Halloween Costume ideas 2015

ترقی پذیر ملک کے لئے سستی، آسان، محفوظ اور جدید صحت خدمات فراہم کرناکتنی بڑ ی ذمہ داری ہے

وزیراعظم جناب نریندر مودی، 29 جون  2018 کو، ایمس، نئی دہلی میں،  صحت کی دیکھ بھال سے متعلق مختلف پروجیکٹوں کی شروعات کے بعد وہاں موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے۔ نئی دہلی، 
ایمس اور صفدرجنگ اسپتالوں میں حفظان صحت کے متعدد پروجیکٹوں کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

دہلی کے لوگوں کے لئے علاج کے لئے، دہلی آنے والے لوگوں کے لئے، آپ سبھی کے لئے ایک طر ح سے آج کا دن خصوصی دن ہے اور مجھے خوشی ہے آج غریبوں کو، عام آدمی کو، نچلے متوسط طبقہ، متوسط طبقہ کو اپنی زندگی کی مشکل صورتحال سے پار کرنے کے لئے، اپنی اور رشتے داروں کی بیماری سے لڑنے میں مدد کرنے کے لئے کچھ نئی بنیاد دستیاب ہورہی ہیں۔اب سے تھوڑی دیر پہلے یہاں پر تقریباً 1700 کروڑ کے نئے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ا س سے دہلی میں موجود ملک کے دو بڑے اسپتالوں، ایمس اور صفدرجنگ اسپتال میں تقریباً 1800 سے زیادہ بستروں کی نئی گنجائش کا راستہ کھلا ہے۔

دوستو! ایمس پر بڑھتے دباؤ کے مدنظر دہلی میں اس کے سبھی کیمپسوں کی صلاحیت کو بڑھایا جارہا ہے۔ آج تین سو کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے بننے والے معمر افراد کے لئےنیشنل سینٹر کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔یہ سینٹر دو سو بستروں کا ہوگا۔ آنے والے ڈیڑھ دو سالوں میں اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔یہاں سینئر شہریوں کے لئے تمام سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ اس میں ضعیفی، سائنس کی تحقیق کا مرکز بھی ہوگا۔ جہاں ضعیفی سے جڑے مسائل کو لے کر تحقیق کی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ صفدرجنگ اسپتال میں بھی تیرہ سو کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم خرچ کرکے اسپتال میں سہولتوں کو اور جدید بنانے کا کام ہوا ہے۔اسی کے تحت یہاں ایک ایمرجنسی بلاک پر ایک سپر اسپیشلٹی بلاک کی خدمات کو ملک کے نام وقف کیا گیا ہے۔صرف میڈیکل ایمرجنسی کے لئے پانچ سو بستروں کی نئی گنجائش کے ساتھ صفدرجنگ اسپتال ملک کا سب سے بڑا ایمرجنسی کیئر اسپتال بن جائے گا۔

آج جن پانچ پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اس میں سے ایک پاور گرڈ وشرام سدن بھی ہے۔ سرکاری دائرہ کار کی صنعتوں اور سماج کے تئیں ان کی ذمہ داری کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔اس سے نہ صرف مریضوں کو بلکہ ان کی دیکھ ریکھ کرنے والوں کو بھی بڑی راحت مل رہی ہے۔

وقت پر صحیح علاج زندگی بچانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ لیکن دہلی کا ٹریفک کئی بار اس میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ خصوصی طور پر ایمس کے الگ الگ سینٹر اور کیمپس کے بیچ مریضوں اور ڈاکٹروں کی آمدورفت کو لے کر پہلے بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ایمس کی اصل عمارت اور جے پرکاش نارائن ٹراما سینٹر کے بیچ یہ مسائل بھی اب حل ہوگئے ہے۔ تقریباً ایک کلو میٹرطویل زیر زمین سرنگ کا بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ا س سرنگ سے مر یضوں، ان کے رشتے داروں، ڈاکٹروں اور ضروری دواؤں کی بغیر رکاوٹ آمدورفت یقینی ہوئی ہے۔

بھارت جیسے ہمارے عظیم، ترقی پذیر ملک کے لئے سستی، آسان، محفوظ اور جدید صحت خدمات فراہم کرناکتنی بڑ ی ذمہ داری ہے اس سے آپ اچھی طرح سے واقف ہیں۔گزشتہ چار سالوں میں عوامی حفظان صحت کو لے کر ملک کو ایک نئی سمت دی گئی ہے۔ مرکزی حکومت کے یکے بعد دیگرے پالیسی انٹروینشن سے ہم اس صورت حال کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو بہتر صحت خدمات کے لئےبھٹکنا نہ پڑے، غیر ضروری خرچ نہ کرنا پڑے۔ ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت ملک بھر میں صحت خدمات سے منسلک جدید بنیادی ڈھانچہ کھڑا کررہی ہے۔ یہ سرکار کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں اسپتالوں میں بچوں کو جنم دینے کا رواج بڑھا ہے۔حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کی مسلسل جانچ، ٹیکہ کاری میں پانچ نئی ویکسین جڑنے سے ماں اور بچے کی شرح اموات میں بے مثال کمی آئی ہے۔ ان کوششوں کی عالمی ایجنسیوں نے بھی ستائش کی ہے۔

حکومت کی کوشش ہے کہ بڑے شہروں کے آس پاس صحت کا جو بنیادی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے اس کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ہی سہولتیں ٹیئر۔ 2 اور ٹیئر۔3 شہروں تک پہنچائی جائیں۔اس کے لئے حکومت دو سطح پر کام کررہی ہیں۔ ایک تو جو ہمارے موجودہ اسپتال ہیں ان کو اور جدید سہولتوں سے لیس کیا جارہا ہے اور دوسرا، ملک کے دور دراز والے علاقوں میں صحت سہولتوں کو پہنچایا جارہا ہے۔

آزادی کے 70 برسوں میں جتنے ایمس منظور کئے گئے یا بنائے گئے ہیں اس سے زیادہ گزشتہ چار برسوں میں منظور کئے گئے ہیں۔ ملک میں 13 نئے ایمس کا اعلان کیا گیا ہے جس میں سے آٹھ پر کام شروع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں 15میڈیکل کالج میں سپر اسپیشلٹی اسپتالوں کا تعمیراتی کام رفتار پر ہے۔

نیو انڈیا کے لئے ایک ایسے صحت نظام کی تشکیل کی جارہی ہے جہاں عمدہ اور کافی اسپتال ہوں، زیادہ بستر ہوں، بہتر سہولت ہوں اور جہاں سینئر ڈاکٹر اور ان کی ٹیم ہو۔ اسی ہدف کو دھیان میں رکھتے ہوئے میڈیکل ایجوکیشن میں بھی نئے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں۔ ہماری حکومت 58 اضلاع میں اسپتالوں کو میڈیکل کالج کے طور پر اپ گریڈ کرنے کا کام کررہی ہے۔ اس بجٹ میں ہی حکومت نے 24 نئے میڈیکل کالج بنانے کاا علان کیا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ تین لوک سبھا سیٹوں پر کم از کم ایک میڈیکل کالج ضرور ہو۔ان چار سالوں میں ملک بھر میں میڈیکل کی تقریباً 25 ہزار انڈر گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ کی نئی سیٹیں جوڑی گئی ہیں۔ حکومت نے داخلہ پروسیس کو بھی مزید شفاف بنانے کا کام کیا ہے۔

اس حکومت کا ویژن صرف ا سپتال، بیماری اور دوا اور جدید سہولتوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ کم خرچ پر ملک کے ہر شخص کے لئے علاج یقینی ہو، لوگوں کو بیمار بنانے والے اسباب کو ختم کرنے کی کوشش ہو، اسی سوچ کے ساتھ قومی صحت پالیسی کی تشکیل کی گئی ہے۔ ہماری حکومت نے صحت خدمات کو صحت وزارت کے دائرے سے باہر نکالنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ہمارے صحت کے ویژن کے ساتھ آج دیہی ترقی کی وزارت بھی جڑی ہے۔ صفائی ستھرائی اور پینے کے پانی کی وزارت بھی جڑی ہے۔ خواتین اور بہبود اطفال کی وزارت کو بھی اس کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔حکومت کے ویژن میں بیماری اور غریبی کے درمیان جو تعلق ہے اسے دیکھتے ہوئے منصوبے بنائے گئے ہیں۔انہیں لاگو کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ غریبی کی بڑی وجہ بیماری بھی ہے اور اسی لئے بیماری کو روکنے کا مطلب غریبی کو بھی روکناہوتا ہے۔اسی سمت میں مسلسل کوششیں کی جارہی ہے۔ سووچھ بھارت ابھیان کے تحت بیت الخلاء کی تعمیر، مشن اندر دھنش کے تحت دور دراز والے علاقوں میں ٹیکہ کاری، راشٹریہ پوشن ابھیان اور آیوشمان بھارت جیسے متعدد اولوالعزم منصوبے غریب کی بیماری پر ہونے والے اخراجات کو کم کررہے ہیں۔کم خرچ پر حفظان صحت کو لے کر جتنی سنجیدگی سے ملک میں ابھی کام ہورہا ہے اتنا شاید پہلے کبھی نہیں ہوا۔

قومی صحت تحفظ اسکیم یا آیوشمان بھارت بھی اسی سمت میں ایک اہم ترین کڑی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ یعنی ملک کی ہر بڑی پنچایت کے بیچ ا یک ہیلتھ اور ویلنس سینٹر قائم کرنے پر کام چل رہا ہے۔مستقبل میں ان سینٹروں میں ہی بیماری کی شناخت کے لئے ٹیسٹ اور علاج کی جدید سہولتیں مہیا کرائی جائیں گی۔اس کا بہت بڑا فائدہ گاؤں اور قصبوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی ملنے جارہا ہے۔ وہیں سنگین بیماری کی صورت میں ملک کے غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کو عمدہ اور پانچ لاکھ تک کا مفت علاج یقینی بنانے پر کام چل رہا ہے۔ اس منصوبے سے زیادہ سے زیادہ ریاستوں کو جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نجی اسپتال سے منسلک لوگوں سے بھی بات چیت جاری ہے۔ متعدد موضوعات میں سبھی حصے داروں کے ساتھ اتفاق رائے ہوچکا ہے اور بہت جلد ہی یہ دنیا کی سب سے بڑی، دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم زمین پر اترنے والی ہے۔

اس منصوبے کی وجہ سے آنے والے وقت میں ملک کے گاؤں اور چھوٹے قصبوں کے آس پاس اسپتالوں کا بڑا نیٹ ورک بننا یقینی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں نئے اسپتال بننا ہے۔ کیونکہ جب بیماری کاخرچ کوئی اور اٹھانے والا ہو تو بیمار اسپتال جانا پسند کرے گا اور بیمار اسپتال آنے کے بعد پیسہ کہیں سے ملنا یقینی ہے تو ا سپتال اور ڈاکٹر بھی سامنے سے کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ وہیں ،ایک اور طرح سے ایک ایسے نظام کو فروع دیا جارہا ہے جو ملک میں ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ، میڈیکل سیکٹر میں، ملک کے اندر بنیادی ڈھانچے کی ترقی یا صحت کے تئیں بیدار سماج کی شکل میں ہم ایک نئے دور میں داخل ہونے والے ہیں اور اس سیکٹر میں روزگار کے مواقع تو بڑھنے ہی والے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر کے ساتھ کتنے لوگوں کو کام کرناپڑتا ہے تب ایک ڈاکٹر کچھ کام کرپاتا ہے۔کتنے لوگوں کے لئے روزگار کا امکان ہے۔ہاں،جدید طبی خدمات کے لئے بڑے شہروں کی طرف آنے کی مجبوری بھی میں سمجھتا ہوں بہت حد تک کم ہوجائے گی۔ لوگوں کو اپنے گھر کے پاس ہی ساری سہولتیں ملیں گی۔

ساتھیوں، پچھلے چار برسوں میں قابل برداشت حفظان صحت کو لے کر جو بھی اسکیم سرکار نے چلائی، ان کا کتنا فائدہ عام آدمی کو ہورہا ہے، یہ جاننے کے لئے اس مہینے کی شروعات میں میں نے خود ملک بھر کے فیض حاصل کرنے والوں سے گفتگو کی۔ قریب تین لاکھ سینٹر ، اور میرا انداز ہے کہ 30-40 لاکھ لوگ میرے سامنے تھے، اس پر اور اس پوری بات چیت سے ایک بات جو نکل کر کے آئی، وہ یہ کہ نچلے اوسط درجے کے طبقے سے لے کر غریب افراد کے صحت کے خرچ میں آج بہت کمی آئی ہے۔ ساتھیوں اس کی وجہ آپ سبھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ 

سرکار کے ذریعے قریب قریب 1100 ضروری دوائیوں کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے نظام کے دائرے میں لایا گیا ہےجس سے لوگوں کو لگ بھگ دوائی کے پیچھے جو خرچ ہوتا تھا ان خاندانوں کے لگ بھگ 10 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ بچت ہوئی ہے۔ ایک سال میں 10 ہزار کروڑ روپے کی سیونگ- اور وہ بھی ایک اسکیم کا نتیجہ۔ ملک بھر میں 3600 سے زیادہ جن اوشدی کیندر کھولے جاچکے ہیں۔ ان کیندروں میں 700 سے زیادہ دوائیاں اور ڈیڑھ سو سے زیادہ سرجری کا سامان سستی قیمت پر دستیاب ہے۔ امرت اسٹور س میں بھی مل رہی 50 فیصد کم قیمت کی دواؤوں کا لگ بھگ 75-80 لاکھ مریض فائدہ اٹھاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ آج اسٹینٹس اور نی پلانٹ کی قیمت میں کمی سے دیش کے غریب اور اوسط طبقے کے لگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔ ان کی قیمت پہلے کے مقابلے لگ بھگ ایک تہائی ہوگئی ہے، تین گنا کم ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی جی ایس ٹی کے بعد بھی کئی دواؤں کی قیمت کم ہونے سے لوگوں کو بھی فائدہ ملا ہے۔ ملک کے لگ بھگ ہر ضلع میں ڈائلیسس سینٹر بنائے گئے ہیں۔ یہاں غریبوں کا مفت ڈائلیسس کیا جارہا ہے۔ اب تک تقریبا ڈھائی لاکھ مریض اس کا فائدہ اٹھاچکے ہیں۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پہلے جہاں غریب کو مفت ڈائلیسس کے لئے سو سو، دو سو کلو میٹر جانا پڑتا تھا اب اسے اپنے ہی ضلع میں یہ سہولت مل رہی ہے۔ 

جب تو وہ اتنا دور نہیں جاپاتا تھا تو دوسرے اسپتالوں میں پیسے خرچ کرکے ڈائلیسس کرواتا تھا۔ اب غریب کو مل رہی مفت ڈائلیسس سہولت سے ڈائلیسس کے ہر سیشن میں اسے تقریبا پندرہ سو سے 2000 روپے کی بچت ہورہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت تقریبا 25 لاکھ ڈائلیسس سیشن مفت کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ احتیاطی حٖفظان صحت کی صورت میں یوگ نے بھی نئے سرے سے اپنی پہچان قائم کی ہے۔ یوگیوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں لیکن آج پوری دنیا میں یوگ نے اپنے لئے جگہ بنالی ہے۔ اس کا ڈنکا بج گیا ہے۔ میں یہ تو کبھی نہیں کہہ سکتا کہ کسی بھوگی کو یوگ، یوگی بنادے گا لیکن میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ یوگ یوگی کو روگی ہونے سے بچاسکتا ہے۔ آج یوگ دنیا بھر میں عوامی تحریک بن رہا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے پوری دنیا میں 21 جون کو بین الاقوامی یوگ دیوس منایا گیا اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ، مجھے ایمس میں بھی ان دنوں یوگ کی کافی بیداری آئی ہے۔ سارے ڈاکٹر، دوست بھی یوگ کررہے تھے۔ مجھے اچھا لگا۔

ملک کے ہر شہری تک صحت خدمات پہنچانا اس حکومت کا مقصد ہے لیکن آپ بھی سرگرم تعاو کے بغیر، آپ کے ساتھ کے بغیر ، یعنی پوری اس میڈیکل دنیا کے ساتھ کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ آج جب ملک نیو انڈیا کے عہد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو صحت کے سیکٹر سے جڑے لوگوں کو بھی اپنے لئے نئے عہد طے کرنا چاہئے۔ 2022 میں جب آزادی کے 75 سال ہوں گے، میں اگر میڈیکل پروفیشن میں ہوں، میں ڈاکٹر ہوں ، میں اور معاون ہوں ،2022 تک حفظان صحت سیکٹر میں میرا یہ عہد رہے گا ، جب آزادی کے 75 سال ہوں گے میں بھی اتنا کروں گا، یہ اس ملک میں ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ سرکار سال 2025 تک ملک کو ٹی بی سے پاک کرنے کے لئے کام کررہی ہے۔ ٹی بی مریضو ں کے تغذیہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہر مہینے انہیں 500 روپے کی مالی مدد بھی دی جارہی ہے۔

دنیا کے دوسرے ملکوں نے خود کو ٹی بی سے پاک کرنے کے لئے 2030 کا وقت طے کیا ہے۔ ہم ملک کو جلد سے جلد ٹی بی سے پا کرانے کے لئے ایک عہد کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ دنیا 2030 میں پورا کرنا چاہتی ہے، ہم 2025 میں پورا کرنا چاہتے ہیں۔ پوری دنیا کی نظر بھارت پر ہے کہ کیا وہ ایسا کرسکے گا؟ مجھے ملک کے میڈیکل سیکٹر پر بھروسہ ہے، اس کی صلاحیت پر بھروسہ ہے کہ وہ اس چیلنج پر پورے عہد کے ساتھ کام کرے گا اور ملک کو کامیاب کرکے رہیں گے، یہ میرا یقین ہے۔ ایسا ہی ایک اہم موضوع ہے ماں اور بچے کی موت کی شرح۔ جیسا میں نے پہلے کہا تھا کہ بھارت نےپچھلے چار برسوں میں اس معاملے پر کوئی اہم فروغ حاصل نہیں کیا ہے لیکن والدہ اور بچے کی شرح اموات کو کم سے کم کئے جانے کے لئے ہم سبھی کو مل کر اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے لئے وزیراعظم محفوظ زچگی ابھیان اور وزیراعظم ماتتر وندنا یوجنا اور راشٹریہ پوشن ابھیان کے تحت مشن موڈ میں کام چل رہا ہے۔ اس مشن کو اپنی زندگی کا مشن بناکر کام کیا جائے۔ عوامی تحری کی طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں جوڑا جائے تو یقینی طور پر جلد ہی اور بہتر نتائج ہم حاصل کرکے رہیں گے، اس یقین کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔

آج ملک میں ایمانداری کا ایک ایسا ماحول بنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ قوم کی تعمیر کی اپنی ذمہ داری بڑھ چڑھ کر کے آگے بڑھ کر اٹھارہے ہیں، لوگوں میں یہ اعتماد بڑھا ہے کہ ہم جو ٹیکس دیتے ہیں اس کا ایک ایک پیسہ ملک کی بھلائی کے لئے خرچ ہورہا ہے اور اس اعتماد کا نتیجہ سماج کی ہر سطح پر ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آپ کو دھیان ہوگا میں نے جب لال قلعہ سے ملک کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ جو اہل ہیں، جو خرچ کرسکتے ہیں،

ایسے لوگ گیس سبسڈی کیوں لیتے ہیں، چھوڑ دیجئے نا۔ اتنی سی بات میں نے کہی تھی اور میری اتنی سی بات کو اس دیش کے سوا سو کروڑ خاندانوں نے گیس سبسڈی چھوڑ دی۔ ورنہ ہمارے دیش میں ایسا ہی ماننے کو مان لیا جاتا ہے کہ بھئی کوئی چھوڑتا نہیں ایک بار ملا تو ملا اور سوبھاؤ ہے آپ جہاز میں جاتے ہوں گے بغل میں سیٹ خالی ہو، آپ کی سیٹ نہیں ہے، جہاز چلنے کو تیار ہے تو آپ نے موبائل فون رکھا، کتاب رکھی اور اتنے میں آخر میں کوئی آگیا اس سیٹ پر بیٹھنے والا، تو کیا ہوتا ہے؟ سیٹ آپ کی نہیں ہے، آپ تو اپنی سیٹ پر بیٹھے ہیں چھوڑنے کا دل نہیں کرتا، یہ کہاں سے آگیا، اس ذہنیت کے بیچ اس دیش کے 25 کروڑ خاندان ہیں ،25 کروڑ خاندانوں میں سے سوا سو کروڑ خاندان گیس سبسڈی صرف کہنے پر چھوڑ دے، مطلب ملک کی طاقت، دیش کا مزاج کیسا ہے، ہم اس کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ ایک اور بات میں بتانا چاہتا ہوں، 

اسی طرح پچھلے دنوں ریلوے کے ذریعے، آپ کو معلوم ہے جو سینئر سیٹیزن، جو ریلوے میں سفر کرتے ہیں، ان کو سبسڈی ملتی ہے، کنشیشن ملتا ہے اور میں نے بھی کبھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا کہ میں سوچ رہا تھا کروں نہ کروں، لیکن ریلوے نے اپنے فارم میں لکھ دیا کہ کیا آپ اپنی سبسڈی چھوڑنے کے لئے راضی ہیں، آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا اور ہمارے اس ملک کی طاقت پہچاننا ہوگا ، صرف ریلوے کے ریزرویشن کے درخواست فارم میں اتنا لکھا گیا کہ کیا آپ اپنا سینئر سیٹیز کا فائدہ چھوڑنا چاہتے ہیں اور میں فخر سے کہہ رہا ہوں پچھلے 8-9 مہینے کے دوران 42 لاکھ بزرگ شہری مسافرو نے اپنی سبسڈی کا فائدہ نہیں لیا، چھوڑ دیا۔ یعنی ملک کے اندر کیا ماحول بنا ہے۔ ایسے ہی میں نے ایک بار ملک کے ڈاکٹروں سے اپیل کی تھی ، میں نے کہا تھا کہ مہینے میں ایک بار 9 تاریخ کو کوئی بھی غریب حاملہ خاتون آپ کے دروازے پر آتی ہے ، آپ خدمت کے جذبے سے مہینے میں ایک دن 9 تاریخ کو اس غریب ماں کو سمرپت کردیجئے۔ اس غریب کو چیک کیجئے، اس کی رہنمائی کیجئے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ 

مجھے خوشی ہے کہ ہزاروں ڈاکٹر بہت ہی خدمت کے جذبے سے آگے آئے۔ ان کے اپنے اسپتال کے باہر بورڈ لگادیا ہے اور 9 تاریخ کو وہاں مفت میں خدمت کی جاتی ہے۔ یہ جان کر حاملہ خواتین ان ڈاکٹروں کے پاس پہنچتی ہیں کروڑوں بہنوں کو اس کا فائدہ ملا ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے اور ڈاکٹر دوست آگے آئیں۔ یہ ایک ایسا خدمت کا کام ہے ۔ کیونکہ ہم سب نے مل کر ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ملک میں دو قدم آگے بڑھنا ہے۔ وزیراعظم محفوظ ماترتو ابھیان کے تحت اب تک ملک میں سوا کروڑ حاملہ خواتین کی جانچ ان ڈاکٹروں کے ذریعے ہوئی ہے، سوا کروڑ۔ میں اس مہم میں ان ڈاکٹر دوستوں کے تعاون کے لئے ہر میڈیکل پروفیشن کے لئے کام کرنے والے، ان سب کی ستائش کرتا ہوں اور میں چاہوں کہ اس بات کو آگے بڑھائیں۔ یہی خدمت کا جذبہ اس وقت قومی سوراج ابھیان کے دوران کیا جارہا ہے۔ ہم نے بھی ایک پروگرام کیا، آپ کو ذراکچھ چیزیں 24 گھنٹے چینل میں نہیں دکھائی دیتی ہیں نہ اخبار کی سرخیوں میں ہوتی ہیں۔ ہم نے ایک گرام سوراج ابھیان کیا، ایک 17 ہزار سلیکٹ کئے، اس کے کچھ پیمانے تھے اور سات کام طے کئے ان سات کام کو وہاں 100 فیصد پورا کرنا ہے۔

اس میں ایک ٹیکہ کاری ہے ۔ اس ٹیکہ کاری کام کو ہم نے کامیابی کے ساتھ 17 ہزار گاؤوں میں پورا کیا۔ ابھی ہم نے طے کیا ہے کہ 15 اگست تک 115 جو ایسپیریشنل اضلاع ہم نے بنائیں ہیں، جو آج ریاست کی ایورج سے ہیں، اس کے بھی پیچھے ہے لیکن طاقتور ہیں۔ ان 115 ضلع کے اندر قریب 50 ہزار گاؤوں ہیں جہاں ملک کے قریب دیہی زندگی کی 40 فیصد آبادی اس جگہ پر رہتی ہے ان کے لئے بھی سات ایسے کام بتائے جو ہم نے سو فیصد پورے کرنے ہیں۔ اس میں بھی ایک ٹیکہ کاری ہے، یعنی ایک طرح سے صحت کے سیکٹر میں اور ملک میں ٹیکہ کے دائرے کو بڑھانے میں الگ الگ سیکٹروں سے جڑے ہوئے افراد نے جس طرح کا کام کیا ہے ، میں سمجھتاہوں وہ بھی قابل تعریف ہے۔ یہ آپ سبھی کی کوششوں سے ہی ممکن ہوا ہے کہ آج ملک کے ٹیکہ کارے کے بڑھنے کی رفتار 6 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ 6 فیصد سننے کے بعد آپ کو زیادہ لگتا نہیں ہے6 فیصد لیکن پہلے ایک فیصد بھی نہیں ہوتا تھا۔ آپ کے اس عہد کی وجہ سے ملک مکمل ٹیکہ کاری کے ہدف کو حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ملک میں ہر حاملہ خاتون اور بچے کو ٹیکہ لگانے کا عہد نئے بھارت کی تعمیر میں، صحت مند خاندان کی تشکیل میں بڑا رول ادا کرے گا۔

ساتھیوں صحت مند خاندان سے ہی صحت مند سماج اور صحت مند سماج سے ہی صحت مند قوم کی تعمیر ہوتی ہے۔ ہم سب پر اور خاص طور پر آپ پر ملک کو صحت مند رکھنے کی ذمہ داری ہے اور اس لئے صدر جمہوریہ بھی آپ کو قومی کی تعمیر کا ایک اہم ستون کہتے تھے۔آئیے سرکار کے ساتھ مل کر ’’سروے بھونتو سکھن: سروے سنتو نرامیا: ‘‘۔

آ ج یہاں اس تقریب میں جو سہولیات دہلی اور ملک کو ملی ہیں ان کے لئے ایک بار پھرمیں بہت بہت مبارک باد کے ساتھ شعبے کو بھی مبارک باد دیتا ہوں۔ انہوں نے مقررہ وقت کے اندر ان سارے کاموں کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کیونکہ میرا کہنا ہے کہ ہم انہیں کاموں کو ہاتھ لگائییں گے جس کو ہم پورا کرپائیں، ورنہ ہمارے دیش میں حال ایسا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر ریلوے بجٹ میں ایوان کا تقدس، ایوان میں کمٹمنٹ ہوتا، میں نے مارک کیا، بڑی بڑی دھیان میں میرے آیا ، قریب قریب 15سو چیزوں کا اعلان کیا گیا تھا، اکیلے ریلوے نے پچھلے 30 ،40 ،50 سال میں اور میں نے جب پوچھا کہاں ہے تو کاغذ پر بھی نہیں تھیں۔ زمین پر تو نہیں آئی، ہم اس راستے پر جانا نہیں چاہتے، ہم پتھر جڑنے کے لئے نہیں آئے جی، ہم ایک بدلاؤ کا عہد لے کر آئے ہیں اور آپ سب کا ساتھ مانگنے کے لئے آیئے ہیں، آپ کا ساتھ اور تعاون لے کر کے ملک کی امیدوں کو پورا کرنے کا ایک عہد لے کر چل پڑے ہیں۔ مجھے یقین ہے میرے ساتھیوں آپ بھی ہمیں تعاون دیں گے۔
Labels:

एक टिप्पणी भेजें

MKRdezign

संपर्क फ़ॉर्म

नाम

ईमेल *

संदेश *

Blogger द्वारा संचालित.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget