نئی دہلی، 17-2016 کے اقتصادی جائزہ میں جسے آج پارلیمنٹ
میں وزیر خزانہ جناب ارون جیٹلی نے پیش کیا ہے ، آفاقی بنیادی آمدنی
(یو بی آئی ) کے نظریے کی حمایت کی گئی ہے جو انسداد غربت کے لئے مختلف
سماج و بہبودی کے اسکیموں کے لئے ایک متبادل ثابت ہوسکتی ہے۔ اس سروے
میں یو بی آئی اسکیم کے فوائد اور لاگتوں کو بابائے قوم مہاتما گاندھی
کے فلسفے کے پس منظر میں مدمقابل رکھ کر دیکھا گیا ہے۔
سروے میں کہا گیا
ہے کہ مہاتما گاندھی ایک بلند پایہ سیاسی مشاہد تھے اور انہیں بجا طور
پر یو بی آئی کے معاملے میں تشویشات لاحق ہوتیں کیونکہ وہ اسے سرکار
کی بہت ساری اسکیموں اور پروگراموں جیسا ایک پروگرام سمجھتے ہوں گے تاہم
متوازن نظریئے سے دیکھنے پر انہوں نے بھی یو بی آئی کی حمایت کی ہوتی ۔
سروے میں کہا گیا ہے یو بی آئی آفاقیت کے اصولوں پر مبنی، غیر مشروط ایجنسی کی شکل میں ہے اور نظریاتی لحاظ سے پرکشش تصور ہے جس میں نفاذ کے لحاظ سے متعدد چنوتیاں ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ دیگر اسکیموں کی طرح یہ محض ایک اسکیم بن کر رہ سکتی ہے جب کہ اسے سابق اسکیموں کی طرح ایک متبادل ثابت ہونا چاہئے اور رواں انسداد غربت اور سماجی پروگراموں کی جگہ لینی چاہے جو اسے مالی طور پر ناقابل قبول بناسکتے ہیں۔
چھٹویں سب سے بڑ ے مرکزی شعبے اور سینٹر کی جانب سے اسپانسر شدہ سب اسکیموں (پی ڈی ایس اور کیمیاوی کھادوں کی سبسڈی کو چھوڑ کر ) وسائل کے لئے نامناسب تخصیص کے سروے پر مبنی جن کا تعلق تمام اضلاع سے ہے ، اقتصادی جائزہ اشارہ کرتا ہے ایسے اضلاع جہاں ضروریات زیادہ ہیں، وہی اضلاع ہیں جہاں ریاست کی صلاحیت سب سے کمزور ہے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ غربا کی امداد کے لئے زیادہ موثر طریقہ اپنانا ہوگا اور وہ طریقہ یہ ہوگا کہ انہیں یو بی آئی کے ذریعہ وسائل فراہم کرائے جائیں۔
یو بی آئی کے کامیاب نفاذ کے لئے پیشگی شرطوں اور اصولوں کی تلاش کے معاملے میں سروے کا کہنا یہ ہے کہ یو بی آئی کو کامیاب طور سے نافذ کرنے کے لئے دو پیشگی شرطیں ہیں۔( اے) جے اے ایم (جن دھن آدھار موبائل) کے نظام کو عملی شکل دینا۔ کیونکہ اس کے توسط سے نقد منتقلی براہ راست استفادہ کنندہ کے کھاتے میں جاتی ہے۔ (بی) پروگرام کی لاگت برداشت کرنے کے معاملے میں مرکز- ریاست کے مابین گفت و شنید۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ ایک یوبی آئی جو غربت کو 0.5 فی صد تک کم کرتی ہے وہ اپنی لاگت کے لحاظ سے مجموعی گھریلو پیداوار کا 4-5 فی صد حصہ ہوگی۔ یہاں یہ مانا جاسکتا ہے کہ جو لوگ 25 فی صد آمدنی کے بریکٹ میں آتے ہوں گے ، و ہ اس میں شامل نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس موجودہ متوسط طبقے کی ترغیبات اور خوراک ، پیٹرولیم اور کیمیاوی کھادوں کی ترغیبات مجموعی گھریلو پیداوار کے مقابلے میں 3 فی صد کی لاگت کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔
سروے میں آخری بات یہ کہی گئی ہے کہ یو بی آئی ا یک مضبوط نظریہ ہے خواہ اس کے نفاذ کا وقت ابھی نہ آیا ہو ، اس پر سنجیدہ گفت و شنید کا وقت ضرور آگیا ہے۔
سروے میں کہا گیا ہے یو بی آئی آفاقیت کے اصولوں پر مبنی، غیر مشروط ایجنسی کی شکل میں ہے اور نظریاتی لحاظ سے پرکشش تصور ہے جس میں نفاذ کے لحاظ سے متعدد چنوتیاں ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ دیگر اسکیموں کی طرح یہ محض ایک اسکیم بن کر رہ سکتی ہے جب کہ اسے سابق اسکیموں کی طرح ایک متبادل ثابت ہونا چاہئے اور رواں انسداد غربت اور سماجی پروگراموں کی جگہ لینی چاہے جو اسے مالی طور پر ناقابل قبول بناسکتے ہیں۔
چھٹویں سب سے بڑ ے مرکزی شعبے اور سینٹر کی جانب سے اسپانسر شدہ سب اسکیموں (پی ڈی ایس اور کیمیاوی کھادوں کی سبسڈی کو چھوڑ کر ) وسائل کے لئے نامناسب تخصیص کے سروے پر مبنی جن کا تعلق تمام اضلاع سے ہے ، اقتصادی جائزہ اشارہ کرتا ہے ایسے اضلاع جہاں ضروریات زیادہ ہیں، وہی اضلاع ہیں جہاں ریاست کی صلاحیت سب سے کمزور ہے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ غربا کی امداد کے لئے زیادہ موثر طریقہ اپنانا ہوگا اور وہ طریقہ یہ ہوگا کہ انہیں یو بی آئی کے ذریعہ وسائل فراہم کرائے جائیں۔
یو بی آئی کے کامیاب نفاذ کے لئے پیشگی شرطوں اور اصولوں کی تلاش کے معاملے میں سروے کا کہنا یہ ہے کہ یو بی آئی کو کامیاب طور سے نافذ کرنے کے لئے دو پیشگی شرطیں ہیں۔( اے) جے اے ایم (جن دھن آدھار موبائل) کے نظام کو عملی شکل دینا۔ کیونکہ اس کے توسط سے نقد منتقلی براہ راست استفادہ کنندہ کے کھاتے میں جاتی ہے۔ (بی) پروگرام کی لاگت برداشت کرنے کے معاملے میں مرکز- ریاست کے مابین گفت و شنید۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ ایک یوبی آئی جو غربت کو 0.5 فی صد تک کم کرتی ہے وہ اپنی لاگت کے لحاظ سے مجموعی گھریلو پیداوار کا 4-5 فی صد حصہ ہوگی۔ یہاں یہ مانا جاسکتا ہے کہ جو لوگ 25 فی صد آمدنی کے بریکٹ میں آتے ہوں گے ، و ہ اس میں شامل نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس موجودہ متوسط طبقے کی ترغیبات اور خوراک ، پیٹرولیم اور کیمیاوی کھادوں کی ترغیبات مجموعی گھریلو پیداوار کے مقابلے میں 3 فی صد کی لاگت کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔
سروے میں آخری بات یہ کہی گئی ہے کہ یو بی آئی ا یک مضبوط نظریہ ہے خواہ اس کے نفاذ کا وقت ابھی نہ آیا ہو ، اس پر سنجیدہ گفت و شنید کا وقت ضرور آگیا ہے۔
एक टिप्पणी भेजें