یہ ایجنسی سب سے بڑے اور دشوار ترین معاملات کی نگرانی کرے گی اور سیاسی لحاظ سے سخت فیصلے لے گی تاکہ قرض کو گھٹا یا جاسکے
وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پارلیمنٹ میں اقتصادی جائزہ 2016-17 پیش کیا۔ اس جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ملک اپنی جڑواں بیلنس شیٹ (ٹی بی ایس) کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے یعنی اس کے تحت ضرورت سے زیادہ رعایت حاصل کرنے والی کمپنیوں اور قرض کے معاملے میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بینکوں کے معاملے کو زیر غور لایا گیا ہے جو عالمی مالی کساد بازاری کا ایک نتیجہ ہے۔ اب تک اس معاملے میں محدود کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پارلیمنٹ میں اقتصادی جائزہ 2016-17 پیش کیا۔ اس جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ملک اپنی جڑواں بیلنس شیٹ (ٹی بی ایس) کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے یعنی اس کے تحت ضرورت سے زیادہ رعایت حاصل کرنے والی کمپنیوں اور قرض کے معاملے میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بینکوں کے معاملے کو زیر غور لایا گیا ہے جو عالمی مالی کساد بازاری کا ایک نتیجہ ہے۔ اب تک اس معاملے میں محدود کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
یہ مسئلہ نتیجے کے طور پر پوری طرح حل نہیں ہوا ہے اور اب
بھی برقرار ہے۔ بینکنگ نظام کے تحت غیر منفعاد بخش اثاثے (این پی اے) اور
خصوصی طور پر سرکاری سیکٹر کے بینکوں کے معاملے میں یہ مسائل روز افزوں طور
پر سامنے آتے رہے ہیں اور قرض اور سرمایہ کاری کی شرح میں گراوٹ درج کی
جاتی رہی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ایک دوسرا طریقہ کار یعنی مرکزی ارتکاز
والی سرکاری دائرہ کار کی اثاثہ بازآبادکاری ایجنسی تشکیل دی جائے جو سب سے
بڑے اور پیچیدہ ترین معاملات کی نگرانی کرتے ہوئے قرض کو کم کرنے کے لئے
سیاسی طور پر سخت فیصلے لے سکے۔
سروے کے مطابق مجموعی این پی اے ستمبر 2016کے آخیر میں سرکاری دائرہ کار کے بینکوں کیلئے مجموعی پیشگی کا تقریباً 12 فیصد حصے تک بڑھ گئی ہے۔ اس سطح پر بھارت کا این پی اے تناسب کسی دیگر ابھرتی ہوئی منڈی کے مقابلے میں روس کے علاوہ سب سے زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بینکوں پر جو دباؤ پڑا ہے اس سے متاثر ہوکر بینکوں نے قرض کی نمو گھٹادی ہے۔ خاص طور پر صنعتی اور اوسط درجے کی صنعتی اکائیوں کیلئے قرض کی شرح نمو گزشتہ دو دہائیوں کے مقابلے میں سب سے کم سطح پر کردی ہے۔ اس کے نتیجے میں نجی اور مجموعی سرمایہ کاری میں منفی رجحانات دیکھے گئے ہیں اب اس صورت حال میں ٹی پی ایس کے ازحد سنگین ہونے سے پہلے پہلے ایک فیصلہ کن تصفیہ لازمی ہوگا۔
سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پی اے آر اے درج ذیل وجوہات کی بناپر ناگزیر ہوگا۔
• خستہ حال قرض کے مسئلے کے سلسلے میں سرکاری تبادلہ خیالات کے نتیجے میں بینک کی پونجی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے تاہم اس سے کہیں زیادہ پیچدہ مسئلہ ترجیحی طور پر قرض کے مسئلے سے نمٹنے کا ہے۔
• کچھ قرض کی ادائیگی کے مسائل فنڈکی منتقلی کی وجہ سے ابھرے ہیں۔ لیکن زیادہ تر مسائل عالمی مالی مندی کے نتیجے میں اقتصادی ماحول میں رونما ہونے والے غیر متوقعہ تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں نظام الاوقات، کم شرح مبادلہ اور شرح اضافہ کے تخمینوں میں بڑی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔
• اس کے ارتکاز کے نتیجے میں ایک چنوتی ابھر کر سامنے آئی ہے کیونکہ بڑے مسائل کو حل کرنامشکل ہوتا ہے اور ایسا موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے جب ٹی بی ایس کم تعداد کے معاملات کو حل کرنے میں الجھ کر رہ جاتی ہے اور اپنا کام نہیں کرپاتی۔ • دیگر معاملات میں جو انہیں درپیش آتے ہیں تال میل کی شدید کمی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر قرض دینے والوں سے بہت سے لوگوں نے قرض لے رکھے ہوتے ہیں جن کے مفادات الگ الگ ہوتے ہیں اور ایسے عناصر مالی اور سیاسی لحاظ سے قرض میں قابل ذکر تخفیف لاپانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی ن کو فروخت کرپاتے ہیں۔
• حکومت کی جانب سے لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ناقص قرض کے معاملات اسٹیٹ بینک کے توسط سے بڑھتے جاتے ہیں اور اس معیشت کی لاگت بڑھاتے ہیں۔ قرض کا راستہ روکتے ہیں اور اس طرح سے سرمایہ کاری کیلئے بھی سدباب ثابت ہوتے ہیں۔ • چونکہ نجی طور پر چلائی جانے والی اثاثہ بحالی کمپنیاں ناقص قرضوں کے مسئلے کو حل کرپائی ہیں اگرچہ ا س معاملے میں بین الاقوامی تجربہ خصوصا (مشرقی ایشیائی معیشتوں) کے معاملے میں یہ دکھاتا ہے۔ پیشہ ورانہ لحاظ سے چلائی جانے والی مرکزی ایجنسی جس میں گورنمنٹ کی بینکنگ شامل ہو وہ ان تمام تال میل اور سیاسی مسائل کو حل کرسکتی ہے جو گزشتہ 8 برسوں سے ترقی کا راستہ روکتے رہے ہیں۔
سروے کے مطابق مجموعی این پی اے ستمبر 2016کے آخیر میں سرکاری دائرہ کار کے بینکوں کیلئے مجموعی پیشگی کا تقریباً 12 فیصد حصے تک بڑھ گئی ہے۔ اس سطح پر بھارت کا این پی اے تناسب کسی دیگر ابھرتی ہوئی منڈی کے مقابلے میں روس کے علاوہ سب سے زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بینکوں پر جو دباؤ پڑا ہے اس سے متاثر ہوکر بینکوں نے قرض کی نمو گھٹادی ہے۔ خاص طور پر صنعتی اور اوسط درجے کی صنعتی اکائیوں کیلئے قرض کی شرح نمو گزشتہ دو دہائیوں کے مقابلے میں سب سے کم سطح پر کردی ہے۔ اس کے نتیجے میں نجی اور مجموعی سرمایہ کاری میں منفی رجحانات دیکھے گئے ہیں اب اس صورت حال میں ٹی پی ایس کے ازحد سنگین ہونے سے پہلے پہلے ایک فیصلہ کن تصفیہ لازمی ہوگا۔
سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پی اے آر اے درج ذیل وجوہات کی بناپر ناگزیر ہوگا۔
• خستہ حال قرض کے مسئلے کے سلسلے میں سرکاری تبادلہ خیالات کے نتیجے میں بینک کی پونجی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے تاہم اس سے کہیں زیادہ پیچدہ مسئلہ ترجیحی طور پر قرض کے مسئلے سے نمٹنے کا ہے۔
• کچھ قرض کی ادائیگی کے مسائل فنڈکی منتقلی کی وجہ سے ابھرے ہیں۔ لیکن زیادہ تر مسائل عالمی مالی مندی کے نتیجے میں اقتصادی ماحول میں رونما ہونے والے غیر متوقعہ تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں نظام الاوقات، کم شرح مبادلہ اور شرح اضافہ کے تخمینوں میں بڑی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔
• اس کے ارتکاز کے نتیجے میں ایک چنوتی ابھر کر سامنے آئی ہے کیونکہ بڑے مسائل کو حل کرنامشکل ہوتا ہے اور ایسا موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے جب ٹی بی ایس کم تعداد کے معاملات کو حل کرنے میں الجھ کر رہ جاتی ہے اور اپنا کام نہیں کرپاتی۔ • دیگر معاملات میں جو انہیں درپیش آتے ہیں تال میل کی شدید کمی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر قرض دینے والوں سے بہت سے لوگوں نے قرض لے رکھے ہوتے ہیں جن کے مفادات الگ الگ ہوتے ہیں اور ایسے عناصر مالی اور سیاسی لحاظ سے قرض میں قابل ذکر تخفیف لاپانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی ن کو فروخت کرپاتے ہیں۔
• حکومت کی جانب سے لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ناقص قرض کے معاملات اسٹیٹ بینک کے توسط سے بڑھتے جاتے ہیں اور اس معیشت کی لاگت بڑھاتے ہیں۔ قرض کا راستہ روکتے ہیں اور اس طرح سے سرمایہ کاری کیلئے بھی سدباب ثابت ہوتے ہیں۔ • چونکہ نجی طور پر چلائی جانے والی اثاثہ بحالی کمپنیاں ناقص قرضوں کے مسئلے کو حل کرپائی ہیں اگرچہ ا س معاملے میں بین الاقوامی تجربہ خصوصا (مشرقی ایشیائی معیشتوں) کے معاملے میں یہ دکھاتا ہے۔ پیشہ ورانہ لحاظ سے چلائی جانے والی مرکزی ایجنسی جس میں گورنمنٹ کی بینکنگ شامل ہو وہ ان تمام تال میل اور سیاسی مسائل کو حل کرسکتی ہے جو گزشتہ 8 برسوں سے ترقی کا راستہ روکتے رہے ہیں۔
एक टिप्पणी भेजें