نئی دہلی۔ زراعت اور کسانوں کی فلاح وبہود کے مرکزی وزیر رادھا موہن سنگھ نے کہا ہےکہ پچھلے تین برسوں میں قبائلی کسانوں نے پودوں کی اقسام کے تحفظ اور کسانوں کے حقوق سے متعلق ادارے میں (کے وی کے) کے ذریعے اندراج کے لئے 5000 سے زیادہ پودوں کی اقسام کی درخواست دی ہے ۔
اس سے مستقبل میں موجودہ آب وہوا میں پنپنے اور زیادہ دیر تک باقی رہنے کے عمل میں بہت مدد ملے گی۔ سنگھ نے نئی دہلی منعقدہ ‘‘ قبائلی علاقوں کے کسانوں کو بااختیار بنانے کی قومی ورک شاپ’’ کے موقع پر یہ بات کہی۔ قبائلی امور کے مرکزی وزیر جوال اورام بھی اس موقع پر موجود تھے۔
وزیر زراعت نے کہا کہ زراعت کے میدان میں ٹیکنالوجی کے تعلق سے ہونے والی نئی اختراعات قبائلی علاقوں کے کھیتوں تک ضرور پہنچنی چاہئیں لیکن اس طرح کے اقدامات سے پہلے ہمیں ان علاقوں کے منفرد حالات ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ یہ علاقے قدرت کا ا یک تحفہ ہیں اور اس لئے ہمیں ان علاقوں میں زراعت کے قدرتی طریقوں کو فروغ دینا چاہئے۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ ان علاقوں میں موٹے اناج،دالوں، تلہن،پھلوں، پھولوں اور سبزیوں کی نئی قسموں کی تشہیر بھی کرنی چاہئے۔اس کے علاوہ مربوط زراعت، بارش کے ذریعے ہونے والی زراعت کی نئی تیکنیکوں اور آبپاشی کی نئی ٹیکنیکوں، زرعی سازوں سامان اور پانی کو محفوظ رکھنے کی موزوں ٹیکنالوجی پر بھی توجہ دی جانی چاہئے۔اس بات کا بھی دھیان رکھا جاناچاہئے کہ متعلقہ علاقوں میں کس طرح کی مربوط زراعت زیادہ مفید رہے گی۔
سنگھ نے یہ بھی کہا کہ قبائلی کسانوں کے کھیت چھوٹے چھوٹے ہیں اس لئےمجوزہ ٹیکنیکوں کے بارے میں یہ خیا ل کرناچاہئےکہ یہ وہاں کے لئے موزوں ثابت ہوں۔اسی صورت میں ترقیاتی طریقوں سے صحیح فائدہ اٹھایا جاسکے گا یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ 673کے وی کے میں سے125 ایسے علاقوں میں کام کررہے ہیں جہاں قبائلیوں کی اکثریت ہے۔کے وی کے لگانے کے لئے دی جانے والی امداد کے علاوہ زراعت کی ترقی کی ہندوستانی کونسل (آئی سی اے آر) قبائلی علاقوں کی موثر توسیع کے لئے 75سے 100 کروڑ روپئے کی منظوری بھی دے رہی ہے۔
سنگھ نے بتایا کہ ان کی وزارت مشروم زراعت،مچھلی پالنے،مرغ بانی،دیسی مرغیاں پالنے اورسور وغیرہ پالنے کے لئے بھی ہر ممکن امداد فراہم کررہی ہے جس سے محدود وسائل کے باوجود 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے میں مدد ملے گی۔
آئی سی اے آر نے قبائلی علاقوں کے سماجی حالات کو مستحکم بنانے کے لئے بہت سے اقدامات کئے ہیں۔ آسام اور جھاڑ کھنڈ کی ریاستوں میں دو نئے ہندوستانی زرعی تحقیقی ادارے قائم کئے جارہے ہیں اسی طرح شمال مشرقی ہندوستان میں 6 کالج قائم کئے گئے ۔
ان قبائلی علاقوں میں 10 نئے کرشی وگیان کیندر بھی کھولے گئے۔آئی سی اے آر کے ان سبھی اداروں کو فصل کی پیداوار ، باغبانی، مویشیوں کی افزائش نسل اور مچھلیاں پالنے جیسے شعبوں میں کام کرنے کے لئے بجٹ کی رقمیں مختص کی گئی ہیں۔ انڈمان و نکوبار جزائر میں کام کرنےو الے مرکزی زراعتی ادارے کے سائنس داں بھی قبائلی کسانوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کررہے ہیں۔
قبائلیوں میں یہ بے مثال صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنےعلاقوں میں اگائی جانے والی فصلوں کی اقسام کے بارے میں بہت صحیح معلومات رکھتے ہیں کیونکہ یہ لوگ مدت سے اس علاقے میں رہتے آئے ہیں، جنگلوں کے آس پاس گھومتے رہتے ہیں او ر قدرت سے ان کا قریبی رابطہ رہتا ہے اس لئے یہ علاقوں میں اگائے جانے والے پیڑ پودوں کے بارے میں پوری معلومات رکھتے ہیں ان کی اس صلاحیت پر ماہرین بھی رشک کرتے ہیں۔ان لوگوں کی اس معلومات سے فائدہ اٹھنا جانا چاہئے۔
وزیر زراعت نے کہا کہ قبائلی علاقہ بڑا زرخیز ہے کیمیاوی کھادوں سے دور ہونے کی وجہ سے یہ نامیاتی زراعت کے لئے بہت موزوں ہے اور زمین میں بہت دن تک کھیتی کی جاسکتی ہے۔قبائلی علاقوں میں پیدا ہونے والی زرعی مصنوعات بڑے اعلی معیار کی حامل ہیں۔
جن کی کچھ خاص خوبیاں ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی زرعی مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ کیاجائے۔ ا ن علاقوں میں اگائی جانے والی خصوصی فصلوں میں تل،موٹا اناج، کودوں،کاکن،کیساری اور راگی کی پیداوار شامل ہے ان میں جڑی بوٹیوں کے اوصاف بھی پائے جاتے ہیں اور یہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں ان علاقوں میں دالوں اور تلہن کی بھی پیداوار ہوتی ہے۔ان کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے ہمارے پاس تمام سہولیتیں موجود ہیں۔
سنگھ نے مزید کہا کہ قبائلیوں کے پاس اناج کو محفوظ رکھنے کے بڑے معروف اور مفید دیسی طریقے موجود ہیں۔اس پورے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے قبائلی طلبا کے لئے ایسا نصاب مرتب کیاجانا چاہئے۔جس کے تحت ڈگری اور ڈپلومہ ان کے طرز زندگی پر مبنی ہو ان کی صلاحیتوں کو اس طرح استعمال کیا جاناچاہئے کہ ٹیکسٹائل، زیورات، دھاتوں کا سامان بنانے بانس کی مصنوعات اور برتن وغیرہ کو بازاروں میں پہنچا کر ان علاقوں کی آمدنی کو اور زیادہ کیاجاسکے۔
एक टिप्पणी भेजें