سال 2017-18 کی کل غذائی اجناس کی پیداوار ہدف سے کم 273 ملین ٹن رہے گی
نئی دہلی، زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر رادھا موہن سنگھ نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کسانوں کی فلاح و بہبود کے مقصد سے زراعت کے شعبے کے لئے سب سے زیادہ رقم مختص کرکے زرعی شعبے کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔ مرکزی حکومت کا ہدف ہے کہ فصل کی پیداوری صلاحیت میں اور اضافہ ہو، کسانوں کی پیداوار کا مناسب تعین ہو اور ڈیری / مویشی پروری / ماہی پروری کی ترقی وغیرہ پر زور دیتے ہوئے زرعی تعلیم، تحقیق اور توسیع کے نظام کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔
سنگھ نے یہ بات نئی دہلی میں منعقدہ خریف مہم 2017 سے متعلق دو روزہ قومی زرعی کانفرنس میں کہی۔ اس موقع پر وزیر جناب پرشوتم روپالا، جناب سدرشن بھگت اور زراعت کی وزارت کے سینئر افسران بھی موجود تھے۔
سنگھ نے اس موقع پر کہا کہ سال 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے وزارت زراعت کی جانب سے سبھی ریاستی حکومتوں کو خط لکھا گیا ہے کہ وہ اس سمت میں ایک بامعنی حکمت عملی پر کام کریں۔ حکمت عملی بناتے وقت انہیں زرعی پیداوار سے لے کر، ان سے تیار کی جانے والی ڈبہ بند مصنوعات تک کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔
مرکزی وزیر زراعت نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے کسانوں کے لئے مرکزی حکومت نے کئی منصوبے اور پروگرام شروع کئے ہیں۔ وزیراعظم زرعی آبپاشی منصوبہ، وزیراعظم فصل بیمہ منصوبہ، مٹی صحت منصوبہ ، روایتی زرعی ترقیات منصوبہ، ای۔ قومی زرعی مارکیٹ اسکیمیں، قومی ایگرو فوریسٹری (میڈ پر درخت)، نیم کی پرت والا یوریا کچھ ایسے ہی خصوصی پروگرام ہیں۔ دودھ کی پیداوار اور پیداواریت میں اضافہ کے لئے قومی گوکل مشن کا آغاز کیا گیا ہے۔ نیلے انقلاب کے تحت ان لینڈ ماہی پروری (سمندرکے علاوہ ندیوں ، تالابوں وغیرہ میں ماہی پروری) پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ ان پروگراموں کے ذریعے زرعی پیداوار اور کسانوں کی آمدنی کو بہتر بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے سب کو پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ جناب سنگھ نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ اس سال زراعت اور اس سے متعلقہ شعبوں کی ہدف شدہ سالانہ ترقی کی شرح تقریباً 4 فیصد رہی ہے۔ زرعی کمیونٹی کو ہر ممکن فائدہ پہنچانے کے مقصد سے زراعت اور کسانوں بہبود کی وزارت کی مختلف اسکیموں کو خصوصی مشنوں، اسکیموں اور پروگراموں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز/متعلقین کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے 2016۔17 کے دوران دوسرے پیشگی اندازے کے مطابق ملک میں کل غذائی اجناس کی پیداوار تقریباً 271.98 ملين ٹن متوقع ہے جو سال 2015۔16 کے مقابلے میں 8.11 فیصد زیادہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ غذائی اجناس کی یہ پیداوار گزشتہ 5 سالوں کی اوسط پیداوار سے بھی 5.82 فیصد زیادہ ہے۔ سال 2013۔14 میں غذائی اجناس کی ریکارڈ پیداوار ہوئی تھی۔ اس برس اناج کی پیداوار سال 2013۔14 کی اناج کی پیداوار سے 2.61 فیصد زیادہ ہے۔
سنگھ نے کہا کہ زرعی کو آپریٹیو اور کسانوں کی بہبود کے محکمہ کی طرف سے مختلف فصلوں کی پیداوار اور پیداوار یت میں اضافہ کے لئے چلائی گئی مختلف اسکیموں۔ نیشنل فوڈ سیکورٹی مشن (این ایف ایس ایم)، قومی باغبانی مشن (این ایچ ایم)، قومی زرعی ترقیاتی منصوبہ (آر کے وی وائی)، قومی زرعی توسیع و ٹیکنالوجی اور فوائد کی براہ راست منتقلی منصوبہ (ڈی بی ٹی) وغیرہ کا فائدہ کسانوں کو ملنے لگا ہے۔
مرکزی وزیر زراعت نے کہا کہ وزارت زراعت کی ایک اہم اسکیم۔ نیشنل فوڈ سیکورٹی مشن (این ایف ایس ایم) میں چاول، گندم، دالیں، موٹے اناج اور کئی طرح کی نقدی فصلیں شامل ہیں۔ موجودہ حکومت کے وجود میں آنے کے قبل اس اسکیم کا نفاذ 19 ریاستوں کے 482 اضلاع میں ہو رہا تھا۔ این ڈی اے حکومت کے آنے کے بعد سال 2015۔16 سےاین ایف ایس ایم کا نفاذ 29 ریاستوں کے 638 اضلاع میں کر دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ تقریبا 2.70 لاکھ ہیکٹر علاقے میں نامیاتی باغبانی ہو رہی ہے۔ قومی زرعی ترقیاتی اسکیم یاآر کے وی وائی کا ہدف زراعت اور اس سے متعلقہ شعبوں کی جامع ترقی کو یقینی بناتے ہوئے ہوئے 12 ویں منصوبہ مدت کے دوران سالانہ ترقی حاصل کرنا اور اسے برقرار رکھنا ہے۔ جناب رادھا موہن سنگھ نے بتایا کہ وزارت زراعت تلہنی فصلوں کی پیداوار اور پیداوریت پر زیادہ زور دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پھلوں، سبزیوں اور باغبانی فصلوں پر بھی حکومت یکساں طور پر زور دے رہی ہے۔ حکومت بیجوں کے معیار اور دستیابی دونوں پر پوری توجہ دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ بیج مشن بھی شروع کیا گیا ہے جس کے تحت بیج پروسیسنگ، بیج اسٹوریج، بیجوں کے معیار کو بہتر بنانا، ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے بیجوں کا ذخیرہ وغیرہ کاموں کے لئے امداد فراہم کی جارہی ہے۔
سنگھ نے کہا کہ حکومت اہم زرعی اجناس کے لئے کم از کم امدادی قیمت کا اعلان کرکے کسانوں کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ ہماری قیمت پالیسی میں معیشت کی مجموعی ضرورتوں کے تناظر میں متوازن اور مربوط قیمت سے متعلق ڈھانچہ تیار کرنے کا بندوبست ہے۔
مرکزی نوڈل ایجنسیاں جیسےایف سی آئی، سی سی آئی، جے سی آئی، این اے ایف ای ڈی،ایس ایف اے سی وغیرہ اس مقصد سے خرید کا کام شروع کرنے کے لئے منڈیوں میں مداخلت کرتی ہے کہ بازار کی قیمت حکومت کی ذریعہ مقرر ایم ایس پی سے نیچے نہ گرے۔ اگر کسی زرعی جنس جس کی کم از کم امدادی قیمت کا اعلان نہیں ہو ا ہو ،اگربازار کی وجوہات سے جنس کی قیمت گرجاتی ہے تو مرکزی حکومت مارکیٹ مداخلت کی اسکیم (ایم آئی ایس) کے ذریعے کسانوں کے لئے منافع بخش قیمت کو یقینی بناتی ہے۔
سال 2014۔15 سے سال 2016۔17 تک حکومت ہند کی طرف سے اترپردیش، آندھرا پردیش، کرناٹک، تلنگانہ، تمل ناڈو، اروناچل پردیش، ہماچل پردیش، میزورم، ناگالینڈ ریاستوں میں مرچ، سیب، ادرک، آلو، آئل پام، انگور، پیاز، سپاری وغیرہ کی خریداری ابھی تک کسانوں کے مفاد میں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی اجناس کی قیمت میں انتہائی تیزی یا کمی کے سبب نہ صرف صارفین کو بلکہ کسانوں کو بھی کافی نقصان ہوتا ہے۔ حکومت نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے 500 کروڑ روپے کی رقم سے قیمت استحکام فنڈ کی شروعات کی تھی جو، اب بڑھ کر 1500 کروڑ روپے ہو گئی ہے۔
دالوں کی بڑھتی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لئے 40،000 میٹرك ٹن دالیں مختلف ریاستوں کو ان کی درخواست پر دستیاب کرائی گئی ہیں اور 20 لاکھ میٹرك ٹن دالوں کی خریداری بفر اسٹاک کے طور پر کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی، 20،000 میٹرك ٹن پیاز کی خریداری بفر اسٹاك کے طور پر کی جا چکی ہے۔
رادھا موہن سنگھ نے کہا کہ اب جلد ہی خریف کا موسم آنے والا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ ریاستی حکومتیں وقت رہتے فصلوں کی مطلوبہ اقسام کے معیاری بیجوں کی کافی مقدار میں خریداری اور کسانوں کے لئے کھاد کی کافی مقدار کا اسٹاک کرنے کے لئے منصوبہ بنائیں۔
ریاستی حکومت کے ذریعہ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ بوائی کے موسم کے دوران ان پٹ کی کوئی کمی نہ ہو۔ کسانوں کو فصل بیمہ کا فائدہ دینے کے لئے سابقہ بیمہ اسکیموں کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے حکومت نے وزیر اعظم فصل بیمہ اسکیم خریف، 2016 موسم سے شروع کی ہے۔ اس کے تحت فصل کی بوائی کے قبل سے لے کر کٹائی کے بعد تک ہوئے نقصان کے لئے وسیع بیمہ تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ حکومت نے مٹی کی صحت کے نقطہ نظر سوائل ہیلتھ کارڈ اسکیم کا آغاز کیا ہے۔
نامیاتی کاشتکاری اور پائیدار زراعت کو فروغ دینے کے لئے روایتی زعی ترقیاتی اسکیم نامی نئی اسکیم شروع کی گئی۔ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کے پیش نظر حکومت کے ذریعہ سے ایگرو فاریسٹری اور شہد کی مکھی پالنے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ آخر میں رادھا موہن سنگھ نے سبھی ریاستی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ فنڈز کے خوش اسلوبی کے ساتھ بروقت فراہمی کے لئے خصوصی کوششیں کریں تاکہ وقت پر مجوزہ کاموں کو شروع کرنے کے لئے بہت پہلے ہی کسانوں کو فنڈز مل جائیں۔ جناب سنگھ نے ریاستی حکومتوں سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ اپنے طریقہ کار میں شفافیت لائیں۔
اس کانفرنس میں گزشتہ برس کی فصلوں کی پیداوار، آئندہ خریف کی فصل کی پیداوار میں اضافہ، مختلف ریاستی حکومتوں کے صلاح و مشورے سے فصل وار پیداوار کے اہداف کا تعین کرنے، بوائی شروع ہونے سے پہلے ضروری ان پٹ کی دستیابی کو یقینی بنانے اور زرعی شعبے میں نئی ٹیکنالوجی اور اختراعات کے استعمال اور نفاذ پر تبادلہ خیال ہوگا۔