Halloween Costume ideas 2015

بھارت کے انتخابی کمیشن کی الیکٹرونک مشین کے تحفظاتی کوائف سے متعلق اکثر و بیشتر اٹھائے جانے والے سوالات

نئی دہلی ، ماضی قریب میں عوام الناس کے اذہان میں بھارت کے انتخابی کمیشن (ای سی آئی) کی الیکٹرونک مشینوں (ای وی ایم) سے وابستہ تحفظاتی کوائف سے متعلق چند وضاحت طلب سوالات اٹھتے رہے ہیں ۔ بھارت کے انتخابی کمیشن نے بار بار یہ وضاحت کی ہے کہ ای سی آئی - ای وی ایم اور اس کے تحت دستیاب تمام تر نظام ،ٹھوس ، محفوظ اور ہر قسم کی گڑ بڑی پیدا کیے جانے کے امکانات سے مبرّا ہے ۔

درج ذیل میں اکثر و بیشتر اٹھائے جانے والے سوالات اور ان کے جوابات کے ذریعہ ای وی ایم کے جدید ٹکنالوجی کوائف سمیت تحفظاتی کوائف اور ان مشینوں کے وضع کئے جانے سے لے کر انہیں اسٹور کر نے اور ان کے استعمال کے معاملے میں ہر مرحلے میں کئے جانے والے سخت ترین انتظامی اقدامات کی 
وضاحت کی گئی ہے۔

ای وی ایم میں گڑبڑی اور چھیڑ چھاڑ سے کیا مراد ہے؟

گڑبڑی پیدا کر نے یا مشین کے نظام میں چھیڑ چھاڑ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یا توکنٹرول یونٹ کی موجودہ مائیکرو چپس یا پھر سی یو میں نیا مائیکرو چپ داخل کر کے جعلی اور بد نیتی پر مبنی سوفٹ ویئر پروگرام داخل کیا گیا ہے اور ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ بیلٹ یونٹ (بی یو) کا بٹن دبانے پر کنٹرول یونٹ ایمانداری سے اپنا کام نہ کرے۔

کیا ای سی آئی کی ای وی ایم کو ہیک (مصنوعی طریقوں سے غیر مجاز نظام کے 
تابع کرنا) کیا جاسکتا ہے ؟

جی نہیں ۔

2006 تک، ای وی ایم مشینوں کے ایم وَن (ماڈل وَن) تیار کئے گئے تھے اور چند محرکین کے دعوؤں کے برخلاف ایم وَن کو ہیک نہ کئے جانے کے لائق بنانے کے لیے لازمی تکنیکی لوازمات کا لحاظ رکھا گیا تھا ۔

2006 میں تکنیکی تجزیہ کمیٹی کی سفارش پر 2016 کے بعد ای وی ایم ماڈل وَن تیار کیا گیا ۔ اب 2012 تک آتے آتے کلیدی کوڈز کی ڈائنامک کوڈنگ انجام دی گئی تاکہ بٹن کے ذریعہ منتقل ہونے والی کمان یعنی بیلٹ یونٹ جانے والا پریس میسیج یا بٹن کے ذریعہ دی جانے والی کمان جو کنٹرول یونٹ تک جاتی ہے ، ایک اضافی تحفظاتی نکتے کے طور پر تحریری شکل میں ہو ۔ اس کے ساتھ ہر ایک بٹن پر پڑنے والے دباؤ کے لیے لگنے والے وقت کا بھی لحاظ رکھا گیا تاکہ ایک بٹن دبانے کے بعد اگر بار بار مبینہ طور پر وہی بٹن دبایا جائے ، تو اس کا پتہ لگانا ممکن ہوسکے اور اس کا ازالہ بھی کیا جاسکے ۔

مزید برآں، ای سی آئی کے تحت ای وی ایم کمپیوٹر کے کنٹرول میں نہیں ہوتیں۔ یہ اپنے آپ میں مکمل مشینیں ہوتی ہیں اور انٹر نیٹ یا کسی دیگر نیٹ ورک سے کسی بھی طرح کسی بھی مرحلے میں منسلک نہیں ہوتیں۔ لہذا کسی ریموٹ آلے کی مدد سے انہیں ہیک نہیں کیا جاسکتا۔

ای سی آئی کی ای وی ایم میں کسی بھی طرح کا تکریر وصولی آلہ ، لاسلکی یا بیرونی ہارڈ ویئر پورٹ نہیں لگا ہوتا جو کسی دیگر غیر ای وی ایم معاون پرزے یا آلے سے منسلک کیا جاسکے ۔ لہذا ہارڈ ویئر پورٹ یا وائر لیس وائی فائی یا بلوٹوتھ ڈوائس کے ذریعہ کوئی چھیڑ چھاڑ یا گھپلا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سی یو  اپنے طور پر بی یو سے صرف اور صرف تحریری اور افزودگی پر مبنی کوڈ یافتہ 
ڈیٹا ہی قبول کرتا ہے اور سی یو کسی اور طرح کا مختلف ڈیٹا قبول ہی نہیں کرتا ۔

کیا ای سی آئی کی ای یو ایم میں ،مشین وضع کرنے والوں کے ذریعہ گڑبڑی کی جاسکتی ہے ؟

ممکن نہیں ہے ۔

سوفٹ ویئر کی سیکوریٹی کے سلسلے میں مینوفکچررکی سطح پر از حد سخت سلامتی کا ضابطہ ٔ عمل اپنا یا جاتا ہے ۔ ان مشینوں کو 2006 سے اب تک کئی برسوں میں تیار کیا گیا ہے ۔ تیاری کے بعد ای وی ایم کو ریاست اور ایک ضلع سے ضلع میں بھیجا جاتا ہے ۔ مشین تیار کرنے والے یہ بتانے کی حالت میں نہیں ہوتے کہ آئندہ کئی برسوں میں ایک مخصوص حلقہ سےکون سے امیدوار الیکشن لڑنے والے ہیں اور بیلٹ یونٹوں میں ان امیدواروں کی ترتیب کیا ہوگی ۔ ہر ایک ای سی آئی –ای وی ایم کا سیریل نمبر ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن ای وی ایم کا استعمال - ٹریکنگ سوفٹ ویئر کے ذریعہ اپنے ڈیٹا بیس سے یہ معلوم کرسکتا ہہے کہ کون سی مشین کہاں ہے۔ اس لیے مینوفکچرنگ کی سطح پر کسی بھی 
طرح کی گڑبڑی نہیں کی جاسکتی ۔

کیا سی یو میں لگنے والی چِپ میں ٹروجن ہارس شامل کیا جاسکتا ہے ؟

ای وی ایم میں ووٹنگ کی ترتیب ، جیسا کہ آگے وضاحت کی جائے گی ، ٹروجن ہارس متعارف کرانے کے امکانات نہ کہ برابرہیں ۔ بھارت کے انتخابی کمیشن نے اپنی جانب سے جو سخت ترین سلامتی تحفظاتی اقدامات کئے ہیں ان کی بنیاد پر ٹروجن ہارس کو داخل کرنا ناممکن ہوجاتا ہے ۔ ایک مرتبہ جب سی یو میں بٹن دبا دیا جاتا ہے ، سی یو، بی یو کو ووٹ رجسٹر کرنے کی حالت میں تیار کردیتا ہے اور بی یو کے بٹن کے دبائے جانے کا منتظر رہتا ہے ۔


 اس وقفے کے دوران سی یو میں موجود تمام تر بٹن غیر متحرک ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ ووٹ مکمل ہونے کے تمام تر امور ترتیب وار مکمل نہ ہو جائیں ۔ ایک مرتبہ جب کوئی بھی بٹن (امیدوار سے متعلق ووٹ بٹن) کسی ووٹر کے ذریعہ بی یو میں دبا دیا جاتا ہے تو بی یو اس بٹن سے وابستہ اطلاعات کو سی یو کو منتقل کردیتا ہے ۔ سی یو ڈیٹاوصول کرتا ہے اور بی یو میں مماثل ایل ای ڈی لیمپ روشن کرکے اس موصولی کی اطلاع دیتا ہے ۔

 سی یو میں بیلٹ داخل کرنے کے بعد ،صرف پہلا کلیدی بٹن ہی دبایا جاسکتا ہے اور سی یو صرف اسے ہی تسلیم کرتا ہے ۔ اس کے بعد اگر کوئی ووٹر کوئی دیگر بٹن دباتا ہے تو اس بٹن دبانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ بی یو اور سی یو کے مابین اس طرح کے بٹن دبانے سے کوئی مماثلی رابطہ قائم نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی بٹن دبائے جانے کے اثر کو قبول کرتا ہے ۔

 دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر بیلٹ کے لیے سی یو کے استعمال سے صرف ایک جائز بٹن دبایا جاسکتا ہے ۔ ایک مرتبہ جب ایک جائز بٹن دباکر (ووٹنگ کا عمل) مکمل ہوجاتا ہے تو اس صورت میں جب تک دوسرا کوئی بیلٹ سے وابستہ بٹن نہ دبایا جائے ،سی یو اور بی یو کے مابین، کوئی رابطہ قائم نہں ہوسکتا ۔ لہذا بد نیتی پر مبنی کسی طرح کا سگنل بھیجنے یا مبینہ طور پر ترتیب وار بٹن بار بار دبانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا اور ملک میں جوالیکٹرونک مشین استعمال ہورہی ہے اس میں ایسا ہر گز نہیں کیا جاسکتا ۔

کیا پرانے ماڈل کی ای سی آئی – ای وی ایم اب بھی استعمال میں ہے ؟

ای وی ایم کے ماڈل نمبر وَن مشینیں 2006 تک تیار کی گئی تھیں اور انہیں 2014 کے عام انتخابات میں آخر بار استعمال کیا گیا تھا ۔ 2014 میں ای وی ایم مشینیں جنہوں نے اپنی عمر کے 15 مالی برس مکمل کرلیے تھے ، اور اس جواز کے ساتھ بھی کہ یہ ماڈل وَن مشینیں وی وی پی اے ٹی (ووٹر مصدقہ کاغذی آڈٹ آزمائش) کی خدمت بجا لانے سے بھی قاصر تھیں ، بھارت کے انتخابی کمیشن نے فیصلہ کیا کہ 2006 تک تیار کی گئی تمام تر ماڈل وَن ای وی ایم مشینوں کے استعمال کو ختم کردیا جائے ۔

 بھارت کے انتخابی کمیشن نے ای وی ایم کو ترک کرنے کے سلسلے میں ایک معیاری آپریٹنگ ضابطہ طے کر رکھا ہے ۔ ای وی ایم کو فنا کرنے اور اس کے چپ کو بھی معدوم کرنے کا کام ریاست کے چیف الیکٹورل افسر کی موجودگی میں یا بصورت دیگر مینوفکچررز کی فیکٹری کے اندر افسر مذکور کے نمائندگان کی 
موجودگی میں انجام دیا جاتا ہے ۔

کیا ای سی آئی – ای وی ایم میں طبیعاتی طور پر چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے /اس کے پرزے اس انداز میں بدلے جاسکتے ہیں کہ کوئی اس چھیڑ چھاڑ کے بارے میں نہ جان سکے ؟

پہلے کے ماڈل وَن اور ماڈل ٹو ای سی آئی – ای وی ایم میں موجود سلامتی تحفظاتی کوائف کے علاوہ، 2013 کے بعد تیار کی جانے والی نئی ماڈل 3 ای وی ایم میں، اضافی کوائف مثلاً چھیڑ چھاڑ کی شناخت کرنے والے اور ازخود تشخیص کرنے والے آلات لگائے گئے ہیں ۔ چھیڑ چھاڑ کا پتہ لگانے والے آلات سے لیس سلامتی تحفظات کے کوائی ان ای وی ایم کو اسی لمحے جامد و ساکت کردیتے ہیں ،جس لمحے کوئی بھی شخص ان مشینوں کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے ۔ از خود تشخیصاتی کوائف، ای وی ایم کو ہر مرتبہ اس کے سوئچ آن ہونے کے ساتھ ہی چیک کرتے ہیں اور اگر اس مشین کے ہارڈ ویئر اور سوفٹ ویئر میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے تو وہ فورا علم میں آجائے گی ۔

نئے ماڈل نمبر 3 جس ،میں مذکورہ بالا تمام تحفظاتی کوائف موجود ہیں اس کا ایک پروٹو ٹائپ جلد ہی تیار کر لیا جائے گا ۔ تکنیکی ماہرین کی ایک کمیٹی اس کا جائزہ لے گی اور اس کے بعد ہی اس کی تیاری یعنی پروڈکشن کا کام شروع ہوگا ۔ حکومت نے مذکورہ نئے طرز کے ماڈل- 3 ای وی ایم کی حصولیابی کے لیے ، جس میں اضافی تحفظاتی کوائف اور نئی تکنالوجی ، ترقی سے مملوء سے آلات لگے ہوں گے ، 2000 کروڑ روپے کی رقم جاری کی ہے ۔


ای سی آئی–ای وی ایم کو چھیڑ چھاڑ سے مبرا اور محفوظ بنانے کے لیے جدید ترین ٹکنالوجی کوائف کیا ہیں ؟

ای سی آئی– ای وی ایم، چند از حد جدید ترین ٹکنالوجی والے کوائف کی حامل ہیں ۔ ان میں ون ٹائم پروگرام میں ڈھلنے والے آلات (او ٹی پی) مائکرو کنٹرولر ، بٹنوں سے متعلق کوڈز کی ڈائنامک کوڈنگ ،ہر دبائے جانے والے بٹن کی تاریخ اور اسٹیمپنگ ، جدید ترین نقش بنانے والی تکنالوجی اور ای وی ایم ٹریکنگ سوفٹ ویئر وغیرہ آلات لگے ہوئے ہیں جو اس مشین کو صد فیصد چھیڑ چھاڑ پروف بناتے ہیں ۔ ان کوائف کے علاوہ نئی ماڈل کی ای وی ایم 3 ،ایسی ہیں جن میں چھیڑ چھاڑ اور از خود تشخیصاتی اضافی کوائف بھی موجود ہیں۔ چونکہ یہ سوفٹ ویئر اوٹی پی پروگرام پر مبنی ہے لہذا نہ اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے اور نہ اسے از سر نو ترتیب دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ پڑھا جاسکتا ہے ۔ اس طرح 
سے ای وی ایم چھیڑ چھاڑ سے مبرا بن جاتی ہے ۔

کیا ای سی – ای وی ایم میں غیر ملکی ٹکنالوجی کا استعمال ہوتا ہے ؟

اس مبنی بر بے بنیاد اطلاع کے برعکس جیسا کہ چند لوگوں نے الزام لگایا ہے، بھارت ای وی ایم تیار کرنے میں غیر ممالک سے کوئی مدد نہیں لیتا ۔ ای وی ایم، اندرون ملک دو سرکاری دائرہ کار کی صنعتوں یعنی بھارت الیکٹرانکس لمیٹید ، بنگلورو اور الیکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا لمیٹید ، حیدرا ٓباد کے ذریعہ تیار کی جاتی ہیں۔ سوفٹ ویئر پروگرام ان کمپنیوں کے ذریعہ اندرون خانہ تیار کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں بیرونی ذرائع استعمال نہیں کئے جاتے اور فیکٹری کے سطح پر سلامتی کے ضوابط کا لحاظ رکھا جاتا ہے تاکہ اعتماد اور معتبریت کا اعلی ترین معیار برقرار رہ سکے ۔ پروگرام کو مشین کوڈ میں بدلنے کے بعد ہی بیرون ملک کے چپ مینوفکچرر کو دیا جاتا ہے کیونکہ ہم اندرون ملک ابھی تک سیمی کنڈکٹر مائیکرو چپ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔

ہر ایک مائیکرو چپ کا ایک شناختی نمبر ہوتا ہے جو اس کی میموری میں پیوستہ ہوتا ہے اور ان پر ضوابط کے تحت اعدادی دستخط ہوتے ہیں ۔ لہذا ان کے بدلے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ مائیکرو چپ سوفٹ ویئر کے معاملے میں عملی تجربے سے گزرتے ہیں ۔ مائیکرو چپ کو بدلنے کی کوئی بھی کوشش، قابل شناخت ہے اور ایسی صورت میں ای وی ایم غیر متحرک ہوجاتی ہے ۔ اس طرح سے موجودہ پروگرام کو بدلنا یا اس میں نیا پروگرام داخل کرنا ،ہر لحاظ سے قابل شناخت ہے اور ای وی ایم کو ساکت و جامد کردیتا ہے ۔

جہاں ان مشینوں کا ذخیرہ کیا جاتا ہے ان مقامات پر چھیڑ چھاڑ اور پھیر بدل کے کتنے امکانات ہیں ؟

ضلعی صدر دفاتر کی سطح پر، ای وی ایم دوہرے تالے والے نظام کے تحت معقول سلامتی تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مقفل کر کے رکھی جاتی ہیں ۔ ان کی سلامتی وقفے وقفے سے جانچی پرکھی جاتی ہے ، متعلقہ افسران اسٹرانگ روم نہیں کھولتے ، صرف یہ چیک کرتے ہیں کہ قفل اپنی اصل صور ت میں لگا ہے یا نہیں ۔ کوئی بھی غیر مجاز شخص، ای وی ایم تک کسی بھی وقت رسائی حاصل نہیں کر سکتا ۔ جس زمانے میں انتخابات منعقد نہیں ہورہے ہوتے، اس دوران تمام ای وی ایم کی طبیعاتی تصدیق ڈی ای او کے ذریعہ انجام دی جاتی ہے اور اس کی مکمل روداد ،ای سی آئی کو ارسال کی جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں معائنے اور چیکنگ کا کام حال ہی میں مکمل کیا گیا ہے ۔

مقامی اداروں کے انتخابات میں ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کے الزامات کس حد تک صحیح ہیں؟

دائرہ اختیار کے متعلق عدم آگہی کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ بلدیاتی اداروں یا دیہی اداروں مثلا پنچایت انتخابات میں ای وی ایم ،بھارت کے انتخابی کمیشن سے متعلق نہیں ہوتیں ۔ اس کے علاوہ مذکورہ اداروں کے انتخابات ریاستی انتخابی کمیشنوں کے تحت آتے ہیں ،جو اپنی مشینیں خود منگاتے ہیں اور ان کا اپنا ہینڈلنگ نظام ہوتا ہے ۔ مذکورہ انتخابات کے سلسلے میں ریاستی انتخابی کمیشنوں کے ذریعہ استعمال ہونے والی ای وی ایم کے لیے ای سی آئی ذمہ دار نہیں ہے ۔

ای سی آئی – ای وی ایم کو چھیڑ چھاڑ سے مبرا بنانے کے لیے روک تھام اور تدارکی اقدامات کی مختلف نوعیتیں کیا ہیں ؟

پہلے سطح کی چیکنگ : بی ای ایل /ای سی آئی ایل انجنیئرز ہر ایک ای وی ایم کی طبیعاتی جانچ کے بعد آلات کی اصالت کی تصدیق کرتے ہیں ۔ یہ کام سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان کی موجود گی میں انجام پاتا ہے ۔ ناقص ای وی ایم واپس کارخانے ارسال کردی جاتی ہیں ۔ ایف ایل سی ہال خبردار کردیا جاتا ہے ، داخلہ محدود ہوجاتا ہے اور کیمرہ اور موبائل فون یا خفیہ پین اندر لانے کی اجاز ت نہیں ہوتی ۔ کم از کم ایک ہزار ووٹوں کے سلسلے میں نقلی پولنگ کا انتظام کیا جاتا ہے اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے پانچ فیصد ای وی ایم ،سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان کے ذریعہ اٹھائی جاتی ہیں ، انہی پر فرضی مشق کی جاتی ہے اور نتائج انہیں دکھا دیے جاتے ہیں ۔ اس پورے عمل کی ویڈیوگرافی بھی کی جاتی ہے ۔

اچانک انتخاب: ای وی ایم موقع پر دو مرتبہ اچانک اٹھائی جاتی ہیں یہ وہی ہوتی ہیں جنہیں کسی اسمبلی کے لیے استعمال کیا جاانا ہوتا ہے اور کسی پولنگ بوتھ پر لے جایا جانا ہوتا ہے ۔ لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کون سی مشین کس پولنگ اسٹیشن پر جائے گی ۔ پولنگ اسٹیشن پر فرضی پولنگ مشق ووٹ پڑنے والے دن ،امیدواروں کے سیاسی ایجنٹوں کی موجودگی میں اصل ووٹنگ شروع ہونے سے قبل، انجام دی جاتی ہے ۔ پولنگ ختم ہونے کے بعد ای وی ایم مشینیں سیل کر دی جاتی ہیں اور پولنگ ایجنٹ اپنے دستخط اس مہر پر کر تے ہیں ۔ پولنگ ایجنٹ ان مشینوں کو اسٹرانگ روم تک لے جائے جانے تک اسٹرانگ روم تک ،بہ نفس نفیس ساتھ ساتھ جاسکتے ہیں ۔

اسٹرانگ روم : امیدواران یا ان کے نمائندگان اسٹرانگ روم میں جہاں مشینیں رکھی جاتی ہیں ، پولنگ ختم ہونے کے بعد مقفل دروازوں پر اپنی مہر خود لگاسکتے ہیں اور اسٹرانگ روم کے باہر بذات خود قیام کرسکتے ہیں اور یہ تمام اسٹرانگ روم 24x7 کی بنیاد پرباقاعدہ طور پر حفاظت میں رکھے جاتے ہیں ۔

ووٹوں کی گنتی کے مراکز: جن مشینوں میں ووٹ ڈالے گئے ہوتے ہیں وہ تمام ای وی ایم کاؤنٹنگ مراکز پر لائی جاتی ہیں اور ان پر چسپاں مہر منفرد آئی ڈی اور سی یو کو ووٹوں کی گنتی شروع ہونے سے قبل امیدواران کے نمائندگان کے ملاحظے کے تحت لایا جاتا ہے ۔

کیا ای سی آئی – ای وی ایم جس میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہو ، کسی طرح سے انتخابی عمل کے دوران از سر نو شامل کی جاسکتی ہے وہ بھی اس طرح کے کسی کو پتہ نہ لگے ؟

سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔

مذکورہ بالا فول پروف روک تھام اقدامات کے سلسلے کو مد نظر رکھتے ہوئے جنہیں ای سی آئی- ای وی ایم کو ٹیمپر پروف بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ، یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ تو ان مشینوں میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی سطح پر ایسی مشینوں کو از سر نو پولنگ کے عمل میں شامل کیا جاسکتا ہے جس میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہو۔ کیونکہ غیر ای سی آئی- ای وی ایم ،مذکورہ عمل سے فورا پکڑ میں آجائے گی اور بی یو اور سی یو کے ساتھ مناسبت ناممکن ہوجائے گی ۔ مختلف سطح پر سخت ترین بندشوں اور رکاوٹوں اور روک تھام کے انتظامات کی وجہ سے ،ای سی آئی –ای وی ایم ، کسی بھی صورت ای سی آئی کے نظام سے علیحدہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کوئی بیرونی مشین (غیر ای سی آئی ای وی ایم ) اس نظام میں داخل کی جاسکتی ہیں ۔

پھر کیا وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین جیسے ترقی یافتہ ممالک ای وی ایم کا استعمال نہیں کرتے اور کچھ ممالک نے تو اسے متروکہ قرار دے دیا ہے ؟

چند ملکوں نے ماضی میں الیکٹرانک ووٹنگ کا تجربہ کیا ۔ ان ممالک میں مشینوں کے استعمال میں جو مسئلہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ یہ مشینیں کمپیوٹر سے کنٹرول ہوتی تھیں۔ نیٹ ورک سے منسلک تھیں، جس کی وجہ سے ان مشینوں کو ہیکنگ کے تحت لانا آسان تھا ۔ لہذا یہ اپنے اصل مقصد کے بالکل منافی تھیں۔ اس کے علاوہ ان مشینوں کے سلسلے میں نہ تو وافر سلامتی کے اقدامات کا انتظام تھا اور نہ ہی ان سے متعلق معاون سلامتی قوانین اور تحفظات کی کوئی گنجائش ۔ چند ممالک میں عدالتوں نے ان ہی قانونی بنیادوں پر ای وی ایم کے استعمال کی تجویز کو رد کردیا ۔

بھارتی ای وی ایم اپنے آپ میں منفرد حیثیت رکھتی ہے جبکہ امریکہ ، نیدر لینڈ س، آئر لینڈ اور جرمنی میں ڈائریکٹ ریکارڈنگ مشینیں تھیں ۔ بھارت نے کاغذ پر مبنی احتساب تجربہ جزوی طور پر شروع کیا تھا ۔ دیگر ممالک میں ایسا کوئی احتسابی تجربہ نہیں کیا گیا تھا ۔ مذکورہ تمام ممالک میں پولنگ کے دوران، سورس کوڈ بند کردیا جاتا ہے ، بھارت میں بھی سورس بند کردیا جاتا ہے ۔ اسےاس کی میموری میں غرق کردیا جاتا ہے اور یہ او ٹی پی بن جاتا ہے ۔

اس کے برخلاف ، ای سی آئی – ای وی ایم اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد آلات کی حامل مشینیں ہیں جو کسی نیٹ ورک سے منسلک نہیں ہوتیں اور اس وجہ سے کسی بھی فرد کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ بھارت میں انفرادی طور پر 1.4 ملین مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کر سکے ۔ ای وی ایم مشینیں انتخابات کے دوران ملک کے ماضی کے پر تشدد واقعات اور دیگر انتخابی بدعنوانیوں مثلا جعلی ووٹ ڈالنے ، بوتھ پر قبضہ کرنے وغیرہ کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، بھارت کے لیے سب سے زیادہ معقول اور مناسب ہیں ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جرمنی ، آئر لینڈ اور نیدر لینڈس کے برعکس، بھارت کا قانون اور ای سی آئی کے ضوابط ای وی ایم کے سلسلے میں وافر تحفظاتی اور سلامتی اقدامات اور تجاویز کی گنجائش رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھارتی ای وی ایم تحفظاتی تکنالوجی کوائف کی بنیادوں پر از حد عمدہ قسم کی ہیں ۔ بھارتی ای وی ایم اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک منفرد حیثیت اس لیے بھی رکھتی ہیں کیونکہ مرحلہ وار طریقے سے ای وی ایم میں وی وی پی اے ٹی کا استعمال متعارف کرایا جانے والا ہے تاکہ پورے عمل کو ووٹروں کے لیے شفاف ترین بنایا جاسکے ۔

جہاں تک نیدر لینڈ کا سوال ہے، وہاں مشینوں کے ذخیرے ، نقل و حمل اور سلامتی کے سلسلے میں کوئی انتظامات نہیں تھے ۔ نیدر لینڈ میں بنائی جانے والی مشینیں آئر لینڈ اور جرمنی میں بھی استعمال ہوتی تھیں ۔ جرمنی کی عدالت نے 2005 میں اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ووٹنگ آلات سے متعلق آرڈیننس غیر آئینی ہے کیونکہ الیکٹرانک اور بنیادی قوانین کے سلسلے میں اس سے عوام کے مفادات اور مراعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ لہذا ان ممالک نے نیدر لینڈ میں تیار مشینوں کا استعمال ترک کردیا تھا ۔ یہاں تک کہ آج بھی امریکہ سمیت متعدد ممالک مشینوں کا استعمال ووٹنگ کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

ای سی آئی – ای وی ایم بنیادی طور پر غیر ممالک میں استعمال ہونے والی ووٹنگ مشینوں اور اختیار کئے جانے والے عمل سے قطعا مختلف ہیں ۔ باہر کی کمپیوٹر سے کنٹرول ہونے والی آپریشن سسٹم پر مبنی مشینیں ناقص ہوں گی اور ان کا موازنہ ای سی آئی – ای وی ایم سے نہیں کیا جاسکتا ۔

وی وی پی اے ٹی سے آراستہ مشینوں کی کیفیت کیا ہے ؟

ای سی آئی نے ووٹروں کے ذریعہ مصدقہ پیپر آڈٹ ٹرائل (وی وی پی اے ٹی) کا استعمال کر کے 107 اسمبلی حلقہ ہائے انتخابات اور 9 لوک سبھا حلقہ ہائے انتخابات میں، چناؤ مکمل کرائے تھے ۔ وی وی پی اے ٹی کے ساتھ ماڈل -3 ای وی ایم کی نئی سیریز کی مشین کا استعمال آئندہ کے لیے اعتماد سازی کا حامل ایک عمدہ طریقہ ہے جس میں ووٹروں کو ان کی تسلی کے لیے پوری شفافیت فراہم کرائی جاسکتی ہے ۔
Labels:

एक टिप्पणी भेजें

MKRdezign

संपर्क फ़ॉर्म

नाम

ईमेल *

संदेश *

Blogger द्वारा संचालित.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget