نئی دہلی، عالمی یوم ماحولیات -2018 تقریبات جن کی میزبانی ہندوستان کر رہا ہے یہاں نئی دہلی کے وگیان بھون میں آغاز ہوا۔ کُل تین موضوعات پر اجلاس منعقد کئے جائیں گے۔ افتتاحی اجلاس میں پلاسٹک آلودگی کے مینجمنٹ پر توجہ مرکوز کی گئی، جواس سال کے یوم ماحولیات کے موضوع یا تھیم ‘‘پلاسٹک آلودگی بند کرو’’ کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
اس موقع پر اپنے خصوصی خطاب میں ماحولیات، جنگلات اور تبدیلیٔ آب و ہوا کے وزیر مملکت، ڈاکٹر مہیش شرما نے کہا کہ واحد استعمال کے لئے پلاسٹک استعمال کو کم کرنے اور دوبارہ استعمال کر نے پر عوامی بیداری پیدا کرنا اور خصوصی طور پر نوجوانوں میں اس کے تئیں بیداری پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی آلودگی سے اس وقت تک نہیں نپٹا جا سکتا ہے، جب تک کہ تمام شراکت دار پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے سے متعلق نظریئے سے اتفاق نہ کریں۔ پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے میں ایکسٹینڈڈ پروسیجر ریسپونسبلٹی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وزیر موصوف نے پلاسٹک کے دوبارہ استعمال اور ری سائیکل کے لئے منظم شعبے سے آگے بڑھ کر کام کرنے کی اپیل کی۔
اس موقع پر ماحولیات، جنگلات اور تبدیلی آب و ہوا کے سکریٹری سی کے مشرا نے کہا کہ پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے میں انفرادی طور پر نیز اجتماعی طور پر خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ واحد پلاسٹک کے استعمال کو ‘‘ نا’’ کہا جائے۔
مہمانانِ خصوصی کے طور پر مدعو ہاؤسنگ اور شہری امور کے وزیر جناب درگا شنکر مشر نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ واحد پلاسٹک کا استعمال تشویش کا باعث ہے، کیونکہ یہ اپنے آپ ختم (نان-بایو ڈی گریڈیبل) نہیں ہے۔ گزشتہ دہائی میں پلاسٹک پروڈیوس، پورے ملک میں پیدا پلاسٹک سے کہیں زیادہ ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان میں یوروپین یونین ( ای یو) کے سفیر جناب توماکوزلوسکی نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے ماحولیاتی معاملات پر ہندوستانی قیادت کے رول کی ستائش کی۔ ‘‘ پلاگنگ’’ (پلاسٹک کچرے کو اٹھانا اور چلنا)نظریئے پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ بہت سی یوروپی ممالک پلاسٹک آلودگی کم کرنے کے لئے اس کا استعمال کر رہے ہیں ۔ یہ کافی مقبول ہے اور دیگر ملک بھی اسے اپنا سکتے ہیں۔
ہمالیائی ایکوسسٹم پر موضوعاتی اجلاس:
ہمالیائی ایکوسسٹم پر موضوعاتی اجلاس کی صدارت ایم او ای ایف اینڈ سی سی کے ڈائریکٹر جنرل اور خصوصی سکریٹری جناب سدھانت داس نے کی۔
تبدیلی لانے والے :ہمالیائی ریاستوں کے لئے کوڑے کرکٹ سے مبرا ویژن، تجربات کا باہم ساجھا کرنا-ہمالیائی خطے میں کامیابی کی کہانیاں، ہمالیائی معیشت حیوانات کے نظام کی ہمہ گیری سے متعلق قومی مشن (این ایم ایس ایچ ای) ہمالیائی مطالعات سے متعلق قومی مشن اور فضلہ انتظامات سے متعلق سرگرمیاں۔
کیلاش لینڈاسکیپ کے کور زون میں فضلہ انتظامات سے متعلق الگ الگ موضوعات کے مطالعات ، فضلہ ٹھکانے لگانے والے کارکنان اور جنگلوں میں بسنے والے افراد کے ذریعے اس کام کی انجام دہی یعنی وَن راجیوں کو کیلاش لینڈ اسکیپ میں کس طرح کام میں لگایا جائے ، تجربات ساجھا کئے گئے۔ ٹھوس فضلہ انتظام سے وابستہ چنوتیاں، جن ہمالیائی لینڈ اسکیپ میں پلاسٹک کا مسئلہ اور اس خطے میں اپنائے جانے والے طریقہ ہائے کار، جو ہمالیائی اور ہمالیائی علاقوں میں کوئی راستہ بنا سکتے ہیں، تمام موضوعات کو نمایاں کیا گیا۔ ہمالیائی علاقوں سے جو سبق حاصل ہوئے، نیز ایکو نظام پر مبنی مختلف النوع تجربات ، جو پہاڑوں کے معیشت حیوانات کے نظام سے مربوط ہیں اور بھارت اور نیپال میں پڑنے والے ہمالیائی علاقے دونوں جگہوں پر جو بھی طریقہ ہائے کار اپنائے جا سکتے ہیں، تمام نکات پر بات چیت ہوئی۔ 1990 سے آج تک لینڈ اسکیپ کے تحفظ کے لئے جو اقدامات کئے گئے ہیں اور لوگوں کو اس کے تئیں بیدار کرنے اور نظریات میں تبدیلی لانے کے سلسلے میں جو کارروائی کی گئی ہے اور جن کا تعلق لینڈ اسکیپ پر مبنی طول البلد سے ہے، ان سب پر احاطہ کیا گیا ہے۔
ہمالیائی مطالعات سے متعلق قومی مشن (این ایم ایچ ایس) کے جائزے کا کام ، جس کا مقصد معیشت حیوانات، قدرتی، ثقافتی، سماجی اور اقتصادی اہم اثاثوں اور ہمالیائی خطے کی اقدار کی حفاظت ہے، انہیں بھی جاری پروجیکٹوں کے ساتھ زیر بحث لایا گیا، ان میں جھرنوں کو ازسرنو زندہ کرنا یا ان کی بحالی، آبی تحفظ اور انتظام، دریائے طاس سے پانی کی چھنائی، موسمیاتی تبدیلی، روزی روٹی کے لئے امداد، قدرتی باغات کا احیاء، صنوبر کا درخت اور اس کی شاخوں وغیرہ کا استعمال ، انسان اور جنگلی جانور کے مابین ہونے والے تصادم کا حل، توانائی کے متبادل کی تلاش، ادویہ جاتی پودوں کا تحفظ اور ٹھوس فضلہ انتظام پر بھی احاطہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ مائیکرو حیاتیاتی کمپوسٹنگ یعنی درختوں کے پتوں وغیرہ کو سڑا کر کھاد بنانے کے پہلو پر بھی بات چیت ہوئی تاکہ حیاتیاتی لحاظ سے جزوے خاک ہو جانے والے فضلے کو ہمہ گیر طورپر بروئے کار لایا جا سکے۔ اسے علیحدہ کر کے کام میں لایا جا سکتا ہے۔ پلاسٹک کے فضلے کا انتظام اور اس سے متعلق اختراعاتی طریقہ کار پر اس اجلاس کے دوران بات چیت ہوئی اور یہ غوروفکر کیا گیا کہ پلاسٹک سے گریفین اور گریفین آکسائڈ کس طرح علیحدہ کی جائے۔
پہاڑی ریاستوں کے لئے ہمہ گیر فضلہ انتظامات کے موضوع پر کلیدی خطبہ رکن پارلیمنٹ (لوک سبھا)، سکم جناب پریم داس نے دیا۔ ہنرمندی ترقیات وزارت کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر جیوتسنا سِتلنگ اور ایف اے او کے نمائندگان جناب شیام کھڑکا بھی ہمالیائی معیشت حیوانات نظام کے افتتاحی اجلاس میں موجود تھے۔
ہوائی کثافت پر موضوعاتی اجلاس:
‘‘ بھارتی شہروں میں ہوائی کثافت –موجودہ حالت اور مستقبل کا لائحہ عمل’’ کے موضوع پر ایک دیگر اجلاس بھی معنقد ہوا، اس موقع پر ماحولیات و جنگلات اور سی سی کے سکریٹری جناب سی کے مشرا نے کہا کہ صحیح اور لائق تفہیم علم، جو معیار بند آلے کے ذریعے ایک طے شدہ اور صحیح طریقے سے متعین کئے گئے پیمانوں کے مطابق وجود میں آتا ہے اور بروئے کار لایا جاتا ہے، اس کی مدد سے کثافت کے پس پشت کارفرما تمام تر امور سے نمٹا جا سکتا ہے اور یہ صحت سے وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس علم سے ہمیں یہ روشنی ملتی ہے کہ بطور معاشرہ ہم جس طرح سےاپنا انداز حیات اپنائے ہوئے ہیں، اس میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز ہمہ گیر پیمانوں پر پوری نہیں اترتی نہ ہی کھپت اور پیداوار کے لحاظ سے اس کے ساتھ کوئی تال میل بن سکا ہے۔ حکومت اس مسئلے کو عوامی تحریک کے بغیر حل نہیں کر سکتی۔ جناب مشرا نے زور دے کر کہا کہ پارٹیکولیٹ میٹر، موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں اور صنعتی کثافت کو ختم کرنے کے لئے عوام کا مثبت تعاؤن ضروری ہے اور اسے حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے شانہ بہ شانہ آنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ قومی صاف ستھری فضا سے متعلق پروگرام کی کامیابی ہماری صحتی بقا کے لئے از حد اہم ہے۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے زرعی تحقیق و تعلیم (ڈی اے آر ای) کے محکمے کے سکریٹری جناب ترلوچن مہاپاترا نے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ٹیکنالوجی میں جو نشو نما ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں فصل کٹنے کے بعد فصل کے باقیات بڑی مقدار میں بچ جاتے ہیں اور کاشتکاروں کواس زرعی فضلے یا باقیات کو جلانے کے لئے بطور ایندھن استعمال کرنا بہت آسان ہوتا ہے، جس سے فضا میں زبردست کثافت پھیلتی ہے اور شہریوں کی صحت پر برعکس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اپنی دلیل کے ثبوت میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ دو برسوں کے دوران ہوائی کثافت جو فصلوں کے باقیات جلانے کے نتیجے میں پھیلتی ہے، اس کے نتیجے سے نمٹنے کے لئے حکومت نے 1200 کروڑ روپے صرف کئے ہیں۔ حکومت بھوسے سے متعلق انتظامات کے نظام کے لئے مشترکہ ٹیکنالوجی اختراعاتی امور کے لئے 80فیصد سبسڈی اور ہیپی سیڈر فراہم کر رہی ہے۔ جناب مہاپاترا نے کہا کہ بھوسے کے انتظام کا نظام ، جب کمبائنڈ ہارویسٹر سے مربوط ہوجاتا ہے، تواس کے نتیجے میں بھوسہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بچ جاتا ہے اور اسے ہریالی سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ یہ بھوسہ واپس مٹی میں چلا جاتا ہے، جس سے مٹی کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے اور اس میں نمی روکنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور گھاس وغیرہ نہیں اگتی۔ جناب مہاپاترا نے تجویز پیش کی کہ بھوسے کا استعمال حیاتیاتی تیل، حیاتیاتی ایتھنول، کمپوسٹ یا ڈَلوں کی شکل میں توانائی کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سپلائی چین سے وابستہ جو چنوتیاں ہیں، ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان ثانوی ویلیو چین کے نظام کو وضع کرنا ضروری ہے، جو فضلے سے وضع ہو سکتے ہیں، یہ ایک بڑی چنوتی ہے، جو ابھی بھی توجہ طلب ہے۔
حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ماحولیات و جنگلات اور سی سی کے ایڈیشنل سکریٹری جناب اے کے مہتا نے اشارہ کیا کہ کچھ بے باک قدم اور فیصلے اٹھائے گئے ہیں، جن کے تحت بی ایس سِکس معیارات اپنائے گئے ہیں اور ان کے ذریعے دخل اندازی کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں اس طرح فصلوں کے باقیات جلانے کے واقعات کم ہوئے ہیں اور 61 شہروں سے متعلق امور کے معاملے میں ایک منصوبۂ عمل تیار کیا گیا ہے اور حسب ضرورت قدم اٹھائے گئے ہیں، اس منصوبے کے تحت یہ ضروری ہے کہ جو کچھ بھی لائحہ عمل وضع کیا گیا ہے، اسے جلد از جلد بروئے کار لایا جائے۔ جناب مہتا نے کہا کہ ہوائی کثافت کی روک تھام میں مقامی کارروائی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ٹیکنالوجی کو کرہ ارض کے گرد قائم ہوائی مدار کو صاف ستھرا بنانے میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔
پے ٹیم کے بانی جناب وجے شیکھر شرما نے بتایا کہ حکومت کو ہمہ گیر توانائی اور برقی موبیلیٹی کی سمت ترغیبات فراہم کر کے، ٹیکس میں تقاوی دے کر اور اسٹارٹ اپس کو فروغ دے کر ایک ٹون اور پُش پالیسی اپنائے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ہوائی کثافت سے نمٹنے میں دو چنوتیاں ہیں، جن میں پہلی چنوتی یہ ہے کہ اس مسئلے کے تئیں عام طور پر بیداری کم پائی جاتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ کارروائی کرنے کے لئے عوام کے اندر اجتماعی قوت ارادی جگانے کی ضرورت ہے۔
एक टिप्पणी भेजें