Halloween Costume ideas 2015

شام: امن منصوبے کےتحت فائربندی نافذ العمل

شام میں اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ ایلچی کوفی عنان کا تجویز کردہ فائر بندی کا معاہدہ نافذ العمل ہوگیا ہے۔
شامی حکومت نے بدھ کو کہا تھا کہ وہ جمعرات سے شامی سرزمین پر تمام فوجی کارروائیاں روک دے گی لیکن اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ بقول اسکے ’مسلح دہشتگرد گروہوں‘ کے حملوں کا جواب دیتی رہے گی۔

تاہم شامی حکومت فائربندی کی کس حد تک پابندی کرتی ہے اس بارے میں مغربی ممالک نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ شام، حکومت مخالف گروہوں کے لیے ’مسلح دہشتگردوں‘ کی اصطلاح استعمال کرتا رہا ہے۔
حکومت مخالف گروپوں کا بھی کہنا ہے کہ اگر شامی فوجی اپنے بھاری ہتھیار شہروں اور قصبوں سے ہٹا لیتے ہیں تو وہ جنگ بندی کے منصوبے پر عمل کریں گے۔
اس سے قبل بدھ کو شام کے سرکاری ٹی وی چینل پرنشر کیا گیا تھا کہ ملک میں جاری تمام فوجی کارروائی جمعرات کو روک دی جائے گی۔ جمعرات سے ہی اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ ایلچی کوفی عنان کے امن منصوبے کا نفاذ بھی ہونا ہے۔ اس منصوبے کے تحت شہری علاقوں سے فوج کی واپسی اور جنگ بندی کے لیے دی گئی مہلت جمعرات کو ختم ہو رہی ہے۔
کوفی عنان نے کہا تھا کہ انہیں شامی حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ جنگ بندی کے منصوبے کا احترام کیا جائےگا اور ملک بھر میں لڑائی صبح چھ بجے تک روک دی جائے گی۔
ایران کے دورے پر گئے کوفی عنان نے کا کہنا تھا کہ اگر فریقین اس منصوبے پر عمل کرتے ہیں تو جمعرات کی صبح تک حالات کافی بہتر ہوں گے۔’اگر تمام لوگ امن منصوبے کا احترام کریں تو جمعرات کی صبح چھ بجے تک ہم حالات کو بہتر کر سکتے ہیں۔‘
تاہم شام کے سرکاری ٹی وی پر حکومتی عہدیدار کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ ملک بھر میں فوجی آپریشن جمعرات کی صبح سے روک دیے جائیں گے۔‘ اس اعلان میں کوفی عنان کے امن منصوبے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا بلکہ آپریشن روکنے کی وجہ حکومتی افواج کے آپریشنز کی کامیابی بتائی گئی ہے۔
بدھ کو بھی شام میں پرتشدد واقعات رونما ہوئے اور حکومت مخالف کارکنوں کے مطابق ملک بھر میں ان واقعات میں کم از کم تیس افراد ہلاک ہو ۔گئے۔
ادھر شام میں حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے باغیوں کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ شامی حکومت کارروائیاں روک دے گی۔ فری سیئرئن آرمی کے ترجمان کیپٹن ایہم الکردی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میں نہیں مانتا کہ ہماری افواج گولی نہیں چلائیں گی کیونکہ دوسری جانب سے بھی یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔‘
 ن کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ(حکومتی افواج) رک گئے تو شامی عوام اسی دن صدارتی محل کا رخ کر لیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی کارروائیاں نہیں رکیں گی۔‘
واضح رہے کہ شام نے ابتدائی طور پر دس اپریل سے ملک کے قصبوں، دیہات اور شہروں میں موجود ٹینک اور دیگر بھاری ہتھیار ہٹانے اور اس کے اڑتالیس گھنٹے کے اندر ہر قسم کی کارروائی روکنے اور جنگ بندی کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
تاہم بعدازاں شام نے جنگ بندی کے لیے دی گئی حتمی تاریخ سے دو دن قبل حزبِ مخالف سے تحریری ضمانتوں اور بیرونی حکومتوں سے حزب مخالف کو مالی امداد نہ دینے یا انہیں مسلح نہ کرنے کے وعدوں کا مطالبہ کیا تھا۔ ان مطالبات کے بعد اس امن منصوبے پر کامیابی سے عمل درامد خطرے میں پڑ گیا تھا۔

एक टिप्पणी भेजें

MKRdezign

संपर्क फ़ॉर्म

नाम

ईमेल *

संदेश *

Blogger द्वारा संचालित.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget