نئی دہلی/ داخلی ا مور کے وزیرمملکت ہنس راج گنگا رام اہیر نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا کہ حکومت ہند نے 17 نومبر 2016 کو ایک نوٹیفکیشن ایس او 3460 (ای) کے ذریعہ ا سلامک ریسرچ فاؤنڈیشن(آئی آر ایف) کو غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون 1967کے تحت ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیا تھا۔کیونکہ آئی آر ایف اور اس کے ارکان خاص طور پر مذکورہ تنظیم کے بانی اور صدر ڈاکٹر ذاکر نائک مختلف مذہبی فرقوں اور گروپوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کے جذبے کو فرو غ دینے یا اس طرح کی کوششوں کو فروغ دینے کے لئے اپنے حامیوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کرتے رہے ہیں۔
19 مئی 2017 کو انٹر پول کو ریڈ کارنر نوٹس جاری کرنے کے لئے ایک درخواست بھیجی گئی تھی۔ 10اگست 2017 کو اور 6 اکتوبر 2017 کو انٹر پول کے ذریعہ طلب کردہ وضاحتیں بھی پیش کی گئی تھیں۔البتہ24 سے 27 دسمبر 2017 کو انٹر پول کمیشن کے 102 ویں اجلاس کے دوران انٹر پول نے بتایا تھا کہ پروسیڈینک(کارروائی) کے اس مرحلے میں ذاکر نائک کی حوالگی کے مقصد سے اس کی گرفتاری کے لئے ریڈ کارنر نوٹس کا جاری ہونا قبل از وقت تھا۔کیونکہ انٹر پول کو ریڈ کارنر نوٹس کے لئے اصل درخواست کے بھیجنے تک چارج شیٹ دائر نہیں کی گئی تھی۔مذکورہ انٹر پول کی رائے کی پیش نظر 24 نومبر 2017 کو ذاکر عبدالکریم نائک کے خلاف آئی ڈی کورٹ کے ذریعہ ایک تازہ وارنٹ جاری کیا گیا اور 3 جنوری 2018کو انٹر پول کو ریڈ کارنر نوٹس کی ا یک تازہ درخواست بھیجی گئی تھی۔ انٹر پول سے اب تک کوئی مزید اطلاع نہیں موصول ہوئی ہے۔
ذاکر عبدالکریم نائک کے معاملے میں عبوری گرفتاری کی درخواست اور حوالگی کی درخواست 19 جنوری2018 کو حکومت ملیشیا کی وزارت خارجہ کو بھیجی گئی تھی۔
एक टिप्पणी भेजें