من کی بات کے ذریعے سے پھر ائیک بار آپ سب سے روبرو ہونے کا موقع ملا ہے۔ آپ لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا بحریہ کی 6 خواتین کمانڈروں ، یہ ایک گروپ گزشتہ کئی مہینوں سے سمندری سفر پر تھا۔ ناوک ساگر پریکرما – جی میں ان کے متعلق کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔ ہندوستان کی ان 6 بیٹیوں نے ، ان کی اس ٹیم نے 250 سے بھی زیادہ دن سمندر کے ذریعے آئی این ایس وی تارینی میں پوری دنیا کی سیر کر 21 مئی کو ہندوستان واپس لوٹی ہیں اور پورے ملک نے ان کا کافی گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ انہوں نے مختلف اوقیانوسوں اور کئی سمندوں میں سفر کرتے ہوئے تقریباً 22 ہزار نیوٹیکلس مائلس کی دوری طے کی۔ یہ دنیا میں اپنے آپ میں ایک پہلا واقعہ تھا۔
گزشتہ بدھوار کو مجھے ان سبھی بیٹیوں سے ملنے کا، ان کے تجربات سننے کا موقع ملا ہے۔ میں ایک بار پھر ان بیٹیوں کو ان کے ایڈوینچر کو، بحریہ کے وقار کو بڑھانے کے لیے ، ہندوستان کا عزت افزائی کرنے کے لیے اور خاص کر دنیا کو بھی لگے کہ ہندوستان کی بیٹیاں کم نہیں ہیں – یہ پیغام پہچانے کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ سینس آف ایڈوینچر کون نہیں جانتا ہے۔ اگر ہم انسانوں کی ترقی کا سفر دیکھیں تو کسی نہ کسی ایڈوینٹر کی کوخ میں ہی ترقی پیدا ہوئی ہے۔ ترقی ایڈوینٹر کی گوم میں ہی تو جنم لیتا ہے۔ کچھ کر گزرنے کا ارادہ، کچھ لیک سے ہٹ کر کے کرنے کا معنیٰ، کچھ ایکسٹرا ٓرڈینری کرنے کی بات، میں بھی کچھ کر سکتا ہوں – یہ خواہش رکھنے والے بھلے کم ہوں ہوں، لیکن صدیوں تک ، بے حساب لوگوں کو ترغیب ملتی رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں آپ نے دیکھا ہوگا ماؤنٹ ایوریسٹ پر چڑھنے والوں کے بارے میں کئی نئی نئی باتیں خیال میں آیا ہے اور صدیوں سے ایوریسٹ انسانوں کو چیلنج دیتا رہا اور بہادر لوگ اس چیلنج کو قبول کرتے بھی رہے ہیں۔
16 مئی کو مہاراشٹر کے چندر پور کے ایک آشرم- اسکول کے 5 آدی واسی بچوں نے قبائلی طلبا – منیشا دھروے، پرمیش آلے، اماکانت مڈوی، کوی داس کاتموڑے، وکاس سویام – ان ہمارے آدی واسی بچوں کے ایک گروپ نے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی پر چڑھائی کی۔ آشرم اسکول کے ان طلبا نے اگست 2017 میں ٹریننگ شروع کی تھی۔ وردھا، حیدرآباد، دارجلنگ، لیہہ ، لداخ – ان کی ٹریننگ ہوئی۔ ان نوجوانوںکو مشن شوریہ کے تحت منتخب کیا گیا تھا اور نام کے ہی مطابق ایوریسٹ فتح کر انہوں نے پورے ملک کو فخر دلایا ہے۔ میں چندر پور کے اسکول کے لوگوں کو ان میرے ننھے منھے ساتھیوں کو، دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ حال ہی میں 16 سالہ شیوانگی پاٹھک ، نیپال کی جانب سے ایوریسٹ فتح کرنے والی سب سے کم عمر کی ہندوستانی خاتون بنی۔ بیٹی شیوانگی کو بہت بہت مبارکباد۔
اجیت بجاج اور ان کی بیٹی دیا ایوریسٹ کی کوہ پیما کرنے والی پہلی خواتین باپ بیٹی کی جوڑی بن گئی۔ ایسا ہی نہیں کہ صرف نوجوان ہی ایوریسٹ کی پیمائی کر رہے ہیں۔ سنگیتا بہل نے 19 مئی کو ایوریسٹ کی پیمائی کی اور سنگیتا بہت کی عمر 50 سے بھی زیادہ ہے۔ ایوریسٹ پر چڑھائی کرنے والے کچھ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے دکھایا کہ ان کے پاس نہ صرف اسکیل ہے بلکہ وہ سینسٹیو بھی ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں سوچھ گنگا ابھیان کے تحت بی ایس ایف کے ایک گروپ نے ایوریسٹ کی چڑھائی کی، پر پوری ٹیم ایوریسٹ سے ڈھیر سارا کوڑا اپنے اپنے ساتھ نیچے اتار کر لائی۔ یہ کام تعریف کے قابل تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ یہ صفائی کے تئیں، ماحولیات کے تئیں ان کی بیداری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سالوں سے لوگ ایوریسٹ کی چڑھائی کرتے رہے ہیں اور ایسے کئی لوگ ہیں، جنہوں نے کامیابی سے اسے مکمل کیا ہے۔ میں ان سبھی بہادر جوانوں کو، خاص طور پر بیٹیوں کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیوارے ہم وطنوں اور خاص کر میرے نوجوان دوستوں۔ ابھی دو مہینے پہلے جب میں نے فٹ انڈیا کی بات کی تھی تو میں نے نہیں سوچا تھا کہ اس پر اتنا اچھا رسپانس آئے گا۔ اتنی بھاری تعداد میں ہر شعبے سے لوگ اس کے سپورٹ میں آگے آئیں گے۔ جب میں فٹ انڈیا کی بات کرتا ہوں تو میں مانتا ہوں کہ جتنا ہم کھیلیں گے ، اتنا ہی ملک کھیلے گا۔ سوشل میڈیا پر لوگ فٹنیس چیلنج کی ویڈیوس شیئر کر رہے ہیں، اس میں ایک دوسرے کو ٹیگ کر انہیں چیلنج کر رہے ہیں۔ فٹ انڈیا کے اس مہم سے آج ہر کوئی جڑ رہا ہے۔ چاہے فلم سے جڑے لوگ ہوں، اسپورٹس سے جڑے لوگ ہوں یا ملک کے عام لوگ ، فوج کے جوان ہوں، اسکول کی ٹیچر ہوں، چاروں طرف سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہے – ہم فٹ تو انڈیا فٹ۔ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ مجھے بھی ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی جی نے چیلنج کیا ہے اور میں نے بھی ان کے چیلنج کو قبول کیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ یہ بہت اچھی چیز ہے اور اس طرح کا چیلنج ہمیں فٹ رکھنے اور دوسروں کو بھی فٹ رہنے کے لیے ترغیب دیگا۔
میرے پیارے ہم وطنوں ! من کی بات میں کئی بار کھیل سے متعلق ، کھلاڑیوں سے متعلق ، کچھ نہ کچھ باتیں آپنے میرے سے سنی ہی ہے اور پچھلے بار تو کامن ویلتھ گیمس کے ہمارے ہیرو، اپنی من کی باتیں، اس پروگرام کے ذریعے سے ہمیں بتا رہتے تھے –
’’نمسکار سر! میں چھوی یادو نوئیڈا سے بول رہی ہوں، میں آپ کی من کی بات کی ریگولر کی سماعت کرنے والا ہوں اور آج آپ سے اپنی من کی بات کرنا چاہتی ہوں – آج کل گرمی کی چھٹیاں شروع ہو گئی ہے اور ایک ماں ہونے کے ناطے میں دیکھ رہی ہوں کہ بچے زیادہ تر وقت انٹر نیٹ گیمس کھیلتے ہوئے صرف کرتے ہیں، جب کہ ہم چھوٹے تھے تو ہم روایتی کھیل جو کہ زیادہ تر آؤٹ ڈور گیمس ہوتے تھے، وہ کھیلتے تھے، جیسا کہ ایک گیم تھا جس میں 7 پتھر کے ٹکڑے ایک کے اوپر ایک رکھ کے اسے بال سے مارتے تھے اور اونچ – نیچ ہوتا تھا، کھو –کھو، یہ سب گیمس جو آج کل کھو سے گئے ہیں۔ میری یہ درخواست ہے کہ آپ آج کل کی جینریشن کو کچھ روایتی کھیلوں کے بارے میں بتائیں، جس سے ان کی بھی دلچسپی اس جانب بڑھے، شکریہ۔‘‘
چھوی یادو جی، آپ کے فون کال کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔ یہ بات صحیح ہے کہ جو کھیل کبھی گلی گلی ہر بچے کے زندگی کا حصہ ہوتا تھا، وہ آج کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کھیل خاص طور پر گرمی کی چھٹیوں کا خاص حصہ ہوتا تھا۔ کبھی بھری دوپہری میں، تو کبھی رات میں کھانے کے بعد بھی بغیر کسی فکر کے، بالکل بے فکر ہوکر کے بچے گھنٹوں گھنٹوں تک کھیلا کرتے تھے اور کچھ کھیل تو ایسے بھی ہیں، جو پوری فیملی ساتھ میں کھیلا کرتا تھا – پٹّو ہو کنچے ہو، کھو کھو ہو، لٹّو ہو یا گلی ڈنڈا ہو، نہ جانے ..... بے حساب کھیل کشمیر سے کنیا کماری، کچھ سے کام روپ تک ہر کسی کے بچپن کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ہاں، یہ ہو سکتا ہے کہ الگ الگ جگو وہ الگ الگ ناموں سے جانے جاتے تھے، جیسے اب پٹو ہی یہ کھیل کئی ناموں سے جانا جاتا ہے۔
کوئی اسے لاگوری، ساتولیا، سات پتھر، ڈیکوری، ستودیا نہ جانے کتنے نام ہیں ایک ہی کھیل کے۔ روایتی کھیلوں میں دونوں طرح کے کھیل ہیں۔ آؤٹ ڈور بھی ہیں، ینڈور بھی ہیں۔ ہمارے ملک کی گوناگونیت کے پیچھے چھپی یکجہتی ان کھیلوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک ہی کھیل الگ الگ جگہ، مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ میں گجرات سے ہوں مجھے پتا ہے گجرات میں ایک کھیل ہے ، جسے چومل استو کہتے ہیں۔ یہ کوڑیوں یا املی کے بیج یا ڈائس کے ساتھ اور 8x8 کے اسکوائر بورڈ کے ساتھ کھلا جاتا ہے۔ یہ کھیل تقریباً ہر ریاست میں کھیلا جاتا ہے۔ کرناٹک میں اسے چوکابار کہتے تھے، مدھیہ پریدش میں اتّو۔ کیرل میں پکیڑاکالی تو مہاراشٹر میں چمپل، تو تمل ناڈو میں دایام اور تھایام، تو کہیں راجستھان میں چنگاپو نہ جانے کتنے نام تھے لیکن کھیلنے ے بعد پتہ چلتا ہے ، ہر ریاست والے کو زبان بھلے نہ جانتا ہو – ارے واہ! یہ کھیل تو ہم بھی کرتے تھے۔ ہم میں سے کون ہوگا، جس نے بچپن میں گلی ڈنڈا نہ کھیلا ہو۔ گلی ڈنڈا تو گاؤں سے لیکر شہروں تک میں کھیلے جانے والا کھیل ہے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں اسے الگ الگ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ آندھرا پردیش میں اسے گوٹی بلّا یا کرّابلا کے نام سے جانتے ہیں۔ اڈیشہ میں اسے گولی باڑی کہتے ہیں تو مہاراشٹر میں اسے ویتی ڈالو کہتے ہیں۔ کچھ کھیلوں کو اپنا ایک سیزن ہوتا ہے۔ جب ہر کوئی پتنگ اڑاتا ہے جب ہمیں کھیلتے ہیں، ہم میں جو انوکھی کوالیٹیز ہوتی ہیں، ہم انہیں فری ایکسپریس کر پاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کئی بچے ، جو شرمیلے مزاج کے ہوتے ہیں لیکن کھیلتے وقت بہت ہی چنچل ہو جاتے ہیں۔
خود کو ایکسپریس کرتے ہیں، بڑے جو سنجیدہ سے دکھتے ہیں، کھیلتے وقت ان میں جو ایک بچہ چھپا ہوتا ہے، وہ باہر آتا ہے۔ روایتی کھیل کچھ اس طرح سے بنے ہیں کہ جسمانی صلاحیت کے ساتھ ساتھ وہ ہماری لوجیکل تھنکنگ ، حراستی، شعور، توانائی کو فروغ دیتے ہیں۔ اور کھیل صرف کھیل نہیں ہوتے ہیں، وہ زندگی کے اقدار کو سکھاتے ہیں۔ ہدف طے کرنا، مضبوطی کیسے حاصل کرنا، ٹیم اسپریٹ کیسے پیدا ہونا، آپسی تعاون کیسے کرنا۔ گزشتہ دنوں میں دیکھ رہا تھا کہ بزنس مینیجمنٹ سے جڑے ہوئے ٹریننگ پروگرامس میں بھی اور آل پرسنیلٹی ڈیولپمنٹ اور ینٹر پرسنل اسکلس کے امپرومینٹ کے لیے بھی ہمرے جو روایتی کھیل تھے، اس کا آج کل استعمال ہو رہا ہے اور بڑی آسانی سے اوورآل ترقی میں ہمارے کھیل کام آ رہے ہیں اور پھر ان کھیلوں کو کھیلنے کی کوئی عمر تو ہی ہی نہیں۔ بچوں سے لے کر کے دادا- دادی، نانا –نانی جب سب کھیلتے ہیں تو یہ جو کہتے ہیں نہ جینریشن گیپ، ارے وہ بھی چھو منتر ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم اپنی ثقافت اور روایت کو بھی جانتے ہیں۔ کئی کھیل ہمیں سماج، ماحولیات وغیرہ کے بارے میں بھی بیدار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی فکر ہوتی ہے کہ کہیں ہمارے یہ کھیل کھو نہ جائیں اور وہ صرف کھیل ہی نہیں کھو جائے گا، کہیں بچپن ہی کھو جائے گا اور پھر اس نظم کو ہم سنتے رہیں گے –
یہ دولت بھی لے لو
یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی
یہ گیت ہم سنتے رہ جائیں گے اور اس لیے یہ روایتی کھیل، اس کو کھونا نہیں ہے آج ضرورت ہے کہ اسکول، محلے ، نوجوان گروپ آگے آکر ان کھیلوں کو بڑھاوا دیں۔ کراؤڈ سورسنگ کے ذریعے ہم اپنے روایتی کھیلوں کا ایک بہت بڑا ارکائیو بنا سکتے ہیں ۔ ان کھیلوں کے ویڈیوز بنائے جا سکتے ہیں، جن میں کھیلوں کےضوابط، کھیلنے کے طریقے کے بارے میں دکھایا جا سکتا ہے۔ ایمیشن فلمیں بھی بنائی جا سکتی ہے تاکہ ہماری جو نوجوان نسل ہے، جن کے لیے یہ غلطیوں میں کھیلےجانے والے کھیل کبھی کبھی عجوبہ ہوتا ہے – وہ دیکھیں گے، کھیلیں گے، کھلیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنوں!آنے والے 5 جون سے ہمارا ملک ہندوستان سرکاری طور پر عالمی ماحولیات دن کی میزبانی کرے گا۔ یہ ہندوستان کےلیے ایک بہت اہم موقع ہے اور یہ ماحولیات تبدیلی کو کم کرنے کی سمت میں عالم میں ہندوستان کے بڑھتی ہوئی قیادت کو بھی منظوری مل رہی ہے۔ اس کا تعارف ہے۔ اس بار کی موجوع ہے بیٹ پلاسٹک پالیوشن۔ میری آپ سبھی سے اپیل ہے ، اس تھیم کے بھاؤ کو، اس کے اہمیت سمجھتے ہوئے ہم سب یہ یقینی بنائیں کہ ہم پالیتھن، لو گریڈ پلاسٹک کا استعمال نہ کریں اور پلاسٹک پولیوشن کا جو ایک منفی اثر ہمارے ماحولیات پر، جنگلات زندگی پر اور ہمارے صحت پر پڑ رہا ہے، اسے کم کرنے کی کوشش کریں۔
عالمی ماحولیات دن کی ویب سائٹ ویڈ-انڈیا 2018 پر جائیں اور وہاں بہت سے مشورہ بڑے ہی دلچسپ انداز میں دیئے گئےہیں – دیکھیں، جانیں اور انہیں اپنے روز مرہ کی زندگی میں اتارنے کی کوشش کریں۔ جب بیحد گرمی ہوتی ہے، باڑھ ہوتی ہے۔ بارش رکتی نہیں ہے۔ ناقابل برداشت سردی پڑ جاتی ہے تو ہر کوئی ماہر بن کر کے گلوبل وارمنگ، ماحولیات میں تبدیلی اس کی باتیں کرتا ہے لیکن کیا باتیں کرنے سے بات بنتی ہے کیا؟ ماحولیات کے تئیں حساس ہونا، ماحولیات کی حفاظت کرنا، یہ ہماری عادت ہونی چاہیے، ہمارے تربیت میں ہونی چاہیے۔ گزشتہ کچھ ہفتوں میں ہم سبھی نے دیکھا کہ ملک کے الگ الگ خطوں میں دھول –آندھی چلی، تیز ہواؤں کے ساتھ ساتھ بھاری بارش بھی ہوئی، جو کہ غیر موسمی ہے۔ جانی نقصان بھی ہوئے، مالی نقصان بھی ہوئے ۔
یہ ساری چیزیں خاص طور پر موسمیات پیٹرن میں جو تبدیلی ہے، اسی کا نتیجہ ہے ہماری ثقافت ہماری روایت نے ہمیں ماحولیات کے ساتھ جدوجہد کرنا نہیں سکھایا ہے۔ ہمیں ماحولیات کے ساتھ پراعتماد سے رہنا ہے، ماحولیات کے ساتھ جڑ کر کے رہنا ہے۔ مہاتما گاندھی نے تو زندگی بھر ہر قدم پر اس بات کی وکالت کی تھی۔ جب آج ہندوستان ماحولیاتی انصاف کی بات کرتا ہے۔ جب ہندوستان نے کوپ 21 اور پیرس سمجھوتے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب ہم نے انٹرنیشنل سولر الائنس کے ذریعے سے پوری دنیا کو یکجا کیا تو ان سب کے بنیاد میں مہاتما گاندھی کے اس سپنے کو پورا کرنے کا ایک جذبہ تھا۔ اس ماحولیاتی دن پر ہم سب اس بارے میں سوچیں کہ ہم اپنے سیارے کو صاف اور سبز بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ کس طرح اس سمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں؟ کیا اختراع کر سکتے ہیں؟ بارش کا موسم آنے والا ہے، ہم اس بار ریکارڈ درخت کو لگانے کا ہدف لے سکتےہیں اور صرف درخت لگانا ہی نہیں بلکہ اس کے بڑےہونے تک اس کے رکھ رکھاؤ کا انتظام کرنا۔
میرے پیارے ہم وطنوں اور خاص کر کے میرے نوجوان ساتھیوں! آپ 21 جون کو برابر اب یاد رکھتےہیں، آپ ہی نہیں ، ہم ہی نہیں ساری دنیا 21 جون کو یاد رکھتے ہیں۔ پوری دنیا کے لیے 21 جون بین الاقوامی یوگ دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور یہ سب سے منظور ہو چکا ہے اور لوگ مہینوں پہلے تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ ان دنوں اطلاع مل رہی ہے، ساری دنیا میں 21 جون کو بین الاقوامی یوگ دن منانے کی پوری تیاریاں چل رہی ہیں۔ اتحاد کےلیے یوگا اور سماجی ہم آہنگی کا یہ وہ پیغام ہے، جو دنیا نے گزشتہ کچھ سالوں سے بار بار محسوس کیا ہے۔ ثقافت کے عظیم شاعر بھرتوہری نے صدیوں پہلے اپنے شتک تریم میں لکھا تھا –
دھیریم یسیا پِتا چھما چا جننی شانتی شچر گیہینی
ستیم سونوریم دیا چا بھگینی بھراتا منہ سنیم۔
شیّا بھومی تلم دیشوڈپی وسنم گیانامرتم بھوجنم
ایتے یسیہ کٹمبینہ ود سکھے کسماد بھیم یوگینہ۔
صدیوں پہلے یہ کہی گئی بات کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ مسلسل یوگا مشق کرنے پر کھ اچھے عادات رشتےداروں اور دوستوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔ یوگ کرنے سے قوت پیدا ہوتا ہے جو ہمیشہ ہی والد کی طرح ہماری حفاظت کرتا ہے۔ معافی کی عادت ہوتی ہے جیسا ماں کا اپنے بچوں کے لیے ہوتا ہے اور دماغی سکون ہماری مستقل دوست بن جاتی ہے۔ بھرتوہری نےکہا ہے کہ مسلسل یوگ کرنے سے سچائی ہماری اولاد، رحم ہماری بہن، خود کو کنٹرول کرنا ہمارا بھائی، خود زمین ہمارا بستر اور علم ہماری بھوک مٹانے والا بن جاتا ہے۔ جب اتنے سارے عادات کسی کے ساتھی بن جائیں تو یوگی سبھی طرح کے ڈر پر فتح حاصل کر لیتا ہے۔ ایک بار پھر میں سبھی ہم وطنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ یہ یوگ کی اپنی وراثت کو آگے بڑھائیں اور ایک صحت مند، خوشحال اور ہم آہنگی قوم کی تعمیر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنوں! آج 27 مئی ہے۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو جی کا یوم پیدائش ہے۔ میں پنڈت جی کو پرنام کرتا ہوں۔ اس مئی مہینے کی یاد ایک اور بات سے بھی جڑی ہے اور وہ ہے ویر ساورکر۔ 1857 میں یہ مئی کا ہی مہینہ تھا، جب ہندوستانیوں نے انگریزوں کو اپنی طاقت دکھائی تھی۔ ملک کے کئی حصوں میں ہمارے جوان اور کسان اپنی بہادری دکھاتےہوئے ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ دکھ کی بات ہے کہ ہم بہت لمبے وقت تک 1857 کے واقعوں کو صرف بغاوت یا سپاہی بغاوت کہتے رہے۔
حقیقت مین اس واقعہ کو نہ صرف کم کر کے آنکا گیا بلکہ یہ ہمارے ضمیر کو دھکا پہنچانے کی بھی ایک کوشش تھی۔ یہ ویر ساورکر ہی تھے، جنھوں نے نڈر ہوکر لکھا کہ 1857 میں کچھ بھی ہوا وہ کوئی بغاوت نہیں تھا بلکہ آزادی کی پہلی لڑائی تھی۔ ساورکر سمیت لندن کے انڈیا ہاؤس کے بہادروں نے اسکی 50ویں سالگرہ دھوم دھام سے منائی۔ یہ بھی ایک حیرت انگیز ہے کہ جس مہینے میں آزادی کا پہلا آزادی کی تحریک شروع ہوا، اسی مہینے میں ویر ساورکر جی کا جنم ہوا۔ ساورکر جی کی شخصیت خصوصیات سے بھری ہوئی ،ہتھیار اور نظریہ دونوں کے ماننے والے تھے۔ عام طور پر ویر ساورکر کو ان کی بہادری اور برٹش راج کے خلاف ان کے جدوجہد کے لیے جانتے ہیں لیکن ان سب کے علاوہ وہ ایک شاعر اور سماجی اصلاح کار بھی تھے، جنہوننے ہمیشہ یکجہتی اور بھائی چارے پر زور دیا۔ ساورکر جی کے بارے میں ایک حیرت انگیز واقعہ ہمارے پیارے معزز اٹل بہاری واجپئی جی نے کیا ہے۔ اٹل جی نے کہا تھا – ساورکر معنی تیز، ساورکر معنی وقف، ساورکر معنی تپ، ساورکر معنی تتو، ساورکر معنی ترک، ساورکر معنی عنصر، ساورکر معنی منطق، ساورکر معنی ہمدردی، ساورکر معنی تیر، ساورکر معنی تلوار۔کتنا سٹیک چترن کیا تھا اٹل جی نے۔ ساورکر کویتا اور کرانتی دونوں کو ساتھ لے کر چلے۔ حساس شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہادر تحریک داں بھی تھے۔
میرے پیارے بھائیوں بہنوں! میں ٹی وی پر ایک کہانی دیکھ رہا تھا۔ راجستھان کے سیکر کی کچّی بستیوں کی ہماری غریب بیٹیوں کی۔ ہماری یہ بیٹیاں، جو کبھی کچرا چننے سے لے کر گھر گھر مانگنے کو مجبور تھیں – آج وہ سلائی کا کام سیکھ کر غریبوں کو جسم ڈھکنے کے لیے کپڑے سل رہی ہیں۔ یہاں کی بیٹیاں، آج اپنے اور اپنے کنبے کے کپڑوں کے علاوہ عام سے لےکر اچھے کپڑے تک سل رہی ہیں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ ہنرمندی کی ترقی کا کورس بھی کر رہی ہیں۔ ہماری یہ بیٹیاں آج خود مختار بنی ہیں۔ عزت کے ساتھ اپنی زندگی جی رہی ہیں اور اپنے اپنے خاندان کے لیے ایک طاقت بن گئی ہیں۔ میں امید اور یقین سے کہتا ہوں کہ ہماری ان بیٹیوں کو ان کے روشن مستقبل کی مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے دکھایا ہے کہ اگر کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہو اور اس کے لیے آپ خود احتساب ہوں تو تمام مشکلوں کے درمیان بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ صرف سیکر کی بات نہیں ہے ہندوستان کے ہر کونے میں آپ کو یہ سب دیکھنے کو ملے گا۔ آپ کے پاس، پڑوس میں نظر ڈالیں گے تو ذہن میں آئے گا کہ لوگ کس طرح سے پریشانیوں کو شکست دیتے ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ جب بھی ہم کسی چائے کی دکان پر جاتے ہیں، وہاں کی چائے کا مزہ لیتے ہیں تو ساتھ کے کچھ لوگوں سے مباحثہ ، غور و فکر بھی ہوتی ہے۔
یہ مباحثہ سیاسی بھی ہوتی ہے، سماجی بھی ہوتی ہے، فلموں کی بھی ہوتی ہے، کھیل اور کھلاڑیوں کی بھی ہوتی ہے، ملک کے مسائل پر بھی ہوتی ہے – کہ ایسے مسائل ہے – اس کا حل ایسے ہوگا – یہ کرنا چاہیے لیکن اکثر یہ چیزیں صرف مباحثہ تک ہی سمٹ کر رہ جاتی ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو اپنے کاموں سے، اپنی محنت اور لگن سے تبدیلی لانے کی سمت میں آگے بڑھتے ہیں، اسے حقیقت کی شکل دیتے ہیں۔ دوسروں کے خوابوں کو اپنا بنا لینے والے اور انہیں پورا کرنے کے لیےخود کو لگا دینے کی کچھ ایسی ہی کہانی اڈیشہ کے کٹک شہر کے جھگی جھونپڑی میں رہنے والے ڈی پرکاش راؤ کی۔ کل ہی مجھے ڈی پرکاش راؤ سے ملنے کا موقع ملا۔ جناب ڈی پرکاش راؤ گزشتہ پانچ دہائیوں سے شہر میں چائے بیچ رہے ہیں۔ ایک معمولی سی چائے بیچنے والا، آج آپ جان کر حیران ہو جائیں گے 70 سے زیادہ بچوں کی زندگی میں تعلیم کی روشنی بھر رہا ہے۔
انہوں نے بستی اور جھگیوں میں رہنے والے بچوں کے لیے آشا آشواشن نام کا ایک اسکول کھولا۔ جس پر یہ غریب چائے والا اپنی آمدنی کا 50 فیصد رقم اسی میں خرچ کر دیتا ہے۔ وہ اسکول میں آنے والے سبھی بچوں کو تعلیم، صحت اور کھانے کا پورا انتظام کرتے ہیں۔ میں ڈی پرکاش راؤ کی کڑی محنت، ان کی لگن اور ان غریب بچوں کی زندگی کو نئی سمت دینے کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے ان کی زندگی کے اندھیرے کو ختم کر دیا ہے۔ تمسو ماجیوتی مرگمیہ یہ وید واکیہ کون نہیں جانتا ہے لیکن اس کو جی کر کے دکھایا ہے ڈی پرکاش راؤ نے۔ ان کی زنگی ہم سبھی کے لیے ، سماج اور پورے ملک کے لیے ایک ترغیب ہے۔ آپ کے بھی آس پاس میں ایسی تریب والا واقعہ کا سلسلہ وار ہوگا۔ بے حساب واقعات ہوں گی۔ آیئے ہم مثبت کو آگے بڑھائیں ۔
جون کے مہینے میں اتنی زیادہ گرمی ہوتی ہے کہ لوگ بارش کا انتظار کرتے ہیں اور اس امید میں آسامان میں بادلوں کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھتے ہیں۔ اب سے کچھ دنوں بعد لوگ چاند کا بھی انتظار کریں گے۔ چاند دکھائی دینے کا مطلب یہ ہے کہ عید منائی جا سکتی ہے۔ رمضان کے دوران ایک مہینے کے روزے کے بعد عید کا تہوار جشن کی شروعات ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سبھی لوگ عید کو پوری امنگ اور جوش و خروش سے منائیں گے۔ اس موقعے پر بچوں کو خاص طور پر اچھی عیدی بھی ملے گی۔ امید کرتا ہوں کہ عید کا تہوار ہمارے سماج میں یکجہتی کے رشتے کو اور مضبوطی دیں گے۔ سب کو بہت بہت مبارکباد۔
میرے پیارے ہم وطنوں! آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ پھر ایک بار اگلے مہینے من کی بات میں ملیں گے۔
एक टिप्पणी भेजें