نئی دہلی، زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکز وزیر رادھا موہن سنگھ نے کہا کہ گاندھی جی کی قیادت میں لڑی جانے والی انگریزوں کی ناانصافی اور ظلم کے خلاف کسانوں کی پرامن جنگ کی انسانی تہذیب کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ہے ۔ وزیر زراعت نے چمپارن میں قومی کسان میلہ سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی ۔
انہوں نے کہا مزید کہا کہ معصوم اور نہتے کسانوں نے انگریزوں کے ظلم وزیادتی ، استحصال اور بھتہ خوری کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور ستیہ گرہ کے ذریعہ اس نظام کو ختم کرنے کے لیے مجبور کیا ۔
وزیر موصوف نے کہا کہ نیلے انگریزوں نے ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ زرخیز زمین ضبط کر لی اور وہاں اپنی کوٹھیاں بنالی۔ کھرکی اور تین کٹھیا نظاموں کے تحت نیلے انگریزوں کے ذریعہ مختلف انداز میں کسانوں کے ساتھ ظلم و استحصال ہو رہا تھا۔ کھرکی نظام کے تحت انگریز باغبان کسانوں (رعیت) کو ان کی زمین اور گھر گروی رکھ کر کچھ پیسے دیا کرتے تھےاور انہیں نیل کی کھیتی کے لیے مجبور کرتے تھے ۔
وزیر موصوف نے کہا کہ انگریزی حکومت اور زمینداروں نے ’’تین کٹھیا‘‘ نظام قائم کیا تھا جس کے تحت ایک بیگھا میں سے تین کٹھا زمین نیل کی کھیتی کے لیے محفوظ رکھی جاتی تھی ۔ نیل کی کھیتی کا خرچ کسانوں کو برداشت کرنا پڑتا تھا اور کسانوں کو اجرت دیے بغیر انگریز ان کی پیداوار ا اپنے پاس رکھ لیا کرتے تھے ۔ یہی نہیں بلکہ ان پر مختلف قسم کے ٹیکس لگاکر ان کا استحصال بھی کرتے تھے۔ زمین سے محروم ہزاروں مزدور وں اور کسانوں کو دوسرے فصل کی جگہ نیل کی کھیتی کے لیے مجبور کیا جاتا تھا ۔
گاندھی جی 15 اپریل 1917 میں موتیہاری پہنچے ۔ دوسرے دن جب گاندھی جی چمپارن روانہ ہونے کے لیے تیار تھے ، انہیں موتیہاری کے ایس ڈی او کے سامنے پیش ہونے کے لیے حکومت کا آرڈر موصول ہوا ۔
اس آرڈر میں یہ بھی لکھا تھا کہ گاندھی جی فوراً علاقہ کو چھوڑ دیں اور کہیں اور چلے جائیں۔ لیکن گاندھی جی نے اس آرڈر کو ماننے سے انکار کردیا اور چمپارن کا اپنا سفر جاری رکھا ۔ آرڈر کی خلاف ورزی کے پاداش میں ان پر مقدمہ چلایا گیا ۔ چمپارن پہنچ کر گاندھی جی نے ضلع کلکٹر کو تحریری طور پر اطلاع دی کہ جب تک نیل کی کھیتی سے متعلق امور کا جائزہ لیا جاتا وہ چمپارن نہیں چھوڑیں گے ۔
اس طرح گاندھی جی سول نافرمانی تحریک کی ایک روشن مثال پیش کی ۔ گاندھی جی نے حکومت کو ایسا تاثر دیا کہ انہوں نے گاندھی جی کو پورا تعاون دینے کا یقین دلایا۔ بابو راجندر پرساد، اچاریہ جے پی کرپلانی ، بابو برج کشور پرساد اور مولانا مظہر الحق چمپارن کے کسانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے گاندھی جی کے ساتھ تھے ۔
وزیر زراعت نے کہا کہ 1907 میں شیخ گلاب اور سیتل رائے نے نیل کی کھیتی کے خلاف آواز بلند کی تھی ۔ تاہم گاندھی جی نے کسانوں کے استحصال کو آزادی کی تحریک کا حصہ بنا دیا اور انگریزوں کے خلاف بغاوت کی ترغیب دی ۔ گاندھی جی کی ستیہ گرہ تحریک نے نیل کی کھیتی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوئی اور اس کے بعد کسانوں نے اپنے کھیتوں میں گنّا اور دھان کی کھیتی شروع کی ۔
एक टिप्पणी भेजें