Halloween Costume ideas 2015

فرقہ پرستی کے خلاف سیاسی ہی نہیں سماجی اتحاد بھی ضروری


عبیداللہ ناصر

حالیہ ضمنی انتخابات جو کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں ہوئے جن میں 10 اسمبلی اور 4 پارلیمانی حلقہ شامل ہیں ، انہیں منی جنرل الیکشن کہنا غلط نہیں ہوگا۔ ان ضمنی انتخابات کے نتیجے نہ صرف آئندہ چند مہینوں میں مدھیہ پردیش چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات کو متاثر کریں گے بلکہ یہ آئندہ پارلیمانی الیکشن کی بھی واضح تصویر پیش کر رہے ہیں ۔

 راہل گاندھی کے کانگریس صدر بننے کے بعد ہونے والے گجرات اورکرناٹک اسمبلی کے الیکشن دونوں قومی سیاسی پارٹیوں کے درمیان سیدھی ٹکّر تھی۔ کانگریس نے بی جے پی کو اس کے گڑھ گجرات میں ایسی ٹکّر دی کہ بی جے پی جیت تو ضرور گئی لیکن اس کی سانسیں بھی پھول گئیں، جبکہ کرناٹک میں کانگریس کو حکومت مخالف رجحان کا سامنا تھا پھر بھی وہ سیٹوں کے معاملہ میں تو دوسرے نمبر پر آئی لیکن اس کا مجموعی ووٹ فیصد تناسب میں بی جے پی سے زیادہ رہا اور یہاں کانگریس نے تیزی سے اقدام کرتے ہوئے تیسرے نمبر کی پارٹی سے ہاتھ ملا کر بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک دیا ۔

کرناٹک میں بی جے پی نے ریاستی گورنر کی مدد سے جو گندہ کھیل کھیلا اس سے قومی سطح پر اس کی سبکی ہوئی، جبکہ راہل گاندھی نے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود چھوٹی پارٹی کو اقتدار سونپ کر جو دور اندیشی اوروسیع القلبی دکھائی اس سے ان کی ذاتی امیج میں چار چاند لگ گئے،گجرات اور کرناٹک کے نتائج نے کانگریس کے تن مردہ میں نئی جان ڈال دی اور اب کانگریسی کارکن ہر جگہ بی جے پی سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے بیتاب ہیں ۔

ضمنی انتخابات کے نتایج نے بھی علاقائی پارٹیوں کے حوصلے بلند کیے ہیں انھیں پہلے سے ہی احساس ہو رہا تھا کہ اگر بی جے پی کے خلاف ایک وسیع اتحاد نہ بنایا گیا تو نہ صرف ان کا وجود خطرہ میں پڑ جائےگا بلکہ ملک کا وفاقی نظام بھی درہم برہم ہو جاےگا، اس کے ساتھ ہی عوام بھی اب مذہبی جنون اور جارحانہ قوم پرستی کی افیم کے نشے سے باہر نکل کر بڑھتی بے روزگاری ،برباد ہوتے کاروبار ،معاشی بدحالی ، زراعت کی تباہی اور کسانوں کی خودکشی جیسے اصل مسائل کی طرف متوجہ ہوئے ، اس طرح جو سیاسی اتحاد کبھی نا ممکن دکھائی دیتا تھا وہ حقیقت میں تبدیل ہوگیا، جس کا نتیجہ یہ رہا کہ جس اتر پردیش نے سابقہ پارلیمانی اور اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو نا قابل تصور کامیابی دی تھی وہاں اسے پے در پے شرمناک شکست مل رہی ہے ، پہلے وہ ریاست کے و زیر اعلی اور ابھرتے ہوئے ہندو ہردے سمراٹ یوگی آدتیہ ناتھ کی خالی کی ہوئی گورکھپور کی وہ سیٹ ہار گئی جس پر اس کا کئی دہایوں سے قبضہ تھا ، اسی کے ساتھ وہ ریاست کے نائب وزیر اعلی کیشو پرسا د موریہ کے ذریعہ خالی کی گئی پھول پور سیٹ بھی ہار گئی ، ان دونوں سیٹوں پر شکست سے دل برداشتہ بی جے پی نے کیرانہ پارلیمانی اور نور پور اسمبلی سیٹ پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے کوئی کور کسر نہیں چھوڑی ، انتخابی مہم کی کمان خود وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے سنبھالی اور اپنی فطرت کے مطابق مہم میں فرقہ پرستی کا رنگ گھولا۔

یوگی آدتیہ ناتھ نے انتخاب کے دوران جناح بنام گنّا کا رڈ کھیل کر ووٹروں کو پولرائز کرنے کی کوشش کی، اس کے ساتھ ہی دونو ں سیٹوں پر سابق انجہانی لیڈروں کے اہل خاندان کو اتار کر ووٹروں کی ہمدردی بھی حاصل کرنے کی کوشش کی ،یہی نہیں انتخابی مہم ختم ہو جانے کے بعد وزیر اعظم کا کیرانہ پارلیمانی سیٹ سے ملحق باغپت میں ایک سرکاری پروگرام اور تقریباً 9 کلو میٹر کا روڈ شو کرکے ووٹروں کو متاثر کرنے کی بھر پور کوشش کی ،لیکن ان کا کوئی ہتھ کنڈہ،کوئی تکڑم کام نہیں آیا ۔ اپوزیشن کی مشترکہ امیدوارتبسم حسن نے جوکہ اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل کے انتخابی نشان سے لڑی تھیں تقریباً 50 ہزار ووٹوں سے کامیاب رہیں ، جبکہ نور پور اسمبلی حلقہ سے سماج وادی پارٹی کے نعیم الحسن نے 6 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

اس سیاسی کامیابی سے بھی اہم وہ سماجی رواداری ہے جو اس الیکشن میں خاص کر پولنگ کے دن نظر آئی ، مغربی اترپردیش کا سماجی تانا بانا گزشتہ کافی عرصے سے بری طرح بگڑا ہوا تھا جاٹوں اور مسلمانوں کے رشتوں میں زبردست تلخی پیدا ہو گئی تھی ، راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اور چودھری چرن سنگھ کی وراثت نہ جانے کہاں کھو گئی تھی، مظفر نگر فساد نے تو جیسے اس تقسیم کو ابدی ہی بنا دیا تھا ، بی جے پی کو اس کا زبردست سیاسی فائدہ ہوا تھا ، وہ جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان مزیدتلخیاں بڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی ، بلکہ جھوٹ اور افواہ کے ذریعہ اسے بڑھاتی ہی رہتی تھی ۔

لیکن اس بار منظر با لکل بدلا ہوا تھا چلچلاتی دھوپ میں روزہ رکھے مسلم ووٹروں کو جاٹوں نے یہ کہہ کر پہلے ووٹ ڈالنے دیا کہ ان کا روزہ ہے وہ ووٹ دے کر چلے جائیں ہم بعد میں ووٹ ڈال لیں گے۔ ایسے ہی دلتوں اور جاٹوں میں دیرینہ کشیدگی رہی ہے لیکن اس بار یہ کشیدگی کہیں نہیں دکھائی دی ، اس کے علاوہ علاقہ کے با اثر گوجروں اور دیگر ذاتوں کے ووٹروں نے بھی اپوزیشن کی مشترکہ امیدوار کو ووٹ دے کر سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کیا ، موجودہ سیاسی اور سماجی ماحول میں کیرانہ جیسی سیٹ سے مسلم امیدوار کی کامیابی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اس خلیج کو پاٹنے میں اجیت سنگھ کے بیٹے جنیت چودھری نے اہم کردار ادا کیا۔

جنیت چودھری میں علاقہ کے جاٹوں کو چودھری چرن سنگھ کا عکس نظر آتا ہے ، حیرت انگیز طور پر چودھری چرن سنگھ کے بیٹے اجیت سنگھ اپنی یہ امیج نہیں بنا پائے تھے، ملک کے ابھرتے ہوئے نوجوان لیڈروں میں جنیت چودھری بھی شامل ہیں ، اس سماجی اتحاد بنانے میں دیگر باتوں کے علاوہ کسانوں کے مسائل نے بھی اہم کردار ادا کیا خاص کر گنّا کسانوں کے مسائل سے علاقہ کے سبھی لوگ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ گنّا ہی یہاں کی لائف لائن ہے ، گنّا کسانوں کا کروڑوں روپیہ چینی ملوں پر باقی ہے جس سے یہاں کے کسان زبردست معاشی مسائل میں مبتلا ہیں، کسانوں کو ملوں سے بقایا نہ ملنے سے نہ وہ اپنے مزدوروں کی ادائےگی کر پا رہے ہیں نہ ہی دیگر کام ہو پا رہے ہیں ۔ مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے گنا کسانوں کے مسائل سننے اور انھیں دلاسہ دینے کے بجائے الٹا انھیں ڈانٹتے ہوئے کہا کہ گنا بوتے ہی کیوں ہو،جبکہ پاکستان سے60 لاکھ میٹرک ٹن چینی منگانے سے بھی کسانوں کی ناراضگی بڑھی ہے۔

لیکن اس کامیابی کے منفی پہلوؤں پر بھی غور کرنا ضروری ہے سب سے اہم بات یہ کہ اپوزیشن کی مشترکہ امیدوار ہونے کے باوجود تبسم حسن کو یہ کامیابی محض 50 ہزار ووٹوں سے ملی ہے جوبڑی کامیابی نہیں کہی جا سکتی، اگر آخری وقت میں تبسم حسن کے خاندان کے ہی کنور حسن بیٹھ نہ گئے ہوتے تو ان کی شکست یقینی تھی، مشترکہ اپوزیشن اور بی جے پی کے ووٹ تناسب میں بھی کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہے یہ بات ضرور ہے کہ2017 کے اسمبلی الیکشن کے مقابلے میں اس بار بی جے پی کے ووٹوں میں چار فیصدی کی کمی ہوئی ہے اسی طرح نور پور اسمبلی سیٹ سے نعیم الحسن کی 6 ہزار ووٹوں سے کامیابی بھی بہت امید افزا نہیں ہے۔ بی جے پی اپنی اس شکست کو جنرل الیکشن میں فتح میں بدلنے کے لئے کوئی کور کسر نہیں چھوڑےگی ، بی جے پی سے سب سے بڑا خطرہ فرقہ وارانہ کارڈ کا ہے وہ کسی بھی حد تک یہاں بنے سماجی اور سیاسی اتحاد کو توڑنے کی کوشش کرےگی،ابھی سے اس کےآئی ٹی سیل نے بیگم تبسم حسن کی تصویر کے ساتھ ’’یہ اللہ کی جیت اور رام کی ہار ہے‘‘ اور ایک فوٹو جس میں ایک ہندو شخص کی چوٹیا کاٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جاری کر دیا ہے ۔

پارلیمانی الیکشن نزدیک آتے آتے ایسی فرقہ وارانہ افواہیں اور نازیبا تصویریں اندھادھند جاری کی جائیں گی لہذا موجودہ بنے سماجی اور سیاسی اتحاد کے ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے سبھی پارٹیوں کے اعلیٰ رہنماؤں سے لے کر مقامی سطح کے رہنماؤں اور سماجی ومذہبی کارکنوں کو بڑی دور اندیشی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بی جے پی کو شکست دینے کے لئے اور اس کےخاتمے کے لئے سماجی مہم اور سماجی اتحاد ضروری ہے۔
[قومی آواز سے] 
Labels:

एक टिप्पणी भेजें

MKRdezign

संपर्क फ़ॉर्म

नाम

ईमेल *

संदेश *

Blogger द्वारा संचालित.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget