاً صلاحیت والے 41 سولر پارکوں کو قبل ہی منظوری دے دی گئی ہے۔ 2گیگاواٹ کی صلاحیت والا سب سے بڑا سولر پارک کرناٹک کے پاواگڈا میں زیر تعمیر ہے۔ نئی سولر پارک پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ سولر پارکوں کے قیام میں پرائیویٹ پارٹیوں اور سی پی ایس یو کی شرکت کی حوصلہ افزائی ہو۔
تملناڈو کے سمندری علاقوں اور گجرات کے ساحل پون بجلی کی پیداوار کیلئے بہترین مقامات ہیں۔ اس صلاحیت سے استفادہ کیلئے ہم نے آف شور ونڈ پاور پالیسی بنائی ہے اور ابتدائی ایک گیگاواٹ آف شور پون بجلی میں دلچسپی کے اظہار کیلئے نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔
اندرون ملک سولر سیل کی تیاری کیلئے ایکو نظام بنانا ہماری ترجیح میں شامل ہے۔ ہم نے 20 گیگاواٹ بجلی کی خریداری کی یقین دہانی کے ساتھ شمسی پی وی مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کے قیام کیلئے ایکسپریشن آف انٹریسٹ جاری کردیا ہے۔ اس سے شمسی توانائی کے شعبے میں گھریلو طور پر سولر سیل کی تیاری شروع ہوجانے کی امید ہے۔
گرین انرجی کوریڈور میں قبال احیاء توانائی کے نکاسی کیلئے گرڈ کے بنیادی ڈھانچے اور مستقبل کی ضرورتوں کے پیش نظر گرڈ کی از سر نو تعمیر کی بات کہی گئی ہے۔

قابل احیاء توانائی کی دولت سے مالامال آٹھ ریاستیں 10,141 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری سے بین ریاستی ترسیلی اسکیم پر عمل درآمد کررہی ہے۔ اس سے 9400 کلو میٹر تک ترسیلی لائنیں بچھائی جائیں گی اور سب اسٹیشنوں کی کُل صلاحیت مارچ 2020 تک تقریباً 19000 ایم وی اے ہوجائے گی۔
گزشتہ چار برسوں کے دوران ہندوستان میں قابل احیاء توانائی کے شعبے میں 42 بلین امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اس سے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ نئے کاروبار کے امکانات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ ہندوستانی کمپنیوں نے فنڈ کے وسیلے کے طور پر غیرملکی اسٹاک ایکسچینج میں ان کی تلاش شروع کردی ہے۔ ہندوستان قابل احیاء توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا انتہائی پسندیدہ مقام بنتا جارہا ہے۔

غیر ملکی سرمایہ کار قابل احیاء توانائی پر مبنی بجلی کی تیاری کے پروجیکٹوں کے قیام کیلئے اور سرمائے نیز ٹیکنیکل اشتراک کے لئے ہندوستانی شراکت داروں کے ساتھ اشتراک کرسکتے ہیں۔ اس شعبے میں خود کار منظوری کیلئے صد فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کو حصص کے طور پر منظوری دی گئی ہے۔ حکومت ہند قابل احیاء توانائی پر مبنی بجلی کے پیداوار کے پروجیکٹوں کے قیام کیلئے غیرملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔
گزشتہ چار برسوں کے دوران قائم کئے گئے قابل احیاء توانائی کے پروجیکٹوں نے سالانہ دس ملین افرادی دن روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔ 2015 میں کوالیفائی تکنیکی افرادی قوت پیدا کرنے کیلئے سوریہ متر پروگرام شروع کیا گیا تھا اور 31 مارچ 2018 تک اس پروگرام کے تحت 18631 سوریہ متروں کو ٹرینڈ کیا گیا ہے۔
معیار کی یقین دہانی کیلئے ہم نے سولر فوٹو والٹک سسٹم / آلات کی تعیناتی کیلئے معیارات کا اعلان کیا ہے اور
6دسمبر 2017 کو انٹرنیشنل سولر الائنس (آئی ایس اے) ، ہندوستان میں پہلا بین الاقوامی بین سرکاری ادارے کا ہیڈ کوارٹر بن گیا ہے۔ آئی ایس اے سب کو صاف ستھری اور قابل استطاعت توانائی مہیا کرانے کے وزیراعظم نریندر مودی کے خواب کا حصہ ہے۔

Image result for images - gangaنئی دہلی، دریائے گنگا کے حیاتیاتی تنوع کو تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بنانے کےلئے زمینی سطح کی ایک نئی رضاکار فورس وجود میں آچکی ہے ۔ ان رضاکاروں کو گنگا پر ہاری کا نام دیا گیا ہے۔ 427 تربیت یافتہ رضاکاروں کا ایک گروپ دریائے گنگا سے متصل علاقوں کے ہر ایک گھر میں پہنچ رہا ہے تاکہ انہیں دریائے گنگا کے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی اہمیت سے متعلق تعلیم فراہم کر سکیں۔ یہ علاقے گنگا ندی کے طاس کی ریاستوں اتراکھنڈ، اترپردیش، جھارکھنڈ، بہار اور مغربی بنگال میں واقع ہیں۔

نمامی گنگے پروگرام کے زیر نگرانی کام کرنے والے گنگا کی صفائی ستھرائی کے قومی مشن (این ایم سی جی ) کے ذریعہ اسپانسر شدہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور گنگا کے احیاء پروجیکٹ کے حصے کے طور پر تربیت فراہم کرائے گئے یہ گنگا پر ہاری دریائے گنگا میں آبی زندگی کی حیاتیاتی نگرانی کے علاوہ پودا کاری تکنیک ، بیداری پروگرام اور معاشرتی بیداری پھیلانے جیسے امور میں اچھی طرح تربیت یافتہ ہیں۔ گنگا پرہاریوں کو مختلف ہنروں میں مثلاً حیاتیاتی سروے ، بچاؤ کاری، آبی جانداروں اور پودوں کی بازآبادکاری ، بیداری میٹنگ ، سماجی میل جول اور سبز معیشت کی مہارتوں میں قومی ، ریاستی اور ضلعی سطح کے ورکشاپوں کے ذریعہ اچھی طرح تربیت فراہم کرائی گئی ہے۔

گنگا پرہاری کو متعلقہ ریاستوں میں متعدد مقامی ماحولیاتی افسران، غیر حکومتی شراکت داروں کے علاوہ دیگر قومی تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے ساتھ جوڑا جائے گا تاکہ ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو سکے ۔

یہ گنگا پرہاری معاشرے کے دیگر افراد کیلئے رول ماڈل ہوں گے تاکہ معاشرے کے دیگر افراد بھی دریائے گنگا کے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کوششوں میں تعاون فراہم کر سکیں۔ اس طرح سے ہر ایک پرہاری ‘‘ ایک پرہاری دس مزید افراد کو جوڑے گا’’ کے اصول پر کام کرے گا۔

یہ گنگا پرہاری نہ صرف گنگا ندی کے زوال پذیر حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے اپنے کام کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں بلکہ وہ دیگر افراد کو بھی تحریک فراہم کر رہے ہیں کہ وہ صاف ستھری گنگا کے پیغام کو عام کریں ۔ اس طرح سے یہ لوگ کلین گنگا مشن کو ایک عوامی تحریک بنانے میں بھی تعاون فراہم کر رہے ہیں ۔

گنگا پرہاری کو متعلقہ ریاستوں میں متعدد مقامی ماحولیاتی افسران، غیر حکومتی شراکت داروں کے علاوہ دیگر قومی تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے ساتھ جوڑا جائے گا تاکہ ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو سکے ۔

گنگا ندی کے طاس کی پانچ ریاستوں کے گنگا پرہاریوں کیلئے حال ہی میں رشی کیش کے مقام پر ایک قومی سطحی تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ان پرہاریوں کو حیاتیاتی تنوع، ٹھوس فضلات کے بندوبست ، سماج کی شرکت اور صفائی ستھرائی سے متعلق تربیت فراہم کرائی گئی ۔

وارانسی (رام پور، تانتے پور اور ڈھاکہ) کے نزدیک گاؤں میں ذریعہ معاش کے تین مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ ان مراکز میں گنگا پرہاریوں بالخصوص خواتین کو تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔

گنگا پرہاری جن بعض سرگرمیوں میں باقاعدگی کے ساتھ شامل ہیں ان میں شرم دان ،گھاٹ کی صفائی، بیداری پروگرام ، شجر کاری مہم کے علاوہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ اشتراک و تعاون شامل ہیں۔ گنگا پرہاری مشکل میں پھنسے آبی جنگلی جانوروں کو بچانے اور ان سے متعلق معلومات دینے میں کلیدی رول نبھا رہے ہیں۔ اسی طرح وہ غیر قانونی سرگرمیوں مثلاً غیر قانونی شکار کی روک تھام میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

MKRdezign

संपर्क फ़ॉर्म

नाम

ईमेल *

संदेश *

Blogger द्वारा संचालित.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget