Halloween Costume ideas 2015
Articles by "Headline"

آس محمد کیف

Image result for images - tabassum haseena kairana upکیرانہ میں ضمنی انتخابات کی انتخابی تشہیر کے دوران جب تبسم حسن جھنجھانا کے ایک گاؤں پہنچی تو جاٹ اکثریتی اس گاؤں کے لوگ خود بہ خود جمع ہونے لگے۔ خواتین ان کے ارد گرد اکٹھا ہو گئیں حالانکہ وہاں کوئی انتخابی جلسہ نہیں ہو رہا تھا۔ حسن فیملی کے قریبی رہے سریندر ملک کے گھر پر تبسم حسن پہنچی تھیں تو ان کا چہرہ تھکا ہوا تھا۔ ہمیشہ چادر کو قرینے سے لپیٹ کر رکھنے والی تبسم حسن کے لیے پانی لایا گیا جسے انتہائی نرم روی سے انھوں نے منع کر دیا۔ ہندو مسلم اتحاد کا وجود بچانے کے لیے 50 سال کی عمر طے کر چکی ایک بیوہ عورت گرمی کی شدت میں روزہ کی حالت میں جدوجہد کر رہی تھیں۔

یہاں موجود ایک شخص نے تبسم حسن سے اس وقت واضح لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ ’’بہن جی! آپ کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بے فکر رہیں۔ ہم سب سمجھتے ہیں۔‘‘ تبسم حسن نے یہ سن کر کہا تھا کہ ’’میں تو بس یہ بتانے آئی ہوں کہ ایکسیڈنٹ میں جب میرے شوہر کی موت ہوئی تو میرے شوہر کا سر ایک جاٹ کے گھنٹوں پر تھا جو دہاڑیں مار کر رو رہا تھا اور دوسرا ساتھی ستیش کے ہاتھ پیر ٹوٹ چکے تھے۔ مرحوم منور حسن کا ساتھ ان کے دونوں جاٹ دوستوں نے آخر وقت تک دیا، تم بھی میرا ساتھ مت چھوڑنا۔‘‘

تبسم حسن نے مزید کہا کہ ’’ممکن ہے انتخاب میں فتح و شکست سے حکومت کا کوئی نفع و نقصان نہ ہو لیکن اس فتح کی گونج دور تک جائے گی اور دنیا دیکھے گی کہ ہندوستان میں حکومت کرنے والی ایک پارٹی کی سازش اب ناکامیاب ہو چکی ہے۔ اب تقسیم کی سیاست کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘

آر ایل ڈی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہی تبسم حسن اب کیرانہ سے انتخاب جیت گئی ہیں۔ انھوں نے بی جے پی کی مرگانکا سنگھ کو 45 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا ہے۔ تبسم کے شوہر منور حسن کا رشتہ ہندوستان کی چاروں ایوانوں سے رہا ہے اور وہ واحد ایسے لیڈر رہے۔ ان کے بیٹے ناہد حسن کیرانہ سے ممبر اسمبلی ہیں۔

تبسم حسن اب خوش ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’وہ سب یاد کر کے میرا دل روتا ہے۔ میں نے بہت محنت کی ہے۔ 2009 میں جب ایم پی صاحب (منور حسن) نہیں رہے تو سب کچھ اچانک سے ختم ہو گیا۔ میرا بیٹا ناہد بیرون ملک میں پڑھ رہا تھا۔ میں عدت میں تھی اور انتخابی نامزدگی کا وقت آ گیا۔ سب چاہتے تھے کہ میں انتخاب لڑوں۔ ناہد اس وقت چھوٹے تھے، تب بھی بہت سی سیاسی رخنات پیدا کیے گئے۔ اس وقت نامزدگی کے لیے خاتون افسر خود گھر آئی۔ 2009 میں کیرانہ نے ممبر پارلیمنٹ بنا دیا۔‘‘

مشترکہ اپوزیشن کی امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے والی تبسم حسن کی جیت کی وجہ نئی حد بندی میں شامل ہوئی نکوڑ اور گنگوہ بنی ہے۔ یہاں سے انھیں زبردست ووٹ ملے ہیں۔ دونوں اسمبلی سے ان کا ایک لاکھ ووٹ کا عدد پار ہوا۔ تبسم حسن بتاتی ہیں کہ ’’دراصل میں وہاں کی بیٹی ہوں اور کیرانہ کی بہو۔ مائیکہ والوں نے عیدی دی ہے اور یہ ان کی محبت کا معاملہ ہے۔‘‘

تبسم حسن نکوڑ کے دُم چھیڑا گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ وہ انٹرمیڈیٹ تک پڑھی ہوئی ہیں اور سات بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان کے والد اختر حسن سرساوا بلاک کے مکھیا رہے ہیں۔ ان کا گھرانہ اس تحصیل میں سب سے بڑا زمیندار گھرانہ ہے۔ تبسم حسن کے قریبی ان کے بھائی وسیم چودھری بتاتے ہیں کہ جب ’بی بی جی‘ کی شادی ہوئی تو میں 12 سال کا تھا۔ میری زندگی میں ان کا بہت اثر ہے۔ وہ شروعات سے ہی کافی سنجیدہ ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ ان کے سسر کا نام بھی اختر حسن تھا۔ کیرانہ سے کانگریس ممبر پارلیمنٹ رہے اختر حسن کی حال ہی میں موت ہو گئی۔

خاص بات یہ ہے کہ تبسم حسن کی ماں کا نام بھی اختری بیگم ہے۔ وسیم کہتے ہیں، اب یہ تو اللہ کی مرضی ہے صاحب۔ وسیم ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کی بہن نے بہت جدوجہد کیا ہے۔ کل سے ٹی وی پر انھیں بولتے دیکھ رہا ہوں تو خوشی ہو رہی ہے۔ اب وہ بہت زیادہ پختہ ہو گئی ہیں۔ میری بہن کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتی۔ اس میں لیڈروں جیسی عیاری نہیں ہے بلکہ وہ صاف گو ہے۔

2009 میں تبسم حسن پہلی بار ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئی تھیں۔ اس وقت انھوں نے پورے انتخاب میں گھر سے باہر قدم نہیں رکھا، وہ اس وقت عدت (شوہر کی موت کے بعد مسلم خواتین تقریباً چار مہینے تک خون سے جڑے رشتوں کے علاوہ کسی سے نہیں ملتی) پر تھیں۔ اسی حالت میں وہ جیت گئیں۔ وسیم کہتے ہیں ’’میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ ناہد نے اس وقت کتنی محنت کی۔ وہ 48 گھنٹے تک سویا نہیں تھا۔ اس کی پڑھائی درمیان میں چھوٹ گئی تھی۔ تبسم حسن کو ناہد کے علاوہ ایک بیٹی ہے جو وکالت کی پڑھائی کر رہی ہے۔ اس کا نام اقرا حسن ہے۔ تبسم اس وقت ضلع پنچایت رکن بھی ہے جس سے وہ استعفیٰ دے دیں گی۔ وسیم بھی لگاتار چار بار سے ضلع پنچایت رکن ہے۔ وہ تبسم کا سب سے چھوٹا بھائی ہے اور فیملی میں سب سے چھوٹا ہے۔ اس انتخاب میں وہی تبسم کے چیف الیکشن ایجنٹ تھے۔

تبسم حسن کی اس فتح کی خبر دور تک پہنچی ہے۔ بیرون ملکی میڈیا بھی یہ خبریں شائع کر رہی ہے۔ تبسم حسن بتاتی ہیں کہ جب مرحوم منور حسن صاحب کو چاروں ایوانوں کی رکنیت ملی تھی تب بھی بیرونی میڈیا ان پر اسی طرح خبریں چلایا کرتی تھی اور اب وہ سب کچھ یاد آ رہا ہے۔

تبسم کی ہر بات چیت میں ان کے بیٹے ناہد حسن کا ذکر ہوتا ہے۔ اب دونوں ماں بیٹے نے مل کر ایک اور ریکارڈ بنا دیا ہے اور یہ دونوں اتر پردیش کے واحد ممبر پارلیمنٹ-ممبر اسمبلی ماں-بیٹے ہیں۔ تبسم کہتی ہیں کہ یہ برائی پر اچھائی کی فتح 
ہے۔ یہ نفرت پر محبت کی فتح ہے۔ یہ بھائی چارہ کی مثال ہے۔
[ قومی آواز سے ]

Image result for images - foodsنئی دہلی، صارفین کے امور خوراک اور سرکاری نظام تقسیم کے مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے زور دے کر کہا ہے کہ فلاحی اداروں اور ایس سی ؍ ایس ٹی ؍ اوبی سی ہوسٹلوں میں تغذیہ کی معقول معیارات کو یقینی بنانے کی غرض سے سماج کے کمزور طبقات کی فلاح و بہبود و ترقی کے لئے رعایتی قیمتوں پر اناج مختص کئے گئے ہیں۔ جناب پاسوان نے آج نئی دہلی میں فلاحی اداروں اور ہوسٹلوں کی اسکیم کے نفاذ پر تبادلہ خیال کے لئے ریاستوں ؍ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے فوڈ سکریٹریوں کی میٹنگ کی صدارت کی۔

پاسوان نے کہا کہ حکومت ہند نے فلاحی اداروں جیسے گداگروں کے گھر ، ناری نکیتنوں اور ریاستی حکومتوں ؍ یو ٹی انتظامیہ کے ذریعہ اسپانسرڈ اسی طرح کے دوسرے فلاحی اداروں ،جو نشان زدسرکاری نظام تقسیم یا کسی دوسری فلاحی اسکیموں کو بھی ایس سی ؍ ایس ٹی ؍ او بی سی ہوسٹلوں کی اسکیم کے تحت نہیں آتے ہیں ان کی ضرورتوں کی تکمیل کے پیش نظر ایسے اداروں میں تغذیہ کے معقول معیارات کو یقینی بنانے کے لئے اضافی اناج کے مختص سے متعلق اپنے اسکیموں کو از سر نو تازہ دم کیا ہے۔

پاسوان نے بتایا کہ اسکیموں کے رہنما خطوط کے مطابق ایس سی ؍ ایس ٹی ؍ او بی سی برادریوں سے تعلق رکھنے والے رہائشی طلبہ سے متعلق ہوسٹل اور جو دوسرے زمروں سے تعلق رکھنے والے رہائشی طلبا ہیں ، وہ سبھی رعایتی اناج حاصل کرنے کے مستحق ہوتے ہیں ۔ اسکیم کے تحت اناج کی مرکزی اجرا کی قیمت کا تعین بی پی ایل شرحوں پر ہوتا ہے۔

وزیر خوراک نے مزید بتایا کہ گندم اور چاول کے اجرے کے پیمانے کا فیصلہ (مختلف علاقوں میں رہنے والوں کے خوردنی کی عادت و اطوار کی بنیاد پر) ماہانہ فی رہائشی زائد از زائد 15 کلو گرام کے مطابق ہوتا ہے۔

اسکیم کی تفصیلات محکمہ کی ویب سائٹ (http://dfpd.nic.in/1sGbO2W68mUlunCgKmpnLF5WHm/newpolicy-070917.pdf) پر دستیاب ہیں۔

Image result for images - b r ambedkarنئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ہند ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر کے افکارو خیالات اور تعلیمات ابدی اور لافانی ہیں۔ نائیڈو یہاں ڈاکٹر امبیڈکر میموریل اور ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سنٹر کا دورہ کر رہے تھے۔ اس کی تعمیرعظیم سماجی مصلح اور آئین ہند کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پنچ تیرتھ میموریل کے ایک حصے کے طور پر کی گئی ہے۔ اس موقع پر سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کے مرکزی تھاورچند گہلوت کے علاوہ سماجی انصاف اورتفویض اختیارات کےوزیر مملکت وجے سانپلااور دیگر معززین موجود تھے۔

نائب صدر جمہوریہ نے ڈاکٹر امبیڈکر نیشنل میموریل میں کافی وقت گزارا۔اس میموریل میں ایک میوزیم بھی موجود ہے، جس میں ڈاکٹر امبیڈکر کی زندگی اور کارناموں سے متعلق 27نمائش ہیں۔ میوزیم میں ڈاکٹر امبیڈکر سے متعلق مختصر فلموں کو دکھانے کیلئے ایل ای ڈی والزبھی بنائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں میوزیم میں ایک روبوٹ بھی ہے، جو کہ ڈاکٹر امبیڈکر کی زندگی کےکارناموں اور خصوصیات کو سراہتا ہے اور 25جولائی 1949 کو قانون ساز اسمبلی میں کی گئی ان کی تقریر کو دوہراتا ہے۔

بعدازاں نائب صدرجمہوریہ ڈاکٹر امبیڈکر نے انٹرنیشنل سنٹر کا دورہ کیا اور آڈیٹوریم کے علاوہ بڑی لائبریری میں گئے۔

دونوں مقامات پر موجود عملے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کو پرجوش خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے مدھیہ پردیش میں واقع ان کی جائے پیدائش مہو میں پنچ تیرتھ کی شکل میں میموریل کی تعمیر کے علاوہ برطانیہ کے لندن میں، جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے دوران قیام کیاتھا، وہاں ایک پیلیس تعمیر کرنےکیلئے حکومت کی تعریف کی۔ اسی طرح انہوں نے ناگپور میں دیکشا بھومی، دہلی میں مہا پریورتن استھل اور ممبئی میں چیتیا بھومی کیلئے بھی حکومت کی تعریف کی ہے۔

اس بات کا مشاہدہ کرتے ہوئے کہ میوزیم میں ڈاکٹر امبیڈکر کی زندگی کی نہایت خوبصورت عکاسی کی گئی ہے، نائیڈو نے کہا کہ ‘‘ یہ بے حد خوبصورت میوزیم ہے، جو کہ اس عظیم ملک کے عظیم سپوت کی یادگار کو باقی رکھنے کیلئے نہایت ذمہ داری کے ساتھ بنایا گیا ہے’’ ۔ انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ کی شروعات اس وقت کی گئی تھی، جب وہ شہری ترقیات کے وزیر تھے۔یہ خوبصورت میوزیم دیکھ کر انہیں لگتا ہے کہ ان کا خواب اب پورا ہوگیا ہے۔ انہوں نے مزیدکہا ہندوستان کے ہر ایک نوجوان کو اس میوزیم کا دورہ ضرورکرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ میوزیم ڈاکٹر باباصاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی زندگی، تعلیمات اور ان کی تبلیغ کو سمجھنے کیلئے بہترین جگہ ہے۔

ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سنٹر میں آڈیٹوریم اور لائبریری کا معائنہ کرنے کے بعد نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ وہ جن پتھ پر واقع عمارت کی آرکیٹیکچر سے بے حد متاثر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر باباصاحب سے متعلق تمام ادبیات کو اس لائبریری میں دستیاب کرایا جانا چاہئے۔ انہوں نے حکام کو مشورہ دیا کہ وہ ڈاکٹر امبیڈکر پر مسلسل قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں کا انعقاد کریں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر باباصاحب نہ صرف ایک باکمال اور بے مثال دانشور تھے، بلکہ وہ ایک عظیم سماجی مصلح ، فلاسفر اور انسان دوست شخص بھی تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی کو ذات پات کی رکاوٹوں کو ختم کرنے میں صرف کر دی۔ ان کے افکارو خیالات لافانی ہیں اور ہر زمانے کے لئے یکساں افادیت کے حامل ہیں۔

نائیڈو نے کہاکہ آئین ہند کی تدوین تسوید میں ان کے شاندار تعاون کے لئے ملک اور قوم کو ہمیشہ ان کا شکرگزار رہنا چاہئے۔ وہ جدید ہندوستان کے معماروں میں سے ایک تھے۔ ان کے وژن نے ملک میں آبی اور صنعتی پالیسیاں وضع کرنے میں نمایاں رول ادا کیا۔ وہ ایک ایسےرہبر تھے، جنہوں نے آزادی حاصل ہونے کے بعد قوم کی صحیح رہنمائی اور رہبری کی۔

انہوں نے اس میموریل کو تعمیر کرنے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی اور سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کے مرکزی وزیر تھاور چند گہلوت اور دیگر افسران کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ سنٹر نوجوان نسل کے لئے ڈاکٹر امبیڈکر پر تحقیق کرنے کیلئے، نیز ان کے کارناموں کو سمجھنے کیلئے بہترین جگہ ہوگی۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ‘‘ نوجوان نسل کو ڈاکٹر امبیڈکرکی زندگی اور فلسفے کے بارے میں جاننا چاہئے، ساتھ ہی ساتھ انہیں ان کے جدو جہد سے بھی آشنا ہونا چاہئے، جس سےاپنی زندگی کے دوران وہ نبرد آزما ہوئے تھے’’۔

نائب صدر جمہوریہ نے ڈاکٹر امبیڈکرنیشنل میموریل اور ڈاکٹر امبیڈکرانٹرنیشنل سینٹرکے ماہرین تعمیرات کی تعریف کی اور ڈاکٹر امبیڈکر نیشنل میموریل کے اندر بھگوان بدھ کے مجسمے کی ایک ہی پتھر میں سنگ تراشی کو کافی سراہا۔

نئی دہلی۔29 مئی کو کیرالہ میں جنواب مغربی مانسون آگیا
جنوب مغربی مانسون آج جنوب مشرقی بحرہ عرب کے باقیماندہ علاقوں کمرون، مالدیپائی علاقے، پورے لکشدیب، کیرالہ کے زیادہ تر حصوں، تمل ناڈو کے کچھ علاقوں اور خلیج بنگال کے جنوب مغربی، وسطی اور شمال مشرقی علاقوں میں پہنچ گیا ہے۔

لہذا آج 29 مئی 2018 کو اپنے معمول سے تین دن قبل ہی پورے کیرالہ میں جنوب مغربی مانسون آگیا ہے۔
مانسون کی شمالی حد( این ایل ایم)، عرض البلد( ایل اے ٹی) 12 ڈگری این/ طول البلد ( لانگ) 60 ڈگری ای، عرض البلد 12 ڈگری این/ طول البلد 65 ڈگری ای ، عرض البلد 12 ڈگری این/ طول البلد 70 ڈگری ای، کنور، کوئمبٹور ، کو ڈی کنال، ٹوٹی کورین، عرض البلد 09 ڈگری این/ طول البلد 80 ڈگری ای، عرض البلد 13 ڈگری این/ طول البلد85 ڈگری ای، عرض البلد 18 ڈگری این/ طول البلد 90 ڈگری ای، عرض البلد 21 ڈگری این/ طول البلد 93 ڈگری ای، نقشہ ۔ I  مانسون کی شمالی حد ( این ایل ایم) کو ظاہر کرتا ہے۔

کیرالہ میں مانسون کی شروعات کے لئے محرک موجودہ موسمیاتی حالات
گزشتہ تین ۔ چار دنوں کےد وران پورے کیرالہ میں وسیع علاقوں میں بارش ہوئی۔کیرالہ میں مانسون کی شروعات کے لئے بارش کی نگرانی اسٹیشنوں سے ہورہی ہیں۔ جنہوں نے 25 میں 60 فیصد سے زائد بارش کی رپورٹ دی ہیں۔(نقشہ۔ 2)پچھم سے آنے والی ہواؤں نے( 30 ناٹ سے زائد کی رفتار ) نچلی سطحوں پر جمع ہوئی ہیں اورآج صبح سے جنوب بحرہ عرب(خط استوا پر عرض البلد10 ڈگری این اور طول البلد 55 ڈگری ای سے 80 ڈگری ای تک)600 ایچ پی اے تک تقریباً(4.5 کلو میٹر) فی گھنٹہ کی رفتار سے مغربی ۔ جنوبی مغربی ہوائیں چل رہی ہیں۔

23 مئی سے لگاتار ہواؤں کے جھونکے چل رہے ہیں۔(مطلع ابر آلود ہے)۔ سیارچہ(انسیٹس۔ 3 ڈی) نے عرض البلد5-10 ڈگری این، طول البلد 70-80 ڈگری کے ذریعہ طویل تابکار شعاعیں کانقشہ کھینچا ہے۔(نقشہ۔ 2)
مذکورہ بالا خصوصیات کے علاوہ درج ذیل تبدیلیاں بھی محسوس کی گئی ہیں۔
مشرق۔ مغرب کی جانب ابھار پر عرض البلد 9 ڈگری این( پورے جنوبی پنسولہ پر) 3.1 کلو میٹر سطح سمندر سے اوپر ہے۔
جنوب مشرقی علاقے پر اور کیرالہ۔ کرناٹک کے ساحلوں پر متصل مشرقی وسطحی بحرہ عرب کے اوپر دباؤ والا علاقہ بن رہا ہے۔
مشرقی وسطحی اور متصل جنوب شمال مشرقی خلیج بنگال کے ا وپر کم دباؤ والاعلاقہ بن رہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں 12 گھنٹے کے دوران بارش ہونے کی امید ہے۔

آئندہ 48 گھنٹوں کےد وران مانسون میں مزید پیش رفت کی امید

آئندہ 48 گھنٹوں کے دوران وسطحی بحرہ عرب کے کچھ حصوں میں، کیرالہ باقیماندہ حصوں ، کرناٹک کے ساحلی علاقوں اور جنوبی اندرونی حصوں میں اور خلیج بنگال کے مشرقی وسطی ، شمال مشرقی علاقوں کے علاوہ شمال مشرقی علاقوں کے کچھ حصوں میں مانسون کے مزید آگے بڑھنے کے لئے حالات نہایت موزوں ہیں۔




Image result for images - income taxنئی دہلی، موجودہ انکم ٹیکس قانون 1961 کے جائزے اور ملک کی موجودہ اقتصادی ضرورتوں کے مطابق نئے راست ٹیکس قانون کا مسودہ تیار کرنے کیلئے تشکیل دیئے گئے ٹاسک فورس کی مدت کار میں تین ما ہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔

اس سے قبل متعلقین اور عوام الناس سے مشورے اور فیڈ بیک ، ای میل rewriting-itact@gov.in کے توسط سے 2 اپریل 2018 تک طلب کئے گئے تھے۔ یہ مشورے اور فیڈ بیک محکمے کی ویب سائٹwww.incometaxindia.gov.in پر دیئے گئے فارمیٹ میں مانگے گئے تھے۔

چونکہ اب اس ٹاسک فورس کی مدت کار توسیع کر دی گئی ہے۔ لہذا اسی کے مطابق مشورے/فیڈ بیک بھیجنے کی تاریخ بھی 15 جون 2018 تک بڑھا دی گئی ہے۔

Image result for images - pm modiمن کی بات کے ذریعے سے پھر ائیک بار آپ سب سے روبرو ہونے کا موقع ملا ہے۔ آپ لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا بحریہ کی 6 خواتین کمانڈروں ، یہ ایک گروپ گزشتہ کئی مہینوں سے سمندری سفر پر تھا۔ ناوک ساگر پریکرما – جی میں ان کے متعلق کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔ ہندوستان کی ان 6 بیٹیوں نے ، ان کی اس ٹیم نے 250 سے بھی زیادہ دن سمندر کے ذریعے آئی این ایس وی تارینی میں پوری دنیا کی سیر کر 21 مئی کو ہندوستان واپس لوٹی ہیں اور پورے ملک نے ان کا کافی گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ انہوں نے مختلف اوقیانوسوں اور کئی سمندوں میں سفر کرتے ہوئے تقریباً 22 ہزار نیوٹیکلس مائلس کی دوری طے کی۔ یہ دنیا میں اپنے آپ میں ایک پہلا واقعہ تھا۔ 

گزشتہ بدھوار کو مجھے ان سبھی بیٹیوں سے ملنے کا، ان کے تجربات سننے کا موقع ملا ہے۔ میں ایک بار پھر ان بیٹیوں کو ان کے ایڈوینچر کو، بحریہ کے وقار کو بڑھانے کے لیے ، ہندوستان کا عزت افزائی کرنے کے لیے اور خاص کر دنیا کو بھی لگے کہ ہندوستان کی بیٹیاں کم نہیں ہیں – یہ پیغام پہچانے کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ سینس آف ایڈوینچر کون نہیں جانتا ہے۔ اگر ہم انسانوں کی ترقی کا سفر دیکھیں تو کسی نہ کسی ایڈوینٹر کی کوخ میں ہی ترقی پیدا ہوئی ہے۔ ترقی ایڈوینٹر کی گوم میں ہی تو جنم لیتا ہے۔ کچھ کر گزرنے کا ارادہ، کچھ لیک سے ہٹ کر کے کرنے کا معنیٰ، کچھ ایکسٹرا ٓرڈینری کرنے کی بات، میں بھی کچھ کر سکتا ہوں – یہ خواہش رکھنے والے بھلے کم ہوں ہوں، لیکن صدیوں تک ، بے حساب لوگوں کو ترغیب ملتی رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں آپ نے دیکھا ہوگا ماؤنٹ ایوریسٹ پر چڑھنے والوں کے بارے میں کئی نئی نئی باتیں خیال میں آیا ہے اور صدیوں سے ایوریسٹ انسانوں کو چیلنج دیتا رہا اور بہادر لوگ اس چیلنج کو قبول کرتے بھی رہے ہیں۔

16 مئی کو مہاراشٹر کے چندر پور کے ایک آشرم- اسکول کے 5 آدی واسی بچوں نے قبائلی طلبا – منیشا دھروے، پرمیش آلے، اماکانت مڈوی، کوی داس کاتموڑے، وکاس سویام – ان ہمارے آدی واسی بچوں کے ایک گروپ نے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی پر چڑھائی کی۔ آشرم اسکول کے ان طلبا نے اگست 2017 میں ٹریننگ شروع کی تھی۔ وردھا، حیدرآباد، دارجلنگ، لیہہ ، لداخ – ان کی ٹریننگ ہوئی۔ ان نوجوانوںکو مشن شوریہ کے تحت منتخب کیا گیا تھا اور نام کے ہی مطابق ایوریسٹ فتح کر انہوں نے پورے ملک کو فخر دلایا ہے۔ میں چندر پور کے اسکول کے لوگوں کو ان میرے ننھے منھے ساتھیوں کو، دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ حال ہی میں 16 سالہ شیوانگی پاٹھک ، نیپال کی جانب سے ایوریسٹ فتح کرنے والی سب سے کم عمر کی ہندوستانی خاتون بنی۔ بیٹی شیوانگی کو بہت بہت مبارکباد۔

اجیت بجاج اور ان کی بیٹی دیا ایوریسٹ کی کوہ پیما کرنے والی پہلی خواتین باپ بیٹی کی جوڑی بن گئی۔ ایسا ہی نہیں کہ صرف نوجوان ہی ایوریسٹ کی پیمائی کر رہے ہیں۔ سنگیتا بہل نے 19 مئی کو ایوریسٹ کی پیمائی کی اور سنگیتا بہت کی عمر 50 سے بھی زیادہ ہے۔ ایوریسٹ پر چڑھائی کرنے والے کچھ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے دکھایا کہ ان کے پاس نہ صرف اسکیل ہے بلکہ وہ سینسٹیو بھی ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں سوچھ گنگا ابھیان کے تحت بی ایس ایف کے ایک گروپ نے ایوریسٹ کی چڑھائی کی، پر پوری ٹیم ایوریسٹ سے ڈھیر سارا کوڑا اپنے اپنے ساتھ نیچے اتار کر لائی۔ یہ کام تعریف کے قابل تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ یہ صفائی کے تئیں، ماحولیات کے تئیں ان کی بیداری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سالوں سے لوگ ایوریسٹ کی چڑھائی کرتے رہے ہیں اور ایسے کئی لوگ ہیں، جنہوں نے کامیابی سے اسے مکمل کیا ہے۔ میں ان سبھی بہادر جوانوں کو، خاص طور پر بیٹیوں کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

میرے پیوارے ہم وطنوں اور خاص کر میرے نوجوان دوستوں۔ ابھی دو مہینے پہلے جب میں نے فٹ انڈیا کی بات کی تھی تو میں نے نہیں سوچا تھا کہ اس پر اتنا اچھا رسپانس آئے گا۔ اتنی بھاری تعداد میں ہر شعبے سے لوگ اس کے سپورٹ میں آگے آئیں گے۔ جب میں فٹ انڈیا کی بات کرتا ہوں تو میں مانتا ہوں کہ جتنا ہم کھیلیں گے ، اتنا ہی ملک کھیلے گا۔ سوشل میڈیا پر لوگ فٹنیس چیلنج کی ویڈیوس شیئر کر رہے ہیں، اس میں ایک دوسرے کو ٹیگ کر انہیں چیلنج کر رہے ہیں۔ فٹ انڈیا کے اس مہم سے آج ہر کوئی جڑ رہا ہے۔ چاہے فلم سے جڑے لوگ ہوں، اسپورٹس سے جڑے لوگ ہوں یا ملک کے عام لوگ ، فوج کے جوان ہوں، اسکول کی ٹیچر ہوں، چاروں طرف سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہے – ہم فٹ تو انڈیا فٹ۔ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ مجھے بھی ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی جی نے چیلنج کیا ہے اور میں نے بھی ان کے چیلنج کو قبول کیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ یہ بہت اچھی چیز ہے اور اس طرح کا چیلنج ہمیں فٹ رکھنے اور دوسروں کو بھی فٹ رہنے کے لیے ترغیب دیگا۔

میرے پیارے ہم وطنوں ! من کی بات میں کئی بار کھیل سے متعلق ، کھلاڑیوں سے متعلق ، کچھ نہ کچھ باتیں آپنے میرے سے سنی ہی ہے اور پچھلے بار تو کامن ویلتھ گیمس کے ہمارے ہیرو، اپنی من کی باتیں، اس پروگرام کے ذریعے سے ہمیں بتا رہتے تھے –

’’نمسکار سر! میں چھوی یادو نوئیڈا سے بول رہی ہوں، میں آپ کی من کی بات کی ریگولر کی سماعت کرنے والا ہوں اور آج آپ سے اپنی من کی بات کرنا چاہتی ہوں – آج کل گرمی کی چھٹیاں شروع ہو گئی ہے اور ایک ماں ہونے کے ناطے میں دیکھ رہی ہوں کہ بچے زیادہ تر وقت انٹر نیٹ گیمس کھیلتے ہوئے صرف کرتے ہیں، جب کہ ہم چھوٹے تھے تو ہم روایتی کھیل جو کہ زیادہ تر آؤٹ ڈور گیمس ہوتے تھے، وہ کھیلتے تھے، جیسا کہ ایک گیم تھا جس میں 7 پتھر کے ٹکڑے ایک کے اوپر ایک رکھ کے اسے بال سے مارتے تھے اور اونچ – نیچ ہوتا تھا، کھو –کھو، یہ سب گیمس جو آج کل کھو سے گئے ہیں۔ میری یہ درخواست ہے کہ آپ آج کل کی جینریشن کو کچھ روایتی کھیلوں کے بارے میں بتائیں، جس سے ان کی بھی دلچسپی اس جانب بڑھے، شکریہ۔‘‘

چھوی یادو جی، آپ کے فون کال کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔ یہ بات صحیح ہے کہ جو کھیل کبھی گلی گلی ہر بچے کے زندگی کا حصہ ہوتا تھا، وہ آج کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کھیل خاص طور پر گرمی کی چھٹیوں کا خاص حصہ ہوتا تھا۔ کبھی بھری دوپہری میں، تو کبھی رات میں کھانے کے بعد بھی بغیر کسی فکر کے، بالکل بے فکر ہوکر کے بچے گھنٹوں گھنٹوں تک کھیلا کرتے تھے اور کچھ کھیل تو ایسے بھی ہیں، جو پوری فیملی ساتھ میں کھیلا کرتا تھا – پٹّو ہو کنچے ہو، کھو کھو ہو، لٹّو ہو یا گلی ڈنڈا ہو، نہ جانے ..... بے حساب کھیل کشمیر سے کنیا کماری، کچھ سے کام روپ تک ہر کسی کے بچپن کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ہاں، یہ ہو سکتا ہے کہ الگ الگ جگو وہ الگ الگ ناموں سے جانے جاتے تھے، جیسے اب پٹو ہی یہ کھیل کئی ناموں سے جانا جاتا ہے۔ 

کوئی اسے لاگوری، ساتولیا، سات پتھر، ڈیکوری، ستودیا نہ جانے کتنے نام ہیں ایک ہی کھیل کے۔ روایتی کھیلوں میں دونوں طرح کے کھیل ہیں۔ آؤٹ ڈور بھی ہیں، ینڈور بھی ہیں۔ ہمارے ملک کی گوناگونیت کے پیچھے چھپی یکجہتی ان کھیلوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک ہی کھیل الگ الگ جگہ، مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ میں گجرات سے ہوں مجھے پتا ہے گجرات میں ایک کھیل ہے ، جسے چومل استو کہتے ہیں۔ یہ کوڑیوں یا املی کے بیج یا ڈائس کے ساتھ اور 8x8 کے اسکوائر بورڈ کے ساتھ کھلا جاتا ہے۔ یہ کھیل تقریباً ہر ریاست میں کھیلا جاتا ہے۔ کرناٹک میں اسے چوکابار کہتے تھے، مدھیہ پریدش میں اتّو۔ کیرل میں پکیڑاکالی تو مہاراشٹر میں چمپل، تو تمل ناڈو میں دایام اور تھایام، تو کہیں راجستھان میں چنگاپو نہ جانے کتنے نام تھے لیکن کھیلنے ے بعد پتہ چلتا ہے ، ہر ریاست والے کو زبان بھلے نہ جانتا ہو – ارے واہ! یہ کھیل تو ہم بھی کرتے تھے۔ ہم میں سے کون ہوگا، جس نے بچپن میں گلی ڈنڈا نہ کھیلا ہو۔ گلی ڈنڈا تو گاؤں سے لیکر شہروں تک میں کھیلے جانے والا کھیل ہے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں اسے الگ الگ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ آندھرا پردیش میں اسے گوٹی بلّا یا کرّابلا کے نام سے جانتے ہیں۔ اڈیشہ میں اسے گولی باڑی کہتے ہیں تو مہاراشٹر میں اسے ویتی ڈالو کہتے ہیں۔ کچھ کھیلوں کو اپنا ایک سیزن ہوتا ہے۔ جب ہر کوئی پتنگ اڑاتا ہے جب ہمیں کھیلتے ہیں، ہم میں جو انوکھی کوالیٹیز ہوتی ہیں، ہم انہیں فری ایکسپریس کر پاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کئی بچے ، جو شرمیلے مزاج کے ہوتے ہیں لیکن کھیلتے وقت بہت ہی چنچل ہو جاتے ہیں۔

 خود کو ایکسپریس کرتے ہیں، بڑے جو سنجیدہ سے دکھتے ہیں، کھیلتے وقت ان میں جو ایک بچہ چھپا ہوتا ہے، وہ باہر آتا ہے۔ روایتی کھیل کچھ اس طرح سے بنے ہیں کہ جسمانی صلاحیت کے ساتھ ساتھ وہ ہماری لوجیکل تھنکنگ ، حراستی، شعور، توانائی کو فروغ دیتے ہیں۔ اور کھیل صرف کھیل نہیں ہوتے ہیں، وہ زندگی کے اقدار کو سکھاتے ہیں۔ ہدف طے کرنا، مضبوطی کیسے حاصل کرنا، ٹیم اسپریٹ کیسے پیدا ہونا، آپسی تعاون کیسے کرنا۔ گزشتہ دنوں میں دیکھ رہا تھا کہ بزنس مینیجمنٹ سے جڑے ہوئے ٹریننگ پروگرامس میں بھی اور آل پرسنیلٹی ڈیولپمنٹ اور ینٹر پرسنل اسکلس کے امپرومینٹ کے لیے بھی ہمرے جو روایتی کھیل تھے، اس کا آج کل استعمال ہو رہا ہے اور بڑی آسانی سے اوورآل ترقی میں ہمارے کھیل کام آ رہے ہیں اور پھر ان کھیلوں کو کھیلنے کی کوئی عمر تو ہی ہی نہیں۔ بچوں سے لے کر کے دادا- دادی، نانا –نانی جب سب کھیلتے ہیں تو یہ جو کہتے ہیں نہ جینریشن گیپ، ارے وہ بھی چھو منتر ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم اپنی ثقافت اور روایت کو بھی جانتے ہیں۔ کئی کھیل ہمیں سماج، ماحولیات وغیرہ کے بارے میں بھی بیدار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی فکر ہوتی ہے کہ کہیں ہمارے یہ کھیل کھو نہ جائیں اور وہ صرف کھیل ہی نہیں کھو جائے گا، کہیں بچپن ہی کھو جائے گا اور پھر اس نظم کو ہم سنتے رہیں گے –

یہ دولت بھی لے لو

یہ شہرت بھی لے لو

بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی

مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون

وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی

یہ گیت ہم سنتے رہ جائیں گے اور اس لیے یہ روایتی کھیل، اس کو کھونا نہیں ہے آج ضرورت ہے کہ اسکول، محلے ، نوجوان گروپ آگے آکر ان کھیلوں کو بڑھاوا دیں۔ کراؤڈ سورسنگ کے ذریعے ہم اپنے روایتی کھیلوں کا ایک بہت بڑا ارکائیو بنا سکتے ہیں ۔ ان کھیلوں کے ویڈیوز بنائے جا سکتے ہیں، جن میں کھیلوں کےضوابط، کھیلنے کے طریقے کے بارے میں دکھایا جا سکتا ہے۔ ایمیشن فلمیں بھی بنائی جا سکتی ہے تاکہ ہماری جو نوجوان نسل ہے، جن کے لیے یہ غلطیوں میں کھیلےجانے والے کھیل کبھی کبھی عجوبہ ہوتا ہے – وہ دیکھیں گے، کھیلیں گے، کھلیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنوں!آنے والے 5 جون سے ہمارا ملک ہندوستان سرکاری طور پر عالمی ماحولیات دن کی میزبانی کرے گا۔ یہ ہندوستان کےلیے ایک بہت اہم موقع ہے اور یہ ماحولیات تبدیلی کو کم کرنے کی سمت میں عالم میں ہندوستان کے بڑھتی ہوئی قیادت کو بھی منظوری مل رہی ہے۔ اس کا تعارف ہے۔ اس بار کی موجوع ہے بیٹ پلاسٹک پالیوشن۔ میری آپ سبھی سے اپیل ہے ، اس تھیم کے بھاؤ کو، اس کے اہمیت سمجھتے ہوئے ہم سب یہ یقینی بنائیں کہ ہم پالیتھن، لو گریڈ پلاسٹک کا استعمال نہ کریں اور پلاسٹک پولیوشن کا جو ایک منفی اثر ہمارے ماحولیات پر، جنگلات زندگی پر اور ہمارے صحت پر پڑ رہا ہے، اسے کم کرنے کی کوشش کریں۔ 

عالمی ماحولیات دن کی ویب سائٹ ویڈ-انڈیا 2018 پر جائیں اور وہاں بہت سے مشورہ بڑے ہی دلچسپ انداز میں دیئے گئےہیں – دیکھیں، جانیں اور انہیں اپنے روز مرہ کی زندگی میں اتارنے کی کوشش کریں۔ جب بیحد گرمی ہوتی ہے، باڑھ ہوتی ہے۔ بارش رکتی نہیں ہے۔ ناقابل برداشت سردی پڑ جاتی ہے تو ہر کوئی ماہر بن کر کے گلوبل وارمنگ، ماحولیات میں تبدیلی اس کی باتیں کرتا ہے لیکن کیا باتیں کرنے سے بات بنتی ہے کیا؟ ماحولیات کے تئیں حساس ہونا، ماحولیات کی حفاظت کرنا، یہ ہماری عادت ہونی چاہیے، ہمارے تربیت میں ہونی چاہیے۔ گزشتہ کچھ ہفتوں میں ہم سبھی نے دیکھا کہ ملک کے الگ الگ خطوں میں دھول –آندھی چلی، تیز ہواؤں کے ساتھ ساتھ بھاری بارش بھی ہوئی، جو کہ غیر موسمی ہے۔ جانی نقصان بھی ہوئے، مالی نقصان بھی ہوئے ۔

 یہ ساری چیزیں خاص طور پر موسمیات پیٹرن میں جو تبدیلی ہے، اسی کا نتیجہ ہے ہماری ثقافت ہماری روایت نے ہمیں ماحولیات کے ساتھ جدوجہد کرنا نہیں سکھایا ہے۔ ہمیں ماحولیات کے ساتھ پراعتماد سے رہنا ہے، ماحولیات کے ساتھ جڑ کر کے رہنا ہے۔ مہاتما گاندھی نے تو زندگی بھر ہر قدم پر اس بات کی وکالت کی تھی۔ جب آج ہندوستان ماحولیاتی انصاف کی بات کرتا ہے۔ جب ہندوستان نے کوپ 21 اور پیرس سمجھوتے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب ہم نے انٹرنیشنل سولر الائنس کے ذریعے سے پوری دنیا کو یکجا کیا تو ان سب کے بنیاد میں مہاتما گاندھی کے اس سپنے کو پورا کرنے کا ایک جذبہ تھا۔ اس ماحولیاتی دن پر ہم سب اس بارے میں سوچیں کہ ہم اپنے سیارے کو صاف اور سبز بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ کس طرح اس سمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں؟ کیا اختراع کر سکتے ہیں؟ بارش کا موسم آنے والا ہے، ہم اس بار ریکارڈ درخت کو لگانے کا ہدف لے سکتےہیں اور صرف درخت لگانا ہی نہیں بلکہ اس کے بڑےہونے تک اس کے رکھ رکھاؤ کا انتظام کرنا۔

میرے پیارے ہم وطنوں اور خاص کر کے میرے نوجوان ساتھیوں! آپ 21 جون کو برابر اب یاد رکھتےہیں، آپ ہی نہیں ، ہم ہی نہیں ساری دنیا 21 جون کو یاد رکھتے ہیں۔ پوری دنیا کے لیے 21 جون بین الاقوامی یوگ دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور یہ سب سے منظور ہو چکا ہے اور لوگ مہینوں پہلے تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ ان دنوں اطلاع مل رہی ہے، ساری دنیا میں 21 جون کو بین الاقوامی یوگ دن منانے کی پوری تیاریاں چل رہی ہیں۔ اتحاد کےلیے یوگا اور سماجی ہم آہنگی کا یہ وہ پیغام ہے، جو دنیا نے گزشتہ کچھ سالوں سے بار بار محسوس کیا ہے۔ ثقافت کے عظیم شاعر بھرتوہری نے صدیوں پہلے اپنے شتک تریم میں لکھا تھا –

دھیریم یسیا پِتا چھما چا جننی شانتی شچر گیہینی

ستیم سونوریم دیا چا بھگینی بھراتا منہ سنیم۔

شیّا بھومی تلم دیشوڈپی وسنم گیانامرتم بھوجنم

ایتے یسیہ کٹمبینہ ود سکھے کسماد بھیم یوگینہ۔

صدیوں پہلے یہ کہی گئی بات کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ مسلسل یوگا مشق کرنے پر کھ اچھے عادات رشتےداروں اور دوستوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔ یوگ کرنے سے قوت پیدا ہوتا ہے جو ہمیشہ ہی والد کی طرح ہماری حفاظت کرتا ہے۔ معافی کی عادت ہوتی ہے جیسا ماں کا اپنے بچوں کے لیے ہوتا ہے اور دماغی سکون ہماری مستقل دوست بن جاتی ہے۔ بھرتوہری نےکہا ہے کہ مسلسل یوگ کرنے سے سچائی ہماری اولاد، رحم ہماری بہن، خود کو کنٹرول کرنا ہمارا بھائی، خود زمین ہمارا بستر اور علم ہماری بھوک مٹانے والا بن جاتا ہے۔ جب اتنے سارے عادات کسی کے ساتھی بن جائیں تو یوگی سبھی طرح کے ڈر پر فتح حاصل کر لیتا ہے۔ ایک بار پھر میں سبھی ہم وطنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ یہ یوگ کی اپنی وراثت کو آگے بڑھائیں اور ایک صحت مند، خوشحال اور ہم آہنگی قوم کی تعمیر کریں۔

میرے پیارے ہم وطنوں! آج 27 مئی ہے۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو جی کا یوم پیدائش ہے۔ میں پنڈت جی کو پرنام کرتا ہوں۔ اس مئی مہینے کی یاد ایک اور بات سے بھی جڑی ہے اور وہ ہے ویر ساورکر۔ 1857 میں یہ مئی کا ہی مہینہ تھا، جب ہندوستانیوں نے انگریزوں کو اپنی طاقت دکھائی تھی۔ ملک کے کئی حصوں میں ہمارے جوان اور کسان اپنی بہادری دکھاتےہوئے ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ دکھ کی بات ہے کہ ہم بہت لمبے وقت تک 1857 کے واقعوں کو صرف بغاوت یا سپاہی بغاوت کہتے رہے۔ 

حقیقت مین اس واقعہ کو نہ صرف کم کر کے آنکا گیا بلکہ یہ ہمارے ضمیر کو دھکا پہنچانے کی بھی ایک کوشش تھی۔ یہ ویر ساورکر ہی تھے، جنھوں نے نڈر ہوکر لکھا کہ 1857 میں کچھ بھی ہوا وہ کوئی بغاوت نہیں تھا بلکہ آزادی کی پہلی لڑائی تھی۔ ساورکر سمیت لندن کے انڈیا ہاؤس کے بہادروں نے اسکی 50ویں سالگرہ دھوم دھام سے منائی۔ یہ بھی ایک حیرت انگیز ہے کہ جس مہینے میں آزادی کا پہلا آزادی کی تحریک شروع ہوا، اسی مہینے میں ویر ساورکر جی کا جنم ہوا۔ ساورکر جی کی شخصیت خصوصیات سے بھری ہوئی ،ہتھیار اور نظریہ دونوں کے ماننے والے تھے۔ عام طور پر ویر ساورکر کو ان کی بہادری اور برٹش راج کے خلاف ان کے جدوجہد کے لیے جانتے ہیں لیکن ان سب کے علاوہ وہ ایک شاعر اور سماجی اصلاح کار بھی تھے، جنہوننے ہمیشہ یکجہتی اور بھائی چارے پر زور دیا۔ ساورکر جی کے بارے میں ایک حیرت انگیز واقعہ ہمارے پیارے معزز اٹل بہاری واجپئی جی نے کیا ہے۔ اٹل جی نے کہا تھا – ساورکر معنی تیز، ساورکر معنی وقف، ساورکر معنی تپ، ساورکر معنی تتو، ساورکر معنی ترک، ساورکر معنی عنصر، ساورکر معنی منطق، ساورکر معنی ہمدردی، ساورکر معنی تیر، ساورکر معنی تلوار۔کتنا سٹیک چترن کیا تھا اٹل جی نے۔ ساورکر کویتا اور کرانتی دونوں کو ساتھ لے کر چلے۔ حساس شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہادر تحریک داں بھی تھے۔

میرے پیارے بھائیوں بہنوں! میں ٹی وی پر ایک کہانی دیکھ رہا تھا۔ راجستھان کے سیکر کی کچّی بستیوں کی ہماری غریب بیٹیوں کی۔ ہماری یہ بیٹیاں، جو کبھی کچرا چننے سے لے کر گھر گھر مانگنے کو مجبور تھیں – آج وہ سلائی کا کام سیکھ کر غریبوں کو جسم ڈھکنے کے لیے کپڑے سل رہی ہیں۔ یہاں کی بیٹیاں، آج اپنے اور اپنے کنبے کے کپڑوں کے علاوہ عام سے لےکر اچھے کپڑے تک سل رہی ہیں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ ہنرمندی کی ترقی کا کورس بھی کر رہی ہیں۔ ہماری یہ بیٹیاں آج خود مختار بنی ہیں۔ عزت کے ساتھ اپنی زندگی جی رہی ہیں اور اپنے اپنے خاندان کے لیے ایک طاقت بن گئی ہیں۔ میں امید اور یقین سے کہتا ہوں کہ ہماری ان بیٹیوں کو ان کے روشن مستقبل کی مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے دکھایا ہے کہ اگر کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہو اور اس کے لیے آپ خود احتساب ہوں تو تمام مشکلوں کے درمیان بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ صرف سیکر کی بات نہیں ہے ہندوستان کے ہر کونے میں آپ کو یہ سب دیکھنے کو ملے گا۔ آپ کے پاس، پڑوس میں نظر ڈالیں گے تو ذہن میں آئے گا کہ لوگ کس طرح سے پریشانیوں کو شکست دیتے ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ جب بھی ہم کسی چائے کی دکان پر جاتے ہیں، وہاں کی چائے کا مزہ لیتے ہیں تو ساتھ کے کچھ لوگوں سے مباحثہ ، غور و فکر بھی ہوتی ہے۔

 یہ مباحثہ سیاسی بھی ہوتی ہے، سماجی بھی ہوتی ہے، فلموں کی بھی ہوتی ہے، کھیل اور کھلاڑیوں کی بھی ہوتی ہے، ملک کے مسائل پر بھی ہوتی ہے – کہ ایسے مسائل ہے – اس کا حل ایسے ہوگا – یہ کرنا چاہیے لیکن اکثر یہ چیزیں صرف مباحثہ تک ہی سمٹ کر رہ جاتی ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو اپنے کاموں سے، اپنی محنت اور لگن سے تبدیلی لانے کی سمت میں آگے بڑھتے ہیں، اسے حقیقت کی شکل دیتے ہیں۔ دوسروں کے خوابوں کو اپنا بنا لینے والے اور انہیں پورا کرنے کے لیےخود کو لگا دینے کی کچھ ایسی ہی کہانی اڈیشہ کے کٹک شہر کے جھگی جھونپڑی میں رہنے والے ڈی پرکاش راؤ کی۔ کل ہی مجھے ڈی پرکاش راؤ سے ملنے کا موقع ملا۔ جناب ڈی پرکاش راؤ گزشتہ پانچ دہائیوں سے شہر میں چائے بیچ رہے ہیں۔ ایک معمولی سی چائے بیچنے والا، آج آپ جان کر حیران ہو جائیں گے 70 سے زیادہ بچوں کی زندگی میں تعلیم کی روشنی بھر رہا ہے۔ 
انہوں نے بستی اور جھگیوں میں رہنے والے بچوں کے لیے آشا آشواشن نام کا ایک اسکول کھولا۔ جس پر یہ غریب چائے والا اپنی آمدنی کا 50 فیصد رقم اسی میں خرچ کر دیتا ہے۔ وہ اسکول میں آنے والے سبھی بچوں کو تعلیم، صحت اور کھانے کا پورا انتظام کرتے ہیں۔ میں ڈی پرکاش راؤ کی کڑی محنت، ان کی لگن اور ان غریب بچوں کی زندگی کو نئی سمت دینے کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے ان کی زندگی کے اندھیرے کو ختم کر دیا ہے۔ تمسو ماجیوتی مرگمیہ یہ وید واکیہ کون نہیں جانتا ہے لیکن اس کو جی کر کے دکھایا ہے ڈی پرکاش راؤ نے۔ ان کی زنگی ہم سبھی کے لیے ، سماج اور پورے ملک کے لیے ایک ترغیب ہے۔ آپ کے بھی آس پاس میں ایسی تریب والا واقعہ کا سلسلہ وار ہوگا۔ بے حساب واقعات ہوں گی۔ آیئے ہم مثبت کو آگے بڑھائیں ۔

جون کے مہینے میں اتنی زیادہ گرمی ہوتی ہے کہ لوگ بارش کا انتظار کرتے ہیں اور اس امید میں آسامان میں بادلوں کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھتے ہیں۔ اب سے کچھ دنوں بعد لوگ چاند کا بھی انتظار کریں گے۔ چاند دکھائی دینے کا مطلب یہ ہے کہ عید منائی جا سکتی ہے۔ رمضان کے دوران ایک مہینے کے روزے کے بعد عید کا تہوار جشن کی شروعات ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سبھی لوگ عید کو پوری امنگ اور جوش و خروش سے منائیں گے۔ اس موقعے پر بچوں کو خاص طور پر اچھی عیدی بھی ملے گی۔ امید کرتا ہوں کہ عید کا تہوار ہمارے سماج میں یکجہتی کے رشتے کو اور مضبوطی دیں گے۔ سب کو بہت بہت مبارکباد۔

میرے پیارے ہم وطنوں! آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ پھر ایک بار اگلے مہینے من کی بات میں ملیں گے۔

Image result for IMAGES -- women empowering indiaنئی دہلی، نیتی آیوگ نے ممتاز میڈیا شخصیت اور صنعت کار جناب سوشانت سنگھ راجپوت کو نیتی آیوگ کے اہم پروگرام ’’خواتین صنعت کاروں کے پلیٹ فارم‘‘کے لئے امداد اور اشتراک کی خاطر ایک معاہدے پر دستخط کئے۔

اس معاہدے پر نیتی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت اور نیتی آیوگ کے سری سوشانت سنگھ راجپوت اور نیتی آیوگ کی ایڈوائزر محترمہ انا رائے کی موجودگی میں دستخط کئے گئے۔

نیتی آیوگ نے ہمیشہ ہی نوجوانوں تک رسائی کی اہمیت پر زور دیا ہے اور انہیں حکومت کی مختلف پالیسیوں میں مصروف رہنے کی خاطر سب کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا۔ ڈبلیو ای پی کے برانڈ امبیسڈر کے طورپر، جس میں پہلے ہی 1000خواتین صنعت کار شامل ہیں، مشن کو ملک میں خواتین کے لئے صنعت کاری کا ماحول پیدا کرنے کے لئے بہت کوشش کی ہے۔ یہ بات نیتی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت نے سرکاری اقدامات کو مقبول بنانے میں نوجوانوں کے رول کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہی۔

نیتی آیوگ کے ساتھ اپنے تعلق پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جناب سوشانت سنگھ راجپوت نے کہا ’’ نیتی آیوگ کے ساتھ منسلک ہونے اور بھارت میں یکسر تبدیلی کے اس سفر کا ایک حصہ بننا میرے لئے باعث فخر ہے‘‘۔ نیتی آیوگ ’’ خواتین صنعت کار پلیٹ فارم ‘‘کے ذریعے ہمارے ملک کی ہزاروں خواتین کو بااختیار بنانے کا بے مثال کام کررہا ہے اور آسان ڈجیٹل ادائیگی ایپ ’’بھیم‘‘ کو متعارف کراکر نقدی سے پاک معیشت کو فروغ دے رہا ہے۔ ایک برانڈ امبیسڈر کے طورپر مجھے ڈجیٹل انڈیا تحریک کو آگے بڑھانے اور ہندوستان میں خواتین صنعت کاروں کی مدد کرنے کا موقع ملے گا۔

راجپوت نیتی آیوگ کی ڈجیٹل ادائیگی مہم کو بھی فروغ دیں گے جو بھارت کو کم نقدی والی معیشت میں تبدیل کرنے کی ایک بڑی کوشش ہے۔ اداکار ،خواتین صنعت کاری پلیٹ فارم کو فروغ دینے اور بھیم ایپلی کیشن کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے مختلف ویڈیو، سوشل میڈیا اور اخبارات میں نیتی آیوگ کی مہم کا حصہ بنیں گے۔

نیتی آیوگ کا ’’خواتین صنعت کاری پلیٹ فارم‘‘(ڈبلیو ای پی) کو 8 مارچ 2018 کو لانچ کیا گیا تھا، جو خواتین کا بین الاقوامی دن ہے۔

Image result for images - ugc
نئی دہلی،اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ایک سنگ میل اصلاح کے طور پر، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے منعقدہ اپنی میٹنگ میں یوجی سی (آن لائن کورسیز) ریگولیشنس 2018 کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ 

چنانچہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اب پوری طریقے سے آن لائن موڈ کے توسط سے ان تمام شعبوں میں، جن میں وہ پہلے سے ایسے پروگرام یا کورس گریجویشن کی سطح پر ریگولر موڈ میں (کلاس روم ٹیچنگ) یا اوپن اور فاصلاتی طریقہ تعلیم کے ذریعے چلا رہے تھے، اب آن لائن طریقے سے بھی وہ سرٹیفکیٹ، ڈپلوما اور ڈگری پروگرام چلانے کے مستحق ہوں گے۔ 

ایسے آن لائن پروگراموں کے لئے، جن میں پریکٹیکل یا تجربہ گاہوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان پروگراموں میں نصاب کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے آن لائن پروگرام چلانے پر پابندی ہوگی۔ امتحانات کا اہتمام ایک خاص نگرانی نظام کے تحت کیا جائے گا اور یہ تمام تر اہتمام کمیشن کے ذریعے ایسے امتحانات کے لئے طے شدہ اصولوں کے مطابق کیا جائے گا۔ آن لائن تعلیم میں کم سے کم چار عناصر یعنی ویڈیو لیکچر، ای کانٹینٹ یا ای مواد، از خود احتساب اور گفت و شنید کا فورم ہوں گے، تاکہ طلباء کے شبہات کا ازالہ ہوسکے۔

اعلیٰ تعلیمی ادارے صرف اسی صورت میں آن لائن پروگرام کے چلانے کا استحقاق حاصل کرسکیں گے، جب ان کے قیام کو کم از کم پانچ برس کا عرصہ گزر چکا ہو اور وہ قومی احتساب اور منظوری کونسل (این اے اے سی) کے تحت منظور شدہ ہوں اور انھیں کم از کم 3.26 کا اسکور 4 پوائنٹ اسکیل پر حاصل ہوچکا ہو اور ان کا شمار قومی ادارہ جاتی درجہ بندی فریم ورک (این آئی آر ایف) کے تحت سرکردہ 100 اداروں میں ہوتا ہو۔ یہ ادارے وہی ادارے ہوں گے جو کم از کم گزشتہ تین برسوں میں سے دو برسوں کے دوران اس طرح کی درجہ بندی حاصل کرچکے ہوں، تاہم این اے اے سی اور این آئی آر ایف کی شرائط موجودہ سرکاری اوپن یونیورسٹیوں پر نافذ العمل نہیں ہوں گی، جب تک کہ این اے اے سی یا ایسے ہی منظوری نظام کی شرائط یا این آئی آر ایف کی شرائط ان پر علیحدہ سے نافذ نہ کی جائیں۔

بالترتیب بھارتی اور غیرملکی طلبہ کی شناخت کے لئے آدھار اور پاسپورٹ کا استعمال تمام تر آن لائن ربط و ضبط کے لئے کیا جائے گا، ان میں درس و تدریس اور امتحانات جیسے عناصر بھی شامل ہیں۔

طلبہ کی مصروفیت اور دلچسپی کو ایک خاص طریقے سے تال میل بناکر ہمہ وقت مہمیز کیا جائے گا، جن میں تبادلہ خیالات، مباحثے، مخصوص نصاب کے اسباق کو طلبہ کے ذریعے مکمل کئے جانے کا عمل اور پروگرام کے ذریعے انھیں شامل کرنے کے عناصر شامل ہوں گے۔ تدریسی انتظامی نظام کا تجزیہ کیا جائے گا اور اس نظام کو اس امر کو یقینی بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا کہ ہر ایک پکھواڑے میں کم از کم دو گھنٹے سیکھنے والے کی جانب سے باقاعدہ طور پر اس عمل میں شرکت یقینی ہو۔

مجموعی قواعد و ضوابط اس طرح وضع کئے گئے ہیں کہ داخلے، درس و تدریس، امتحانات کی شفافیت اور معیارات کی تجاویز اپنی جگہ برقرار رہ سکیں۔ طلبہ کی شناخت اور پروگرام کے لحاظ سے اطلاعات کا انکشاف مثلاً مدت، ابتدا اور انتہا کی تاریخیں، فیس، طلبہ کی تعداد، شناخت کی سہولت کے ساتھ طلبہ کا نام، نتائج وغیرہ ایچ ای آئی ویب سائٹ / پبلک ڈومین پر دستیاب ہوں گے۔ یہ تمام قواعد و ضوابط 2018-19 کے تعلیمی سال سے نافذ العمل ہوجائیں گے۔ یہ پہل قدمی 2020 تک 30فیصد تک کی جی ای آر کے ہدف کو حاصل کرنے کی سمت میں ایک بڑا قدم ہے۔




Image result for images - indian railwayنئی دلّی ، ؍وزارت ریلوے نے ریلوے پروٹیکشن فورس ؍ ریلوے پروٹیکشن اسپیشل فورس میں بھرتی کے لئے با صلاحیت امید واروں سے آن لائن درخواستیں طلب کی ہیں۔ 

یہ درخواستیں 8619 ( 4403 مرد اور 4216 خاتون ) کانسٹیبلوں اور 1120 سب انسپکٹر ( 819 مرد اور 301 خاتون ) کی اسامیوں کے لئے طلب کی گئی ہیں ۔
امید واروں سے درخواست ہے کہ وہ 19-25 مئی ، 2018 کا روزگار سماچار دیکھیں یا مستند تفصیلات کے لئے بھارتیہ ریلوے کی ویب سائٹ دیکھیں

نئی دہلی، آبی و سائل ، دریا کی ترقی اور گنگا کے احیاء کے مرکزی وزیر نتن گڈکری نے نئی دلی میں دریائے گنگا میں ’’مخصوص آبی جانوروں کے تحفظ کی صورتحال ‘‘ پر ایک رپورٹ جاری کی۔ انہوں نے ’’ گنگا اور اس کا حیاتیاتی تنوع: سکن اور اقسام کے تحفظ کی خاطر نقشہ راہ کی تیاری‘‘ کے موضوع پر ’’عالمی جنگلاتی حیات فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ذریعہ منعقدہ ایک روزہ ورکشاپ کا بھی افتتاح کیا۔وزیر موصوف نے ایک خود ساخہ کاڈر ’’گنگا پر ہاری ‘‘ کا بھی افتتاح Image result for images -ganga riverکیا‘‘۔ جس کی تشکیل بھارت کے جنگلاتی حیات کے ادارے (ڈبلیو آئی آئی ) کے ذریعہ کی گئی ہے۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نتن گڈکری نے گنگا کو ’’مربوط طریقہ کار اور ترقی دور ماحولیات کے درمیان توازن ‘‘ کے ذریعہ صاف کرنے کے چیلنج کو حل کرنے پر زور دیا۔ بانس سے کاغذ بنانے جیسی کامیاب مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے جناب گڈکری نے کہا کہ اس طرح کی سرگرمیوں سے نہ صرف گنگا کے قریب علاقوں میں روزگار پیدا ہوگا بلکہ اس سے مقامی برادری کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی کہ دریا کی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔جناب گڈکری نے کہا کہ ہم دریا کے کناروں پر پیڑ لگانے ، کشتی رانی ، مکتی دھام اور گھاٹوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔اس سے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا اور گنگا کی صفائی کے کام میں مقامی لوگوں کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے گا۔

آبی وسائل ، دریاؤں کی ترقی اور گنگا کے احیاء کے سکریٹری جناب یو پی سنگھ نے کہا کہ گنگا میں تقریباً 2000 آبی جانور پائے جاتے ہیں اور سبھی کی شرکت کے ذریعے گنگا کی حیاتیاتی تنوع کو بحال کرنے کا کام پورا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ دریائے گنگا کی اویرلتا اور نرملتا بہت اہم ہیں اور حکومت ان دونوں کو حاصل کرنے کے لئے عہد بستہ ہے۔

گنگا پریہاریوں اور گنگا متروں کو ان کی رضاکارانہ امداد کے لئے شکریہ ادا کرتے ہوئے این ایم سی جی کے ڈی جی جناب راجیو رنجن مشرا نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ رضا کار ، جن کی تعداد اس وقت 4 سو کے قریب ہے ، ہزاروں اور لاکھوں میں پہنچ جائے گی اور صاف گنگا مشن ایک عوامی تحریک بن جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آج کے ورکشاپ میں ماہرین کے درمین پورے تبادلے خیال سے کچھ کار آمد مشورے اور اصلاحات سامنے آئیں گی جو پالیسی سازی میں بہت کار آمد ثابت ہوں گی۔

وزیر موصوف نے ایک اور اشاعت ’’گنگا بایو ڈائورسٹی- ایٹ اے گلینس‘‘ کا بھی اجرا کیا جس میں گنگا میں رہنے والی جانوروں کی مختلف اقسام اور ان کے مسکن وغیرہ کینقشوں کے ذریعے تفصیل فراہم کی گئی ہے۔

نئی دہلی، بھارت کے چناؤ کمیشن نے سابق اعلیٰ چناؤ کمشنروں ؍ چناؤ کمشنروں کے ساتھ گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ صلاح و مشورے سے متعلق اس میٹنگ میں سابق اعلیٰ چناؤ کمشنر ایم ایس گل، جے این لنگڈوہ، ٹی ایس کرشنا مورتی، بی بی ٹنڈن، ڈاکٹر ایس وائی قریشی، وی ایس سمپت، ایچ آر برمہا، ڈاکٹر نسیم زیدی اور سابق چناؤ کمشنر جی وی جی کرشنا مورتی نے شرکت کی۔

اعلیٰ چناؤ کمشنر جناب اوپی راوت اور چناؤ کمشنر سنیل اروڑہ اور اشوک لواسا نے سابق اعلیٰ چناؤ کمشنروں؍ چناؤ کمشنروں کا خیرمقدم کیا۔ مدعوئین نے اس اقدام کے لئے کمیشن کی ستائش کی اور امید ظاہر کی کہ اس طرح کا صلاح و مشورہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔

تبادلۂ خیال کے دوران انتخابی بندوبست کے مندرجہ ذیل پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی گئی:
اس بات کو نوٹ کیا گیا کہ ای وی ایم ؍ وی وی پی اے ٹی کا یکساں استعمال ایک قابل ستائش اقدام ہے۔ اس رائے کا بھی اظہار کیا گیا کہ بیداری کے پروگراموں کو تمام ووٹروں تک پہنچایا جانا چاہئے، تاکہ ووٹروں کو اس کے فوائد معلوم ہوسکیں۔ اس سے ان مشینوں کے استعمال سے متعلق تنازعات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا کہ چناؤ مہم کے دوران منافرت پر مبنی تقریروں کا استعمال کیا جارہا ہے، جس سے سیاسی ماحول خراب ہوتا ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ ایسی تقریروں پر وسیع عوامی مفاد میں روک تھام کی جانی چاہئے۔
پولنگ کے وقتوں سے متعلق تجزیہ کئے جانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، تاکہ چناؤ کے مرحلوں کو کم کیا جاسکے۔ اس بات کو نوٹ کیا گیا کہ چناؤ کے مرحلوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے ایم سی سی کی مدت میں کمی کی جاسکے گی، جس کے کثیر مرحلے والے انتخابات پر کافی اثرات ہوتے ہیں۔
ای آر او-نیٹ کی بھی ستائش کی گئی، البتہ اس بات کو بھی نوٹ کیا گیا کہ دیگر کامیاب جمہوریتوں میں ووٹروں کے رجسٹریشن کے ماڈل کے پیش نظر ووٹروں کے رجسٹریشن کے عمل کو مزید آسان بنایا جاسکتا ہے۔

میٹنگ کے دوران سینئر ڈپٹی الیکشن کمشنر اومیش سنہا نے انتخابی کمیشن کے ذریعے انتخابی خواندگی کلب، ای آر او-نیٹ، آر او –نیٹ، شکایات کے ازالے کے نظام جیسے موجودہ اقدامات کے بارے میں بھی تفصیلات پیش کئے۔

Image result for images -- sweden and indian flagنئی دہلی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی، ارضیاتی سائنسز ، ماحولیات وجنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے وزیر ڈاکٹر ہر ش وردھن 22، 23 مئی کے دوران مالمو- سوئیڈن میں منعقد ہونےو الے مشن اننویشن منسٹریل میں شرکت کیلئے جانے والے بھارتی وفد کی قیادت کریں گے۔

مشن اننویشن ایک عالمی پلیٹ فارم ہے جس میں 23 ممالک اور یوروپی یونین شامل ہیں۔ جس کا مقصد افزوں سرکاری سرمایہ کاری ، افزوں نجی- سرکاری شعبے کی شراکت داری اور افزوں عالمی تعاون کے توسط سے صاف ستھری توانائی ، جدت طرازیوں اور اختراعات کو بڑھاوا دینا ہے۔ بھارت اس مشن کے بانی اراکین میں شامل ہے اور قائمہ کمیٹی کا بھی حصہ ہے، اس کے ساتھ ہی ساتھ اسمارٹ گرڈ ، آف گرڈ اور ہمہ گیر حیاتیاتی ایندھنوں کے معاملے میں بھی اختراعاتی چنوتیوں کے معاملے میں معاون رہا ہے۔ 

اس دورے کےد وران وزیر موصوف صاف ستھری توانائی کے تئیں بھارت کی عہد بندگی کو اُجاگر کریں گے ، یہ عہد بندگی تحقیق ، ترقیات اور مظاہرہ جاتی پروگراموں کے ذریعے عمل میں لائی جاتی ہے جو اختراعاتی مشن والے ممالک کی شراکت داری میں صاف ستھری توانائی کے مختلف النوع شعبے میں شروع کی گئی ہے۔ وزیر موصوف اختراعی مشن سے وابستہ ممالک کے ساتھ واجب لاگت والی صاف ستھری توانائی اختراعات کے سلسلے میں تحقیق اور تعاون کے امکانات بھی تلاش کریں گے۔ مشن اختراعات میں شرکت کے علاوہ ڈاکٹر ہرش وردھن ڈنمارک، سوئیڈن، کنیڈا اور یوروپی کمیشن کے اپنے ہم عہدہ شخصیات سے بھی باہمی گفت وشنید کریں گے۔

Image result for images -information technologyنئی دہلی، لوک سبھا کے ایم پی انوراگ سنگھ ٹھاکر کی سربراہی میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی پارلیمانی قائمہ کمیٹی ’’شہریوں کے اعدادوشمار کی سیکورٹی اور رازداری‘‘ کے موضوع پر مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے۔

اس موضوع کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر کمیٹی نے وسیع صلاح مشورہ کے مقصد سے عام پبلک اور خاص طورپر اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین ؍پیشہ ور؍تنظیموں؍انجمنوں اور دیگر فریقوں سے ان کی رائے طلب کی ہے۔

جو لوگ کمیٹی کو میمورنڈم بھیجنے کے خواہش مند ہیں وہ اپنی رائے ؍خیالات پر مبنی میمورنڈم(ہندی یاانگلش میں) کمیٹی کو براہ راست بھیج سکتے ہیں۔ اس کا پتہ ہے ڈائریکٹر(سی اینڈ آئی ٹی) ، لوک سبھا سیکریٹرئیٹ، کمرہ جی 1، پارلیمنٹ ہاؤس انیکسی، نئی دہلی110001۔ یہ آراء پریس ریلیز کی اشاعت ؍نشریہ کی تاریخ سے دو ہفتے کے اندر ایک مہربند لفافے میں بھیجے جاسکتے ہیں۔ یہ آراء ای میل پر بھیجی جاسکتی ہے، جس کا پتہ ہے comit@sansad.nic.in اور یہ آراء فیکس کے ذریعے بھی بھیجی جاسکتی ہیں۔) فیکس نمبر۔011-23792726)

آراء پر مبنی یہ میمورنڈم کمیٹی کے ریکارڈ کا ایک حصہ سمجھا جائے گا اور یہ انتہائی رازداری والی دستاویز میں شامل ہوگا۔ اس لیے اس میں دیاگیا مسودہ کا کسی دوسرے کے سامنے انکشاف نہیں کیا جائے گا۔

جو لوگ میمورنڈم بھیجنے کے علاوہ کمیٹی کے سامنے زبانی بیان بھی دینے کے خواہشمند ہیں ان سے درخواست کی جاتی ہیں کہ وہ مذکورہ بالا پتہ پر پہلے سے اس کے لئے لوک سبھا سیکریٹریئٹ کو مطلع کریں۔ البتہ اس سلسلے میں کمیٹی کا فیصلہ قطعی ہوگا۔

Image result for images - loanنئی دہلی : مالیاتی استحکام سے متعلق لائحہ عمل کے تحت قرض حاصل کرنے کے سلسلے میں جن حدود کا تعین کیاگیاہے ،ان کا اطلاق مساویانہ طورپرمرکز اورریاست دونوں پر ہونا چاہیئے اوریہ اطلاق مجموعی ، میکروایکونامک فریم ورک کے پس منظرمیں ہوناچاہیئے، جن پر کل یہاں منعقدہ 15ویں مالیاتی کمیشن سے متعلق سرکردہ ماہرین اقتصادیات کی ایک میٹنگ میں اتفاق کیاگیاہے ۔ ماہرین اقتصادیات نے مزید اس پربھی اتفاق کیاہے کہ ہم عصرآبادی اعداد وشمار کو اہمیت دینا زیادہ بہتراور حقیقت سے نزدیک ہوگا تاہم اہمیت آبادی کو دی جانی چاہیئے ۔ اور آبادی میں استحکام کی پالیسی کے فوائد کو بھی مدنظررکھاجاناچاہیئے ۔ اور اس کا تعین معقول طورپرکمیشن کے ذریعہ کیاجاسکتاہے ۔ کمیشن کو بذات خود مساوات اور اثرانگیزی کے مابین توازن قائم کرنا چاہیئے ۔

1- 15ویں مالیاتی کمیشن نے ماہرین اقتصادیات اور ڈومین ماہرین کے ساتھ گفت وشنید جاری رکھے گا ۔ بات چیت کے دوران جن اہم موضوعات پراحاطہ کیاگیا ان میں درج ذیل نکات شامل ہیں ۔ منصوبہ بندی کمیشن کی تحلیل کے بعد ایک نئی صورت حال سامنے آئی ہے اوراس نے وسائل کی تخصیص کے روایتی نظام کو بدل دیاہےاوراس کے نتیجے میں منصوبہ بند اورغیرمنصوبہ بند سرمائے کے درمیان واقع امتیاز ختم ہوگیاہے ۔

2- جی ایس ٹی سے متعلق غیریقینی صورتحال اوران سے مربوط موضوعات کو پوری طریقے سے واضح کیاجاناضروری ہے ۔

3- ماضی کی کارکردگی سے متعلق موضوعات اور ان کے فوائد کو مستقبل کی کارکردگی اور اس کے فوائد سے مربوط کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

4- اعداد وشمار کی وافرمقدارمیں عدم دستیابی حقیقی معنوں میں مالیات کے شمار اور تخمینوں میں مزاحم ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں روزگارجیسے موضوعات بھی شامل ہیں اور تعین کے طریقے پربھی سوال اٹھتے ہیں ۔

5- ریاستوں میں ٹیکس عائد کرنے کی صلاحیت اور ٹیکسوں کی تحلیل کا فارمولہ اس طریقہ سے طے کیاجاناچاہیئے جس میں مساوات ، انصاف اوریکسانیت کا لحاظ رکھاگیاہو۔

6- ٹی اوآرکا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ کمیشن کے پاس آئین کے تحت کام کاج کا اپنا ضابطہ ہے اوراس سلسلے میں اسے کافی مساوی اختیارات بھی حاصل ہیں ۔

7- مجموعی گھریلوپیداوارکے سلسلے میں تعین کے نقطہ نظرسے متعدد چنوتیاں درپیش ہیں ، پنشن واجبات ، مالیات کی وصولی اوروسائل کی دستیابی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں ،جن کا تعلق یکمشت عطیہ جاتی امداد سے ہے ۔

8- ریاستی مالیات بجلی شعبے کے برتاو کی وجہ سے دباو کے شکار ہوئے تھے ۔ اور یوڈی اے وائی بانڈ کے اثرات ریاستوں کے سود واجبات کومتاثر کرتے ہیں ۔

9- مرکز کے ذریعہ اسپانسرکردہ اسکیموں کا مستقبل مسائل سے دوچاررہاکیونکہ سرمائے کی فراہمی کے طرز میں لگاتارتبدیلی ہوتی رہی ۔ اس سلسلے میں ایک مجموعی نظریہ قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔

کمیشن کے چیئرمین نے تبادلہ خیالات کو مختصراًیکجاکرتے ہوئے کہاکہ ڈومین ماہرین کے ساتھ آئندہ مہینوں میں ربط وضبط جاری رہے گا اوراس کی مدد سے کمیشن عارضی نتائج اخذ کرنے سے پہلے اپنے طریقہ کارکو مستحکم بنائے گا ،جس کا تعلق عمودی اور متوازی مالیہ کے تعین سے ہوگا۔ مقامی بلدیاتی اداروں اورپنچایتوں کے طریقہ کارکو بھی مدنظررکھاجائے گاکیونکہ یہ زمینی حقائق سے قریب ترہوگا اوراستفادہ کنندگان کواصل معنوں میں درکار وسائل بہم پہنچائےگا ۔
کمیشن کی صدارت جناب این کے سنگھ نے کی اور اس موقع پردیگراراکین بھی موجود تھے ۔ کل کے تبادلہ خیالات میں شامل مندوبین کے نام درج ذیل ہیں:
نمبرشمار 
نام 
عہدہ
ڈاکٹروی بھاسکر 
سبکدوش آئی اے ایس
پروفیسربھرت راماسوامی 
پروفیسر، انڈین اسٹیٹیکل انسٹی ٹیوٹ
ڈاکٹراروند سبرامنیم 
چیف اقتصادی مشیر، وزارت مالیات
ڈاکٹرپرونب سین 
کنٹری ڈائرکٹر، انٹرنیشنل گروتھ سینٹر
پروفیسرپامی دعا 
پروفیسر ، دہلی اسکول آف ایکونامک
پروفیسراین آربھانومورتھی 

پروفیسر، این آئی پی ایف پی
ڈاکٹرکرت پاریکھ 
چیئرمین ، آئ آراے ڈی ای
ڈاکٹراندراراجہ رمن 
ماہراقتصادیات
ڈاکٹرایم گووندہ رائو 
مہمان ، پروفیسراین آئی پی ایف پی
10 
ڈاکٹرڈی کے شری واستو 
ماہراقتصادیات
11 
جناب ٹی این نینان 
چیئرمین ، بزنس اسٹینڈرڈ
12 
پروفیسر الکھ شرما 
ڈائرکٹر، انسٹی ٹیوٹ فارہیومن ڈیولپمنٹ
13 
جناب نیل کنٹھ مشرا 
ایم ڈی ، کریڈٹ سوئسے اینڈ انڈیا اکوئٹی اسٹراٹیجسٹ
14 
ڈاکٹراروند ویرمانی 
بانی (چنتن ) اورصدرایف ایس آئی
15 
ڈاکٹرسنجیوگپتا 
ڈپٹی ڈائرکٹر، فسکل افیئرس ڈپارٹمنٹ ، آئی ایم ایف
16 
ڈاکٹرپناکی چکربورتی 
پروفیسر ، این آئی پی ایف پی
17 
ڈاکٹرسرجیت ایس بھلہ 
پی ایم ای اے سی کے جزوقتی ممبر
18 
ڈاکٹرشنکرآچاریہ 
اعزازی پروفیسر ، آئی سی آرآئی ای آر
19 
ڈاکٹرابھیجیت سین 
ماہراقتصادیات
مشاورتی کونسل کی اولین میٹنگ کا اہتمام

بعداذاں کمیشن نے مشاورتی کونسل کے ساتھ بھی ایک میٹنگ کا اہتمام کیاتاکہ کمیشن کے دائرہ کارمیں آنے والے مختلف موضوعات کے سلسلے میں ضروری ان پٹ حاصل کئے جاسکیں ۔ ان میں مرکز کے ذریعہ اسپانسرشدہ اسکیموں کی سیاسی معیشت سی ایس ایس کا مستقبل اسکیموں کی طویل المدت بنیاد پرنقشہ بندی ، جی ایس ٹی کے استحکام جیسے نکات شامل تھے ۔

نئی دہلی، دہلی کے سبرتو پارک میں واقع مغربی فضائی کمانڈ کے صدر دفتر کے زیر اہتمام مبنی بر انسانیت اور آفات راحت رسانی (ایچ اے ڈی آر) سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ 

اس سیمینار کے انعقاد کا مقصد ہندوستان کے شمالی خطوں میں ایچ اے ڈی آر کی صورت حال سے مؤثر طریقے پر نمٹنے کے لئے کئے جاسکنے والے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ 

انڈین ایئر فورس کی شراکت داری کے علاوہ اس سیمینار میں ہماچل پردیش ، راجستھان ، اتراکھنڈ ، ہریانہ ، پنجاب اور جموں وکشمیر کے سکریٹری سطح کے مندوبین حصہ لے رہے ہیں۔ آفات کی صورت حال میں اہم کارکردگی نبھانے والے این ڈی ایم اے ، این ڈی آر ایف اور آئی ٹی بی پی جیسی تنظیمیں بھی سیمینار میں شرکت کررہی ہیں۔

آفات کی صورت حال میں اکثر انڈین ایئر فورس، وہ تنظیم ہوتی ہے جو سب سے پہلے حرکت میں آتی ہے اور متاثرہ آبادیوں کی مدد کا کام شروع کرتی ہے۔انڈین ایئرفورس ہی ہے جس میں نہ صرف قومی آفات کی صورت میں امدادی کارروائیاں انجام دیں بلکہ بین الاقوامی آفات کی صورت میں بھی اس نے راحت رسانی کا کام کیا ہے۔ اندرون ملک اس کے ذریعے راحت رسانی کے کاموں میں چنئی طوفان کے وقت آپریشن مدد کرنا، اتراکھنڈ میں اچانک آئے سیلاب کے وقت آپریشن راحت ، جموں وکشمیر میں سیلاب متاثرین کی راحت رسانی کے لئے آپریشن میگا راحت اور ہُد ہُد طوفان کے دوران آندھراپردیش میں کئے گئے راحت رسانی کے کام شامل ہیں۔ جبکہ بین الاقوامی سطح کے کام میں یمن میں محصور غیر مقیم ہندوستانیوں کا انخلاء ، نیپال میں آئے زلزلے کے وقت راحت رسانی کے لئے چلائی گئی مہم آپریشن میتری ، فجی میں طوفان متاثرین کو راحت پہنچانا اور سری لنکا میں سیلاب متاثرین کی مدد شامل ہیں۔ زیادہ تر حالات میں مشرقی فضائی کمانڈ کے طیاروں اور  عملے نے ان کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔


اس سیمینار کے ایجنڈے میں آفات بندوبست سے متعلق قومی مطمح نظر اور صلاحیت سازی ، نیز اس سیمینار میں شریک ریاستوں کے لئے آفات راحت رسانی کی سہولتوں میں اضافہ جیسے امور پر تبادلہ خیال بھی شامل ہے۔ سیمینار میں انڈین ایئرفورس کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے راحت رسانی کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال بھی شامل ہے۔

اس موقع پر اظہاری خیال کرتے ہوئے مشرقی ایئر کمانڈ کے سینئر ایئر اسٹاف افسر ایئر مارشل این جے ایس ڈھلوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ سیمینار کے اختتام پر ہنگامی صورت حال میں جلد از جلد مؤثر طریقے پر اور کم لاگت میں آفات بندوبست کے کام سے وابستہ سبھی ایجنسیوں کے درمیان ایک واضح افہام وتفہیم کی صورت حال نمودار ہوگی۔


مشرقی ایئرکمانڈ کا صدر دفتر اپنی ماتحتی میں آنے والے علاقوں میں اس طرح کے سیمیناروں اور نمائشوں کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔ رواں اعلیٰ سطحی سیمینار جو کہ نئی دہلی کے سبرتو پارک علاقے میں ہورہا ہے ، 15 مئی 2018 کو اختتام پذیر ہوگا۔

نئی دہلی  : اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا لمیٹیڈ (سیل) نئے ٹیکس نظام کو آسانی کے ساتھ اپنانے کے لئے تیاری کررہی ہے۔ یہ نظام یکم جولائی کو جی ایس ٹی کی شروعات کے ساتھ نافذ ہوجائے گا۔ اس مقصد کے لئے کمپنی نے منتقلی کے کام کی نگرانی کے لئے معروف مشیروں کو مقرر کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پورے ہندستان میں واقع پلانٹوں، یونٹوں ، مارکیٹنگ دفتروں اور دیگر یونٹوں کے ساتھ تعاون کے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی ہیں تاکہ نئے جی ایس ٹی نظام کو اپنایا جاسکے۔ 

جی ایس ٹی کا آغاز ملک کے ٹیکسوں کے نظام کے لئےایک بہت اہم قدم ہے جس سے ہندستان کی معیشت پر وسیع تر نوعیت کے اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ تبدیلی کے اس عمل درآمد کے لئے تفصیلی منصوبہ بندی اور اس کے اثرات کو صحیح طریقہ پر سمجھنے کی ضرورت ہوگی جس کا موجودہ نظام اور طریقہ کار پر اثر پڑے گا۔ ان ضرورتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بڑی لگن سے کام کرنے والی ٹیمیں کمپنی کے اندرونی نظام اور طریقہ کار میں ضروری تبدیلیاں کررہی ہیں او ر اس سارے کام کی نگرانی اعلی منتظم کررہے ہیں۔ 

یہ ٹیمیں 24 گھنٹے کام کررہی ہیں تاکہ جی ایس ٹی ضابطوں پر عمل درآمد کے سلسلہ میں مختلف اصولوں اور رہنما خطوط کو اچھی طرح سے سمجھا جاسکے۔ کمپنی کے مختلف پلانٹوں اور ٹیموں نے وینڈروں ، گاہکوں اور کانٹریکٹروں کو باخبر کرنے کی ایک خصوصی مہم شروع کی ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملازمین کو معاملات سےواقف کرانے کے لئے آگاہی کے پروگرام بھی شروع کئے ہیں تاکہ نئےٹیکس نظام کو آسانی کے ساتھ اپنایا جاسکے۔ 

کمپنی نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ اس کا مقصد موجودہ مالی سال کے دوران ایک کروڑ 50 لاکھ ٹن قابل فروخت فولاد کو مارکیٹ میں لانا ہے ۔ اس سلسلہ میں وہ ضرورت پر مبنی پیداوار کے ماڈل کو بھی اختیار کررہی ہے۔ ان حالات میں کمپنی کا خیال ہے کہ جی ایس ٹی کا متحدہ ٹیکس نظام ایک قومی مارکیٹ تشکیل دینے میں مدد گار ہوگا جس سے خریداروں پر متعدد ٹیکسوں کے بار کو کم کیا جاسکے گا اور کاروبار کو بڑھایا جاسکے گا۔ 

سیل کی انتظامیہ کا خیال ہے کہ اس بے مثال بالواسطہ ٹیکس نظام کے ذریعہ داخلی معیشت پرزبردست اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹیکسوں کے اس طریقہ کار سے ٹیکس نظام میں زیادہ شفافیت لائی جاسکے گی اور ایک ٹیکس ایک مارکیٹ معیشت سے کاروبا ر کو یقیناً فروغ حاصل ہوگا۔

نئی دہلی، ریاست جموں و کشمیرمیں ریل لائنوں کی تکمیل کے کام میں قابل ذکر پیش رفت کے بعد انڈین ریلویز دوسری کم ترقی والی پہاڑی ریاستوں (ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر)کے دور دراز علاقوں اور دشوار گزار مقامات تک ریلوے کی نقل و حمل کی سہولت کے سماجی –اقتصادی فوائد کو وسعت دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ملک میں سماجی طور پر مطلوب متعدد پروجیکٹوں میں بلاس پور –منڈی-
لیہہ ریل لائن(لمبائی 498 کلو میٹر) کی خاص اہمیت ہے۔یہ پروجیکٹ اسٹریٹجک اور اقتصادی دونوں طرح کی ترقی اور سیاحت کے نقطہ نظر سے اہم ہے اور دنیا میں سب سے اونچی ریل لائن ہونے کی وجہ سے منفرد بھی۔

ریلویز کے وزیر سریش پربھو نے  بلاس پور –منالی-لیہہ نئی بروڈگیز لائن(بڑی لائن)کے حتمی لوکیشن سروے کا معزز مہمانوں کی موجودگی میں سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر شمالی ریلوے کے جنرل منیجر جناب آ ر کے کلشیتر اور ریلوے کے سینئراہلکار بھی موجود تھے۔لیہہ ریاست جموں و کشمیر کے لداخ خطے کا سب سے زیادہ اہم قصبہ ہے، جس کی آبادی تقرباً ڈیڑھ لاکھ ہے۔ہر سال یہاں سب سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی سیاح آتے ہیں۔

لیہہ ضلع ملک کا دوسرا سب سے بڑا ضلع ہے، جہاں بڑی فوجی تنصیبات ہیں اور یہ چودہ کارپس کا صدر دفتر بھی ہے۔یہ خطہ ایک سرد ریگستان ہے، جس کی وجہ سے جاڑے کے مہینوں(اکتوبر سے مارچ) میں یہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی کافی نیچے پہنچ جاتا ہے۔زبردست برف باری کی وجہ سے اس علاقے کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو جاتا ہے۔لہٰذا یہاں سبھی موسم میں کام آنے والا ریل رابطہ، اسٹریٹجک اور سماجی –ضرورت، دونوں لحاظ سے ضروری ہے۔

ملک کے دیگر حصوں کی بڑی ریل لائنوں سے لیہہ کو جوڑنے کے سلسلے میں انڈین ریلوے نے حتمی لوکیشن سروے کا کام شروع کیا ہے۔یہ کام بلاس پور سے لیہہ تک منالی ہوتے ہوئے بڑی ریل لائن کی تیاری سے پہلے کا کا م ہے۔ یہ لائن منڈی، کلو، منالی، کیلانگ اور ہماچل پردیش نیز جموں و کشمیر کے دیگر اہم شہروں کو جوڑنے کا کام کرے گی۔بلاس پور سے شروع ہونے والی لائن کو آنندپور صاحب اور نانگل ڈیم کے درمیان پڑنے والے بھانو پلی سے بھی جوڑا جائےگا۔

مجوزہ لائن شوالک، گریٹ ہمالین اور زانس کر سلسلوں سے ہوکر گزرے گی، جس کی اونچائی مختلف جگہوں پر الگ الگ ہے۔ کہیں پر اس کی اونچائی 600 میٹر ہے تو کہیں پر اس کی اونچائی ایم ایس ایل کی سطح سے 5300 میٹر ہے۔یہ زلزلہ کے نقطہ نظر سے بھی چوتھے اور پانچویں زون میں پڑتے ہیں،

 جس کی وجہ سے اس روٹ میں بڑی تعداد میں سرنگوں ،پل اور پلیوں کی تعمیر ضروری ہو جاتی ہے۔ ریلو ے کی وزارت نے حتمی لوکیشن سروے کا کام آر آئی ٹی ای ایس لمٹڈ کے سپرد کیا ہے، جس کو مارچ 2019 تک مکمل کرلیے جانے کا منصوبہ ہے۔اس پر تقریباً157 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔

قابل تعمیر، سب سے سستی ، محفوظ اور سبھی موسم میں کام آنے والی اس لائن کی تعمیر کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔

· مختلف گریڈ والے کاریڈور(گلیارے) کا فروغ ۔

· منتخب کاریڈور(گلیارے) کا تجزیہ اور سب سے زیادہ معقول ریل لائن کا فروغ۔

· جیولوجیکل اور جیو فیزیکل جانچ پڑتال اور پلوں ، سرنگوں وغیرہ کی ڈیزائننگ۔

· سائٹ پر سینٹرل لائن کی نشاندہی ۔

· تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ (ڈی پی آر)کی تیاری اور سپردگی۔

اس ریلوے لائن کی تعمیر بہت مشکل ہے اور دشوار گزار علاقےانڈین ریلویز کے سامنے ایک بڑا چیلنج پیش کریں گے، لیکن یہ لائن جب بن کر تیار ہو جائے گی تو یہ دنیا میں اپنی طرح کی لاثانی اور شاندار ریل لائن ہوگی۔

نئی دہلی، ریلوے کی وزارت شمال مشرقی خطے میں ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر زبردست زور دے رہی ہے۔ شمال مشرقی خطے میں، شمال مشرقی سرحدی ریلوے کے ذریعے خدمات فراہم کی جاتی ہیں جن میں 8 ریاستیں یعنی آسام ، اروناچل پردیش ، ناگالینڈ اور منی پور، میزورم، تریپورہ، میگھالیہ اور سکم شامل ہیں۔

شمال مشرقی خطے کی ان8 ریاستوں میں اب 7 ریاستوں میں ریل نیٹ ورک موجود ہے جبکہ سکم کیلئے نئی ریل لائن پروجیکٹ سیواک- رنگ پو (44 کلو میٹر )کی منظوری دی گئی ہے۔سب سے پہلے شمال مشرقی خطے میں میٹر گیج کی تمام لائن کو بڑے گیج والی لائن میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں شمال 
مشرقی خطے میں مندرجہ ذیل بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔

نہارلاگن کو، جواروناچل پردیش کے دارالحکومت ایٹانگر سے صرف 10 کلو میٹ
ر پہلے ہے، قومی دارالحکومت سے براہ راست ٹرین کے ذریعہ جوڑ دیا گیا ہے۔
چھوٹے گیج سے بڑے گیج میں تبدیلی کے بعد بالی پاڑہ –بھالک پانگ لائن کے شروع ہونے سے اروناچل پردیش کو دوسری بڑی لائن سے کنکٹی ویٹی فراہم کی گئی ہے۔
آسام- اروناچل سرحد سے متصل برہمپتر کے شمالی کنارے کی پوری لائن کو رنگیا-مرتونگ سلیک بڑی لائن شروع ہونے کے ساتھ مربوط کردیا گیا ہے۔

دودھ نوئی-میندی پاتھر ریلوے لائن شروع ہونے کے ساتھ ہی میگھالیہ بھی ملک کے ریلوے کے نقشے پر آگیا ہے۔
لمڈنگ-سلچر بڑی لائن کے آغاز کے ساتھ ہی براک وادی ملک میں بڑی لائن کے نیٹ ورک میں شامل ہوگئی ہے۔
تریپورہ کے دارالحکومت اگرتلہ کو بھی بڑی لائن کے نیٹ ورک میں شامل کرلیا گیا ہے۔

اروناچل-جریبام سیکشن میں گیج کی تبدیلی کے ساتھ ہی منی پور کی ریاست کو بھی بڑی لائن کے نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔
کتھاکل-بھیرابی گیج میں تبدیلی کی تکمیل کے ساتھ میزورم کی ریاست بھی بڑی لائن کے نیٹ ورک میں شامل ہوگئی ہے۔

تقریبا900 کلو میٹر کی چھوٹی لائن کو بڑی لائن میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اب شمال مشرقی خطے میں میٹر گیج کی لائن یا چھوٹی لائن پوری طرح ختم ہوگئی۔
شمال مشرقی خطے کیلئے 29 نئی ٹرینیں شروع کی گئی ہیں۔

شمال مشرقی خطے میں ریلوے کی 20 بڑے پروجیکٹوں پر کام چل رہا ہے جن میں 43771 کروڑ روپے کی لاگت سے اوسطا 1664 کلو میٹر لمبی 12 نئی لائنیں اور 4 لائنوں کو دہرا کرنے کا کام شامل ہے۔ 2016-17 کے دوران 7143 کروڑ روپے خرچ کئے گئے تھے جبکہ 2017-18 کے بجٹ میں شمال مشرقی خطے میں کام کیلئے 5586 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

 9279 کروڑ روپے کی لاگت سے 186 کلو میٹر طویل تین نئی لائنیں اور 3944.32 کروڑ روپے کی لاگت سے 17.3 فی اوسط لمبائی کی دو لائنوں کو دہرا کرنا شامل ہے۔ 2017-18 کے بجٹ میں نئی لائنوں کیلئے 18 سروے کرنے کا کام بھی شامل کیا گیا ہے۔

MKRdezign

संपर्क फ़ॉर्म

नाम

ईमेल *

संदेश *

Blogger द्वारा संचालित.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget