آس محمد کیف
کیرانہ میں ضمنی انتخابات کی انتخابی تشہیر کے دوران جب تبسم حسن جھنجھانا کے ایک گاؤں پہنچی تو جاٹ اکثریتی اس گاؤں کے لوگ خود بہ خود جمع ہونے لگے۔ خواتین ان کے ارد گرد اکٹھا ہو گئیں حالانکہ وہاں کوئی انتخابی جلسہ نہیں ہو رہا تھا۔ حسن فیملی کے قریبی رہے سریندر ملک کے گھر پر تبسم حسن پہنچی تھیں تو ان کا چہرہ تھکا ہوا تھا۔ ہمیشہ چادر کو قرینے سے لپیٹ کر رکھنے والی تبسم حسن کے لیے پانی لایا گیا جسے انتہائی نرم روی سے انھوں نے منع کر دیا۔ ہندو مسلم اتحاد کا وجود بچانے کے لیے 50 سال کی عمر طے کر چکی ایک بیوہ عورت گرمی کی شدت میں روزہ کی حالت میں جدوجہد کر رہی تھیں۔
یہاں موجود ایک شخص نے تبسم حسن سے اس وقت واضح لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ ’’بہن جی! آپ کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بے فکر رہیں۔ ہم سب سمجھتے ہیں۔‘‘ تبسم حسن نے یہ سن کر کہا تھا کہ ’’میں تو بس یہ بتانے آئی ہوں کہ ایکسیڈنٹ میں جب میرے شوہر کی موت ہوئی تو میرے شوہر کا سر ایک جاٹ کے گھنٹوں پر تھا جو دہاڑیں مار کر رو رہا تھا اور دوسرا ساتھی ستیش کے ہاتھ پیر ٹوٹ چکے تھے۔ مرحوم منور حسن کا ساتھ ان کے دونوں جاٹ دوستوں نے آخر وقت تک دیا، تم بھی میرا ساتھ مت چھوڑنا۔‘‘
تبسم حسن نے مزید کہا کہ ’’ممکن ہے انتخاب میں فتح و شکست سے حکومت کا کوئی نفع و نقصان نہ ہو لیکن اس فتح کی گونج دور تک جائے گی اور دنیا دیکھے گی کہ ہندوستان میں حکومت کرنے والی ایک پارٹی کی سازش اب ناکامیاب ہو چکی ہے۔ اب تقسیم کی سیاست کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘
آر ایل ڈی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہی تبسم حسن اب کیرانہ سے انتخاب جیت گئی ہیں۔ انھوں نے بی جے پی کی مرگانکا سنگھ کو 45 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا ہے۔ تبسم کے شوہر منور حسن کا رشتہ ہندوستان کی چاروں ایوانوں سے رہا ہے اور وہ واحد ایسے لیڈر رہے۔ ان کے بیٹے ناہد حسن کیرانہ سے ممبر اسمبلی ہیں۔
تبسم حسن اب خوش ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’وہ سب یاد کر کے میرا دل روتا ہے۔ میں نے بہت محنت کی ہے۔ 2009 میں جب ایم پی صاحب (منور حسن) نہیں رہے تو سب کچھ اچانک سے ختم ہو گیا۔ میرا بیٹا ناہد بیرون ملک میں پڑھ رہا تھا۔ میں عدت میں تھی اور انتخابی نامزدگی کا وقت آ گیا۔ سب چاہتے تھے کہ میں انتخاب لڑوں۔ ناہد اس وقت چھوٹے تھے، تب بھی بہت سی سیاسی رخنات پیدا کیے گئے۔ اس وقت نامزدگی کے لیے خاتون افسر خود گھر آئی۔ 2009 میں کیرانہ نے ممبر پارلیمنٹ بنا دیا۔‘‘
مشترکہ اپوزیشن کی امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے والی تبسم حسن کی جیت کی وجہ نئی حد بندی میں شامل ہوئی نکوڑ اور گنگوہ بنی ہے۔ یہاں سے انھیں زبردست ووٹ ملے ہیں۔ دونوں اسمبلی سے ان کا ایک لاکھ ووٹ کا عدد پار ہوا۔ تبسم حسن بتاتی ہیں کہ ’’دراصل میں وہاں کی بیٹی ہوں اور کیرانہ کی بہو۔ مائیکہ والوں نے عیدی دی ہے اور یہ ان کی محبت کا معاملہ ہے۔‘‘
تبسم حسن نکوڑ کے دُم چھیڑا گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ وہ انٹرمیڈیٹ تک پڑھی ہوئی ہیں اور سات بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان کے والد اختر حسن سرساوا بلاک کے مکھیا رہے ہیں۔ ان کا گھرانہ اس تحصیل میں سب سے بڑا زمیندار گھرانہ ہے۔ تبسم حسن کے قریبی ان کے بھائی وسیم چودھری بتاتے ہیں کہ جب ’بی بی جی‘ کی شادی ہوئی تو میں 12 سال کا تھا۔ میری زندگی میں ان کا بہت اثر ہے۔ وہ شروعات سے ہی کافی سنجیدہ ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ ان کے سسر کا نام بھی اختر حسن تھا۔ کیرانہ سے کانگریس ممبر پارلیمنٹ رہے اختر حسن کی حال ہی میں موت ہو گئی۔
خاص بات یہ ہے کہ تبسم حسن کی ماں کا نام بھی اختری بیگم ہے۔ وسیم کہتے ہیں، اب یہ تو اللہ کی مرضی ہے صاحب۔ وسیم ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کی بہن نے بہت جدوجہد کیا ہے۔ کل سے ٹی وی پر انھیں بولتے دیکھ رہا ہوں تو خوشی ہو رہی ہے۔ اب وہ بہت زیادہ پختہ ہو گئی ہیں۔ میری بہن کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتی۔ اس میں لیڈروں جیسی عیاری نہیں ہے بلکہ وہ صاف گو ہے۔
2009 میں تبسم حسن پہلی بار ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئی تھیں۔ اس وقت انھوں نے پورے انتخاب میں گھر سے باہر قدم نہیں رکھا، وہ اس وقت عدت (شوہر کی موت کے بعد مسلم خواتین تقریباً چار مہینے تک خون سے جڑے رشتوں کے علاوہ کسی سے نہیں ملتی) پر تھیں۔ اسی حالت میں وہ جیت گئیں۔ وسیم کہتے ہیں ’’میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ ناہد نے اس وقت کتنی محنت کی۔ وہ 48 گھنٹے تک سویا نہیں تھا۔ اس کی پڑھائی درمیان میں چھوٹ گئی تھی۔ تبسم حسن کو ناہد کے علاوہ ایک بیٹی ہے جو وکالت کی پڑھائی کر رہی ہے۔ اس کا نام اقرا حسن ہے۔ تبسم اس وقت ضلع پنچایت رکن بھی ہے جس سے وہ استعفیٰ دے دیں گی۔ وسیم بھی لگاتار چار بار سے ضلع پنچایت رکن ہے۔ وہ تبسم کا سب سے چھوٹا بھائی ہے اور فیملی میں سب سے چھوٹا ہے۔ اس انتخاب میں وہی تبسم کے چیف الیکشن ایجنٹ تھے۔
تبسم حسن کی اس فتح کی خبر دور تک پہنچی ہے۔ بیرون ملکی میڈیا بھی یہ خبریں شائع کر رہی ہے۔ تبسم حسن بتاتی ہیں کہ جب مرحوم منور حسن صاحب کو چاروں ایوانوں کی رکنیت ملی تھی تب بھی بیرونی میڈیا ان پر اسی طرح خبریں چلایا کرتی تھی اور اب وہ سب کچھ یاد آ رہا ہے۔
تبسم کی ہر بات چیت میں ان کے بیٹے ناہد حسن کا ذکر ہوتا ہے۔ اب دونوں ماں بیٹے نے مل کر ایک اور ریکارڈ بنا دیا ہے اور یہ دونوں اتر پردیش کے واحد ممبر پارلیمنٹ-ممبر اسمبلی ماں-بیٹے ہیں۔ تبسم کہتی ہیں کہ یہ برائی پر اچھائی کی فتح
ہے۔ یہ نفرت پر محبت کی فتح ہے۔ یہ بھائی چارہ کی مثال ہے۔
[ قومی آواز سے ]
एक टिप्पणी भेजें