Halloween Costume ideas 2015

آب و ہوا میں تبدیلی آ رہی ہے، مارکیٹ کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں، عالمی نظام میں تبدیلی ہو رہی ہے اور غذائی عادتوں میں بھی تبدیلی آ رہی ہے

نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ ہمیں زراعت کو نشو نما کے قابل اور مفید بنانے کیلئے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ کسانوں کی آمدنی غیر زراعتی پیشوں اور خوراک کی ڈبہ بندی کےذریعے بڑھ جائے۔ ہمیں ہمہ جہت حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔ وہ حیدر آباد میں سنٹرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ڈرائی لینڈ ایگریکلچر (سی آر آئی ڈی اے) میں سائنس دانوں، زرعی ماہرین اور کسانوں سے خطاب کر رہے تھے۔ تلنگانہ کے نائب وزیراعلیٰ جناب محمد محمود علی اور دیگر معززین بھی ا س موقع پر موجود تھے۔

اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ جب تک اس شعبے کی کارکردگی مستقل طور پر اچھی نہیں ہوگی، ہمارے ملک کی ترقی کی رفتار ہموار نہیں ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زراعت میں تبدیلی کی ضرورت ہے، کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلی آ رہی ہے، منڈی کی حالت میں تبدیلی آ رہی ہے، عالمی نظام میں تبدیلی آ رہی ہے اور یہاں تک کہ کھانے پینے کی ہماری عادتوں میں بھی تبدیلی آر ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کی آمدنی میں بہتری کےلئے متعلقہ شعبوں مثلاً ماہی گیری، مرغی پالن، باغبانی، خوراک کو ڈبہ بند اور پیکیجنگ وغیرہ کو فروغ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ زراعت کو مفید اور دیرپا بنایا جائے، جو اس کی شرح ترقی میں مسلسل اضافے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ زراعت سے وابستہ تمام متعلقہ لوگوں کو اَنّ داتا کے بچاؤ کے لئے آگے آنا چاہئے،ورنہ ہم اپنے فرض سے کوتاہی کے مرتکب ہوں گے۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ موسمی حالات میں تبدیلی یعنی بہت زیادہ بارش سے، سوکھے کے طویل وقفوں تک کے حالات نے زراعت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اولاباری، گرمی کی لہروں اور مسلسل رہنے والی خشک سالی، زراعت میں مشکلات کی کچھ وجوہات ہیں۔ غیر یقینی حالات کی وجہ سے کسان قرض کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں اور یہاں تک کہ وہ مجبور ہو کر خودکشی بھی کر لیتے ہیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے زراعت کے بحران پر ایک باقاعدہ طریقے پر توجہ دینے کی ضرورت کو اجاگر کیا تاکہ کسان خوشحال ہو سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسانوں کو پانی کے تحفظ کے روایتی اور جدید طریقوں سے آگاہ کرنے سے زراعت کی سرگرمیوں میں پانی کے مؤثراستعمال میں مدد ملےگی۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لئے مویشیوں کی صحت بھی ضروری ہے۔ ملک میں اُگی ہوئی غذائی اجناس کی مسلسل فراہمی کی ضرورت کو اُگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک، جو خوراک کے تحفظ کے معاملے میں دوسروں پر انحصار کرتا ہے، وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہمیں وقت کے تقاضے پر چلنا چاہئے اور کسانوں کی روزی روٹی کو برقرار رکھنے کا عہد کرنا چاہئے تاکہ وہ وقار کے صحت زندگی گزار سکیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے تلنگانہ او ر آس پاس کے علاقوں میں مسلسل بنیاد پر کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کئے۔
قدرتی وسائل یعنی موزوں زرعی نظام کا خاکہ تیار کرنے کے لئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہندوستان کے خلائی تحقیق کے انقلاب میں زبردست مواقع فراہم کئے ہیں۔ اس سے زراعت کے سلسلے میں منصوبہ بندی کرنے اور نقصان کو کم سے کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
کئی گاوؤں کو ملا کر زرعی بنیادی ڈھانچے قائم کرنے سے کسان اپنی مصنوعات سے زیادہ آمدنی حاصل کر سکیں گے ۔ ان کی مصنوعات ان زرعی بنیادی ڈھانچوں میں پہنچیں گی اور پھر بازار میں آئیں گے۔
حکومت نے نامیاتی کھیتی باڑی کے طریقوں میں بہتر کے لئے اپنی طرف سے متعدد اسکیمیں شروع کی ہیں۔ مثلاً پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا، پردھان منتری کِرشی سینچائی یوجنا اور پَرمپراگت کِرشی وِکاس یوجنا ۔نامیاتی زرعی مصنوعات کی کاشت کے زبردست امکانات ہیں، کیونکہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی صحت کے بارے میں حساس ہوتے جا رہے ہیں۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ایسے کسانوں کے بارےمیں بہت سی کہانیاں ہیں، جنہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیااور دوسروں کے لئے ایک مثال بن گئے، لیکن یہ کسان دوردراز علیحدہ علیحدہ جگہوں پر ہیں اور اکثر ان کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ اگر کامیابی کی ان کہانیوں میں دوسروں کو شریک کیا جائے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے، تو کسانوں کی روزی روٹی بہتر ہو سکتی ہے ۔
حکومت کسانوں کے مارکیٹ سے متعلق مسائل پر مسلسل توجہ دے رہی ہے اور اس کی اختراعی نوعیت کی اسکیموں میں سے ایک اسکیم‘‘ ای-نیشنل ایگریکلچرل مارکیٹ (ای این اے ایم)’’۔ ای این اے ایم پروجیکٹ کے تحت لین دین 100کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے اور یہ نظام 16 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام 2 علاقوں کی 585 منڈیوں میں کام کر رہا ہے۔ کسانوں کو تجارت کرنے کے لئے 90 اشیاء کی منظوری دی گئی ہے اور ان اشیاء کی قیمتیں آن لائن دستیاب ہیں۔
کسانوں کے منافع کو بڑھانے کے بھی کافی امکان موجو د ہیں۔ سبزیاں ، پھل اور پھول وغیرہ اُگا کر وہ اپنی آمدنی بڑھا سکتے ہیں، لیکن ان چیزوں کے جلد خراب ہو جانے کی وجہ سے ان کے لئے کولڈ اسٹوریج کی تعمیر ضروری ہے۔ شمالی تلنگانہ کے علاقے کے ہلدی اور ادرک اُگانے والے کسان کولڈ اسٹوریج سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ان چیزوں کی جلد بازی میں فروخت کی مشکل پر قابو پا سکتے ہیں۔
ان سب کوششوں کے باوجود اگر زرعی سیکٹر میں مناسب بہتری نہ لائی گئی، تو یہ فائدے دیر پا نہیں ہو سکتے۔ اس لئے ریاستی اور مرکزی دونوں سطحوں پر مددگارصنعتی پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ زراعت اور صنعت دونوں ساتھ ساتھ چل سکیں۔
Labels:

एक टिप्पणी भेजें

MKRdezign

संपर्क फ़ॉर्म

नाम

ईमेल *

संदेश *

Blogger द्वारा संचालित.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget