Halloween Costume ideas 2015
Articles by "Science"

Image result for images - indian parliament house
نئی دہلی، پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس 2018 سے پہلے جو کہ کل شروع ہورہا ہے، راجیہ اور لوک سبھا میں تمام پارٹیوں کے فلور لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم  نریندرمودی نے کہا کہ حکومت سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے مسائل کو بے حد اہمیت دیتی ہے۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ مانسون اجلاس کے دوران ایک ایسا تعمیری ماحول پیدا کرنے کے لئے مل جل کر کوشش کریں جو قومی مفاد میں ہو۔ جناب مودی نے اعتماد ظاہر کیا کہ تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے صحیح طور پر چلنے کے معاملے میں تعاون کریں گی اور قومی اہمیت کے حامل مسائل پر تعمیری نوعیت کی بحث کریں گی۔

میٹنگ کے دوران پارٹیوں کے لیڈروں کی طرف سے بہت سے مسائل پیش کئے گئے۔ میٹنگ میں تمام پارٹیاں اس بات پر متفق ہوئیں کہ بغیر رکاوٹ اور تعطل کے پارلیمنٹ کے صحیح طریقہ پر چلنے کو یقینی بنایا جائے۔ دونوں ایوانوں میں تعطل کو تعمیری بحث مباحثہ کے ذریعہ حل کیا جائے۔

پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر  اننت کمار نے بعد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے تمام پارٹیوں، خاص طور پر اپوزیشن پارٹیوں سے ایوان کو صاف ستھرے طریقے پر چلائے جانے کے لئے تعاون طلب کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہندوستان کے لوگ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کام کرے، حکومت ملک کے مفاد میں تمام پارٹیوں سے تعاون کی طلب گار ہے‘‘۔ وزیر موصوف نے مطلع کیا کہ سبھی جماعتیں ایک مفید مانسون اجلاس کے حق میں ہے۔ حکومت ایوان میں کسی بھی مسئلے پر ، جس کی اجازت طریقہ کار کے تحت دی گئی ہو، بحث کرنے پر ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آنے والے مانسون اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کو صحیح طریقہ پر چلانے کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔

 اننت کمار نے مزید بتایا کہ پارلیمنٹ کا 2018 کا مانسون اجلاس بدھ 18 جولائی 2018 سے شروع ہوگا اور سرکاری کام کاج کی ضرورتوں کے مطابق یہ اجلاس جمعہ 10 اگست 2018 کو ختم ہوسکتا ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ اجلاس کے دوران 24 دنوں میں 18 نشستیں ہوں گی۔ مانسون 2018 کے دوران پیش کئے جانے کے لئے 48 آئٹموں کی نشاندہی کرلی گئی ہے۔ (اس میں 46 بل اور 2 مالی آئٹم شامل ہیں)۔

آرڈیننسوں کی جگہ 6 بل پیش کئے جائیں گے۔(1) فرار ہوجانے والے اقتصادی مجرموں کا آرڈیننس 2018، (2) فوجداری قانون (ترمیمی)آرڈیننس 2018، (3) کمرشیل عدالتیں، کمرشیل ڈویزن اور ہائی کورٹوں کا کمرشیل اپیلیٹ ڈویژن ( ترمیمی) آرڈیننس 2018، (4) ہومیوپیتھی سینٹرل قونصل ( ترمیمی) آرڈیننس 2018، (5) نیشنل اسپورٹس یونیورسٹی آرڈیننس 2018 اور (6)دیوالیہ پن اور قرض کی ادائیگی کی بے مقدوری کورٹ (ترمیمی) آرڈیننس 2018۔ یہ تمام آرڈیننس مانسون اجلاس کے دوران بلوں کی شکل دیں گے۔

اس کے علاوہ کچھ زیر التوا بل ایوانوں میں غوروخوض اور منظوری کے لئے پیش کئے جائیں گے:یہ ہیں (1) صارفین کے تحفظ کا بل 2018 ، (2) نیو دہلی انٹرنیشنل آربٹریشن سینٹر بل 2018، (3) مخنث افراد ( حقوق کے تحفظ )کا بل 2016، (4) آئینی ( 123ویں ترمیمی) بل 2017، (5) نیشنل میڈیکل کمیشن بل 2017 ، (6) مسلم خواتین (شادی کے حقوق کے تحفظ) کا بل 2017، (7) موٹر گاڑیوں کا (ترمیمی) بل 2017 اور (8) کرپشن کی روک تھام کا (ترمیمی) بل 2013۔

آرڈیننس کی جگہ 6 بلوں کے علاوہ کچھ نئے اہم بل ، جو پیش کئے جائیں گے اور انہیں غو وخوض کے بعد منظور کیا جائے گا، وہ ہیں، (1) ایئرپورٹس اکنامک ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا (ترمیمی) بل 2018، (2) بے ضابطہ ڈپازٹ اسکیموں کی پابندی کا بل 2018، (3) انسانی حقوق کے تحفظ (ترمیمی )بل 2018، (4) بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی ترقی (ترمیمی) بل 2018، (5) ایسے افراد کی فلاح وبہبود کا ٹرسٹ، جو خود محویت، دماغی فالج، ذہنی معذوری اور کئی معذوریوں کا شکار ہیں، ان کا (ترمیمی) بل 2018، (6) باندھوں کے تحفظ سے متعلق بل 2018 ، اور (7) انسانوں کا غیر قانونی نقل وحمل ( روک تھام، تحفظ اور بازآبادکاری) بل 2018۔

کُل پارٹی میٹنگ میں مرکزی وزیر داخلہ جناب راجناتھ سنگھ ،پارلیمانی امور اور اعداد وشمار نیز پروگرام پر عمل درآمد کے وزیر مملکت وجے گوئل ، پارلیمانی امور اور آبی وسائل ، دریاؤں کی ترقی اور گنگا کے احیاء کے وزیر مملکت جناب ارجن رام میگھوال اور دیگر وزیروں نے شرکت کی۔

Image result for images- javadekarنئی دلّی ، تعلیم کے معیار کو بلند کرنے ، تحقیق ، ملک بھر کے قومی آیوش اداروں میں اسپتالوں کی دیکھ بھال کی سہولیات کو بہتر بنانے اور ان اداروں کو روشن مینار ادارے بنانے کے مقصد سے آیوش کی وزارت کے تحت آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آیوروید 17-18 جولائی کو نئی دلّی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں آیوش کے قومی اداروں کے سربراہان کی کانفرنس کا اہتمام کر رہا ہے ۔

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں فروغ انسانی وسائل کے وزیر جناب پرکاش جاوڈیکر اور وزیر مملکت ( آزادانہ چارج ) برائے آیوش جناب شری پد یسو نائک موجود رہیں گے ۔ اس موقع پرآیوش کے سیکریٹری ویدیہ راجیش کوٹیچہ بھی موجود رہیں گے ۔

تقریب کے دورا ن مختلف صحتی یونیورسٹیوں، نامور تحقیقی ادارو ں کے ڈائرکٹر صاحبان اور آئی آئی ٹی ، ڈی ایچ ٹی ، یو جی سی وغیرہ جیسے مختلف قومی اداروں کے سینئر پیشہ ور حضرات کی شرکت متوقع ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے کہ اسپورٹ اتھارٹی آف انڈیا ا ور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ساتھ بھی شراکت داری کی مفاہمتی عرض داشتوں پر دستخط کئے جائیں اور ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ مل کر کام کئے جائیں ۔ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں ہونے والی عالمی تبدیلیوں پر نظر سے یہ بات صریحی طور سے واضح ہو چکی ہے کہ پالیسی ، قانون سازی ، ضابطہ بندی ، تحقیق، ترقی ، مالیہ کی فراہمی ، تربیت اور ترقی ، کوالٹی کنٹرول اور سلامتی کے تعلق سے روایتی ادویات کے شعبے کا ایک جامع جائزہ لیا جانا ضروری ہے ۔

پدم بھوشن ڈاکٹر بی این ہیگڈے اورمعروف سائنس داں اور ماہر تعلیم پدم شری ڈاکٹر انل گپتا ، عالمی شہرت یافتہ محقق ڈاکٹر ونود پنت ، نیتی آیوگ کے ممبر ڈاکٹر کیرکی باپت ، سائنسداں ، حکومت ہند کے پرنسپل سائنٹیفک ایڈوائزر کے سائنس داں ڈاکٹر جی ایم کٹوچ ، آئی سی ایم آر کے ڈائرکٹر ، ڈاکٹر بھوشن پٹوردھن ، ساوتری بائی پھولے یونیورسیٹی کے سرکردہ محققین اور دیگر سرکردہ شخصیات اس میں شرکت کر رہی ہیں

Image result for images - muslim studentsنئی دہلی، اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی ان طلباء کو سرٹیفکیٹ دیں گے ،جنہوں نے ‘برج کورس’میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس برج کورس کا انعقاد اقلیتی امور کی وزارت اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اسکول ڈراپ آؤٹ اور مدرسہ میں زیر تعلیم طلباء کے لئے مشترکہ طورپر کیا تھا۔

اقلیتی امور کی وزارت نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اشتراک سے برج کورس کا آغاز کیا تھا، تاکہ مدرسہ طلباء اور اسکول ڈراپ آؤٹ طلباء کو اصل دھارے کے تعلیمی نظام میں شامل کیا جاسکے۔اس سال برج کورس کے تحت کل 260 طلباء کو ٹریننگ دی گئی ہے، جن میں سے 182 طلباء نے کامیاب طورپر برج کورس مکمل کرلیا ہے اور انہیں کل سرٹیفکیٹ دیئے جائیں گے۔

علاوہ ازیں اقلیتی امور کے وزارت نے ایک ٹرینن گ پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا تاکہ مدرسہ کے اساتذہ کو اصل دھارے کے تعلیمی نظام سے جوڑا جا سکے۔

اقلیتی امور کی وزارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اشتراک سے مدرسہ کے اساتذ ہ کے لئے ریزینڈشیل ٹریننگ پروگرام کا انعقاد کررہی ہے۔ان اساتذہ کو سائنس ، ریاضی، کمپیوٹر ، ہندی اور انگریزی جیسے اصل دھارے کی تعلیم دی جارہی ہے۔

سرٹیفکیٹ کی تقسیم کے موقع پر نقوی کے علاوہ اقلیتی امور کی وزارت کے سیکریٹری اے لوئیکھم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر طلعت احمد، گرو ہرکشن پبلک اسکول سوسائٹی کے چیئر مین ایس منجیت سنگھ جی کے، ڈائسیز آف دہلی۔ چرچ آف نارتھ انڈیا کے نمائندہ بشپ کولن تھیوڈور، مہابودھی انٹرنیشنل میڈیٹیشن سینٹر لیہہ –لداخ کے سیکریٹری وین ناگا سین، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سیکریٹری آر رحمان اور دیگر معززین موجود ہوں گے۔

نئی دہلی، ایم جی نریگا اور زراعت کے درمیا ن تعاون کے بارے میں وزرائے اعلی کے ذیلی گروپ کی پہلی میٹنگ نیتی آیوگ میں منعقد ہوئی۔ ذیلی گروپ کے کنوینر ، مدھیہ پردیش کے وزیراعلی شیوراج سنگھ اور اترپردیش کے وزیراعلی نے ذاتی طورپر شرکت کی۔ بہار کے وزیراعلی نتیش کمار اور گجرات کے وزیر وجے روپانی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ اس میٹنگ میں شرکت کی۔ 

آندھراپردیش کے وزیر این چندرابابو نائیڈواور مغربی بنگال کی وزیر محترمہ ممتا بنرجی نے اپنی تجاویز تحریری شکل میں ذیلی گروپ کے کنوینر کو بھیجیں۔ ممبر (زراعت) نیتی آیوگ پروفیسر رمیش چندر ، نیتی آیوگ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ، دیہی ترقیات کے سکریٹری این آر اے اے کے چیف ایگزیکٹیو افسر ، نیتی آیوگ، پنچایتی راج کی وزارت ، زراعت کی وزارت اور مدھیہ پردیش نیز اترپردیش کے سینئر افسران نے بھی میٹنگ میں شرکت کی۔

سب سے پہلے سبھی وزرائے اعلی نے ذیلی گروپ بنانے کے وزیراعظم کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ یہ ذیلی گروپ زراعت کو بہتر بنانے اور لاگت کو کم کرنے کے سلسلہ میں ایم جی نریگس کے تحت روزگار کو استعمال کرنے کے طریقوں اور ذرائع تجویز کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے جلد میٹنگ بلانے میں نیتی آیوگ کے رول کی ستائش کی۔ اترپردیش کے وزیراعلی نے تجویز کیا کہ ایم جی نریگا کے فنڈز کو زراعت میں محنت کی لاگت میں مدد کے لئے اور کھیتوں کے گرد تار کی باڑھ لگانے کے لئے استعمال کیا جائے تاکہ ان کھیتوں کو جنگلی جانوروں سے محفوظ رکھا جاسکے۔

پانچ ایسے اہم شعبو ں کے بارے میں میٹنگ میں تبادلہ خیال کیا گیا جن کی ایم جی نریگا یقینی طور پر مدد کرسکتا ہے۔ ان میں کاشتکاری کی لاگت کم کرنے سے متعلق شعبہ، پانی اور بیج وغیرہ کے کفایت شعاری سے استعمال کرنے کے ذریعہ پیداوار میں اضافہ کرنا ، مارکیٹ ڈھانچہ کو یکجا کرکے کسانوں کو ان کی مصنوعات کی مناسب قیمت فراہم کرنا، قدرتی آفات کے بعد زرعی زمین اور اثاثوں کی بازیابی یا ایم جی نریگا کے فنڈ کو استعمال کرکے پودے لگانا اور زراعت میں تنوع پیدا کرنا اور منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلی جانوروں سے کھیتوں کو محفوظ کرنا ، تاروں کی باڑھ لگانے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔

یہ فیصلہ اتفاق رائے سے کیا گیا ۔ ان تمام مسائل پر بڑے پیمانے پر مذاکرات اور اس معاملے سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال ضروری ہے۔ پانچ علاقائی میٹنگیں/ورکشاپ منعقد کی جائیں گی ان میں سے ایک پٹنہ میں دوسری بھوپال میں تیسری حیدر آباد میں چوتھی گوہاٹی میں اور پانچویں نئی دہلی میں ہوگی تاکہ ماہرین کسانوں کے نمائندے اور اس معاملے سے دلچسپی رکھنے والے دیگر افراد ریاستی حکومتوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرسکیں۔ 

ذیلی گروپ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تعاون کے لئے کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں مزدوروں کے حقوق کو یقینی بنانا چاہئے اور ایم جی نریگا کے اثاثے تشکیل دینے کے جذبے کو بھی برقرار رکھنا چاہئے۔ نیتی آیوگ دیہی ترقیات کی وزارت اور وزارت زراعت نیز ریاستی حکومتوں کے ساتھ علاقائی میٹنگوں کے بار ے میں قطعی فیصلہ کرے گا۔ یہ علاقائی میٹنگیں 15 اگست 2018 سے پہلے مکمل ہوجائیں گی۔ ذیلی گروپ کی اگلی میٹنگ 31 اگست کو ہوگی۔ 

پس منظر:

نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل کی چوتھی میٹنگ میں جو وزیراعظم کی صدارت میں 17 جون 2018 کو نئی دہلی کے راشٹرپتی بھون میں منعقد ہوئی تھی ، زرعی سیکٹر اور مہاتما گاندھی نیشنل رولر ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم (ایم جی این آر ای جی ایس) کے درمیان خاص طور پر بوائی سے پہلے اور کٹائی کے بعد کی کسانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں تعاون کا ایک بڑا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے یہ ذیلی گروپ تشکیل دیا تھا جو سات ریاستوں کے وزرائے اعلی یعنی مدھیہ پردیش، آندھراپردیش، بہار ، اترپردیش، گجرات ، مغربی بنگال اور سکم نیز نیتی آیوگ کے ممبر پر مشتمل ہے اور اس ذیلی گروپ کے کنوینر مدھیہ پردیش کے وزیراعلی ہیں۔

Image result for images -- indian safety tank cleaner
نئی دہلی، ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت نے نالیوں اور گندے ٹینکوں کی صفائی کے لئے مناسب تکنیک کو فروغ دینے سے متعلق ٹیکنالوجی چیلنج کا آغاز کیا ہے تاکہ گندے ٹینکوں اور نالیوں وغیرہ کی صفائی کے کام میں انسانوں کی شمولیت کو ختم کیا جا سکے ۔یہ وزیراعظم نریندر مودی کے اس ویژن کے مطابق ہے جس کی خواہش انہوں نے 4 مئی 2018 کو اپنی زیر صدارت ایک میٹنگ میں ٹیکنالوجی چیلنج کے لئے ظاہر کی تھی تاکہ نالیوں اور گندے ٹینکوں کی صفائی کے کاموں میں انسانوں کی شمولیت سے بچنے کے لئے تازہ ترین ٹیکنالوجیز کو فروغ دیا جا سکے۔

ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت نے جسے یہ ذمہ داری دی گئی ہے ،اب ٹیکنالوجی چیلنج : گندے پانی کی نکاسی کے نظام اور گندے ٹینکوں کی صفائی کے لئے حل تلاش کرنے کی نشاندہی کرنے، کا آغاز کیا ہے ۔ مذکورہ چیلنج مہاتما گاندھی انٹر نیشنل سینی ٹیشن کنونشن کا ایک جزو ہوگا۔ یہ کنونشن 2 ؍اکتوبر 2018 کو منعقد ہوگا۔

ٹیکنالوجی چیلنج –تفصیلات

گندے نالیوں اور گندے ٹینکوں کی صفائی کے کاموں میں انسانوں کی شمولیت کا خاتمہ اس چیلنج کا حتمی ہدف ہے۔ ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت ، حکومت ہند نے اس سلسلے میں دلچسپی رکھنے والے اختراع کاروں ، افراد ، کمپنیوں ، تعلیمی اداروں ، تحقیق اور ترقی کے مراکز ، غیر سرکاری تنظیموں اور بلدیاتی اداروں سے تجاویز طلب کی ہیں کہ وہ اس بابت اختراعی تکنیکی حل فراہم کریں تاکہ گندے نالیوں اور ٹینکوں کی صفائی کے کاموں میں انسانوں کی ضرورت ختم ہو سکے۔

Image result for images -- stone mains
نئی دہلی، کانوں اور معدنیات سے متعلق چوتھی قومی کانفرنس 13 جولائی کو اندور میں منعقد ہو گی۔ اس میں ان بلاکوں کے بارے میں بتایا جائے گا، جو ریاستیں مالی سال 19-2018 میں امکانی سرمایہ کاروں کونیلام کریں گی۔ کانوں کے مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر نے بتایا کہ معدنیات کے نیلامی کے طریقۂ کار کو مستحکم بنانے کے لئے اس سے حکومت کی کوششوں کو فروغ حاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ اس سے نیلامی کے عمل میں تیزی آئے گی اور اس معاملے سے دلچسپی رکھنے والے بڑے پیمانے پر اس میں شرکت کر سکیں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں نیلامی کے عمل کو مزید مستحکم بنانے کے لئے ایک دوسرے کے تعاون سے کام کر رہی ہیں اور یہ اندرون ملک معدنیات کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے زیادہ سے زیادہ معدنیاتی بلاکوں کی نیلامی کے لئے نشاندہی کر رہی ہیں۔ کانکنی سے متعلق ہونے والی کانفرنس ریاستی حکومتوں کو ایک منفرد موقع فراہم کرے گی کہ وہ قابل نیلامی اپنے معدنیاتی بلاکوں کو متعلقہ لوگوں کے سامنے رکھیں۔ اس میں معدنیات کی تلاش، معدنیات کے وسائل، معدنیاتی بلاکوں سے ٹرانسپورٹ کی سہولت اور ریاستوں کی طرف سے امکانی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لئے رعایت کے معاملات شامل ہوں گے۔یہ کانفرنس سرمایہ کاری کرنے والوں کو بھی ایک بڑا موقع فراہم کرے گی کہ وہ معدنیاتی بلاکوں کی نشاندہی کریں اور اپنے لئے موزوں معدنیاتی بلاکوں کی نیلامی میں شرکت کریں۔

مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ ، نیتی آیوگ کے سی ای او اور ریاستی حکومتوں کے معدنیات کے وزراء نے اس کانفرنس میں شرکت پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔

اس موقع پر معدنیاتی بلاکوں کی نیلامی سے متعلق مختلف مراحل کی تیاری بھی کی جائے گی۔ اس میں نیلامی کے لئے معدنیاتی بلاکوں کی نشاندہی، کانکنی سے متعلق منسوبے کی منظوری کے سلسلے میں درکار اقدامات اور قانونی اجازت جیسے معاملات کو بھی اجاگر کیا جائے گا۔ یہ تیاریاں ان تنظیموں کے ذریعے کی جائیں گی، جو اس سلسلے میں مہارت رکھتی ہیں اور وہ نوڈل ایجنسیاں، جو قانونی منظوری دینے کے لئے ذمہ دار ہیں۔ کانفرنس میں ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا جائے گا، جس میں ریاستیں ایسے اسٹال لگائیں گی، جن میں نیلامی کے لئے اپنے معدنیاتی بلاکوں کو اجاگر کیا جائے گا۔ نیلامی سے پہلے کی تیاری سے متعلق ایجنسیاں مثلاً تلاش کی ایجنسیاں (جی ایس آئی اور ایم ای سی ایل)،

 ترجمعہ کرنے والے مشیر (ایس بی آئی سی اے پی؍سی آر آئی ایس آئی ایل؍کے پی ایم جی)، ڈی جی پی ایس سروے ایجنسی (ایم ای سی او این) وغیرہ بھی اپنے اسٹال لگائیں گی۔ آئی بی ایم اور ایم او ای ایف سی سی بھی کانکنی کے منصوبے کے بارے میں کانکنی کے منصوبے اور ای سی اینڈ ایف سی عمل کے دائرے میں اپنے اسٹال لگائیں گی۔ سرکاری سیکٹر کی اور پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ معدنیات اور دھاتوں کی صنعت کے بارے میں اسٹال لگائیں تاکہ سرمایہ کار ، سرمایہ کاری سے متعلق اپنے فیصلے کرتے وقت کانکنی کے سیکٹر کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

صنعتی لیڈروں اور عزت مآب وزراء کے درمیان کانوں کی وزارت کے سینئر اہلکاروں کے ساتھ ایک گول میز میٹنگ کا انعقاد بھی کیا جائے گا، جس میں کانکنی شعبے کے متعدد مسائل پر بات چیت کی جا سکے اور اس سلسلے میں پالیسی کو بہتر بنانے کے اقدامات تجویز کئے جا سکیں۔

اس سے پہلے صنعت اور اس معاملے سے دلچسپی رکھنے والے دیگر افراد کی کانفرنس میں شرکت کو مفت رکھا گیا تھا تاکہ ان کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ اس کانفرنس میں بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔ کانکنی سے متعلق سرکاری اور نجی کمپنیاں کانفرنس میں سرگرمی سے شرکت کریں گی۔ اس کے علاوہ دھاتوں اور اس سے متعلق شعبہ بھی ، جو کانکنی کی سرگرمیوں میں شامل ہوتا ہے، وہ بھی کانفرنس میں شرکت کرے گا۔ یہ کانفرنس کانکنی سیکٹر کی مختلف سرکاری تنظیموں کے لئے مؤثر پلیٹ فارم کا کام انجام دے گا۔ ان تنظیموں میں کانکنی کی مرکزی وزارت ، ریاستی کانکنی محکمے، آئی بی ایم اور ڈی جی ایم معدنیات کی تلاش میں مصروف کمپنیاں، جی ایس آئی اور این ایم ای ٹی وغیرہ کانکنی اور اس سے متعلق صنعت میں دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ بات چیت کریں گی۔

انڈین منرل انڈسٹریز کی فیڈریشن (ایف آئی ایم آئی) نے بھی کانفرنس میں شرکت پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔ سرکاری سیکٹر کے ادارے، جو کانکنی کی سرگرمی سے براہ راست یا اس کی پیداوار کے عمل کا نا گزیر حصہ ہیں، وہ بھی اس کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں وزارت کی مدد کرنے والے اہم اداروں میں شامل ہیں۔ سرکاری سیکٹر کے یہ ادارے ہیں-ایچ سی ایل، این اے ایل سی او اینڈ ایم ای سی ایل-یہ سب کانوں کی وزارت کے تحت ہیں۔

اس کانفرنس کے بارے میں کانوں کی وزارت کی ویب سائٹ کا ایک ویب پیج ‘‘این سی ایم ایم جولائی 2018’’ تیار کر لیا گیا ہے۔

کانوں کی وزارت نے 5-4 جولائی 2016 کو رائے پور میں کانوں اور معدنیات سے متعلق اپنی پہلی قومی کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ دوسری قومی کانفرنس 15؍فروری 2017 کو نئی دہلی میں اور تیسری کانفرنس 20؍مارچ 2018 کو نئی دہلی میں منعقد ہوئی تھی۔

نئی دہلی، وزیر داخلہ راج ناتھ نے شمالی مشرقی ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ شمال مشرقی کونسل کے تحت عرصے سے التوا میں پڑے ہوئے پروجیکٹوں کو تیزی سے مکمل کریں اور سرمائے کے زیادہ سے زیادہ بہتر استعمال کو یقینی بنائیں۔ شیلانگ میں این ای سی کے 67 ویں مکمل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ این ای سی اور 8 شمال مشرقی ریاستوں کو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ تمام تر جاری پروجیکٹ معینہ مدت کے اندر مکمل ہوجائیں۔

وزیر داخلہ نے ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ حال ہی میں منظور کئے گئے 4500 کروڑ روپے کے بقدر کے مرکزی مالی پیکج کو موثر طریقے سے نافذ کریں اور مخصوص شعبے پر توجہ مرکوز کریں اور حکومت کی جانب سے اسپانسر کردہ اسکیمیں کے بہتر نفاذ پر توجہ مرکوز کریں۔

ترقیاتی عمل میں مہذب شہری سماج کی شرکت کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے سماجی احتساب کی وکالت کی اور کہا کہ پروجیکٹوں کے نفاذ میں اسے اپنایا جانا چاہئے اور پروجیکٹوں کے موثر نفاذ کی نگرانی کے لئے جدید تکنالوجی اپنائی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ شمال مشرقی خطے میں سول سوسائٹی کو تمام تر ترقیاتی کوششوں میں شامل کرنا ایک بہت طاقتور ذریعہ ہے۔ سول سوسائٹی کی شرکت اور شراکت داری ازحد اہم ہے۔ سماجی۔ اقتصادی تبدیلی میں بھی انہیں شریک کار ہونا چاہیے۔ ایسے ہی ایک شراکت داری، سماجی احتساب کے توسط سے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ جناب راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ مرکزی کابینہ نے حال ہی میں، وزیر داخلہ کو این ای سی کا چیئرمین بنانے کی تجویز کو اپنی منظوری دی ہے اور اس تجویز کی منظوری کے بعد یہ ان کا پہلا خطاب تھا۔

انہوں نے کہا کہ سماجی احتساب نہ صرف یہ کہ یہ اطلاعات فراہم کرتا ہے کہ فنڈ کا استعمال کس طرح کیا جارہا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس کے توسط سے عوام بھی ترقیاتی سرگرمیوں کے منصوبہ بندی کے عمل میں شامل ہوجاتے ہیں اور تمام پروجیکٹوں اور اسکیموں کو وسط مدتی بنیاد پر اصلاح کے عمل سے گزارا جاسکتا ہے۔ وزیر داخلہ نے اس امر پر مسرت کا اظہار کیا کہ ریموٹ سینسنگ اور سیٹلائٹ امیجری کے توسط سے این ای سی نے شمال مشرقی خلائی استعمال مرکز (ای ایس اے سی) کے ساتھ شراکت داری قائم کرلی ہے اور موبائل ایپلی کیشن اور اس سے متعلق پورٹل پر، پروجیکٹ کی نگرانی کا ایک نظام وضع کرلیا ہے جہاں تمام تر شراکت دار این ای سی کے ذریعہ فراہم کردہ سرمائے سے عمل میں لائے جانے والے اہم کاموں کی پیش رفت کی نگرانی کرسکتے ہیں۔

شمال مشرق میں سلامتی صورتحال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت ہند داخلی سلامتی کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ مرکوز کررہی ہے۔ نجی سرمایہ کاری اور اقتصادی سرگرمی اس وقت تک پروان نہیں چڑھے گی جب تک کہ ان ریاستوں میں امن اور عام صورتحال بحال نہ ہوجائے۔ این ڈی اے کے چار سالہ دور حکومت کے دوران سلامتی کی صورتحال میں تیزی سے بہتری رونما ہوئی ہے۔ 90 کے دہے میں شورش سے متعلق واقعات کی بھرمار تھی جو اب 85 فیصد تک کم ہوگئے ہیں۔ شہریوں اور سلامتی دستوں کی جانی اتلاف کے واقعات میں بھی 96 فیصد کی تخفیف واقع ہوئی ہے۔

وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ آج تریپورہ اور میزورم کلی طور پر شورش سے مبرا ہیں اور شمال مشرقی خطوں میں بھی زبردست بہتری واقع ہوئی ہے۔ سلامتی صورتحال میں اس قابل قدر بہتری کے رونما ہونے میں اے ایف ایس پی اے کو میگھالیہ سے مکمل طور پر ہٹالیا گیا ہے اور اب اس کا احاطہ صرف اروناچل پردیش تھ ہے۔ شمالی مشرقی خطے میں ترقی کے لئے حکمت عملی پر نظرثانی کے تنقیدی تجزیئے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے مختصر مدتی، وسط مدتی اور طویل المدتی لائحہ عمل وضع کرنے کی حمایت کی ہے۔ جناب راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ متعدد رپورٹیں اور نظریات پر مبنی دستاویزات اس موضوع پر تیار کی گئی ہیں کہ شمال مشرقی خطے کی ترقی کس طرح ممکن بنائی جاسکے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ ان تمام دستاویزات میں جو سفارشات پیش کی گئی ہیں، ان کے نفاذ اور اس کی پیش رفت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور بعد ازاں تیزی سے قدم بڑھایا جانا چاہئے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت نے شمال مشرقی خطے میں شمولیت پر مبنی اور ہمہ گیر اقتصادی نمو کو مہمیز کرنے کی غرض سے ایک نیتی فورم وضع کیا ہے تاکہ اس سلسلے میں مختلف النوع روکاوٹوں کی شناخت کا ایک پلیٹ فارم فراہم ہوسکے۔

فورم کی گفت و شنید کا پہلا دور 10 اپریل 2018 کو منعقدہ ہوا تھا۔ اس فورم کی تمام تر تجاویز اور سفارشات کو تمام متعلقہ محکموں کو جائزے اور غور و فکر کے لئے دستیاب کرایا گیا ہے۔ فورم کے ذریعہ لئے گئے فیصلوں اور تجاویز کے سلسلے میں آخری تاریخ 31 اکتوبر 2018 مقرر کی گئی ہے۔

وزیر داخلہ نے این ای آر ریاستوں کی حکومتوں سے گزارش کی ہے کہ وہ سرمایہ کاری کے لئے ایک مناسبت پر مبنی ماحول تخلیق کریں تاکہ اس خطے کے صنعت کار اس موقع کا فائدہ اس خطے میں صنعتی اکائیوں کے قیام کے لئے اٹھا سکیں اور ازحد درکار خطہ جاتی روزگار فراہم کرسکیں۔

ڈونر کی وزارت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ وزارت نے حال ہی میں 100 کروڑ روپے کے سرمائے سے شمال مشرقی ترقیاتی مالی کارپوریشن لمیٹیڈ کی تشکیل کی ہے اور یہ کام شمال مشرقی ونچر کیپیٹل فنڈ کے تحت عمل میں آیا ہے۔ انہوں نے صنعت کاروں کو ترغیب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس فنڈ تک رسائی حاصل کریں اور سیاحت، فضلہ انتظام، طبی حفظان صحت، ہتھ کرگھہ اور گھریلو صنعت اور زرعی مصنوعات وغیرہ کے سلسلے میں اقتصادی سرگرمیوں کو آگے بڑھائیں۔

وزیر داخلہ نے مارچ 2018 میں شمال مشرقی صنعتی ترقیاتی اسکیم (این ای آئی ڈی ایس)2017 کو منظوری دی تھی جس کا تخمینہ جاتی سرمایہ 3000 کروڑ روپے کے بقدر تھا اور یہ مارچ 2020 تک کے لئے نافذ العمل تھا۔ حکومت اس اسکیم کے لئے مارچ 2020 کے جائزے کے بعد مزید سرمایہ فراہم کرے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ اسکیم شمال مشرقی خطے میں صنعت کاری کو فروغ دے گی اور روزگار اور آمدنی بہم پہنچانے کے وسائل میں اضافہ ہوگا۔

وزیر داخلہ نے این ای سی کی ستائش کرتےہوئے کمیونٹی پر مبنی پروجیکٹوں، شمال مشرقی خطے کے کمیونٹی پر مبنی وسائل انتظام پروجیکٹ (این ای آر سی او آر ایم پی) وغیرہ کی بھی تعریف کی جن کا مقصد روزی روٹی کے وسائل میں اضافہ ہے اور شمال مشرقی خطے میں دیہی کنبوں کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔

مضبوط کمیونٹی بنیاد اس خطے کی اصل قوت ہے۔ ای ای آر سی او آر ایم پی اس سلسلے میں عمدگی کے مرکز کے طور پر روزی روٹی کے وسائل میں اضافے کے لئے کام کرسکتی ہے۔ یہ پروجیکٹ مرکزی حکومت کی مختلف وزارتوں کے ساتھ تال میل بناکر ریاستی حکومتوں، ضلعی انتظامیہ اور غیر سرکاری اداروں کو خطے کے پسماندہ علاقوں میں بنیادی سطح کی منصوبہ بندی کو بہتر بنانے کے کام میں شامل کرسکتا ہے اور اس کے ذریعہ نظریات اور خیالات کے باہم تبادلے کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے تاکہ روزی روٹی کے لئے بہتر طریقہ ہائے کار اور متعلقہ پروگراموں کے عملی پہلو پر بہتر طریقے سے توجہ مرکوز کی جاسکے۔

شمال مشرقی کونسل کی تشکیل این ای سی ایکٹ 1970 کے تحت عمل میں لائے جانے کے بعد شمال مشرقی خطے کی ریاستوں کو مشرقی زونل کونسل کے دائرہ کار سے ہٹادیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ میری تجویز یہ ہے کہ این ای سی کا استعمال ایک فورم کے طور پر کیا جاسکتا ہے جہاں بین ریاستی اور مرکز۔ ریاستی موضوعات پر موثر طریقے سے تبادلہ خیالات کرکے مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے، جیسا کہ دیگر زونل کونسلیں کررہی ہیں۔

این ای آر کے منفرد اور مخصوص جغرافیائی موسمیاتی حالات کے پیش نظر نیز کاشتکاری کی زمینوں یعنی قطعات اراضی کے بکھرے ہوئے ہونے کی وجہ سے جو مسائل درپیش ہیں ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے برآمدات کے لئے زیادہ قدر و قیمت اور نسبتاً کم قدر و قیمت والی پیداوار اور 2022 تک کاشتکاروں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کےلئے، بندھےٹکے اصولوں سے ہٹ کر کام کرنے کی تجویز پیش کی۔ وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ این ای سی علاقائی ارتباط اور خوشحالی کے لئے ایک وسیلے کے طور پر بھی کام کرسکتی ہے اور جنوب مشرقی ایشیا میں حکومت کی ایکٹ ایسٹ پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔

شمالی مشرقی خطے کے عوام کی بہادری، ان کی خود اعتمادی اور ان کی منفرد ثقافت کی تعریف کرتے ہوئے جناب راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ اس خطے میں ہر طبقے کے لوگوں نے ایک جدید ہندوستان کی تعمیر میں اپنا قابل قدر تعاون دیا ہے۔

دو روزہ 67 واں این ای سی کےمکمل اجلاس میں وزیر مملکت (آزادانہ چارج) برائے شمال مشرقی خطے کی ترقیات (ڈونر)، وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت، عملہ، محکمہ عملہ و تربیت، عوامی شکایات اور پنشن، ایٹمی توانائی اور خلائی امور، ڈاکٹر جتیندر سنگھ بھی شرکت کررہے ہیں جو این ای سی کے نائب چیئرمین بھی ہیں۔ اس کے علاوہ شمال مشرقی خطے کی ریاستوں کے گورنر اور وزرائے اعلی اور سینئر افسران، ڈونر کی وزارت کے سینئر افسران بھی اس میں شرکت کررہے ہیں۔

نئی دہلی، سمبل پور ڈویژن پر تمام غیر انسانی عملے والی لیول کراسنگ گیٹوں کو ختم کرنے کے مقصد سے ایسٹ کوسٹ ریلوے نے سمبل پور ڈویژن میں اب تک کے سب سے اونچے 6 محدودبلندی کے سب وے (ایل ایچ ایس) لانچ کئے اور 5 جولائی 2018 کو محض ساڑھے چار گھنٹوں میں سب وے کی تعمیر کا کام مکمل کرلیا۔ سمبل پور ڈویژن میں 6 لمیٹیڈ ہائٹ سب وےیز کی تعمیر، نہ صرف ایسٹ کوسٹ ریلوے میں بلکہ پورے بھارتی ریلویز میں اپنی قسم کا پہلا سب وے تعمیر بن گئی ہے۔

چھ محدود اونچائی والے سب ویز کی لانچنگ کے پیش نظر، سات غیر انسانی عملے والے لیول کراسنگ گیٹ، اڈیشہ کے کالا ہانڈی علاقے کے بھوانی پٹنہ۔ لانجی گڑھ روڈ سیکشن کمکمل طور پر بند ہوجائیں گے جبکہ ایک واحد ایل ایچ ایس کی تعمیر کا کام صرف چار گھنٹے کے ایک بلاک میں مکمل کیا گیا ہے جو از خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ 6 ایل ایچ ایس کی تکمیل اسی عرصے کے اندر (ٹائم فریم میں) ابھی تک سنی نہیں گئی ہے۔ ایک ساتھ متعدد چیلنجوں اور خراب مانسون اور موسمی حالات کے باوجود سمبل پور ڈویژن نے ایک زبردست چیلنج کو ایک موافق موقع میں تبدیل کردیا ہے اور ایک بار میں 6 ایل ایچ ایس لانچ کرنے کا بھاری اور دشوار کام مکمل کرلیا ہے اور اس طرح بھارتی ریلوے کی تاریخ میں ایک نیا میل پتھر لگایا ہے۔


Image result for images - prakash javadekarنئی دہلی  : انسانی وسائل کی ترقی اورفروغ کے وزیر  پرکاش جاوڈیکر نے کہاکہ اعلیٰ تعلیم مالیاتی ایجنسی ( ایچ ای ایف اے ) کا سرمایہ بنیاد کو10000کروڑروپے سے بڑھا کر اور 2022تک تعلیم میں بنیادی ڈھانچہ نظام میں نئی مضبوطی لانے کے لئے 100000کروڑروپے فراہم کرنے ذمہ داری دیکر ایچ ای ایف اے کا دائرہ وسیع کرنے کی تجویز کو کابینہ کی منظوری تعلیمی شعبے کو بڑھاوادینے کابڑاقدم ہے ۔

 نئی دہلی میں پرکاش جاوڈیکر نے کہاکہ ایچ ای ایف اے وزیراعظم ، جناب نریندرمودی کا خواب ہے ، جس کا مقصد اعلی ٰ تعلیمی اداروں کی ترقی اور فروغ کے لئے تحقیقی اورتعلیمی بنیادی ڈھانچوں کو اضافی سرمائے کی فراہمی ہے ۔

وزیرموصوف نےتفصیل بتاتے ہوئے کہاکہ 14-2013میں تعلیمی شعبے کے لئے 65867روپے کی رقم مختص کی گئی تھی ، جس کو 19-2018میں (67فیصد اضافے کرکے ) فیس میں اضافہ کئے بغیر، ایک لاکھ دس ہزارکروڑروپے کردیاگیاہے ۔اصل مطالبے کی بنیاد پر رواں سال میں ایچ ای ایف اے کو 22000کروڑروپے فراہم کرائے جائیں گے ۔ انھوں نے مزید کہاکہ جدید ترین قسم کی تجربہ گاہیں اورتحقیقی سہولتوں سے بھارت میں ہونہار اور نوجوان افراد کو بھارت میں ہی رہ کرروزگارشروع کرنے پرتوجہ مرکوز کریگی اوراس صورت میں بھارت سے باہراوربیرون ملک کے شہری بھی اس سے متوجہ ہوں گے اوربھارتی یونیورسٹیاں ایسے برین ڈاٹا میں بدل جائیں گی جو منفعت بخش ہوگا۔

انسانی وسائل کے فروغ کے وزیرنے زوردیکر کہا کہ پروجیکٹ پرمبنی سرمائے فراہمی سے پروجیکٹوں کے انتخاب اور ان پرعمل آوری نظم وضبط پیداہوتاہے ۔انھوں نے کہا کہ نئے اداروں پرکوئی بوجھ نہیں پڑے گا کیونکہ حکومت مکمل طورپرقرض کا بوجھ اٹھائیگی اور اس لئے اس منصوبے میں طلبأ کی فیس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیاجائیگا۔

2022تک آرای ایس ای کے مقاصد کے درج ذیل ہیں :

(اے) 2022تک اعلیٰ عالمی معیارات کے مطابق بھارت کے تحقیق اور اکیڈمک کے بنیادی ڈھانچے کو جدیدترین بنانا،

(بی )ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اعلیٰ کوالٹی کی حامل تحقیق کے لئے درکارڈھانچہ فراہم کرکے ہندوستان کو تعلیم کا مرکز بنانا۔

(سی ) مرکزی یونیورسٹیوں ، اے آئی آئی ایم ایس ، آئی آئی ایس آئی آراور قومی اہمیت کے حامل نئے اداروں کے طلبأ پراضافی بوجھ ڈالے بغیرایچ ای ایف اے کے لئے سرمایہ بہم رسانی کے عمل کو آسان بنانے کی اجازت ۔

(ڈی) ڈھانچے پرمبنی پروجیکٹوں کو نافذ کرنے میں ذمہ دارانہ احساس اوررفتارپیداکرنا ۔

(ای) سینٹرل اسکولوں اورنوودیہ اسکولوں اوراے آئی آئی ایم ایس جیسے طبی اداروں کی ضروریات کی تیز رفتاری کے ساتھ معینہ مدت کے اندر تکمیل ۔

نئی دہلی، اسرو نے ٹکنالوجی کا ایک بڑا مظاہرہ کرتے ہوئے کریو اسکیپ سسٹم سلسلہ کی پہلی آزمائش کی۔ یہ انسانی خلائی پروازوں سے متعلق ایک اہم ٹکنالوجی ہے۔ کریو اسکیپ سسٹم کسی خلائی پرواز کےاڑان سے پہلے ناکام ہوجانے کی صورت میں اس کے عملے کے افراد اور خلا بازوں کوخلائی راکٹ سے باہر نکالنے اور اسے ایک مناسب فاصلے تک پہنچانے کا ایک نظام ہے۔ پہلی آزمائش ( پیڈ ابورٹ ٹیسٹ) سے لانچ پیڈ پر کسی ہنگامی صورتحال کے پیدا ہوجانے کے موقع پر عملے کے موڈول کو حفاظت کے ساتھ الگ کرنے کا مظاہرہ کیا گیا۔

پانچ گھنٹے کی الٹی گنتی کے بعد سری ہری کوٹہ میں ستیش دھون خلائی مرکز کے لانچنگ پیڈ سے 12.6 ٹن وزنی عملے کا موڈول ہندستانی معیاری وقت کے مطابق صبح 7 بجے اوپر اٹھا۔ یہ آزمائش 259 سیکنڈ میں پوری ہوگئی جس کے دوران کریو اسکیپ سسٹم عملے کے موڈول کے ساتھ بہت تیزی کے ساتھ آسمان کی طرف گیا اور پھرواپس خلیج بنگال میں آیا اور تیرتا ہوا سری ہری کوٹہ سے تقریباً 2.9 کلو میٹر کے فاصلے پرپانی پر تیرنے لگا۔

عملے کا موڈول خصوصی طور پر تیار کئے گئے سات انجنوں کی مدد سے 2.7 کلو میٹر کی اونچائی تک گیا تھا تاکہ لانچ پیڈ سے مناسب فاصلہ پیدا ہوجائے اور وہ صحیح جگہ واپس آجائے۔ اس آزمائشی پرواز کے دوران تقریباً 300 سینسرو ں نے اس کی ہر ایک کارروائی کو ریکارڈ کیا۔ عملے کے افراد کو واپس لانے کے لئے تین کشتیوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Image result for images - fiji flag
نئی دہلی، نئی دہلی کے چانکیہ پوری کے سفارتی علاقہ کے فجی کے ہائی کمیشن کے لئے الاٹ کی گئی زمین کو تجارتی شرح سے مستثنی رکھنے کی منظوری دی ہے۔ یہ زمین پلاٹ نمبر 31-بی پر مشتمل ہے اور اس کا رقبہ 2800 مربع میٹر ہے۔ مرکزی کابینہ نے اس سلسلہ میں انہی شرائط کی منطوری دی ہے جو فجی نے اپنے یہاں سوا کے مقام پر ہندستانی ہائی کمیشن کو زمین الاٹ کرنے کے سلسلہ میں پیش کی تھیں۔ 

پس منظر:

اگست 2015 میں فجی کی حکومت نے 99 سال کی خصوصی لیز پر 6695 مربع میٹر کا ایک پلاٹ بھارت کو سو فجی ڈالر سالانہ کرایے پر دینے کی پیش کش کی تھی جس کا ہر پانچ سال کے بعد دوبارہ جائزہ لیا جانا تھا۔ یہ زمین سوا میں ہندستانی ہائی کمیشن کی تعمیر کے لئے تھی۔ فجی نے تجویز کیا تھا کہ اسی بنیاد پر اسے بھی زمین الاٹ کی جائے۔ فجی کے ساتھ باہمی تعلقات کی خصوصی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اسے ہائی کمیشن کے لئے تجارتی شرح چارج کئے بغیر زمین الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ ہمیں زراعت کو نشو نما کے قابل اور مفید بنانے کیلئے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ کسانوں کی آمدنی غیر زراعتی پیشوں اور خوراک کی ڈبہ بندی کےذریعے بڑھ جائے۔ ہمیں ہمہ جہت حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔ وہ حیدر آباد میں سنٹرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ڈرائی لینڈ ایگریکلچر (سی آر آئی ڈی اے) میں سائنس دانوں، زرعی ماہرین اور کسانوں سے خطاب کر رہے تھے۔ تلنگانہ کے نائب وزیراعلیٰ جناب محمد محمود علی اور دیگر معززین بھی ا س موقع پر موجود تھے۔

اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ جب تک اس شعبے کی کارکردگی مستقل طور پر اچھی نہیں ہوگی، ہمارے ملک کی ترقی کی رفتار ہموار نہیں ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زراعت میں تبدیلی کی ضرورت ہے، کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلی آ رہی ہے، منڈی کی حالت میں تبدیلی آ رہی ہے، عالمی نظام میں تبدیلی آ رہی ہے اور یہاں تک کہ کھانے پینے کی ہماری عادتوں میں بھی تبدیلی آر ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کی آمدنی میں بہتری کےلئے متعلقہ شعبوں مثلاً ماہی گیری، مرغی پالن، باغبانی، خوراک کو ڈبہ بند اور پیکیجنگ وغیرہ کو فروغ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ زراعت کو مفید اور دیرپا بنایا جائے، جو اس کی شرح ترقی میں مسلسل اضافے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ زراعت سے وابستہ تمام متعلقہ لوگوں کو اَنّ داتا کے بچاؤ کے لئے آگے آنا چاہئے،ورنہ ہم اپنے فرض سے کوتاہی کے مرتکب ہوں گے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ موسمی حالات میں تبدیلی یعنی بہت زیادہ بارش سے، سوکھے کے طویل وقفوں تک کے حالات نے زراعت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اولاباری، گرمی کی لہروں اور مسلسل رہنے والی خشک سالی، زراعت میں مشکلات کی کچھ وجوہات ہیں۔ غیر یقینی حالات کی وجہ سے کسان قرض کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں اور یہاں تک کہ وہ مجبور ہو کر خودکشی بھی کر لیتے ہیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے زراعت کے بحران پر ایک باقاعدہ طریقے پر توجہ دینے کی ضرورت کو اجاگر کیا تاکہ کسان خوشحال ہو سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسانوں کو پانی کے تحفظ کے روایتی اور جدید طریقوں سے آگاہ کرنے سے زراعت کی سرگرمیوں میں پانی کے مؤثراستعمال میں مدد ملےگی۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لئے مویشیوں کی صحت بھی ضروری ہے۔ ملک میں اُگی ہوئی غذائی اجناس کی مسلسل فراہمی کی ضرورت کو اُگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک، جو خوراک کے تحفظ کے معاملے میں دوسروں پر انحصار کرتا ہے، وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہمیں وقت کے تقاضے پر چلنا چاہئے اور کسانوں کی روزی روٹی کو برقرار رکھنے کا عہد کرنا چاہئے تاکہ وہ وقار کے صحت زندگی گزار سکیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے تلنگانہ او ر آس پاس کے علاقوں میں مسلسل بنیاد پر کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کئے۔
قدرتی وسائل یعنی موزوں زرعی نظام کا خاکہ تیار کرنے کے لئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہندوستان کے خلائی تحقیق کے انقلاب میں زبردست مواقع فراہم کئے ہیں۔ اس سے زراعت کے سلسلے میں منصوبہ بندی کرنے اور نقصان کو کم سے کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
کئی گاوؤں کو ملا کر زرعی بنیادی ڈھانچے قائم کرنے سے کسان اپنی مصنوعات سے زیادہ آمدنی حاصل کر سکیں گے ۔ ان کی مصنوعات ان زرعی بنیادی ڈھانچوں میں پہنچیں گی اور پھر بازار میں آئیں گے۔
حکومت نے نامیاتی کھیتی باڑی کے طریقوں میں بہتر کے لئے اپنی طرف سے متعدد اسکیمیں شروع کی ہیں۔ مثلاً پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا، پردھان منتری کِرشی سینچائی یوجنا اور پَرمپراگت کِرشی وِکاس یوجنا ۔نامیاتی زرعی مصنوعات کی کاشت کے زبردست امکانات ہیں، کیونکہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی صحت کے بارے میں حساس ہوتے جا رہے ہیں۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ایسے کسانوں کے بارےمیں بہت سی کہانیاں ہیں، جنہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیااور دوسروں کے لئے ایک مثال بن گئے، لیکن یہ کسان دوردراز علیحدہ علیحدہ جگہوں پر ہیں اور اکثر ان کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ اگر کامیابی کی ان کہانیوں میں دوسروں کو شریک کیا جائے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے، تو کسانوں کی روزی روٹی بہتر ہو سکتی ہے ۔
حکومت کسانوں کے مارکیٹ سے متعلق مسائل پر مسلسل توجہ دے رہی ہے اور اس کی اختراعی نوعیت کی اسکیموں میں سے ایک اسکیم‘‘ ای-نیشنل ایگریکلچرل مارکیٹ (ای این اے ایم)’’۔ ای این اے ایم پروجیکٹ کے تحت لین دین 100کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے اور یہ نظام 16 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام 2 علاقوں کی 585 منڈیوں میں کام کر رہا ہے۔ کسانوں کو تجارت کرنے کے لئے 90 اشیاء کی منظوری دی گئی ہے اور ان اشیاء کی قیمتیں آن لائن دستیاب ہیں۔
کسانوں کے منافع کو بڑھانے کے بھی کافی امکان موجو د ہیں۔ سبزیاں ، پھل اور پھول وغیرہ اُگا کر وہ اپنی آمدنی بڑھا سکتے ہیں، لیکن ان چیزوں کے جلد خراب ہو جانے کی وجہ سے ان کے لئے کولڈ اسٹوریج کی تعمیر ضروری ہے۔ شمالی تلنگانہ کے علاقے کے ہلدی اور ادرک اُگانے والے کسان کولڈ اسٹوریج سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ان چیزوں کی جلد بازی میں فروخت کی مشکل پر قابو پا سکتے ہیں۔
ان سب کوششوں کے باوجود اگر زرعی سیکٹر میں مناسب بہتری نہ لائی گئی، تو یہ فائدے دیر پا نہیں ہو سکتے۔ اس لئے ریاستی اور مرکزی دونوں سطحوں پر مددگارصنعتی پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ زراعت اور صنعت دونوں ساتھ ساتھ چل سکیں۔

Image result for images - indian farmer
نئی دہلی، زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کی وزارت نے 2017 کی بحری ماہی پروری سے متعلق قومی پالیسی کو مشتہر کیا ہے۔ اس پالیسی سے اگلے دس برسوں کے درمیان ماہی پروری کے شعبے میں ہونے والی ترقی کے سلسلہ میں رہنمائی حاصل ہوگی۔ زراعت اور کسانوں کی فلاح کےمرکزی وزیر رادھا موہن سنگھ نے یہ بات تمل ناڈو میں رامیشورم کے مقام پر زراعت اور کسانوں کی فلاح وبہبود کی وزارت کی مشاورتی کمیٹی کی میٹنگ میں کہی گئی ہے جس کا موضع تھا ‘میرن فیشریز -میری کلچر ان انڈیا’ ۔ میٹنگ کااہتمام زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کی وزارت نے کیا تھا جس کا مقصد ماہی پروری اور ہندستان میں سمندر کی تہہ میں پائے جانے والے پودوں اور جانوروں وغیرہ سے متعلق مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ 

سنگھ نے بتایا کہ حکومت نے اس میں ایک ذیلی جزو بھی شامل کیا ہے۔ یعنی ‘بلیو ریولیوشن’ گہرے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے سلسلہ میں امداد’ اس اسکیم کے تحت روایتی ماہی گیرو ں، ان کی تنظیموں/ ایسوسی ایشنوں یا خود اپنا روزگار چلانے والے گروپوں کو مچھلیا ں پکڑنے کی ان کی کشی کی لاگت کے پچاس فی صد مرکزی مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ یعنی 40 لاکھ روپے ۔ اس اسکیم پر عمل درآمد کے لئے پہلے سال یعنی 18-2017 کے لئے مرکزی حصے کے طو ر پر 312 کروڑ روپے جاری کئے گئے تاکہ ملک کے روایتی ماہی گیروں کو فائدہ ہوسکے۔ 

وزیر زراعت نے یہ بھی بتایا کہ ہندستان میں مچھلی کی پیداوار کا اندازہ 11.4 ملین ٹن ہے۔ اس میں سے 68 فی صد ماہی گیر ساحل سے دور ماہی گیری کے سیکٹر سے اور باقی ماندہ 32 فی صد بحری سیکٹر سے رجسٹر شدہ ہیں۔ امید ہے کہ 2020 تک اندرون ملک مچھلیوں کی ضرورت 15 ملین ٹن ہوجائے گی جبکہ پیداوار 11.4 ملین ٹن ہوگی۔ 3.62 ملین کا یہ فرق ساحل سے دور آب کاشت اور نبات البحر پورا کیا جائے گا۔

سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہےکہ ساحل کے قریب پانی میں مچھلی کے ذرائع جو 200میٹر کی گہرائی میں واقع ہیں ان کا یا تو پورا استعمال کیا جارہا ہے یا بعض وقت ان کا استعمال پوری صلاحیت سے بھی زیادہ ہوتا ہےجو کہ روایتی ماہی گیروں کی روزی روٹی کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ اس سلسلہ میں 17 مئی 2018 کو تمام ریاستوں کو مرکز کے زیر انتظام تمام علاقو ں کے مچھلیو ں کے محکمہ کے وزرا کی ایک میٹنگ ہوئی تھی ۔ اس میٹنگ میں ساحل کے قریب واقع تمام ریاستوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ذمہ دار اور دیر پا ماہی گیری کے سلسلہ میں ضروری اصلاحی قدم اٹھائیں۔ 

سنگھ نے بتایا کہ کسانوں کی آمدنی 2022 تک دوگنا کرنے کے وزیراعظم جناب نریندر مودی کے ویژن کے مطابق زراعت اور کسانوں کی بھلائی کی وزارت نے یکم جون 2018 سے 31 جولائی 2018 تک کرشی کلیان ابھیان شروع کیا ہے۔ اس کا مقصد کسانوں کو اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے کھیتی باڑی کی تکنیکوں میں بہتری لانے کے بارے میں مشورہ دینا اور ا نکی مدد کرنا ہے۔ کرشی کلیان ابھیان ایک ہزار سے زیادہ آبادی والے 25گاوؤ ں میں شروع کیا جائے گا ۔یہ گاؤں نیتی آیوگ کی ہدایت کے مطابق دیہی ترقیات کی وزارت کےساتھ صلاح و مشورہ کے ساتھ نامزد کئے گئے ایسپریشنل اضلاع میں واقع ہوں گے۔ ایسے اضلاع میں جہاں گاؤں کی تعداد (ایک ہزار سے زیادہ آبادی والے) 25 سے کم ہیں وہاں سبھی گاؤں کا احاطہ کیا جائے گا۔ اس تقریب کے موقع پر زراعت اور کسانوں کی فلاح وبہبود کے وزیر مملکت جناب گجیندر سنگھ شیخاوت ، مشاورتی کمیٹی کے ارکان اور دیگر معززین نےبھی شرکت کی۔

وزیراعظم جناب نریندر مودی، 29 جون  2018 کو، ایمس، نئی دہلی میں،  صحت کی دیکھ بھال سے متعلق مختلف پروجیکٹوں کی شروعات کے بعد وہاں موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے۔ نئی دہلی، 
ایمس اور صفدرجنگ اسپتالوں میں حفظان صحت کے متعدد پروجیکٹوں کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

دہلی کے لوگوں کے لئے علاج کے لئے، دہلی آنے والے لوگوں کے لئے، آپ سبھی کے لئے ایک طر ح سے آج کا دن خصوصی دن ہے اور مجھے خوشی ہے آج غریبوں کو، عام آدمی کو، نچلے متوسط طبقہ، متوسط طبقہ کو اپنی زندگی کی مشکل صورتحال سے پار کرنے کے لئے، اپنی اور رشتے داروں کی بیماری سے لڑنے میں مدد کرنے کے لئے کچھ نئی بنیاد دستیاب ہورہی ہیں۔اب سے تھوڑی دیر پہلے یہاں پر تقریباً 1700 کروڑ کے نئے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ا س سے دہلی میں موجود ملک کے دو بڑے اسپتالوں، ایمس اور صفدرجنگ اسپتال میں تقریباً 1800 سے زیادہ بستروں کی نئی گنجائش کا راستہ کھلا ہے۔

دوستو! ایمس پر بڑھتے دباؤ کے مدنظر دہلی میں اس کے سبھی کیمپسوں کی صلاحیت کو بڑھایا جارہا ہے۔ آج تین سو کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے بننے والے معمر افراد کے لئےنیشنل سینٹر کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔یہ سینٹر دو سو بستروں کا ہوگا۔ آنے والے ڈیڑھ دو سالوں میں اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔یہاں سینئر شہریوں کے لئے تمام سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ اس میں ضعیفی، سائنس کی تحقیق کا مرکز بھی ہوگا۔ جہاں ضعیفی سے جڑے مسائل کو لے کر تحقیق کی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ صفدرجنگ اسپتال میں بھی تیرہ سو کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم خرچ کرکے اسپتال میں سہولتوں کو اور جدید بنانے کا کام ہوا ہے۔اسی کے تحت یہاں ایک ایمرجنسی بلاک پر ایک سپر اسپیشلٹی بلاک کی خدمات کو ملک کے نام وقف کیا گیا ہے۔صرف میڈیکل ایمرجنسی کے لئے پانچ سو بستروں کی نئی گنجائش کے ساتھ صفدرجنگ اسپتال ملک کا سب سے بڑا ایمرجنسی کیئر اسپتال بن جائے گا۔

آج جن پانچ پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اس میں سے ایک پاور گرڈ وشرام سدن بھی ہے۔ سرکاری دائرہ کار کی صنعتوں اور سماج کے تئیں ان کی ذمہ داری کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔اس سے نہ صرف مریضوں کو بلکہ ان کی دیکھ ریکھ کرنے والوں کو بھی بڑی راحت مل رہی ہے۔

وقت پر صحیح علاج زندگی بچانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ لیکن دہلی کا ٹریفک کئی بار اس میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ خصوصی طور پر ایمس کے الگ الگ سینٹر اور کیمپس کے بیچ مریضوں اور ڈاکٹروں کی آمدورفت کو لے کر پہلے بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ایمس کی اصل عمارت اور جے پرکاش نارائن ٹراما سینٹر کے بیچ یہ مسائل بھی اب حل ہوگئے ہے۔ تقریباً ایک کلو میٹرطویل زیر زمین سرنگ کا بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ا س سرنگ سے مر یضوں، ان کے رشتے داروں، ڈاکٹروں اور ضروری دواؤں کی بغیر رکاوٹ آمدورفت یقینی ہوئی ہے۔

بھارت جیسے ہمارے عظیم، ترقی پذیر ملک کے لئے سستی، آسان، محفوظ اور جدید صحت خدمات فراہم کرناکتنی بڑ ی ذمہ داری ہے اس سے آپ اچھی طرح سے واقف ہیں۔گزشتہ چار سالوں میں عوامی حفظان صحت کو لے کر ملک کو ایک نئی سمت دی گئی ہے۔ مرکزی حکومت کے یکے بعد دیگرے پالیسی انٹروینشن سے ہم اس صورت حال کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو بہتر صحت خدمات کے لئےبھٹکنا نہ پڑے، غیر ضروری خرچ نہ کرنا پڑے۔ ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت ملک بھر میں صحت خدمات سے منسلک جدید بنیادی ڈھانچہ کھڑا کررہی ہے۔ یہ سرکار کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں اسپتالوں میں بچوں کو جنم دینے کا رواج بڑھا ہے۔حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کی مسلسل جانچ، ٹیکہ کاری میں پانچ نئی ویکسین جڑنے سے ماں اور بچے کی شرح اموات میں بے مثال کمی آئی ہے۔ ان کوششوں کی عالمی ایجنسیوں نے بھی ستائش کی ہے۔

حکومت کی کوشش ہے کہ بڑے شہروں کے آس پاس صحت کا جو بنیادی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے اس کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ہی سہولتیں ٹیئر۔ 2 اور ٹیئر۔3 شہروں تک پہنچائی جائیں۔اس کے لئے حکومت دو سطح پر کام کررہی ہیں۔ ایک تو جو ہمارے موجودہ اسپتال ہیں ان کو اور جدید سہولتوں سے لیس کیا جارہا ہے اور دوسرا، ملک کے دور دراز والے علاقوں میں صحت سہولتوں کو پہنچایا جارہا ہے۔

آزادی کے 70 برسوں میں جتنے ایمس منظور کئے گئے یا بنائے گئے ہیں اس سے زیادہ گزشتہ چار برسوں میں منظور کئے گئے ہیں۔ ملک میں 13 نئے ایمس کا اعلان کیا گیا ہے جس میں سے آٹھ پر کام شروع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں 15میڈیکل کالج میں سپر اسپیشلٹی اسپتالوں کا تعمیراتی کام رفتار پر ہے۔

نیو انڈیا کے لئے ایک ایسے صحت نظام کی تشکیل کی جارہی ہے جہاں عمدہ اور کافی اسپتال ہوں، زیادہ بستر ہوں، بہتر سہولت ہوں اور جہاں سینئر ڈاکٹر اور ان کی ٹیم ہو۔ اسی ہدف کو دھیان میں رکھتے ہوئے میڈیکل ایجوکیشن میں بھی نئے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں۔ ہماری حکومت 58 اضلاع میں اسپتالوں کو میڈیکل کالج کے طور پر اپ گریڈ کرنے کا کام کررہی ہے۔ اس بجٹ میں ہی حکومت نے 24 نئے میڈیکل کالج بنانے کاا علان کیا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ تین لوک سبھا سیٹوں پر کم از کم ایک میڈیکل کالج ضرور ہو۔ان چار سالوں میں ملک بھر میں میڈیکل کی تقریباً 25 ہزار انڈر گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ کی نئی سیٹیں جوڑی گئی ہیں۔ حکومت نے داخلہ پروسیس کو بھی مزید شفاف بنانے کا کام کیا ہے۔

اس حکومت کا ویژن صرف ا سپتال، بیماری اور دوا اور جدید سہولتوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ کم خرچ پر ملک کے ہر شخص کے لئے علاج یقینی ہو، لوگوں کو بیمار بنانے والے اسباب کو ختم کرنے کی کوشش ہو، اسی سوچ کے ساتھ قومی صحت پالیسی کی تشکیل کی گئی ہے۔ ہماری حکومت نے صحت خدمات کو صحت وزارت کے دائرے سے باہر نکالنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ہمارے صحت کے ویژن کے ساتھ آج دیہی ترقی کی وزارت بھی جڑی ہے۔ صفائی ستھرائی اور پینے کے پانی کی وزارت بھی جڑی ہے۔ خواتین اور بہبود اطفال کی وزارت کو بھی اس کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔حکومت کے ویژن میں بیماری اور غریبی کے درمیان جو تعلق ہے اسے دیکھتے ہوئے منصوبے بنائے گئے ہیں۔انہیں لاگو کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ غریبی کی بڑی وجہ بیماری بھی ہے اور اسی لئے بیماری کو روکنے کا مطلب غریبی کو بھی روکناہوتا ہے۔اسی سمت میں مسلسل کوششیں کی جارہی ہے۔ سووچھ بھارت ابھیان کے تحت بیت الخلاء کی تعمیر، مشن اندر دھنش کے تحت دور دراز والے علاقوں میں ٹیکہ کاری، راشٹریہ پوشن ابھیان اور آیوشمان بھارت جیسے متعدد اولوالعزم منصوبے غریب کی بیماری پر ہونے والے اخراجات کو کم کررہے ہیں۔کم خرچ پر حفظان صحت کو لے کر جتنی سنجیدگی سے ملک میں ابھی کام ہورہا ہے اتنا شاید پہلے کبھی نہیں ہوا۔

قومی صحت تحفظ اسکیم یا آیوشمان بھارت بھی اسی سمت میں ایک اہم ترین کڑی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ یعنی ملک کی ہر بڑی پنچایت کے بیچ ا یک ہیلتھ اور ویلنس سینٹر قائم کرنے پر کام چل رہا ہے۔مستقبل میں ان سینٹروں میں ہی بیماری کی شناخت کے لئے ٹیسٹ اور علاج کی جدید سہولتیں مہیا کرائی جائیں گی۔اس کا بہت بڑا فائدہ گاؤں اور قصبوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی ملنے جارہا ہے۔ وہیں سنگین بیماری کی صورت میں ملک کے غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کو عمدہ اور پانچ لاکھ تک کا مفت علاج یقینی بنانے پر کام چل رہا ہے۔ اس منصوبے سے زیادہ سے زیادہ ریاستوں کو جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نجی اسپتال سے منسلک لوگوں سے بھی بات چیت جاری ہے۔ متعدد موضوعات میں سبھی حصے داروں کے ساتھ اتفاق رائے ہوچکا ہے اور بہت جلد ہی یہ دنیا کی سب سے بڑی، دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم زمین پر اترنے والی ہے۔

اس منصوبے کی وجہ سے آنے والے وقت میں ملک کے گاؤں اور چھوٹے قصبوں کے آس پاس اسپتالوں کا بڑا نیٹ ورک بننا یقینی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں نئے اسپتال بننا ہے۔ کیونکہ جب بیماری کاخرچ کوئی اور اٹھانے والا ہو تو بیمار اسپتال جانا پسند کرے گا اور بیمار اسپتال آنے کے بعد پیسہ کہیں سے ملنا یقینی ہے تو ا سپتال اور ڈاکٹر بھی سامنے سے کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ وہیں ،ایک اور طرح سے ایک ایسے نظام کو فروع دیا جارہا ہے جو ملک میں ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ، میڈیکل سیکٹر میں، ملک کے اندر بنیادی ڈھانچے کی ترقی یا صحت کے تئیں بیدار سماج کی شکل میں ہم ایک نئے دور میں داخل ہونے والے ہیں اور اس سیکٹر میں روزگار کے مواقع تو بڑھنے ہی والے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر کے ساتھ کتنے لوگوں کو کام کرناپڑتا ہے تب ایک ڈاکٹر کچھ کام کرپاتا ہے۔کتنے لوگوں کے لئے روزگار کا امکان ہے۔ہاں،جدید طبی خدمات کے لئے بڑے شہروں کی طرف آنے کی مجبوری بھی میں سمجھتا ہوں بہت حد تک کم ہوجائے گی۔ لوگوں کو اپنے گھر کے پاس ہی ساری سہولتیں ملیں گی۔

ساتھیوں، پچھلے چار برسوں میں قابل برداشت حفظان صحت کو لے کر جو بھی اسکیم سرکار نے چلائی، ان کا کتنا فائدہ عام آدمی کو ہورہا ہے، یہ جاننے کے لئے اس مہینے کی شروعات میں میں نے خود ملک بھر کے فیض حاصل کرنے والوں سے گفتگو کی۔ قریب تین لاکھ سینٹر ، اور میرا انداز ہے کہ 30-40 لاکھ لوگ میرے سامنے تھے، اس پر اور اس پوری بات چیت سے ایک بات جو نکل کر کے آئی، وہ یہ کہ نچلے اوسط درجے کے طبقے سے لے کر غریب افراد کے صحت کے خرچ میں آج بہت کمی آئی ہے۔ ساتھیوں اس کی وجہ آپ سبھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ 

سرکار کے ذریعے قریب قریب 1100 ضروری دوائیوں کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے نظام کے دائرے میں لایا گیا ہےجس سے لوگوں کو لگ بھگ دوائی کے پیچھے جو خرچ ہوتا تھا ان خاندانوں کے لگ بھگ 10 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ بچت ہوئی ہے۔ ایک سال میں 10 ہزار کروڑ روپے کی سیونگ- اور وہ بھی ایک اسکیم کا نتیجہ۔ ملک بھر میں 3600 سے زیادہ جن اوشدی کیندر کھولے جاچکے ہیں۔ ان کیندروں میں 700 سے زیادہ دوائیاں اور ڈیڑھ سو سے زیادہ سرجری کا سامان سستی قیمت پر دستیاب ہے۔ امرت اسٹور س میں بھی مل رہی 50 فیصد کم قیمت کی دواؤوں کا لگ بھگ 75-80 لاکھ مریض فائدہ اٹھاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ آج اسٹینٹس اور نی پلانٹ کی قیمت میں کمی سے دیش کے غریب اور اوسط طبقے کے لگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔ ان کی قیمت پہلے کے مقابلے لگ بھگ ایک تہائی ہوگئی ہے، تین گنا کم ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی جی ایس ٹی کے بعد بھی کئی دواؤں کی قیمت کم ہونے سے لوگوں کو بھی فائدہ ملا ہے۔ ملک کے لگ بھگ ہر ضلع میں ڈائلیسس سینٹر بنائے گئے ہیں۔ یہاں غریبوں کا مفت ڈائلیسس کیا جارہا ہے۔ اب تک تقریبا ڈھائی لاکھ مریض اس کا فائدہ اٹھاچکے ہیں۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پہلے جہاں غریب کو مفت ڈائلیسس کے لئے سو سو، دو سو کلو میٹر جانا پڑتا تھا اب اسے اپنے ہی ضلع میں یہ سہولت مل رہی ہے۔ 

جب تو وہ اتنا دور نہیں جاپاتا تھا تو دوسرے اسپتالوں میں پیسے خرچ کرکے ڈائلیسس کرواتا تھا۔ اب غریب کو مل رہی مفت ڈائلیسس سہولت سے ڈائلیسس کے ہر سیشن میں اسے تقریبا پندرہ سو سے 2000 روپے کی بچت ہورہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت تقریبا 25 لاکھ ڈائلیسس سیشن مفت کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ احتیاطی حٖفظان صحت کی صورت میں یوگ نے بھی نئے سرے سے اپنی پہچان قائم کی ہے۔ یوگیوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں لیکن آج پوری دنیا میں یوگ نے اپنے لئے جگہ بنالی ہے۔ اس کا ڈنکا بج گیا ہے۔ میں یہ تو کبھی نہیں کہہ سکتا کہ کسی بھوگی کو یوگ، یوگی بنادے گا لیکن میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ یوگ یوگی کو روگی ہونے سے بچاسکتا ہے۔ آج یوگ دنیا بھر میں عوامی تحریک بن رہا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے پوری دنیا میں 21 جون کو بین الاقوامی یوگ دیوس منایا گیا اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ، مجھے ایمس میں بھی ان دنوں یوگ کی کافی بیداری آئی ہے۔ سارے ڈاکٹر، دوست بھی یوگ کررہے تھے۔ مجھے اچھا لگا۔

ملک کے ہر شہری تک صحت خدمات پہنچانا اس حکومت کا مقصد ہے لیکن آپ بھی سرگرم تعاو کے بغیر، آپ کے ساتھ کے بغیر ، یعنی پوری اس میڈیکل دنیا کے ساتھ کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ آج جب ملک نیو انڈیا کے عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو صحت کے سیکٹر سے جڑے لوگوں کو بھی اپنے لئے نئے عہد طے کرنا چاہئے۔ 2022 میں جب آزادی کے 75 سال ہوں گے، میں اگر میڈیکل پروفیشن میں ہوں، میں ڈاکٹر ہوں ، میں اور معاون ہوں ،2022 تک حفظان صحت سیکٹر میں میرا یہ عہد رہے گا ، جب آزادی کے 75 سال ہوں گے میں بھی اتنا کروں گا، یہ اس ملک میں ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ سرکار سال 2025 تک ملک کو ٹی بی سے پاک کرنے کے لئے کام کررہی ہے۔ ٹی بی مریضو ں کے تغذیہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہر مہینے انہیں 500 روپے کی مالی مدد بھی دی جارہی ہے۔

دنیا کے دوسرے ملکوں نے خود کو ٹی بی سے پاک کرنے کے لئے 2030 کا وقت طے کیا ہے۔ ہم ملک کو جلد سے جلد ٹی بی سے پا کرانے کے لئے ایک عہد کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ دنیا 2030 میں پورا کرنا چاہتی ہے، ہم 2025 میں پورا کرنا چاہتے ہیں۔ پوری دنیا کی نظر بھارت پر ہے کہ کیا وہ ایسا کرسکے گا؟ مجھے ملک کے میڈیکل سیکٹر پر بھروسہ ہے، اس کی صلاحیت پر بھروسہ ہے کہ وہ اس چیلنج پر پورے عہد کے ساتھ کام کرے گا اور ملک کو کامیاب کرکے رہیں گے، یہ میرا یقین ہے۔ ایسا ہی ایک اہم موضوع ہے ماں اور بچے کی موت کی شرح۔ جیسا میں نے پہلے کہا تھا کہ بھارت نےپچھلے چار برسوں میں اس معاملے پر کوئی اہم فروغ حاصل نہیں کیا ہے لیکن والدہ اور بچے کی شرح اموات کو کم سے کم کئے جانے کے لئے ہم سبھی کو مل کر اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے لئے وزیراعظم محفوظ زچگی ابھیان اور وزیراعظم ماتتر وندنا یوجنا اور راشٹریہ پوشن ابھیان کے تحت مشن موڈ میں کام چل رہا ہے۔ اس مشن کو اپنی زندگی کا مشن بناکر کام کیا جائے۔ عوامی تحری کی طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں جوڑا جائے تو یقینی طور پر جلد ہی اور بہتر نتائج ہم حاصل کرکے رہیں گے، اس یقین کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔

آج ملک میں ایمانداری کا ایک ایسا ماحول بنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ قوم کی تعمیر کی اپنی ذمہ داری بڑھ چڑھ کر کے آگے بڑھ کر اٹھارہے ہیں، لوگوں میں یہ اعتماد بڑھا ہے کہ ہم جو ٹیکس دیتے ہیں اس کا ایک ایک پیسہ ملک کی بھلائی کے لئے خرچ ہورہا ہے اور اس اعتماد کا نتیجہ سماج کی ہر سطح پر ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آپ کو دھیان ہوگا میں نے جب لال قلعہ سے ملک کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ جو اہل ہیں، جو خرچ کرسکتے ہیں،

ایسے لوگ گیس سبسڈی کیوں لیتے ہیں، چھوڑ دیجئے نا۔ اتنی سی بات میں نے کہی تھی اور میری اتنی سی بات کو اس دیش کے سوا سو کروڑ خاندانوں نے گیس سبسڈی چھوڑ دی۔ ورنہ ہمارے دیش میں ایسا ہی ماننے کو مان لیا جاتا ہے کہ بھئی کوئی چھوڑتا نہیں ایک بار ملا تو ملا اور سوبھاؤ ہے آپ جہاز میں جاتے ہوں گے بغل میں سیٹ خالی ہو، آپ کی سیٹ نہیں ہے، جہاز چلنے کو تیار ہے تو آپ نے موبائل فون رکھا، کتاب رکھی اور اتنے میں آخر میں کوئی آگیا اس سیٹ پر بیٹھنے والا، تو کیا ہوتا ہے؟ سیٹ آپ کی نہیں ہے، آپ تو اپنی سیٹ پر بیٹھے ہیں چھوڑنے کا دل نہیں کرتا، یہ کہاں سے آگیا، اس ذہنیت کے بیچ اس دیش کے 25 کروڑ خاندان ہیں ،25 کروڑ خاندانوں میں سے سوا سو کروڑ خاندان گیس سبسڈی صرف کہنے پر چھوڑ دے، مطلب ملک کی طاقت، دیش کا مزاج کیسا ہے، ہم اس کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ ایک اور بات میں بتانا چاہتا ہوں، 

اسی طرح پچھلے دنوں ریلوے کے ذریعے، آپ کو معلوم ہے جو سینئر سیٹیزن، جو ریلوے میں سفر کرتے ہیں، ان کو سبسڈی ملتی ہے، کنشیشن ملتا ہے اور میں نے بھی کبھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا کہ میں سوچ رہا تھا کروں نہ کروں، لیکن ریلوے نے اپنے فارم میں لکھ دیا کہ کیا آپ اپنی سبسڈی چھوڑنے کے لئے راضی ہیں، آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا اور ہمارے اس ملک کی طاقت پہچاننا ہوگا ، صرف ریلوے کے ریزرویشن کے درخواست فارم میں اتنا لکھا گیا کہ کیا آپ اپنا سینئر سیٹیز کا فائدہ چھوڑنا چاہتے ہیں اور میں فخر سے کہہ رہا ہوں پچھلے 8-9 مہینے کے دوران 42 لاکھ بزرگ شہری مسافرو نے اپنی سبسڈی کا فائدہ نہیں لیا، چھوڑ دیا۔ یعنی ملک کے اندر کیا ماحول بنا ہے۔ ایسے ہی میں نے ایک بار ملک کے ڈاکٹروں سے اپیل کی تھی ، میں نے کہا تھا کہ مہینے میں ایک بار 9 تاریخ کو کوئی بھی غریب حاملہ خاتون آپ کے دروازے پر آتی ہے ، آپ خدمت کے جذبے سے مہینے میں ایک دن 9 تاریخ کو اس غریب ماں کو سمرپت کردیجئے۔ اس غریب کو چیک کیجئے، اس کی رہنمائی کیجئے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ 

مجھے خوشی ہے کہ ہزاروں ڈاکٹر بہت ہی خدمت کے جذبے سے آگے آئے۔ ان کے اپنے اسپتال کے باہر بورڈ لگادیا ہے اور 9 تاریخ کو وہاں مفت میں خدمت کی جاتی ہے۔ یہ جان کر حاملہ خواتین ان ڈاکٹروں کے پاس پہنچتی ہیں کروڑوں بہنوں کو اس کا فائدہ ملا ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے اور ڈاکٹر دوست آگے آئیں۔ یہ ایک ایسا خدمت کا کام ہے ۔ کیونکہ ہم سب نے مل کر ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ملک میں دو قدم آگے بڑھنا ہے۔ وزیراعظم محفوظ ماترتو ابھیان کے تحت اب تک ملک میں سوا کروڑ حاملہ خواتین کی جانچ ان ڈاکٹروں کے ذریعے ہوئی ہے، سوا کروڑ۔ میں اس مہم میں ان ڈاکٹر دوستوں کے تعاون کے لئے ہر میڈیکل پروفیشن کے لئے کام کرنے والے، ان سب کی ستائش کرتا ہوں اور میں چاہوں کہ اس بات کو آگے بڑھائیں۔ یہی خدمت کا جذبہ اس وقت قومی سوراج ابھیان کے دوران کیا جارہا ہے۔ ہم نے بھی ایک پروگرام کیا، آپ کو ذراکچھ چیزیں 24 گھنٹے چینل میں نہیں دکھائی دیتی ہیں نہ اخبار کی سرخیوں میں ہوتی ہیں۔ ہم نے ایک گرام سوراج ابھیان کیا، ایک 17 ہزار سلیکٹ کئے، اس کے کچھ پیمانے تھے اور سات کام طے کئے ان سات کام کو وہاں 100 فیصد پورا کرنا ہے۔

اس میں ایک ٹیکہ کاری ہے ۔ اس ٹیکہ کاری کام کو ہم نے کامیابی کے ساتھ 17 ہزار گاؤوں میں پورا کیا۔ ابھی ہم نے طے کیا ہے کہ 15 اگست تک 115 جو ایسپیریشنل اضلاع ہم نے بنائیں ہیں، جو آج ریاست کی ایورج سے ہیں، اس کے بھی پیچھے ہے لیکن طاقتور ہیں۔ ان 115 ضلع کے اندر قریب 50 ہزار گاؤوں ہیں جہاں ملک کے قریب دیہی زندگی کی 40 فیصد آبادی اس جگہ پر رہتی ہے ان کے لئے بھی سات ایسے کام بتائے جو ہم نے سو فیصد پورے کرنے ہیں۔ اس میں بھی ایک ٹیکہ کاری ہے، یعنی ایک طرح سے صحت کے سیکٹر میں اور ملک میں ٹیکہ کے دائرے کو بڑھانے میں الگ الگ سیکٹروں سے جڑے ہوئے افراد نے جس طرح کا کام کیا ہے ، میں سمجھتاہوں وہ بھی قابل تعریف ہے۔ یہ آپ سبھی کی کوششوں سے ہی ممکن ہوا ہے کہ آج ملک کے ٹیکہ کارے کے بڑھنے کی رفتار 6 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ 6 فیصد سننے کے بعد آپ کو زیادہ لگتا نہیں ہے6 فیصد لیکن پہلے ایک فیصد بھی نہیں ہوتا تھا۔ آپ کے اس عہد کی وجہ سے ملک مکمل ٹیکہ کاری کے ہدف کو حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ملک میں ہر حاملہ خاتون اور بچے کو ٹیکہ لگانے کا عہد نئے بھارت کی تعمیر میں، صحت مند خاندان کی تشکیل میں بڑا رول ادا کرے گا۔

ساتھیوں صحت مند خاندان سے ہی صحت مند سماج اور صحت مند سماج سے ہی صحت مند قوم کی تعمیر ہوتی ہے۔ ہم سب پر اور خاص طور پر آپ پر ملک کو صحت مند رکھنے کی ذمہ داری ہے اور اس لئے صدر جمہوریہ بھی آپ کو قومی کی تعمیر کا ایک اہم ستون کہتے تھے۔آئیے سرکار کے ساتھ مل کر ’’سروے بھونتو سکھن: سروے سنتو نرامیا: ‘‘۔

آ ج یہاں اس تقریب میں جو سہولیات دہلی اور ملک کو ملی ہیں ان کے لئے ایک بار پھرمیں بہت بہت مبارک باد کے ساتھ شعبے کو بھی مبارک باد دیتا ہوں۔ انہوں نے مقررہ وقت کے اندر ان سارے کاموں کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کیونکہ میرا کہنا ہے کہ ہم انہیں کاموں کو ہاتھ لگائییں گے جس کو ہم پورا کرپائیں، ورنہ ہمارے دیش میں حال ایسا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر ریلوے بجٹ میں ایوان کا تقدس، ایوان میں کمٹمنٹ ہوتا، میں نے مارک کیا، بڑی بڑی دھیان میں میرے آیا ، قریب قریب 15سو چیزوں کا اعلان کیا گیا تھا، اکیلے ریلوے نے پچھلے 30 ،40 ،50 سال میں اور میں نے جب پوچھا کہاں ہے تو کاغذ پر بھی نہیں تھیں۔ زمین پر تو نہیں آئی، ہم اس راستے پر جانا نہیں چاہتے، ہم پتھر جڑنے کے لئے نہیں آئے جی، ہم ایک بدلاؤ کا عہد لے کر آئے ہیں اور آپ سب کا ساتھ مانگنے کے لئے آیئے ہیں، آپ کا ساتھ اور تعاون لے کر کے ملک کی امیدوں کو پورا کرنے کا ایک عہد لے کر چل پڑے ہیں۔ مجھے یقین ہے میرے ساتھیوں آپ بھی ہمیں تعاون دیں گے۔

نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہایم ونکیا نائیڈونے پالیسی ساز افراد سے کہا ہے کہ وہ کینسر کے علاج کو سستا بنانے کے لئے کوشش کریں۔ کرناٹک کے بنگلورو میں قدوائی کینسر انسٹی ٹیوٹ میں نئے کینسر انسٹی ٹیوٹ بلاک کا افتتاح کرنے کے بعد حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کینسر کے علاج کی بڑھتی ہوئی قیمت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ کرناٹک کے گورنر  واجو بھائی رودا بھائی والا، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمار سوامی اور دیگر معززین اس موقع پر موجود تھے۔

نائب صدر جمہوریہ نےکینسر کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے قومی اور علاقائی سطح پر احتیاطی، امتناعی، شفا بخش اور آرام پہنچانے والے حفظان صحت پروگرام کو مزید مستحکم کرنے کے لئے کہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مناسب علاوج مہیا کرانے کے لئے تربیت یافتہ افراد اور سازوسامان کے لئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، لیکن سرکار کو پالیسی کے متعدد متبادلوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ کینسر کے علاج کو مزید کفایتی اور سستا بنادے گا۔

نائب صدر جمہوریہ نے ڈاکٹروں سے کہا کہ وہ مریضوں بالخصوص کینسر جیسے مہلک بیماری میں مبتلا مریضوں کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ بلاناغہ رابطہ بنائے رکھیں۔ مریض اور ان کے اہل خانہ کوتسلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں آرام پہنچانے والے حفظان صحت نظام کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے زیادہ پیار بھرے اور تسلی کے کلمات جو کہ مریض کے درد کو قابل برداشت بناسکتے ہیں، کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمدردی اور صبرو تحمل، نگہداشت اور شفقت، ایسی خوبیاں ہیں جو کہ مریضوں کے دل میں امید کی کرن پیدا کرسکتی ہیں۔ اسی طرح پریشان اہل خانہ کے لئے تسلی فراہم کرسکتے ہیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے آلودگی، موٹاپا، تمباکو کے مضر استعمال، سپاری، شراب، غلط طرز زندگی جنک فوڈ اور کینسر پیدا کرنے والی دیگر غذاؤں کے خطرات سے متعلق بڑے پیمانے پر عوامی بیداری پھیلانے کے لئے کہا۔ انہوں نے کہا کہ وقفے وقفے سے لوگوں کی جانچ پڑتال بھی بے حد ضروری ہے۔ خصوصاً ایسے افراد کی جن میں کینسر کا مرض پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔

نائب صدر جمہوریہ نے پالیسی ساز افراد سے کہا کہ وہ کینسر کی روک تھام کے لئے مؤثر حکمت عملی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ کینسر کی روک تھام سے متعلق ریسرچ کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے دیہی علاقوں میں جہاں 70 فیصد ہماری آبادی رہائش پذیر ہے وہاں کینسر کا جلد از جدل پتہ لگانے، علاج اور آسانی فراہم کرنے والے حفظان صحت کے لئے کینسر اکائیوں کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیسن کے شعبے میں مزید میڈیکل اور پیرا میڈیکل پیشہ ور افراد رکھنے کی ضرورت ہے۔

Image result for images - medicalنئی دہلی، مرکزی کابینہ نے وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے محکمے تحقیق صحت کی تجویز پر بھوپال میموریل اسپتال اور بھوپال ریسرچ سینٹر کے جنرل ڈیوٹی میڈیکل افسران ، ماہر گریڈ ڈاکٹروں اور تدریسی میڈیکل فیکلٹی ریٹائرمنٹ عمر میں توسیع کو منظوری دے دی ہے۔

اسپتال میں کام کرنے والے جنرل ڈیوٹی میڈیکل افسران اور دوسرے سینٹرل گورنمنٹ اسپتالوں/ اداروں کے تحت کام کرنےو الے ڈاکٹروں کی عمر کو 65 سال کردیا گیا ہے۔

نئی دہلی، 15 ویں ہندوستانی آسٹریلیا مشترکہ وزارتی کمیشن(جے ایم سی) کی میٹنگ آسٹریلیا کے شہر کینبرا میں منعقد ہوئی۔ اس مشترکہ میٹنگ کی صدارت، کامرس اور صنعت کے اور شہری ہوا بازی کے وزیر سریش پربھو اور تجارت ، سیاحت اور سرمایہ کاری کے آسٹریلیا کے وزیر اسٹیون کیوبو نے کی۔

مشترکہ وزارتی کمیشن کی میٹنگ انتہائی پر جوش اور خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ یہ میٹنگ چار سال کے عرصے کے بعد ہوئی ہے جس میں دونوں ملکوں کےو زراء نے ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان سرمایہ کاری کو بڑھانے کے طور طریقوں پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ دونوں فریقوں نے آسٹریل، آسٹریلین تجارت اور سرمایہ کاری کمیشن اور انویسٹ انڈیا کے درمیان زیادہ اشتراک کرنے سے اتفاق کیا۔ جو کہ ہندوستان کی قومی سرمایہ کاری پروموشن اور فیسیلٹی ایجنسی ہے۔ بات چیت آسٹریل اور انویسٹ انڈیا کے درمیان مفاہمت نامے کے دستخط کے بعد ختم ہوئی ۔ اس مفاہمت نامے پر دستخط کا مطلب باہمی سرمایہ کاری کو بڑھانے کی راہ ہموار کرنا ہے۔

کینبرا میں کامرس کے وزیر نے آسٹریلیا کے وزیراعظم میل کم ٹرن بل سے ملاقات کی۔ انہوں نے آسٹریلیا کے خزانے کے وزیر اسکاٹ ماریسنس اور آسٹریلیا کے زراعت اور آبی وسائل کے وزیر ڈیوڈ لیٹل پراؤڈ کے علاوہ آسٹریلیا کے خارجی امور کے وزیر جولی بیشپ کے ساتھ بھی باہمی میٹنگیں کیں۔ان وزراء کے ساتھ میٹنگیں انتہائی خوشگوار رہی۔ جن میں آپسی مفاد کے معاملوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

سڈنی میں آج اپنے دورے کے دوسرے مرحلے میں کامرس کے وزیر نے آسٹریلیا کے تقریباً پچیس سپر فنڈ کے نمائندوں سے خطاب کیا۔ جن کے پاس زبردست سرمایہ کاری کرنے کے لئے اثاثے ہے اور وزیر موصوف نے انہیں اس کام کے بارے میں بھی جانکاری دی جو ہندوستان کو تبدیل کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کے سلسلے میں کئے جارہے ہیں انہوں نے سرمایہ کاری کے بہت سے مواقع کے بارے میں بھی جانکاری دی۔ جو سرمایہ کاروں کے لئے پیدا کئے جارہے ہیں۔

انہوں نے سامان اور خدمات ٹیکس جی ایس ٹی کو شروع کرنے جیسی بنیادی تبدیلی پر توجہ دی اور مالی شمولیت کے ذریعہ انفورمل سیکٹر کے وسائل کو فورمل سیکٹر میں تبدیل کرنے کے علاوہ ڈیجٹائزیشن بڑھانے کے علاوہ ان اقدامات پر بھی توجہ مرکوز کی ۔ جو ہندوستان میں کاروبار کرنے کے عمل کو آسان بنانے کے لئے کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعہ ہی ہندوستانی معیشت کی زبردست ترقی ممکن ہوپائی ہے۔ انہو ں نے ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لئے آسٹریلیائی سپر فنڈز کو دعوت دی۔

وزیرموصوف نے ہندوستان کی ترقی کی داستان : آسٹریلیا کے لئے مواقع کے عنوان کے بارے میں ایشیا سوسائٹی آسٹریلیا میں لیڈرس آن ایشیا سے متعلق خطاب بھی دیا۔ اپنے خطاب میں جناب سریش پربھو نے معلومات پر مبنی زراعت، خدمات، تعلیم اور مینو فیکچرنگ کے سیکٹروں کا ذکر کیا جو ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان آپسی تعاون کے اہم شعبے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک دوسرے پرمعاشی انحصار ملکوں کے درمیان مزید تعلقات کاسب سے بہترین راستہ ہے اور ہندوستان اور آسٹریلیا فطری ساجھے دار ہے جو ایک دوسرے کو معاشی فائدہ پہنچانے اور ایک دوسرے پر انحصار کرسکتے ہیں۔

سریش پربھو نے آسٹریلیا کی سب سے بڑی ریاست نیو ساؤتھ ویلس کی وزیراعظم محترمہ گلڈیس بیجرک لیان کے ساتھ بھی میٹنگ کی۔نیوساؤتھ ویلس کی وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ آسٹریلیا کے کاروباری ان مواقع کو کبھی بھی مس نہیں کریں گے جس کی ہندوستان نے پیش کش کی ہے اور آسٹریلیا سے ہندوستان میں سرمایہ کاری جلد ہونے والی ہے۔

جناب سریش پربھو نے سڈنی میں بھارتی شہریوں سے بھی ملاقات کی۔ بھارت کے شہریوں کے لیڈروں سے بھی ملاقات کی۔ بات چیت کے دوران انہوں نے ان اہم اصلاحات کا ذکر کیا جو ہندوستان میں کئے جارہے ہیں انہوں نے وہاں مقیم بھارتیوں کے مثبت تعاون کا بھی ذکر کیا جو نہ صرف آسٹریلیا بلکہ ہندوستان کو دے رہے ہیں۔

آسٹریلیا کے لئے اپنے کامیاب دورے کے دوران کامرس کے وزیر نے حکومت کاروباری اور رائے بنانے والوں

نئی دلّی ، سائنس و تکنالوجی ، ماحولیات ، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی اور ارضیاتی سائنس کے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا ہے کہ سائنسی ، تکنیکی اور طبی برادری کا بہتر نتائج کے لئے ملک گیر پیمانے پر ادارہ جاتی امتزاج ہونا چاہئیے ۔ 

انہوں نے کہا کہ ایک میکنزم ہونا چاہئیے جہاں ایک انجینئر ایک میڈیکل کالج جا ئے اور ایک تکنیشین ایک سائنسی لیب جائے اور ایک سائنس داں بھی کلینک چلانے والے کے کلینک پر جائے ۔
وہ تھیرووننتھا پورم میں سری چترا تیرونل انسٹی ٹیوٹ فار میڈیکل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چار اہم پروجیکٹوں کا افتتاح کر رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ نظام صحت کے شعبے میں کام کر رہے سری چترا جیسے اداروں کو ’’ میک ان انڈیا فار ہیلدی انڈیا ‘‘ سے منسلک ہو کرکام کرناچاہئیے ۔ 

ملک میں نعم البدل درآمدات کی انتہائی اشدضرورت ہے خاص طورپر صحت کے شعبے میں ۔ انہوں نے کہا کہ فوری توجہ کی حامل کچھ تکنالوجیاں جن کے لئے فوری توجہ درکار ہے ، ان میں کم قیمت والی تشخیصی مشینیں مثلاً ایم آر آئی ، سی ٹی ، کارڈک کیتھیٹرائزیشن لیباریٹریز اور ڈیجیٹل سبسٹریکشن انجیو گرافی مشینیں وغیرہ شامل ہیں ۔ انہوں نے ان چیزوں کے علاوہ ، مصنوعی پیوند کاری ، بایو نک آرگن اور اسٹیٹ آف دی آرٹ ری ہیبی لٹیشن تکنالویوں پر ریسرچ درکار ہے ۔وزیر موصوف نے کہا کہ بیماریوں کی جلد تشخیص اور نگرانی کے لئے ری جنریٹیو میڈیسن ، ٹشو انجینئرنگ ، اسٹیم سیل انجینئرنگ اور جین تھیراپی ، بایو چپ اور بایو سینسر کی تکنالوجیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ، ان کے معاملے میں زیادہ تاخیر نہیں کی جا سکتی ۔
وزیر موصوف نے گزشتہ تین چار سال کے دوران سائنس و تکنالوجی کے شعبے میں عظیم ترقی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تین چار سال کے دوران سائنسی شعبے کے لئے فنڈ تین گنا کر دیا گیا ہے ۔

 انہوں نے کہا کہ بھارت پوری دنیا میں سائنسی مطبوعات کے معاملے میں چھٹے نمبر پر ہے ۔ سائنسی مطبوعات کی بین الاقوامی شرح ترقی 4 فیصد ہے ۔ قریب ترین ٹھیک موسیماتی پیشن گوئی کرنے کے معاملے بھارت کا مقام تیسرا ہے اور پیٹنٹ کے معاملے میں 9 ویں پوزیشن پر ہے ۔ سی ایس آئی آر رینکنگ کے معاملے میں اداروں کی پبلک فنڈنگ کے معاملے میں یہ 9 ویں مقام پر فائز ہے ۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران بھارت میں 5000 سے زائد تکنالوجیاں وضع کی ہیں اور 800 سے زائد تکنالوجیوں کو منتقل کیا ہے ۔

 ہزاروں نوجوان اپنے اسٹارٹ اپ کے ساتھ انکیوبیشن مراکز کھول کر تکنالوجی پارکوں وغیرہ سے استفادہ کیا ہے ۔ وزیر موصوف نے کہا کہ نریندر مودی حکومت ہر ایسے نوجوان کے پیچھے قدم جما کرکھڑی ہے جو کوئی نئی صنعت قائم کرنا چاہتا ہے اور وہ معاشرے کے لئے مفید ہو ۔
امداد باہمی ، سیاحت ، دیواسووم کے وزیر کڈاکمپلّی سندرم جنہوں نے اس تقریب کی صدارت کی ، اشارہ کیا کہ سری چترا نسٹی ٹیوٹ خطر ناک وائرسوں کے مطالعے میں اہم کردر ادا کرسکتا ہے ۔ 

یہ وہی وائرس ہیں جو عوام کو متاثر کر سکتے ہیں ۔ اراکین پارلیمنٹ محترمہ محترمہ پی کے سریمتی ٹیچر ، جناب جوائے ابراہم ، جناب او راج گوپال ایم ایل اے ، ادارے کے صدر اور سابق کابینہ سیکریٹری جناب کے ایم چندر شیکھر اور ایس سی ٹی آئی ایم ایس ٹی کے بانی پروفیسر والیاتھن نے اس موقع پر اظہار خیال کیا ۔
ایس سی ٹی آئی ایم ایس ٹی کی ڈائرکٹرپروفیسر آشاکشورنے حاضرین کا خیر مقدم کیا اور بایو میڈیکل تکنالوجی شعبے کے صدر ڈاکٹر پی آرہری کرشنا نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا ۔
وزیر موصوف ڈآکٹر ہرش وردھن نے سری چترا تیرونل انسٹی ٹیوٹ فار میڈیکل سائنس اینڈ تکنالوجی کی سرکرمیوں کا جائزہ لیا اور یہاں کے ڈائرکٹر اور اساتذہ کے ساتھ علیحدہ سے میٹنگ کابھی اہتمام کیا ۔

Image result for images - ayushman bharatنئی دہلی، آیوش مان بھارت- قومی صحت تحفظ مشن (اے بی- این ایچ پی ایم) کی سی ای او ڈاکٹر اندوبھوشن اور انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر آر این ٹنڈن نے آیوش مان بھارت- قومی صحت تحفظ مشن کو نافذ کرنے میں اشتراک کے امکانات پر تبادلہ خیال کے لئے ملاقات کی۔ آئی ایم اے کے نمائندوں نے اے بی- این ایچ پی ایم کے بہتر نفاذ، خاص طور سے اسپتالوں کو پینل پر لینے کے شعبے اور بیداری پیدا کرنے کی خاطر بہتر نفاذ میں اپنی حمایت دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

ڈاکٹر ٹنڈن نے کہا کہ آئی ایم اے کو اے بی- این ایچ پی ایم کے ساتھ جڑنے پر فخر ہے اور وہ ٹیئر-2 اور ٹیئر-3 کے شہروں میں معیاری خدمات فراہم کرنے والوں سے متعلق بیداری پیدا کرنے میں مدد کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔

ڈاکٹر اندو بھوشن نے مزید کہا کہ آئی ایم اے معیاری اور مریضوں پر مرکوز حفظان صحت رسائی میں اضافہ کرنے کی خاطر اے بی - این ایچ پی ایم میں ایک پرائیویٹ سیکٹر کے رول کی طرح آئی ایم اے ایک اہم ساجھیدار ہے۔ میٹنگ کے دوران اہم معاملات، جیسے اسپتالوں کے لئے وقت پر ادائیگی ، معلومات اور شکایتوں کا نظام ، اسپتالوں میں کاغذ کے بغیر لین دین ، اسپتالوں میں آئی ٹی کا بنیاد ڈھانچہ قائم کرنے میں آسانی وغیرہ پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس سلسلے میں تعمیری تجاویز پیش کی گئیں۔

ڈپٹی سی ای او ڈاکٹر دنیش اروڑا نے کہا کہ این اے بی ایچ سے الحاق پسندیدہ ہے لیکن اسپتالوں کے لئے یہ لازمی نہیں ہے کیونکہ اے بی – این ایچ پی ایم کے اہم اصولوں میں سے ایک معیاری اور مریض کا تحفظ ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نیتی آیوگ کے ذریعے کرائے گئے مطالعات کی بنیاد پر فیض یافتگان کے فوائد کی حصولی اور ان کے مجوزہ دروں کا فیصلہ نیتی آیوگ کے ذریعے کیا جاتا ہے اس لئے آئی ایم اے کو این ایچ اے کی حمایت کی ضرورت ہے جوعلم اور پیشہ وارانہ مہارت کی بنیاد پر دی جاسکتی ہے۔

محترمہ اندو بھوشن نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اے بی – این ایچ پی ایم کے تحت زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوں گے اور دیہی اور شہری علاقوں میں ٹیئر-2 اور ٹیئر-3 کے شہروں سمیت دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں اے بی – این ایچ پی ایم کو سب سے زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔ یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب حکومت حفظان صحت کے پرائیویٹ اور آئی ایم اے جیسی انجمنیں سماج کی صحت کی حیثیت کو بہتر بنانے کے لئے مل کر ساجھیداری میں کام کریں۔

اے بی – این ایچ پی ایم کو مالی تحفظ فراہم کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس میں 10 کروڑ سے زیادہ غریب اور محروم طبقے کو مالی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کنبوں کو آئی این آر پانچ لاکھ روپے فی کنبے کو سالانہ انشورنس کے فوائد فراہم کئے جائیں گے۔

نئی دہلی، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر مینکا گاندھی نے مختلف سرگرمیوں کے ذریعہ یوگا کا چوتھا بین الاقوامی دن منایا۔خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر نے نئی دہلی میں حاملہ خواتین کے ساتھ ایک یوگا تقریب میں شرکت کی۔  مینکا گاندھی نے جلد ہی ماں بننے والی ان خواتین کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ حاملہ خواتین نے محترمہ گاندھی کے ساتھ زچگی سے قبل یوگا کی پریکٹس کے اپنے تجربات ساجھا کئے۔

 مینکا گاندھی نے حاملہ خواتین کے ساتھ ایک یوگا ٹرینر کی رہنمائی میں یوگا کے مختلف آسن کئے۔تاکہ حمل کے دوران زچگی سے قبل یوگا کی ورزش کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔انہوں نے حاملہ خواتین کے لئے یوگا کی اہمیت کو اجا گر کیا۔ تاہم محترمہ مینکا گاندھی نے زور دے کر کہا کہ حمل کے دوران یوگا صرف کوالیفائڈ معلم کی نگرانی میں ہی کرناچاہئے۔

خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر  مینکا گاندھی نے کہا کہ یوگا کو زندگی کا لازمی حصہ بنانے کے بے شمار مجموعی فائدے ہیں۔ اس سے خواتین بالخصوصی حاملہ عورتوں کو پرسکون رہنے کی ترغیب حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح اس سے نو مہینے پر مشتمل حمل کی پوری مدت کے دوران زیادہ تر جسمانی مسائل کم ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پرانیاما کو حمل کے دوران غیرمعمولی فوائد کاحامل پایا گیا ہے۔ اس آسن کو حمل کے دوران تینوں سہ ماہی میں روزانہ کرنا چاہئے کیونکہ اس سے منفی خیالات کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

یوگا کے چوتھے بین الاقوامی دن کے موقع پر منعقدہ ماہ قبل زچگی یوگا سیشن میں شرکت کرنے کے بعد محترمہ مینکا گاندھی نے کہا کہ حمل کے دوران زچگی سے قبل باقاعدگی کے ساتھ یوگا ،خواتین کو فطری زچگی کے لئے تیار کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔

خواتین اور بچوں کی بہبودی کی وزیر مینکا گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں بشمول ، فیس بک (https://www.facebook.com/ministryWCD) اور ٹوئٹر(@MinistryWCD) یوگا کے متعدد آسنوں کی ایک فہرست جاری کی ہے جن کو حمل کے دوران تینوں سہ ماہیوں میں خواتین کے ذریعہ آسان کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت نے اپنے آفیشیل یوٹیوب چینل پر محترمہ مینکا سنجے گاندھی کا ایک ویڈیو بھی شیئر کیا ہے جس میں انہیں یوگا کرتے ہوئے دیکھاجاسکتا ہے۔

 مینکا گاندھی نے روزانہ کے اپنے یوگ معمول کو ساجھا کیا ہے اور لوگوں سے زور دے کر کہا ہے کہ وہ صحت مند اور خوش رہنے کے لئے یوگا کریں۔

خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کے سیکریٹری  راکیش شری واستو کی قیادت میں وزارت کے افسران نے پورے جوش وخروش کے ساتھ آج نئی دہلی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک کو آپریشن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ( این آئی پی سی سی ڈی) کے یوگا سیشن میں شرکت کی۔

MKRdezign

संपर्क फ़ॉर्म

नाम

ईमेल *

संदेश *

Blogger द्वारा संचालित.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget